سوال۔فقیر کے نزدیک قناعت کیا ہے اور قناعت کے مقام کو کیسے پایا جا سکتاہے ؟
سر فراز شاہ صاحب
دنیا میں سب سے زیادہ کثیر العیال جو چیز ہے اس کا نام خواہش ہے یہ انسانوں کے اندر اتنی تیزی سے بڑھتی ہے کہ اس کو کنڑول کرنا مشکل ہو تا ہے ۔فقیر لوگ عام طور پر خواہشات سے بہت دور بھاگتے ہیں کیوں کہ خرابی کی ابتداء اسی سے ہو تی ہے ۔انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہو تی ہے تو انسان اس کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے پھر ایک اور خواہش پیدا ہو تی ہے اس طرح خواہشوں کا سلسلہ چل پڑ تا ہے ۔اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ قناعت ہے ۔ قناعت کو آسان لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی تقسیم پر بندہ راضی ہو جائے جو مل جائے بندہ اسی پرخوش اور راضی ہو جائے وہی قناعت ہے ۔
میں ایک بار کراچی گیا تو جن صاحب کے پاس میں ٹھہرا ہو اتھا ان سے میں نے خواہش کیا اظہار کیا کہ مجھے عبد اللہ غازی کے مزار پر جانا ہے تو وہ مجھے وہاں لے گئے ۔فاتحہ خوانی کے بعد جب ہم باہر نکلے تو ان صاحب سے کہا کہ میں کہیں بھی فاتحہ خوانی کے لیے جاؤں تو میں اپنے لیے دعا نہیں کرتا اور کہا کہ میں نے زندگی میں اپنے لیے صرف ایک دفعہ دعا کی تھی جب میں لاہور اپنے نکاح کے لیے گیا تھا تو نکاح کے بعد اپنے دوستوں اور کزنز کے ساتھ داتا صاحب گیا تو وہاں میں نے فاتحہ خوانی کے بعد دعا کی یا اللہ مجھے قناعت عطا فرما دے ۔اس دن ان کا راز میرے پر کھل گیا کیونکہ میں اکثر ان کو دیکھ کر پر یشان ہو جاتا تھا حا لانکہ وہ پی ۔آئی ۔اے میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھے اور ان کی تنخواہ لا کھوں میں تھی اور وہ مختلف ٹر یننگز کے سلسلے میں بہت دفعہ بیرون ممالک کا سفر کر چکے تھے ۔میں نے ان کو کبھی مرسٹڈیز یا دو کنا ل کے گھر کی خواہش کرتے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ان کی گاڑی بھی بہت پرانی تھی بلکہ میں نے ایک باران کو کہا کہ گا ڑی تبدیل کر لیں تو انہوں نے کہا میں گاڑی کو ایک ٹرانسپورٹ کی طرح دیکھتا ہوں جو مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتی ہے۔یہ اپنا کام بہترین کر رہی ہے تو مجھے نئی گاڑی کی ضرورت محسوس نہیں ہو تی،اسی طرح ان کا لباس بھی بہت سادہ تھا ۔یہ بات مجھے تب سمجھ آئی جب انہوں نے بتایا کہ دعا میں انہوں نے قناعت مانگی تھی اور اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی تھی ۔دراصل یہ فقیرانہ رویہ ہے ۔فقیر کبھی سوال نہیں کرتا یعنی وہ طلب نہیں کرتا ۔جو کچھ ہے اس پر راضی رہتا ہے ۔جو انسان چاہتا ہے کہ وہ دست سوال نہ کرے وہ قناعت اختیار کرے ۔
No comments:
Post a Comment