دادی جان نے آواز دی: ''کب سے نہائے جا رہے ہو، کتنا نہاؤ گے؟ اب بس بھی کرو!''
بس کچھ دیر اور دادی اماں! صفدر اور ثاقب دونوں نے ملکر کہا۔ گرمیوں کی شام تھی اس لئے دونوں بھائی صحن میں پودوں کو پانی دینے والے پائپ کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانے میں مگن تھے۔
یہ اچانک پانی کو کیا ہو گیا، کیوں بند ہو گیا؟ صفدر نے بڑے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
پانی بند نہیں ہوا بلکہ میں نے ٹونٹی بند کی ہے، جواب ثاقب کے بجائے ان کے ابو سلمان صاحب کی طرف سے آیا تھا۔ پھر سلمان صاحب نے سخت لہجے میں کہا: آپ دونوں جلدی کپڑے تبدیل کر کے میرے پاس آئیں، ضروری بات کرنی ہے، اور اندر چلے گئے۔
ثاقب: لگتا ہے ابو ناراض ہیں، چلو جلدی کرو اس سے پہلے کہ ابو کا غصہ اور بڑھ جائے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں بھائی کپڑے بدل کر ڈائننگ روم میں ابو کے سامنے بیٹھے تھے۔
حیرت کے ساتھ ساتھ دونوں کے چہرے پر تھوڑی پریشانی کے آثار بھی ظاہر تھے کہ پتہ نہیں ابو جان کون سی بات پر ناراض ہیں۔
سلمان صاحب: پانی! اللّٰه پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے اور اس کو ضائع کریں گے تو اس نعمت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
ثاقب نے فوراً کہا: مگر ابو! ہم نے تو پانی نہیں ضائع کیا، ہم تو بس نہا رہے تھے۔
سلمان صاحب: بیٹا! نہانا، صفائی کا خیال رکھنا اچھی بات ہے لیکن جس طرح آپ لوگ آج تفریحاً نہا رہے تھے اس طرح پانی بہت ضائع ہوتا ہے، آپ نے یہ جملہ تو سنا ہی ہو گا "قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا: جی! سنا ہے۔ تو بچّو! جس طرح پانی کا خیال کرنے سے اور قطرے قطرے کی حفاظت کرنے سے دریا بنتا ہے یوں ہی قطرہ قطرہ ضائع کرنے سے پانی ختم بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں پانی کا اتنا ہی استعمال کرناچاہئے جتنی ہماری ضرورت ہو، بلاوجہ پانی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
ثاقب نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا: ابو! اسکول سے آتے وقت میرے تھرماس میں کچھ پانی بچ جاتا ہے تو میں اسے پھینک دیتا ہوں، اسی طرح گلاس میں پانی رہ جاتا ہے تو اسے بھی گرا دیتا ہوں، یہ غلط ہے کیا؟
سلمان صاحب نے جواب دیا: ہاں! بیٹا یہ غلط ہے۔
صفدر نے بھی ہمت کی اور پوچھا: جب میں دانت بُرش کرتا ہوں یا نہانے کے لئے صابن لگاتا ہوں تو نل کھلا چھوڑ دیتا ہوں، تو کیا یہ بھی پانی ضائع کرنا ہو گا؟
سلمان صاحب نے اسے بھی سمجھایا: جی بیٹا! ان سب صورتوں میں پانی ضائع ہو رہا ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ برش کرتے، ہاتھ منہ دھوتے یونہی نہاتے ہوئے بعض اوقات جتنا پانی ہم ضائع کرتے ہیں اس کا حساب لگایا جائے تو کئی گیلن بنتے ہیں اور دوسری طرف ہماری دنیا میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں لوگوں کو پینے کے لئے بھی صاف پانی میسّر نہیں ہوتا، ہمیں اگر نعمت ملی ہے تو کیا ایسے ضائع کرنی چاہئے؟
بالکل نہیں ابو جان! دونوں بچوں نے جواب دیا۔
سلمان صاحب کی نصیحت بچوں کو نہ صرف سمجھ آ گئی تھی بلکہ وہ اس پر عمل کے لئے بھی تیار نظر آ رہے تھے یہ دیکھ کر انہوں نے خوشی سے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگا لیا۔