Friday, October 9, 2020

اوناسس کی کہانی


*اوناسس* ایک یونانی تاجر تھا
دنیا کی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا. 
زیتون کا کاروبار کرتا تھا.. 
اسے دنیا کے امیرترین شخص کا اعزاز حاصل تھا. 
اسکو ایک عجیب بیماری لگی تھی جس کی وجہ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے...
یہاں تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھا سکتے تھے
ڈاکٹر آنکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگا کر اوپر چپکا دیتے تھے..
رات کو جب آرم کرتےتو سولیشن اتار دیتے..
تو پلکیں خودبخود نیچے گرجاتی صبح پھر سولیشن لگا دیتے، ایک دن اس سے سب سے بڑی خواھش پوچھی گئی تو کہا کہ
"صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھا سکوں چاھے اس پر میری ساری دولت ھی کیوں نہ خرچ آجاۓ"، اللہ اکبر. صرف ایک بار پلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیا کا امیر ترین شخص اپنی ساری دولت دیتا ہے؟ ھم مفت میں ان گنت بار پلکیں خود اٹھا سکتے ھیں...
دل ایک خود کار مشین کی طرح بغیر کسی چارجز کے دن میں
ایک لاکھ 3 ھزار 680 مرتبہ دھڑکتا ہے...
آنکھیں 1کروڑ 10لاکھ رنگ دیکھ سکتی ھیں...
زبان، کان، ناک، ھونٹ، دانت، ھاتھ، پاؤں، جگر، معدہ، دماغ، پھیپھڑے پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ھیں
ایسے کریم رب کی ھر نعمت کا شکر کرنا اور اسکو راضی کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.
میرے عزیز محترم آج ھمارے پاس وقت ھے ھم اللہ کریم کا ذکر ، شکر ادا کرلے اور اس کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرلے 
بعد میں عمر بھر قبر میں پچھتاوا ھی پچھتاوا ھے عنیمت جانو اک اک پل کو 
اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق بخشے 
آمین ثمہ آمین ۔۔

مایوسی کیا ہے


مایوسی پتا ہے کیا ہے۔۔؟؟ 
یہ سوچ لینا کہ کچھ نہیں ہونا 
میرا وقت یہی رہے گا 
میری سوچیں نہیں بدلیں گی 
میں یوں ہی رہ جاؤں گی/گا.. 
یہی وہ صبر کی دوڑ ہے 
جو اپنے رب عزوجل پے یقین کرنا سیکھاتی ہے 
اور 
صبر سے کام لیں 
اور 
یقین رکھیں کہ 
سب ٹھیک ہو جائے گا 
اور 
سب ٹھیک ہے 
یہ سوچیں سب وقتی ہیں 
سب ختم ہو جائے گا ایک دن۔۔ 
یہ یقین رکھیں کہ 
آگے ایک نیا سفر آپ کا منتظر ہے، 
آگے خوشیاں منتظر ہیں آپ کی۔۔ 
اور وہ جو *رب العزت* ہے ہر چیز پر قادر ہے۔۔ 
اپنے بندوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا 
کبھی نا اُمید نہیں کرتا 
کبھی مایوس نہیں کرتا۔۔ 
صبر مانگتا ہے وہ بس ہم سے...

اچھے الفاظ



" اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے. الفاظ ہی کے دم سے انسان کوجانوروں سے ممتاز بنایا گیا ہے. الفاظ ہمارا کردار ہیں الفاظ ہمارا ماحول ہیں اور کبھی کبھی تو الفاظ ہماری عاقبت ہیں. الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق ایک نعمت ہے اور یہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے. الفاظ امانت ہیں. الفاظ طاقت ہیں. انہیں ضائع نہ کیا جائے. انہیں رائیگاں نہ ہونے دیا جائے"
(فیضِ واصف رح)

رب کے ہاں معاملہ



اپنی وجہ سے کسی کو یہ کہنے کی نوبت نہ آنے دیجئے گا کہ...!

_*"وَاُفَوّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہ"*_
_*" میں اپنا مقدمہ اللہ کے ہاں پیش کرتا ہوں"*_

یاد رکھیے...!

کسی کے یہ کہنے سے پہلے معاملہ سُلجھا لیجئے گا کیونکہ اُس رَب کے ہاں نہ جج بِکتے ہیں نہ ہی گواہ خریدے جا سکتے ہیں اور نہ ہی وکیل...!

کیونکہ وہ خُود ہی گواہ ، خُود ہی وکیل اور خُود ہی جج ہے...!

اُس کے فیصلے پھر ٹلتے نہیں اور وہاں ترازُو بھی انصاف کے تُلتے ہیں...!

اور اللّٰہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے...!

کامیاب زندگی کے ہنر

امی میں بھی چلوں آپ کے ساتھ
کیوں ابھی تو تمھارے سر درد تھا
اب نہیں ہے میں نے ہنس کے کہا 
بہت ڈرامہ کرتی ہو
چلو میں خوش ہو گئ آنٹی نوری کے گھر مجھے جانا بہت اچھا لگتا تھا بچپن سے میں ان کے گھر جارہی تھی آنٹی کی سب سے اچھی بات یہ تھی کے وہ بہت ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں اور سب سے بڑھ کے مہمان نواز ان کے گھر جب جاؤ مزے مزے کی چیزیں کھلاتی تھیں
کوئ غریب ہو یا امیر کسی میں کوئ فرق نہیں کرتی تھیں
میری تو رول ماڈل تھیں کبھی کوئ گلاِ شکوہ شکایت ان کے منہ سے نہیں سنا تھا 
ھم آنٹی نوری کے گھر گۓ  ان کی نوکرانی آئ اس نے وہیں سے آواز لگائ مہمان آۓ ہیں باجی
آنٹی  اٹھ کے آئیں 
بسم اللہ بسم اللہ وہ ہمیشہ ایسے استقبال کرتی تھیں وہ ھم کو لے کر لاؤنج میں آگئیں وہاں دسترخوان لگا تھا نوکرانی پانی لائ آنٹی  نے کہا آئیں کھانا کھائیں
امی نے ایسی کہا۔ آپ کھائیں ھم کھا کر آۓ ہیں
آنٹی نے اصرار کیا آجائیں ان کی نوکرانی اور وہ ایک ہی دسترخوان پہ بیٹھے تھے آنٹی نے کہا میں روٹی ڈال کے لاتی ہوں 
نوکرانی نے کہا باجی آپ بیٹھیں میں بنالیتی ہوں انھوں نے کہا نہیں تم کھا لو تم نے شروع کردیا تھا وہ کچن میں چلی گئیں میں بھی ان کے پیچھے گئ 
بیٹا آپ اندر چلی جاؤ گرمی ہے آج بہت ! 
میں نے کہا نہیں آنٹی میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوں  آنٹی جلدی جلدی روٹیاں بنانے کی تیاری کر رہیں تھیں  پھر  انھوں نے روٹی توے پہ ڈالی اور فریج سے کباب نکال کے فرائ کے لیےرکھےمیں نے آنٹی سے کہا آنٹی آپ کیسے لوگوں کی مہمان نوازی کرتی ہیں  ھمارے گھر تو اگر مہینے میں دو بھی مہمان آجائیں تو امی بہت تنگ ہوجاتی ہیں اور ھمارا بجٹ بھی آؤٹ ہوجاتا ہے!
 انکل پاپا کے ساتھ ہی آفس میں ہوتے ہیں اور دونوں کی انکم بھی ایک ہے؟
آنٹی زیر لب مسکرائیں
پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں بیٹا میں نے اپنی ماں سے سیکھا ہے آج میں تم کو کامیاب زندگی کے کچھ ہنر بتاتی ہوں آج تم بھی سیکھ لو تمہارے کام آئے گا
میری جب سے شادی ہوئ ہے یہ میرا معمول ہے میں اپنے شوہر کی تنخواہ سے سب سے پہلے دو پرسنٹ اللہ نام کے نکالتی ہوں پھر گھر کا خرچ الگ کر کے رکھ دیتی ہوں
مہمان اللہ کی رضا سے آتے ہیں میں نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ جب اللہ خوش ہوتا مہمان کی صورت میں رحمت بھیجتا ہے
میں یہاں اپنے رب سے ایک تجارت کرتی ہوں  مہمان کی خاطر مدارت کر کے اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لیتی ہوں اس سے میرے دسترخوان کی برکت اور بڑھ جاتی ہے
کسی کی کبھی دل آزاری نہ کرنا کبھی کسی میں فرق نہ کرنادلجوئ کیا کرو کیوں کے دل میں سوہنا رب بستا ہے دل کی حفاظت کرو جب بھی زبان کھولو بول میٹھے بولو تاکہ تم دل میں بس جاؤتمہارا بول  تم کو اسکے دل میں بسا دے گا اور جو دل میں ہوتے ہیں وہ دعا میں شامل ہوجاتے ہیں
اور جب دعا لگتی ہے تو عزت والا رب سن لیتاہے
اوروہ عطائیں کرتا ہے جس کا تصور بھی ناممکن ہے
زندگی کو آسان بناؤ
آنٹی کے کباب بھی فرائ ہوگۓ اور روٹیاں بھی پک  گئ
آنٹی نے مجھے کہا فریج سے آم نکال لو
دو ہی آم رکھے تھے میں نے آنٹی کو کہا آم رہنے دیں   آنٹی نے کہا نکال لو زاہد صاحب کے باغ کے ہیں بہت ہی لذیذہیں
ھمارے ہاں بھی بھیجے تھے ھم نے کھاۓ ہیں
تو نکالو نا بیٹا مل کے کھاتے ہیں آنٹی نے کہا 
میں  نے شرماتے ہوۓ کہا دو ہی رکھیں ہیں آپ اور انکل کھا لیجیےگا آنٹی نے کہا بیٹا اور آجائیں گے
میں نے دل میں سوچا اتنی مشکل سے زاہد  انکل ایک ایک پیٹھی اپنے سب دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں اب تو اگلے سال ہی آئیں گےآنٹی نے آم نکال کے کاٹ لیے
ھم دسترخوان پہ آگۓ
آنٹی کے ہاتھ میں ایک الگ ہی ذائقہ تھا
ھم نے آنٹی کے مزیدار کھانے کا لطف اٹھایا
نوکرانی امی کے ساتھ باتوں میں لگی تھیں پھر وہ اٹھنے لگی تو آنٹی نے کہا آم تو کھالو نجمہ اور دو موٹی پھانکیں پلیٹ میں رکھ کے دیں
امی سے وہ باتیں  کر رہیں تھیں امی اپنے بہن بھائیوں کے گلے کر رہیں تھیں
آنٹی تحمل سے سن رہی تھیں میں نوٹ کر رہی تھی جہاں امی تلخ ہوتیں وہیں آنٹی امی کی بات کاٹتی اور  کہتی ارے بھابھی کباب تو لیے نہیں آپ نے اور بات کٹ جاتی ارے یہ چٹنی کھا ئیں آج ہی بنائ ہے بیٹا تم تو لو ایسی بیٹھی ہو
امی تو گئ ہی تھیں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیسے خاموش ہوتیں
بات پھر شروع کردی اور یوں کھانا کھایا آم کھاۓ دوآم سے ہم چار لوگوں نے آم کھاۓ پھر بھی ایک پھا نک بج گئ میں نے دیکھا آنٹی نوری نے گھوٹلیاں کھائ تھیں  جس پہ براۓ نام ہی آم تھا
میں نے کہا آپ کھالیں انھوں نے انکار کر دیا امی کوکہا آپ لے لیں پھر مجھے کہا کھالو بیٹا میں نے منع کردیا یہ سوچ کر کہ آنٹی کھالیں گی
انھوں نے اپنی نوکرانی کو آواز دی  اور اس کو کہا کہ یہ کھالو اور برتن اٹھالو
ہم باتوں میں لگ گۓ 
پھر انکل آگۓ ان کی گاڑی کا ہارن سنائ دیا
امی نے کہا لو بھائ صاحب آگۓ باتوں میں پتا ہی نہ چلا
انکل اندر آۓ سلام دعا کی آنٹی نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا خود  کچن میں جاکر پانی لائیں پھر نوکرانی کو چاۓکے لیے کہا انکل نے کہا کہ پہلے گاڑی سے آم کی پیٹھی اتروالو زاہد نے دی ہے
ایک دوست کے لیے لایا تھا وہ چھٹیوں پہ چلا گیا ہے  مجھے کہا تم لے جاؤ بچوں کے لیے 
میں انکل کی بات سن کے حیران ہوگئ
اس  دن میں نے ایک بات اور سیکھی
"بہترین زندگی جینے کے لیےتوکل اللہ کتنا ضروری ہے" 

خالق کی تخلیق


 جب بچہ تھا، تو روزانہ ایک راستے پر چہل قدمی کے لیے جایا کرتا تھا۔
اس راستے میں ایک کمہار کا گھر تھا، جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے تکتا رہتا ۔ اسے برتن بننے کا عمل دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ۔
ایک دن کمہار نے اس کی محویت دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔
" بیٹا ! تم یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو ۔۔۔۔۔ تم کیا دیکھتے ہو؟"
" میں آپ کو برتن بناتے دیکھتا ہوں اور یہ عمل مجھے بہت اچھا لگتا ہے دیکھنا ۔۔۔۔۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ "
سقراط کی بات سن کر کمہار بولا ۔
" یہ تو بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔ تم پوچھو ، جو پوچھنا چاہتے ہو؟"
" آپ جو برتن بناتے ہیں ۔۔۔۔ اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے ؟"
" اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔۔۔۔۔ "
یہ سن کع سقراط جوش سے بولا ۔
" میں سمجھ گیا ۔۔۔۔"
کمہار نے حیرت سے پوچھا ۔
" کیا سمجھے ؟ "
" یہی کہ ہر چیز تخلیق سے پہلے خیال میں بنتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کے خیال میں ہم پہلے بن چکے تھے ، تخلیق بعد میں ہوئے ۔۔۔۔۔ اب میرا اگلا سوال یہ ہے کہ جب آپ برتن بنا رہے ہیں، تو ایسا کیا کرتے ہیں کہ یہ اتنا خوب صورت بنتا ہے ؟ "
" میں اسے محبت سے بناتا ہوں۔ میں جو بھی چیز بناتا ہوں، اسے خلوص سے بناتا ہوں اور اسے بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہوں تاکہ کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے ۔ "
سقراط نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
" اس کی بھی سمجھ آ گئی، کیوں کہ بنانے والا ہم سے محبت کرتا ہے ، کیوں کہ اس نے ہمیں بنایا جو ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اگلا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے عرصے سے برتن بنا رہے ہیں ، کوئی ایسی خواہش ہے ، جو آپ چاہتے ہیں کہ پوری ہو ۔ "
" ہاں ! ہے ۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا برتن بناؤں کہ دنیا اش اش کر اٹھے اور پھر ویسا برتن میں کبھی نہ بنا سکوں۔۔۔۔۔" کمہار نے حسرت سے کہا۔
یہ سنتے ہی سقراط اچھل پڑا۔
" واہ ! خالق ہر بار ایسی تخلیق کرتا ہے کہ دنیا بے اختیار اش اش کر اٹھے ، کیوں کہ خالق کو پتا ہے کہ میں جو یہ انسان اس دنیا میں بھیج رہا ہوں ، اس جیسا کوئی اور دوبارہ نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔"

فطرت یا ادب


ایک مشہور قصہ ہے کہ فارس میں ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بن گیا۔ اس نے آتے ہی باپ کی بنائی کابینہ میں ردوبدل کردیا۔ ایک سابق وزیر انتہائی ذہین و فطین اور تجربہ کار تھا، بادشاہ نے اس سے بھی وزارت چھین لی۔ کئی لوگوں نے اس وزیر کیلئے بادشاہ سے سفارش کی لیکن بادشاہ نہ مانا۔ اس کا کہنا تھا۔ ''اس شخص میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ میرے باپ نے اسے نہ جانے کیوں وزیر بنایا تھا۔'' اصرار مزید بڑھا تو بادشاہ نے ایک شرط رکھی کہ میں وزیر سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر اس نے صحیح جواب دے دیا تو میں اسے کابینہ میں لے لوں گا۔ سب لوگ مان گئے۔ سابق وزیر کو بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا۔ ''یہ بتائو فطرت غالب رہتی ہے یا ادب…؟'' وزیر نے جواب دیا۔ ''ادب ایک مصنوعی چیز ہے جبکہ فطرت اصل چیز ہے۔ یہ کسی بھی وقت ادب پر غالب آجاتی ہے۔'' بادشاہ کو جواب پسند نہ آیا۔ وہ اسے سب کے سامنے رسوا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے وزیر کو اگلے دن کھانے پر بلوایا۔ دوسرے دن جب دربار سج گیا، دسترخوان بچھ گیا تو بلیاں شمعیں اٹھاتی ہوئی آئیں اور دسترخواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ بادشاہ نے فخریہ انداز میں سابق وزیر سے پوچھا۔ ''یہ بتائو ،کیا ان بلیوں کے باپ شمع ساز تھے یا ان کی مائوں نے یہ کام کیا تھا؟'' سابق وزیر نے کہا۔ ''بادشاہ سلامت! آپ مجھے کل تک کی مہلت دے دیجئے، میں عملی جواب دوں گا۔'' بادشاہ نے کہا۔ ''ٹھیک ہے۔'' دوسرے دن ایک بار پھر دسترخوان بچھایا گیا، بلیاں شمعیں اٹھائے دستر خواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ سابق وزیر نے آستین کو جھٹکا تو اس میں سے ایک چوہا نکلا۔ بلیوں نے جیسے ہی چوہے کو دیکھا، سب اس کی طرف لپکیں۔ ادب آداب قصہ ماضی بن گئے، شمعیں دربار میں گر پڑیں، افراتفری مچ گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے سابق وزیر نے کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے دیکھا، فطرت کیسے غالب آگئی۔ جب بلیوں کو چوہا نظر آیا تو وہ ادب آداب بھول گئیں۔'' یہ سن کر بادشاہ نے ہار مان لی اور وزیر کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔

*بے شک فطرت غالب رہتی ہے، ادب آداب وقتی ہوتے ہیں ۔ جس طرح موقع ملتے ہی بلیوں نے ایک چوہے کو دیکھ کر اپنی اصلیت ظاہر کردی تھی۔ بزرگوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ اگر سنو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو یقین کرلینا مگر کسی کی فطرت بدل گئی ہے، اس کا یقین کبھی مت کرنا کہ عادات بدل سکتی ہیں، فطرت نہیں۔*

شعور،یقین اور حوصلہ

کہتے ہیں کہ کسی کسان کے کھیت میں ایک پتھر کا سخت ٹکڑا نکل آیا۔جس سے کسان کے کام کاج میں حرج ہونے لگا۔کبھی وہ اس ٹکڑے سے ٹھوکر کھاکر گر جاتا۔کبھی ہل چلاتے ہوئے ہل پھنس جاتا۔کبھی ہل ٹوٹ جاتا اور کبھی جانور گرکر زخمی ہوجاتا۔۔ اس نے کئی دفعہ اس ٹکڑے کو نکالنے کا سوچا لیکن پھر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا کہ پتہ نہیں آئس برگ کی طرح کتنا بڑا ٹکڑا ہو؟؟؟ میں اکیلا نکال سکوں یا نہیں؟؟ کہیں کوئی چٹان ہی نہ نکل آئے۔وغیرہ وغیرہ۔۔ وہ سوچتا کہ بعد میں کبھی دوستوں یاروں کی مدد لے کر نکال دوں گا ابھی رہنے دیتا ہوں۔ مختلف وسوسے اور واہمے اسے کم ہمت بنادیتے۔ بقول شاعر: ارادے باندھتا ہوں،سوچتا ہوں،توڑ دیتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے۔کہیں ویسا نہ ہوجائے۔
کئی دفعہ کی ٹھوکروں،ٹکروں اور دھکوں کے بعد آخر ایک دن اس نے اس پتھر نما چٹان کو نکالنے کا پکا ارادہ ہی کرلیا۔ سب دوستوں ساتھیوں اور کسانوں کو سندیسہ بھیجا کہ پھاوڑے،بیلچے کلہاڑے گینتیاں اور کدالیں وغیرہ لے کر کھیت میں فلاں وقت تک پہنچ جائیں۔آج یا تو ہم رہیں گے یا یہ چٹان رہے گی۔ سب دوست یار اس کا پیغام ملتے ہی اس کی مدد کرنے وقت مقررہ پر اس کے کھیت میں پہنچ گئے۔ جب سب آ گئے، تو کسان نے سب پہلے کدال خود اپنے ہاتھ میں لی اور اس چٹان کے آس پاس جگہ سے کھودنا شروع کیا۔ پانچ یا چھ ضربیں لگائی ہوں گی کہ پتھر اڑتا ہوا باہر آن پڑا۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ جسے چٹان سمجھا جارہا تھا وہ تو ایک معمولی سا پتھر تھا۔جس نے کسان کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا۔
سب دوست کسان کی سادگی نما حماقت پر خوب ہنسے اور اپنے اپنے اوزار اٹھائے واپس گھروں اور کھیتوں کو روانہ ہوئے۔ یہ صرف ایک کسان کی کہانی نہیں۔ زندگی کے کھیت کھلیان میں ہم سب کسان ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو خود ہی بڑھاوا دے کر چٹان کی طرح بڑی مصیبت بنالیتے ہیں۔اور پھر دن رات اسی سے ٹھوکریں کھاتے زندگی اجیرن کر لیتے ہیں۔ کبھی معمولی رنجشوں کو وبال جان بنا لیتے ہیں۔ کبھی کوئی معمولی جھگڑا سوہان روح بن جاتا ہے۔ کبھی چند پیسوں کی ٹھیکریاں شاہراہ حیات کی ٹھوکر ثابت ہوتی ہیں۔ کبھی کاروباری نقصان،ملازمتی تنزلی،رشتوں ناطوں کی بے وقعتی ہمیں کامیابی کی راہ میں حائل چٹان محسوس ہوتی ہے۔
کبھی سیاسی اور مسلکی اختلافات کے پتھر ہمیں معاشرتی تعلقات کے درمیان چٹان کی مانند محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں!! یہ چٹان نما پتھر آپ کے باشعور حوصلے، ہمت،عزم اور یقین کی دو چار ضربیں بھی نہیں سہہ سکتے۔ آپ کا یقین اس کائنات کی بہت بڑی طاقت ہے۔آپ کو اپنے شعور اور یقین کی طاقت کا احساس نہیں۔ جس دن آپ کو احساس ہوگیا اس دن آپ کے سامنے کوئی چٹان،چٹان رہے گی اور نہ کوئی پہاڑ،پہاڑ۔۔ کوئی مسئلہ مسئلہ رہے گا اور نہ کو مشکل مشکل۔۔۔ ساری چٹانیں،سارے پہاڑ،ساری مشکلات اور مسائل آپ کے قدموں کے نیچے ہوں گے اور آپ ان سب کو فتح کر چکے ہوں گے۔۔۔ بات صرف شعور،یقین اور حوصلے کی ہے۔۔۔

رزق کے دروازے

‏اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں.اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں ‏پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔

* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ‏ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔

* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا

* چوتھا ‏دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

* پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں ‏کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے

٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس ‏طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے

٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔

٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے

٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا. 
‏٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا

٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا ‏دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے

٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا

٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ ‏جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی

٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے

٭‏پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے

 سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے

اللّه ہمیں ان سب پے اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق آتا فرمائے آمین

دل کی پاکیزگی

حضرت شاہ شمس تبریزی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں قرآن مجید کو پڑھنے والا ہر شخص قرآن مجید کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے قرآن مجید کی فہم کے چار درجات ہیں
پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کئے ہوئے ہے دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے
تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان ان کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں
علماء و فقہاء جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں یہ پہلے درجے پر ہیں دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے تیسرا درجہ اولیاء کا ہے چوتھا درجہ صرف انبیاء مرسلین اور ان کے ربانی وارثین کا ہے پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے اللہ  بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے.