قیام پاکستان سے قبل اودھو داس سندھ کے امیر کبیر لوگوں میں شامل تھا۔اس کی ماں بیمار ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سندھ میں موجود اسپتالوں میں اس بیماری کے علاج کی سہولت میسر نہیں ، اس کا علاج بمبئی کے اسپتال میں ہی ہوسکتا ھے ۔
اودھو داس والدہ کو بمبئی لے گیا اور علاج کرایا،ماں کی حالت بہتر ہونے پر گھر واپس لے آیا اور چند روز بعد ماں سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت کیسی ھے جس پر اس کی ماں نے جواب دیا کہ:
میں تو اودھو داس کی ماں ہوں،یہاں علاج ممکن نہیں تھا تو بمبئی کے اسپتال میں علاج ہوگیا مگر سندھ میں بسنے والی ان ماؤں کا کیا ہوگا جن کے بیٹے اودھو داس کی طرح دولت مند نہیں۔
اودھو داس اپنی والدہ کی اس بات سے متاثر ہوا اور اس نے ماں کو بتائے بغیر شکار پور میں اس زمانے کا ایک جدید اسپتال تعمیر کرایا اور والدہ کو ساتھ لے کر اسپتال پہنچا کہ ماں اب فیتا کاٹ کر افتتاح کرو، یہاں سندھ میں بسنے والے غریبوں کا مفت علاج ہوگا ۔
ماں نے دیکھا کہ اسپتال کے مرکزی دروازے پر اس کے بیٹے اودھو داس کا مجسمہ نصب تھا ۔ ماں اودھو داس سے مخاطب ہوئی کہ یہ مجسمہ تم نے اسلیے نصب کرایا ھے کہ تمہارے سخی ہونے کے چرچے ہوں، اس مجمسمے کی یہاں موجودگی تک میں افتتاح نہیں کرسکتی ۔
اودھو داس نے مجسمے کو ہٹوا کر اپنے نام کی تختی بنوائی اور اسے داخلی راستے پر زمین میں دفن کرادیا کہ جو بھی اسپتال میں داخل ہوگا وہ میرے نام کو پیروں تلے روندتا ہوا داخل ہوگا ۔ اس کے بعد اودھو داس کی ماں نے اس فلاحی اسپتال کا افتتاح کیا ۔
آج جب میں سوشل میڈیا پر غریبوں کو راشن دیتے وقت فوٹو سیشن کراکے ان کو رسوا اور اپنی مشہوری کی پوسٹیں دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کاش ھم لوگ بھی اودھو داس کی ماں اور اودھو داس کی طرح سوچیں ۔ ۔ ۔
(منقول)۔
No comments:
Post a Comment