بیوی نے خاوند کو الوداع کہا۔ جہاز اُڑا۔ خیال نے رِفعتوں کو چھُوا۔ حوصلے بُلند ہوئے۔ یہ سفر آسُودگی کی نوید تھا۔ خاوند کو نوکری مل گئی تھی۔ وطن سے دُور'دیارِ غیر میں۔ تنخواہ ڈالروں میں تھی۔ دِن گُزرتے ہی گئے۔ بیوی اِنتظار کرتی رہی۔ خاوند کا نہیں'اُس کے بھیجے ہوئے پیسوں کا۔ پیسے ملے۔ بہت سے پیسے ملے۔ مکان سجا۔
فانوس لگے۔ روشنی ہوئی۔ مہمان آئے ۔ کھانے پکے۔ رونقیں ہوئیں۔ بس صرف گھر کا مالک ہی گھر میں نہ تھا۔ وہ بیچارہ پردیسی 'دیس میں ہونے والی رونقوں کو کیا جانے! کچھ دِنوں کے بعدد ونوں ہی دُکھی تھے۔ تنہائی کا زہر اُن کے وجود میں اثر کر رہا تھا۔ چراغ جلتے ہی رہے اور دِل بجھتے ہی رہے۔ اِس دُکھ کا کیا علاج۔ وطن میں رہو تو مال نہیں، مال ملے تو وطن نہیں۔
عجب صورتِ حال ہے۔ دُکھوں سے بچنے کے لیے کوشش کرنے والے ایک نئے دُکھ کے حوالے ہو جاتے ہیں۔
کیا زندگی میں دُکھ کا ہونا لازمی ہے؟ کیا زندگی دُکھ ہی کا نام ہے؟ اِس کائنات میں' اِنسانوں کی کائنات میں کوئی بھی تو نہیں' جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔ آج کا اِنسان بہت دُکھی ہے۔ وہ اندر سے ٹُوٹ رہا ہے۔ اُس کا ظاہر بے خراش بھی ہو' تو بھی اُس کا باطن قاش قاش ہوتا ہے۔
آرزوؤں کی کثرت نے انسان کو دُکھی کر رکھا ہے۔ کثرت ہمیشہ دُکھی کرتی ہے۔ ایک خواہش پوری ہو' تو دوسری پوری نہیں ہوتی۔ خوشی کا ایک لمحہ' غم اور اندیشوں کے لمحات کو جنم دیتا ہے۔ ایک حاصل میں کتنی ہی محرومیاں چھُپی ہوتی ہیں۔ اِنسان جو کچھ بھی ہوتا ہے' اُس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور انسان فطرتاً اپنے علاوہ کچھ اور ہونا چاہتا ہے۔
دُنیا اُسے ایک نام، ایک صفت سے پکارنے لگ جائے' تو وہ خواہش کرتا ہے کہ لوگ اُسے دوسرے نام، دوسری صفت کے حوالے سے پکاریں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ پس وہ دُکھی ہو جاتا ہے۔
ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے چاہا جائے، اُسے پسند کیا جائے۔ لیکن کیوں؟ اِسی" کیوں" سے ہی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ لوگ اپنے علاوہ کسی کو پسند نہیں کر سکتے اور خود پسندی کی عادت بھی خود گُریزی کی علامت ہے۔
اِنسان خود کو بھی ہمیشہ کے لیے پسند نہیں کر سکتا۔ پس اِنسان دُکھی رہتا ہے۔
انسان کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد کو خوشی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ لیکن کثرتِ مال' محض وبال ہے اور کثرتِ اولاد' اکثر اِنسان کے لیے دُکھ کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔ اولاد کی آرزُو اور اولاد کی پرورش کی تمنّا اور پھر اولاد کی اپنی آرزوئیں اِنسان کے لیے ایک عجب مصیبت ہیں۔
اولاد مودٴب نہ ہو تو ایک عذاب ہے۔ آج کل اولاد کا مودٴب ہونا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ آج کے بچّے' آج کے اِنسان کے دُکھ کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔
ایک آدمی کو دیکھا گیا کہ وہ کسی خانقا ہ پر جا کر زور زور سے دُعا مانگ رہا تھا کہ "اے اللہ! تُو نے میری وہ دُعا جو سولہ سال پہلے منظور کی تھی' اُسے اب نا منظور فرما دے۔ اے صاحبِ آستانہ بزرگ! تُوبھی آمین کہہ۔
" لوگوں نے کہا "تُو کیا کہہ رہا ہے؟ " تو اُس نے کہا " مَیں منظور شُدہ دُعا کی نا منظوری چاہتا ہوں۔" لوگوں نے تفصیل پوچھی تو اُس نے کہا "آج سے سولہ سال پہلے میں اِسی آستانے پر حاضر ہُوا تھا۔ مَیں نے اللہ کے آگے دُعا کی کہ اِلٰہی! مجھے بیٹا عطا فرما۔ اللہ کی مہربانی اور اِس بزرگ کے وسیلے سے مجھے بیٹا ملا۔ آج وہ جوان ہے اور مَیں کیا بتاؤں کہ اُس بیٹے نے مجھے کِتنا تنگ کر رکھا ہے۔
مختصر یہ کہ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ میری قدیم منظور شُدہ دُعا کو نا منظور فرما لے میرے اللہ!"
اِنسان کبھی راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ خوشی کی تلاش کرتا ہے اور اُسے کسی نہ کسی طرح غم سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے اور مجبوری یہ ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ زندگی کے مقدّر میں موت لکھی جا چکی ہے اور اِسی حقیقت کا انکشاف ہی اِنسان کے کرب کی اِبتدا ہے۔
اُس کا حاصل' لا حاصل ہو کے رہ جاتا ہے۔ اُس کی قُوّت' کمزوری بن جاتی ہے۔ اُس کا توانا وجود 'لا غرو ناتواں ہو جاتا ہے۔ اُس کی بینائی کے چراغ مدہم ہو جاتے ہیں۔ اُس کی فِکر مسدود ہو جاتی ہے۔ اُسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُس کے آگے دِیوار ہے' اُس کے پیچھے دِیوار ہے۔ وہ جکڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ وہ بھاگنا چاہتا ہے لیکن… "رستہ اُسے رستہ نہیں دیتا۔
" وہ اپنے گھر میں کچھ عرصہ کے بعد خود کو مہمان سا محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنوں کے ہمراہ چلتا ہے اور چلتے چلتے اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیگانوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ ساتھی بچھڑ جاتے ہیں اور اجنبی ہمراہ ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ بھِیڑ میں تنہا ہو جاتا ہے۔ اُسے کرب اور دُکھ سے بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے نکل جانا چاہتاہے۔ اپنے وجود میں رہنا اُسے نا مُمکن نظر آتا ہے اور وجود سے نکلنا بھی اُتنا ہی نا مُمکن ہوتا ہے۔
نتیجہ دُکھ کے سِوا کیا ہے۔ وہ بے نام دُکھ پر روتا ہے اور رونے سے دُکھ ختم نہیں ہوتا۔
ایک آدمی اپنے کسی عزیز کی موت پر رو رہا تھا۔ لوگوں نے کہا "صبر کرو۔ اب رونے سے کیا ہو سکتا ہے۔" اُس نے روتے روتے جواب دیا "بھائیو! رونا تو اِسی بات کا ہے کہ اب رونے کا بھی کچھ فائدہ نہیں۔ مَیں اپنے رائیگاں آنسوؤں پر ہی تو رو رہا ہوں۔ کرب ہی کرب ہے۔
دُکھ ہی دُکھ ہے اور میں…"
ہم اِس دُنیا سے کچھ لیکر بھاگ جانا چاہتے ہیں' لیکن اِس دُنیا سے کچھ لے کر جا نہیں سکتے۔ بس یہاں سے اُٹھا کر وہاں رکھ سکتے ہیں۔ ہم سب قُلّی ہیں۔ سامان اٹھائے پھرتے ہیں… خیال کا سامان، احساس کا سامان ،مال ، دولت ، وجود۔ اشیا اُٹھائے اُٹھائے پھِرتے ہیں۔ کب تک؟ قُلّی کا سامان کسی اور کا سامان ہوتا ہے۔
قُلّی کے نصیب میں صرف وزن ہے…وزن اور صرف وزن …اور یہ وزن کرب ہے۔ اِس دُنیا میں کچھ بھی کسی کی مِلکیّت نہیں۔ ہمارے دفتر' ہمارے دفتر ہی نہیں ہیں'ہمارے ماتحتوں کے بھی ہیں۔ ہماری بادشاہت' ہماری بادشاہت نہیں۔ یہ مُلک ہماری رعایا کا بھی ہے۔ کوئی کسی کا مالک نہیں۔
یہاں جو کچھ ہے' یہیں رہے گا اور اِسے اپنا کہنے والا یہاں نہ ہو گا۔
بڑے کربناک مرحلے ہیں' اِس حیاتِ چند روزہ میں! ہم صرف اپنی مِلکیّت کی مِلکیّت ہیں۔ ہمارے بچّے ہمارے مالک ہیں۔ ہمارا مرتبہ ہمارا بوجھ ہے۔ ہماری رعایا ہماری عاقبت ہے 'بلکہ عبرت ہے۔ ہمارے ماتحت ہماری آزمائش ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے خلاف گواہیاں چل رہی ہیں۔ ہم بڑے روگ میں ہیں۔ ہمارا ہونا 'نہ ہونے تک ہے۔ ہماری ہستی' نیستی ہے۔ ہمارا وجود 'عدم ہے۔
ہمارا دِل' دِلبروں کے توڑنے کے لیے بنا ہے۔ ہماری محبت ہماری قید ہے۔ ہماری نفرت ہمارا عذاب ہے۔ ہمارے اپنے ہمارے سپنے ہیں۔ ہماری آرزو ہماری فریاد ہے۔ ہمارا غُرور ہمارا اپنا مذاق ہے۔ ہم حِصار میں ہیں' آرزوؤں کا حِصار، تمنّاؤں کی زنجیر۔ ہمارا علم ہمارا حجاب ہے۔ ہمارا گھر' خوبصورت لیکن زندان۔ ہم اِسی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے بس میں بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہم آزاد پیدا ہوئے' لیکن پیدا ہونے کی مجبوری کے ساتھ۔ ہماری جوانی' آزاد جوانی 'بُڑھاپے کی مجبوری ہے۔ ہم ریت کی دِیوار ہیں۔ گِرتے رہنا ہمارا مقدّر ہے۔ ہمارے مقدّر میں کرب ہے، دُکھ ہے۔ اِس کرب ِمُسلسل سے نجات 'صرف اور صرف اپنی فنا کو تسلیم کرنا ہے۔ میری زِندگی جس نے عطا کی' وہی اِسے واپس لے لیتا ہے۔ اِس میں میرا کیا دخل ہے۔ کیا مَیں اپنے آپ میں اپنا دخل دینا چھوڑ سکتا ہوں؟ کرب سے نجات کی راہ یہی ہے۔ حکم دینے والے کا حکم زِندگی ہے' تو ہم زِندہ ہیں۔ حکم دینے والا موت کا حکم دے' تو ہم حاضر ہیں۔ افسوس کی بات نہیں' اطاعت کی بات ہے۔ اطاعت اور صرف اطاعت ' دُکھ سے نجات ہے۔ یہاں نہ کچھ کھونا ہے نہ پانا ہے 'یہاں تو صرف آنا ہے اور جانا ہے، دُکھ کِس بات کا!