آئمہ جلدی سے تیار ہوجائو ، میں تمہیں بازار چھوڑ آتا ہوں
ھادی نے جلدی سے اسے پکارا ۔
اچھا بھائی ایسا کرنا کہ راستے میں ثناء کے گھر سامنے دو منٹ کیلیئے بائیک روک لینا ۔
ثناء کے گھر کے سامنے اچھا اچھا ایک دم اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔
کہنے لگا آئمہ مجھے اس کا نمبر تو دو ، مجھے اچھی لگتی ہے یہ الفاظ کہہ کر اس نے قہقہ لگایا ۔
" چل بدتمیز ، بائیک نکالو ، پہلے بہت دیر کردی ہے اور رہی بات نمبر کی تو موبائل اس کی امی کا ہے ۔
اگر تمہیں اتنی پسند ہے تو رشتے کی بات کر لیتی ہوں ، چلو میری بہترین دوست میری بھابھی بن جائے گی ، آئمہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا " ۔
ھادی نے جب یہ سنا تو دل ہی دل میں کہا کوئی بات نہیں جب موبائل لے گی
تو نمبر آہی جائے گا ۔ اس نے بائیک سٹارٹ کی اور کچھ دیر میں ثناء کے گھر پہنچ گئے ۔
آئمہ فورا بائیک سے اتری اور اندر چل پڑی ، جاتے ہی اونچی آواز میں السلام وعلیکم کہا
اور ثناء کو آواز دینے لگی کہ تم تیار نہیں ہوئی ، جلدی کرو عصر کا وقت ہے ہمیں ٹائم لگ جانا ہے بازار ۔
ثناء نے کہا کہ آئمہ دو منٹ بیٹھو ، میں بس عصر کی چار رکعات پڑھ لوں ۔
افف یار ، آکر پڑھ لینا باہر ھادی انتظار میں ہے بس جلدی سے چادر لو ۔
اور چھوڑو نقاب وغیرہ ۔
ثناء نے کہا پلیز یار ، میں دو منٹ میں آئی ، نماز قضاء ہوگئی تو
اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی؟
اچھا اچھا پڑھ لو بابا اب بس چپ ، خیر اس نے نماز پڑھی جلدی سے چادر لی نقاب کیا ۔
اور وہ دونوں ھادی کے پیچھے بیٹھ کر بازار چل دیئے ۔
آئمہ نے ھادی کو کہا تم گھوم پھر آئو میں جب کال کروں تو آجانا،
ھادی نے ایک نظر ان کی جانب دیکھا اور چپ چاپ بائیک سٹارٹ کرکے چل پڑا ۔
آئمہ کبھی ثناء کا ہاتھ پکڑ کر ایک دوکان میں گھستی اور کبھی دوسری, آخر کار اس نے اپنی مطلوبہ چیزیں لے ہی لیں ۔
اس نے ثناء سے پوچھا،
تم نے کچھ لینا تو کہنی لگی کہ ایک سفید سوٹ لینا ہے جس پہ اچھی کڑھائی ہوسکے ۔
آئمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور آہستہ آہستہ چلتی ایک کپڑے کی دکان کے اندر آ گئی۔
"بھیا ! مجھے سفید رنگ میں کوئی سوٹ دکھائیں، جس پہ کڑھائی ہوسکے" ثناء نے دکاندار کو مخاطب
کیا
اور آئمہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔
دکاندار نے وہاں کام کرنے والے ایک لڑکے کو آواز دی، تھوڑی دیر
میں وہ مختلف اقسام کے سفید کپڑے کے کچھ تھان ان کے سامنے رکھنے لگا۔
وہ کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے لگی اور آئمہ سے مشورہ کیا کہ کونسا لینا چاہیے؟
تھان اوپر نیچے کرتے ثناء کی نظر ایک سفید کٹے ہوئے پیس پہ پڑی،
اس نے جلدی سے وہ پیس ہاتھ میں لیا اور آئمہ کی طرف اشارہ کرکے بولی
"یہ دیکھو ! کیسا ہے؟
شائد پورا سوٹ ہی کٹا ہوا ہے" ۔
اس سے پہلے کے وہ اسے اپنی رائے دے پاتی ، دکاندار نے جلدی سے وہ کپڑا اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
"باجی ! آپ اسے رہنے دیں کوئی اور دیکھ لیں، یہ شائد غلطی سے آگیا ہے۔
وہ دونوں دکاندار کے اس رویے پر حیران ہوئے۔ آئمہ چپ رہی لیکن ثناء بولی
"مجھے تو وہی کپڑا ہی لینا ہے، آپ دکھائیے " وہ بار بار اسرار کر رہی تھی ۔
"باجی ! یہ کپڑا کفن کے لیئے ہے، غلطی سے یہاں آگیا، آپ اسے رہنے دیں" ۔
دکاندار کے اس جواب کو سُن کے ان دونوں کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔
اگلے ہی لمحے ثناء نےاپنا پرس اٹھا کے دکان کے باہر نکل گئی
آئمہ نے اسے آواز دی
" ارے ! رکو ! مجھے تو آنے دو"
دکاندار بھی آوازیں دینے لگا
"باجی ! بات تو سنیں باجی !"
آئمہ نے آج سے پہلے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔
وہ بہت تیزی سے چل رہی تھی، وہ لگ بھگ بھاگتی ہوئی اس سے جا ملی۔
اس نے ھادی کو جلدی سے کال کی ، وہ پہلے ہی ان کے انتظار میں مطلبوبہ جگہ پہ کھڑا تھا ۔
وہ دونوں جلدی سے بائیک پہ بیٹھیں ، آئمہ پورے راستے میں اسے تسلی دیتی رہی
کہ اتنی چھوٹی سے بات پہ تم پریشان ہوگئی ہو۔
اس نے آئمہ کی کسی بات کا جواب نہ دیا وہ اپنے گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
جب وہ پیچھے پیچھے کمرے اندر داخل ہوئی تو ثناء مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی
وہ باہر نکل آئی اس نے ثناء کی حالت کا اس کی امی کو سنائ اور ھادی کی وجہ سے وہاں سے نکل آئی ۔
اگلی صبح آئمہ کی امّی نے اس کے اوپر سے کمبل ہٹا کے جلدی سے اٹھایا ۔
وہ گھبرا گئی، اس کی امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ ہڑبڑا سی گئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔
کچھ بتائے بنا ہی وہ اسے ثناء کے گھر لے گئیں ۔
وہاں پہنچتے ہی آئمہ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ ثناء اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔
وہ گھٹنوں کے بل اسکی لاش کے پاس بیٹھ گئی، دماغ کی نس پھٹنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔
حیرانی اور پریشانی کے عالم میں آئمہ کے اندر سے ایک چیخ نکلی
اور اسے بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہی۔
جب ہوش آیا تو امّی آخری دیدار کے لیئے اس اسکے پاس لے گئیں۔
کل جو سفید کفن دیکھ کے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہی تھی
آج وہی سفید کفن اس سے لپٹا تھا۔
"انسان اس دنیا میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا ،
اسکے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بازار میں آ گیا ہے"۔
آئمہ بے سود اسے جنازے کے لیئے لے جاتا دیکھ رہی تھی ، اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں تھی
کہ وہ اسے روک پاتی ، ثناء خود مر گئی لیکن اس کو یہ بتا گئی کہ
"نماز قضاء ہوگئی تو
اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی"؟