میں نے زندگی میں کئی سبق سیکھے مگر جس سبق نے میری زندگی بدل دی وہ ہے
"دستبرداری"
دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جاؤ سکون پا لو گے. ہم ہر چیز کو اپنا سمجھ کر اس پر حق ملکیت جتانے لگتے ہیں
میں نے زندگی میں کئی سبق سیکھے مگر جس سبق نے میری زندگی بدل دی وہ ہے
"دستبرداری"
دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جاؤ سکون پا لو گے. ہم ہر چیز کو اپنا سمجھ کر اس پر حق ملکیت جتانے لگتے ہیں
ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے انہوں نے گاڑی روکی اور دو کلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے
دنیا کے لیئے بد صورت ترین مگر اپنے وقت کے بہترین کردار
لیزی کو دنیا کی بدصورت ترین خاتون کہا گیا اس پر لاکھوں میم بنائے گئے اس کو یہاں تک کہا گیا کہ اتنی بدصورتی کے ساتھ جینے سے اچھا مر جاؤ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور گریجویشن کے بعد تین کتابیں لکھ کر لاکھوں حسن والوں کے منہ بند کر ڈالے اور پھر وہ دنیا کی بہترین موٹیویشنل سپیکر میں سے
ایک بار ضرور پڑھیں، آنکھیں بھیگ جائیں گی۔۔۔۔
مائیں کتنی سادہ ہوتی ہیں، یہ ہمیشہ پرانے زمانے میں زندہ رہتی ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ان کی اولاد دنیا کی معصوم ترین اولاد ہے، انہیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ ان کا بچہ ہمیشہ بچہ ہی رہے گا اور دنیا کی چالاکیوں سے ناواقف رہے گا،
ایک بہت بڑے جہاز کا انجن فیل ہوگیا۔ جہاز کے مالک نے ایک کے بعد ایک ماہر کو آزمایا مگر ان میں سے کوئی بھی طے نہ کر پایا کہ اس جہاز کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔
بغداد کے بڑے بازار میں ایک فقیر نان بائی کی دکان کے سامنے سے گزرا جہاں انواع و اقسام کے کھانے بھی چولھے پر چڑھے ہوئے تھے جن سے بھاپ نکل رہی تھی۔ ان کھانوں کی خوش بُو ان کی لذت اور ذائقے کا پتا دی رہی تھی۔ فقیر کا دل للچایا تو اس نے اپنے تھیلے میں سے ایک سوکھی روٹی نکالی اور ایک دیگ کی بھاپ سے اسے نرم کر کے کھانے لگا۔ نان بائی چپ چاپ یہ تماشا دیکھتا رہا۔ جب فقیر کی روٹی ختم ہو گئی اور وہ جانے لگا۔ تو اس کا راستہ روک لیا اور پیسے مانگے۔
کون سے پیسے؟ فقیر نے بے بسی اور حیرت سے پوچھا۔ نان بائی نے کہا کہ تُو نے میرے کھانے کی بھاپ کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس کی قیمت مانگ رہا ہوں۔ وہاں بہلول دانا بھی موجود تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے مداخلت کی اور نان بائی سے کہا کہ کیا اس غریب آدمی نے تمھارا کھانا کھایا ہے جو پیسے ادا کرے۔ نان بائی نے کہا کھانا تو نہیں کھایا مگر میرے کھانے کی بھاپ سے فائدہ تو اٹھایا ہے، اسی کی قیمت مانگ رہا ہوں۔
اس کی بات سن کر بہلول دانا نے سر ہلایا اور اپنی جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے۔ وہ ایک ایک کر کے ان سکوں کو زمین پر گراتے جاتے اور نان بائی کی طرف دیکھ کر کہتے یہ لے پیسوں کی کھنک سمیٹ لے، یہ لے اپنے کھانے کی بھاپ کی قیمت ان سکوں کی کھنک۔ اسے وصول کر لے یہ آواز ہی تیرے کھانے کی خوش بُو کی قیمت ہے۔
وہاں کئی لوگ جمع ہو چکے تھے جو نان بائی کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ تب حضرت بہلول نے کہا اگر تُو اپنے کھانے کی بھاپ اور خوش بُو بیچے گا تو اس کی یہی قیمت ادا کی جاسکتی ہے، اسے بھی قبول کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔