Friday, January 8, 2021

انفرادی رویہ اجتماعی تصور

 لندن کے ایک امام صاحب روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہوتے تھے۔ لندن میں لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔

   ایک مرتبہ یہ امام بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لے کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آ گئے ہیں۔

    پہلے امام صاحب نے سوچا کہ یہ 20 پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دینگے کیونکہ یہ اُنکا حق نہیں بنتے۔ 

       پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے، ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی ہے ان تھوڑے سے پیسوں سے اُنکی کمائی میں کیا فرق پڑے گا؟ میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ  کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔

   اسی کشمکش میں کہ واپس کروں یا نہ کروں، امام صاحب کا سٹاپ آ گیا، بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20 پنس واپس کرتے ہوئے کہا: 

       یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے، ڈرائیور نے 20 پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا!

      کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آکر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ 20 پنس میں نے جان بوجھ کر آپکو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپکا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔

     امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترے، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنےکیلئے ایک بجلی کے پول کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔

یاد رکھئیے! 
     بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔ یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔ کوشش کریں کہ کہیں کوئی ہمارے شخصی اور انفرادی رویئے کو اسلام کی تصویر اور تمام مسلمانوں کی مثال نہ بنا لے، اگر ہم کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی کسی حرکت کی وجہ سے اسے اسلام سے متنفر بھی نہ کریں۔

  ہم مسلمانوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ سفید کپڑے پر لگا داغ دور سے نظرآجاتا ہے۔

رزق کے چار دروازے

 آج ایک الله والے کا بیان سن رہا تھا ان کے بیان میں ایک بات بہت اچھی لگی سوچا آپ لوگوں تک پہنچا دوں, آپ کو بھی اچھی لگے گی, وہ فرما رہے تھے کہ رزق کے چار دروازے ہیں۔ پہلے تین تو صرف مسلمانوں کے لیے ہیں اور چوتھا ساری دنیا کے لیے ہے یعنی مسلم، غیر مسلم ، بت پرست ، دہریے وغیرہ.

رزق حاصل کرنے کا سب سے پہلا دروازہ نماز ہے،
 جو شخص بھی نماز کا اہتمام کرتا ہے اللہ پاک اس کو برکت والا رزق عطا فرماتے ہیں، اہتمام یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے یا وقت ہوتے ہی اس کی تیاری میں لگ جانا اور وقت پر نماز ادا کرنا۔

رزق حاصل کرنے کا دوسرا دروازہ استغفار ہے،

 جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے غیب سے رزق عطا فرماتے ہیں کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے ہر غم سے نجات عطا فرماتے ہیں، ہر پریشانی میں راستہ دیتے ہیں اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں کہ جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ کثرت کا مطلب ہے کہ کم از کم تین سو مرتبہ، تو جو روزانہ تین سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کرے گا ان شاءاللہ اسے بہترین رزق ملے گا.

رزق حاصل کرنے کا تیسرا دروازہ تقویٰ ہے۔

تقویٰ کے معنی گناہوں سے بچنا ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان کے ذمہ ہر نیکی کرنا نہیں ہے لیکن ہر گناہ سے بچنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ جو ہر گناہ سے بچتا ہے وہ اللہ کے ہاں متقی کہلاتا ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر کام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس کام سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع تو نہیں فرمایا۔ اگر منع فرمایا ہے تو ہم رک جائیں تو جو تقویٰ اختیار کرے گا اللہ پاک اسے بغیر محنت کے رزق عطا فرمائیں گے۔ جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اپنے بندوں کو اسکی خدمت پر مامور فرما دیتے ہیں۔

رزق حاصل کرنے کا چوتھا دروازہ ذریعہ معاش اختیار کرنا ہے اور یہ دروازہ سب کے لیے ہے،

کوئی کافر ہو یا مسلم، بتوں کو پوجنے والا ہو یا آتش پرست، اگر وہ معاش کا کوئی ذریعہ اختیار کرے گا تو اللہ اسے رزق عطا فرمائیں گے۔
مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے پہلے تین دروازے بھلا دیئے اور آخری دروازے کو ہی لازمی سمجھ لیا۔ جبکہ ان تین دروازوں سے رزق حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ یہاں کوئی میری بات سے یہ مطلب نہ لے کہ ملازمت، کاروبار یا معاش کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اسے چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کام نہ کریں۔ کام ضرور کریں لیکن اگر ہم چوتھے دروازے کے ساتھ ساتھ پہلے تین دروازوں کو بھی استعمال کریں گے تو ہم تھوڑی محنت میں ہی زیادہ رزق ملے گا، ہماری مشقت کم ہوجائے گی، اور ہماری کمائی غیر ضروری جگہوں پر نہیں لگے گی اور ہمارا مال ضائع نہیں ہوگا گھر میں رکھی ہوئی مرغی کو آپ اس کی خوراک ایک جگہ برتن میں رکھ کر دے دیں تو وہ کم وقت اور کم مشقت میں اپنا پیٹ بھر لے گی اور کھانا ضائع بھی نہیں ہوگا اگر وہی خوراک آپ پورے صحن میں بکھیر دیں تو اسے وہی خوراک حاصل کرنے کے لیے وقت بھی زیادہ لگے گا اور مشقت بھی کرنی پڑیگی اور کھانا ضائع بھی ہوگا۔
۔
 اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کس دروازے کو اختیار کرتے ہیں ؟

منقول

خطرناک عورت

"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی"برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.ساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا.
"اللہ بخشے اسے،بہت اچھی عورت تھی."بنا ناراض ہوئے،بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
مسکراہٹیں سمٹیں،ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی.کیا نہیں؟"بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں،وہ عورت واقعی بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی"
"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے،عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟"نوجوان جوشیلے انداز میں بولا
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا،میں تو "اس" سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی"پرسکون جواب
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
"ایسی عورتوں کو تو...جہنم میں ہونا چاہیئے..لا حولا ولا قوہ..کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا"نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا،اب سب باری باری منتشر ہونے لگے.جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی.جو رہ گئے تھے،وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے

"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا،کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا،تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی"بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا،میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے.رشتہ ڈھونڈا گیا،ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی.سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع.مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی.مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں،تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے.وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟؟"لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی،رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "
"میری بیٹی سیدھی سادھی ہے،اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے' سائیں 'کو خوش رکھے گی"وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا.سلیقہ مند،سگھڑ اور تابعدار."بابا جی کی وہی گھسی پٹی بابوں والی داستان ہوگی، یہ سوچ کر دو نوجوان اٹھ کر چلے گئے.

"میری باہر دوستوں کے ساتھ صحبت کوئی اچھی نہیں تھی،ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا،دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی تھی کیا پیتی تھی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی.انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہاراگھر آیا تو کہنے لگی" آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں،مجھے بھوک لگتی ہے،ہوسکے تو ایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے،روز روز بازار سے خریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی."کیا؟؟اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے؟؟مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے؟اپنی اوقات دیکھی ہے؟"غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی،مار برداشت نہیں کرسکتی تھی.پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی.مجھے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا،ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا،یوں اس کی روٹی کا انتظام ہوگیا،اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا " دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں"میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا.جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟؟غصہ حد سے سوا تھا،بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے ماردوں،لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی،چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی.
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے،وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا،یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی.میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی،جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی،مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا"وہ میری شکایت کررہی تھی؟لیکن کس سے؟؟؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر ہاتھ میں سوئی دھاگہ اور فریم لئے خود سے باتیں کررہی تھی.وہاں کوئی بھی نہ تھا.میرے پیروں سے زمین نکل گئی.وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی.وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی.وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی؟آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی.کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی.میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے "حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا.میرے پلٹنے پر کہنے لگا" میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی،وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے"اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے،تیرا نائب تو خائن نکلا"اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا،اس ک سائیں بہت بڑا تھا،اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا.وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا.میں واقعی ڈر گیا تھا.میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہیں سکا،میں نہیں ڈرتا تھا،حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو"کہانی کے اختتام تک ایک جوان باباجی کے پاس بیٹھا تھا.
کہانیاں بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن حقیقت تک پہنچنے والا کوئی ایک ہی ہوتا ہے.

مضبوط چوکھٹ

ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رهتا تھا،مکان کیا تھا،بس آثار قدیمه کا کھنڈر هی تھا.غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا اس کی بیوی معصومیت سے کهتی: اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رهنا پڑے گا،اور هاں! اب تو پرده بھی پرانا هو کر پھٹ گیا هے. مجھے خوف هے کهیں چور هی گھر میں نه گھس جائے"شوهر مسکراتے هوئے جواب دیتا :میرے هوتے هوئے بھلا تمهیں کیا خوف؟ فکر نه کرو میں هوں نا تمهاری چوکھٹ"غرض کئی سال اس طرح کے بحث ومباحثے میں گزر گئے، ایک دن بیوی نے انتهائی اصرار کیا که گھر کا دروازه لگوادو.بالآخر شوهر کو هار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا درازه لگا دیا.اب بیوی کا خوف کم هوا اور شوهر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.ابھی کچھ سال گزرے تھے که اچانک شوهر کا انتقال هوگیا.اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کیے پورا دن کمرے میں بیٹھی رهتی،ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل هوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی،اس نے شور مچایا.محلے کے لوگ آگئے،اور چور کو پکڑ لیا.جب دیکھا تو معلوم هوا که وه چور پڑوسی هے.اس وقت عورت کو احساس هوا که چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نهیں میرا شوهر تھا.اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ)شوهر( تھی.شوهر میں لاکھ عیب هوں لیکن حقیقت یهی هے که مضبوط چوکھٹ یهی شوهر هیں،

دوســـروں پر بھـــروســـہ کـــرنا

کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا 
جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال اور پر نکل رہے تھے ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔ "پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے کل میں اپنے "دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا" خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔ "کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا فکر کرنے کی کوئی بات نہیں "اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہیں آیا کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔ "میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔
"کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا یہ کل بھی گزر جائے گی۔ "اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ 
آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں، ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔
"کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔ " بچو۔۔۔!!! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے، باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

سبق:- دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے، اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے۔۔۔!

Thursday, January 7, 2021

آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی

آئمہ جلدی سے تیار ہوجائو ، میں تمہیں بازار چھوڑ آتا ہوں 
ھادی نے جلدی سے اسے پکارا ۔
اچھا بھائی ایسا کرنا کہ راستے میں ثناء کے گھر سامنے دو منٹ کیلیئے بائیک روک لینا ۔

ثناء کے گھر کے سامنے اچھا اچھا ایک دم اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔

کہنے لگا آئمہ مجھے اس کا نمبر تو دو ، مجھے اچھی لگتی ہے  یہ الفاظ کہہ کر اس نے قہقہ لگایا ۔

" چل بدتمیز ، بائیک نکالو  ، پہلے بہت دیر کردی ہے اور رہی بات نمبر کی تو موبائل اس کی امی کا ہے ۔

اگر تمہیں اتنی پسند ہے تو رشتے کی بات کر لیتی ہوں ، چلو میری بہترین دوست میری بھابھی بن جائے گی ، آئمہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا " ۔

ھادی نے جب یہ سنا تو دل ہی دل میں کہا کوئی بات نہیں جب موبائل لے گی 

تو نمبر آہی جائے گا ۔ اس نے بائیک سٹارٹ کی اور کچھ دیر میں ثناء کے گھر پہنچ گئے ۔

آئمہ فورا بائیک سے اتری اور اندر چل پڑی ، جاتے ہی اونچی آواز میں السلام وعلیکم کہا 

اور ثناء کو آواز دینے لگی کہ تم تیار نہیں ہوئی ، جلدی کرو عصر کا وقت ہے ہمیں ٹائم لگ جانا ہے بازار ۔

ثناء نے کہا کہ آئمہ دو منٹ بیٹھو ، میں بس عصر کی چار رکعات پڑھ لوں ۔

افف یار ، آکر پڑھ لینا باہر ھادی انتظار میں ہے بس جلدی سے چادر لو ۔

اور چھوڑو نقاب وغیرہ ۔

ثناء نے کہا پلیز یار ، میں دو منٹ میں آئی ، نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی؟ 

اچھا اچھا پڑھ لو بابا اب بس چپ ، خیر اس نے نماز پڑھی جلدی سے چادر لی نقاب کیا ۔

اور وہ دونوں ھادی کے پیچھے بیٹھ کر بازار چل دیئے ۔

آئمہ نے ھادی کو کہا تم گھوم پھر آئو میں جب کال کروں تو آجانا،

ھادی نے ایک نظر ان کی جانب دیکھا اور چپ چاپ بائیک سٹارٹ کرکے چل پڑا ۔

آئمہ کبھی ثناء کا ہاتھ پکڑ کر ایک دوکان میں گھستی اور کبھی دوسری, آخر کار اس نے اپنی مطلوبہ چیزیں لے ہی لیں ۔

 اس نے ثناء سے پوچھا،
تم نے کچھ لینا تو کہنی لگی کہ ایک سفید سوٹ لینا ہے جس پہ اچھی کڑھائی ہوسکے ۔

آئمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور  آہستہ آہستہ چلتی ایک کپڑے کی دکان کے اندر آ گئی۔

"بھیا ! مجھے سفید رنگ میں کوئی سوٹ دکھائیں، جس پہ کڑھائی ہوسکے" ثناء نے  دکاندار کو  مخاطب 
کیا

 اور آئمہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔ 

دکاندار نے وہاں کام کرنے والے ایک لڑکے کو آواز دی، تھوڑی دیر 

میں وہ مختلف اقسام کے سفید کپڑے کے کچھ تھان ان کے سامنے رکھنے لگا۔

 وہ کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے لگی اور آئمہ سے مشورہ کیا کہ کونسا لینا چاہیے؟

 تھان اوپر نیچے کرتے ثناء کی نظر ایک سفید کٹے ہوئے پیس پہ پڑی، 

اس نے جلدی سے وہ پیس ہاتھ میں لیا اور آئمہ کی طرف اشارہ کرکے بولی

"یہ دیکھو ! کیسا ہے؟

 شائد پورا سوٹ ہی کٹا ہوا ہے" ۔

اس سے پہلے کے وہ اسے اپنی رائے دے پاتی ، دکاندار نے جلدی سے وہ کپڑا اسکے ہاتھ سے لے لیا۔ 

"باجی ! آپ اسے رہنے دیں کوئی اور دیکھ لیں، یہ شائد غلطی سے آگیا ہے۔

وہ دونوں دکاندار کے اس رویے پر حیران ہوئے۔ آئمہ چپ رہی لیکن ثناء بولی

"مجھے تو وہی کپڑا ہی لینا ہے، آپ دکھائیے " وہ بار بار اسرار کر رہی تھی ۔

"باجی ! یہ کپڑا کفن کے لیئے ہے، غلطی سے یہاں آگیا، آپ اسے رہنے دیں" ۔

دکاندار کے اس جواب کو سُن کے  ان دونوں  کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔ 

اگلے ہی لمحے ثناء نےاپنا پرس اٹھا کے دکان کے باہر نکل گئی

آئمہ نے اسے آواز دی 

" ارے ! رکو ! مجھے تو آنے دو"

دکاندار بھی آوازیں دینے لگا
 
"باجی ! بات تو سنیں باجی !" 

آئمہ  نے آج سے پہلے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔

وہ بہت تیزی سے چل رہی تھی، وہ لگ بھگ بھاگتی ہوئی اس سے جا ملی۔

اس نے ھادی کو جلدی سے کال کی ، وہ پہلے ہی ان کے انتظار میں مطلبوبہ جگہ پہ کھڑا تھا ۔

وہ دونوں جلدی سے بائیک پہ بیٹھیں ، آئمہ پورے راستے میں  اسے تسلی دیتی رہی

 کہ اتنی چھوٹی سے بات پہ تم پریشان ہوگئی ہو۔

 اس نے آئمہ کی کسی بات کا جواب نہ دیا وہ اپنے گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جب وہ پیچھے پیچھے کمرے اندر داخل ہوئی تو ثناء مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی 

 وہ باہر نکل آئی اس نے ثناء کی حالت کا اس کی امی کو سنائ اور ھادی کی وجہ سے وہاں سے نکل آئی ۔

 اگلی صبح  آئمہ کی امّی نے اس کے اوپر سے کمبل ہٹا کے جلدی سے اٹھایا ۔

وہ گھبرا گئی، اس کی امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ ہڑبڑا سی گئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔

 کچھ بتائے بنا ہی وہ اسے ثناء کے گھر لے گئیں ۔

وہاں پہنچتے ہی آئمہ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ ثناء اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔

 وہ گھٹنوں کے بل اسکی لاش کے پاس بیٹھ گئی، دماغ کی نس پھٹنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔ 

حیرانی اور پریشانی کے عالم میں آئمہ کے اندر سے ایک چیخ نکلی

اور اسے بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہی۔

 جب ہوش آیا تو امّی آخری دیدار کے لیئے اس اسکے پاس لے گئیں۔ 

کل جو سفید کفن دیکھ کے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہی تھی

 آج وہی سفید کفن اس سے لپٹا تھا۔

"انسان اس دنیا میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا ،

 اسکے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بازار میں آ گیا ہے"۔

آئمہ بے سود اسے جنازے کے لیئے لے جاتا دیکھ رہی تھی ، اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں تھی 

کہ وہ اسے روک پاتی ، ثناء خود مر گئی لیکن اس کو یہ بتا گئی کہ 

"نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی"؟

طوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

*سارا جگ آئینہ ہے

ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیر کروایا جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس محل میں جا گھسا رات کے وقت محل کا رکھوالا محل کا دروازہ بند کر کےچلا گیا لیکن وہ کتا محل میں ہی رہ گیا کتے نےجب چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسےچاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا اس کتےنےکبھی بھی اپنے آپ کو اتنےدشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شائد وہ اس سےلڑ کر جیت جاتا لیکن اب کی بار اسےاپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی ۔۔ کتا جس طرف آنکھ اٹھاتا اسے کتے ھی کتے نظر آتے تھے اوپر اور نیچےچاروں طرف کتے ہی کتےتھے۔۔ کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانا چاہا دھیان رہے آپ جب بھی کسی کو ڈرانا چاہتے ہیں آپ خود ڈرے ہوئے ہیں ورنہ کسی کو ڈرانےکی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانےکی کوشش کی تو وہ لاکھوں کتے بھی بھونکنے لگے اس کی نس نس کانپ اٹھی اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سےگھر چکا تھا آپ اس کتے کا درد نہیں سمجھ سکتےجب صبح چوکیدار نے دروازہ کھولا تو محل میں کتےکی لاش پڑی تھی اس محل میں کوئی بھی موجود نہ تھا جو اسے مارتا محل خالی تھا لیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے وہ خون میں لت پت تھا اس کتے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟؟؟ خوف کےعالم میں وہ کتا بھونکا جھپٹا دیواروں سے ٹکرایا اور مر گیا ۔۔ 
آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کےسبھی تعلقات سبھی حوالے آئینوں کی مانند ہیں ان سب میں آپ اپنی ہی تصویر دیکھتے ہیں غور کریں اور دیکھیں ؟ کہ نفرت سے بھرا آدمی یہ دیکھ رہا ہے کہ سب لوگ اس سےنفرت کرتے ہیں لالچی آدمی کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب اس کو لوٹنےکےمنصوبےبنا رہے ہیں وہ اپنے لالچ کی تصویر دنیا کے آئینہ خانے میں دیکھتا ہے شہوانیت کا مریض سوچتا ہے کہ ساری دنیا اسےجسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے فقیر کہتا ہے کہ ساری دنیا ایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ چھوڑ دو سب کچھ بھاگ جاؤ دنیا سے۔۔ آپ جو کچھ بھی ہیں وہی کچھ آپ کو اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتا ہے اور سارا جگ آئینہ ہے جس میں آپ کو اپنا آپ ہی دکھائی پڑ رہا ہوتا ہے۔

Sunday, December 27, 2020

کسی کیلئے ڈیسٹ بین نہ بنیں

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا،ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے،ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا 

مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟

ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لدھا گھوم رہے ہوتے ہیں،وہ غصہ،مایوسی ،ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے،وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈیسٹ بین اور کچرا دان کیوں بنیں؟

اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں.

Friday, December 25, 2020

ﺑﮯ ﻋﯿﺐ ﺗﺼﻮﯾﺮ

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ*،``` ﻣﮕﺮ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻠﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﮯ ﯾﮧ ﻋﯿﻮﺏ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺐ کہ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﻭ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔