*معاف ہر صورت میں کر دینا چاہیے،۔ تعلقات رکھنا یا نہ رکھنا الگ بات۔*
مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا اسلئے حدود متعیں کرنا بہتر ہے۔ لیکن معاف تو کرنا ہی ہے چاہے کوئی اپنے کیے پر شرمندہ ہو نہ ہو۔
🌼 *معاف کر کے دوسرے سے زیادہ انسان اپنے اوپر رحم کرتا ہے۔* ایک بوجھ ہے جو معاف کر کے انسان اپنے دل سے اتار پھینکتا ہے۔
🌼 *سب سے بہترین طریقہ یہ پایا ہے* کہ اس انسان کے لئے دعا کریں۔ نہیں دل سے نکلتی، نہ سہی۔ خالی خولی الفاظ ہی سہی۔ پھر جب یہ مرحلہ آسان ہو جائے تو الفاظ میں دل کی لگن بھی شامل ہونے لگے گی۔ ساتھ اپنے لئے بھی دعا کہ اللہ، میرے دل سے یہ بوجھ ہلکا کر دیں کہ مجھ میں سکت نہیں اسے مسلسل اٹھائے پھرنے کی۔
*اگر غلطی کرنے والے خود آپ ہیں*، وہ شخص آپکے کہنے کے باوجود معاف کرنے پر راضی نہیں تو المقلب القلوب سے اسکا دل پلٹنے کی دعا کیجیے۔ اور اس بات کا افسوس نہ پالیں۔ آئندہ کے لئے احتیاط۔
اس پر عمل روزانہ کی بنیاد پر کرنا ہے۔ بالکل جیسے گھر کی خوب صفائی کر لی تو بھی ایک دو چار دن کے بعد پھر سے صاف کرنا ہے۔ کپڑے میلے ہو جائیں تو انہیں بھی میلا ہی نہیں چھوڑ دینا۔ دل کی صفائی بھی ایک بار ناکافی ہے۔ جب جب منفی خیال جھانکینے لگیں، تب تب تعوذ کی مدد سے انہیں بھگانا ہے۔ ڈیرے ڈالنے ہی نہیں دینے*۔ روز کا کام روز ۔۔۔کیجئے.
No comments:
Post a Comment