قاسم بائیک پہ گھر جا رہا تھا
وہ کسی وجہ سے آج لیٹ ہو گیا تھا
راستے میں دیکھا ایک بہت خوبصورت لڑکی کھڑی تھی
قاسم پہلے اس کے پاس سے گزر گیا
پھر بائیک روک کر واپس آیا
ہائے . آپ اس وقت اندھیری رات میں خیریت ہے نا
وہ لڑکی مسکرا کر بولی ہاں جناب خیریت ہے
قاسم کے قریب ہوئی مسکرانے لگی
موڈ ہے کیا۔ قاسم کے چہرے کو ہاتھ لگا کر پوچھ رہی تھی
قاسم حیران ہوا وہ اتنی خوبصورت کے اس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے اور وہ ایسے کام کر رہی ہے
قاسم مسکرانے لگا میڈم کیا مذاق ہے
وہ لڑکی تھوڑا اور قریب ہوئی کیوں مسٹر کیا غلط کر رہی ہوں میں آ جاو 1000 روپے دے دینا
قاسم حیران تھا یار اتنی خوبصورت لڑکی یہ کام آخر کیوں کر رہی ہے
تھوڑے فاصلے پہ اور بھی لڑکیاں موجود تھیں
لیکن وہ اتنی خوبصورت نہیں تھی
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔اچھا سنو 1000 روپے لیکر کتنا ٹائم گزارو گی میرے ساتھ
وہ لڑکی قاسم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی
صرف دو گھنٹے قاسم نے حامی بھر لی ٹھیک ہے بیٹھو پیچھے
میں دوں گا تم کو ہزار روپے
وہ اس لڑکی کو ساتھ لیکر چلا گیا
اچھا بتاو کیا کرتی ہو تم وہ لڑکی قاسم کہ طرف دیکھتے ہوئے بولی میں کچھ نہیں کرتی بس تم اپنا کام کرو اور مجھے واپس وہاں پہ چھوڑ کر آو
قاسم اسے ایک ہوٹل میں لے گیا کمرہ بک کیا
بیڈ پہ بیٹھ گیا جا کر
اچھا اتنا بتاو نام کیا ہے تمہارا
اس نے حیرت سے قاسم کی طرف دیکھا
ارے تم اپنا کام کرو اور جاو نام پوچھ کر کیا کرو گے
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا اچھا صرف نام بتانے کا 1000 روپے زیادہ دوں گا
بتاو کیا نام ہے وہ لڑکی چڑا کر بولی میرا نام کشف ہے
وہ جلدی سے اپنے کپڑے اتارنے لگی
قاسم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کپڑے نہ اتارو کشف
کوئی ضرورت نہیں ہے کپڑے اتارنے کی
میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرنے والا
کشف حیران تھی مجھے یہاں لیکر آگیا لیکن یہ کیا بات کیسا مرد ہے
کشف خاموشی سے بیٹھ گئی ٹھیک ہے دو گھنٹے کے لیئے میں تمہاری ہوں جو کرنا ہے کر لو
ایک گھنٹہ باقی ہے
قاسم نے گھڑی کی طرف دیکھا پھر سے پوچھا کیا ہر روز آتی ہو یہاں
کشف نے ہاں میں سر ہلایا جی ہاں ہر روز آتی ہوں
قاسم نے نمبر مانگا لیکن کشف نے نمبر دینے سے انکار کر دیا
میں نمبر نہیں دوں گی
ہر روز میں یہی پہ ہوتی ہوں
دو گھنٹے گزر گئے قاسم نے اسے واپس اسی جگہ پہ چھوڑ دیا اس کے ہاتھ میں دو ہزار رکھے اور چلا گیا
کشف ہر روز وہاں آتی جسم بیچتی پیسے کماتی
قاسم گھر آیا بہت پریشان تھا یار ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے وہ لڑکی جسم بیچتی ہے اتنی خوبصورت ہے
پڑھی لکھی لگتی ہے پھر کیوں ایسا کرتی ہے میری سمجھ سے باہر ہے
قاسم دوسری رات پھر وہاں گیا
کشف کچھ لوگوں کے ساتھ بات کر رہی تھی
قاسم انتظار کرتا رہا
کشف نے دیکھ لیا تھا قاسم کو وہ لوگوں سے فری ہو کر قاسم کے پاس آئی
آگئے مسٹر قاسم نے سلام کیا جی ہاں آ گیا
کیسی ہو کشف
کشف بائیک کے پیچھے بیٹھ گئی چلو ہوٹل لے چلو
قاسم مسکرانے لگا تم کو کیسے پتا میں ہوٹل لے کر جاوں گا
کشف نے قاسم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اتنا تو سمجھتی ہی ہوں جناب
وہ ہوٹل چلے گئے
قاسم نے ضد کی بتاو کیوں کرتی ہو ایسا
اپنی فیملی کے بارے میں بتاو
کشف خاموش رہی نہیں سر میں اپنے بارے کچھ نہیں بتاوں گی
لیکن قاسم کی ضد پہ کشف نے صرف اتنا بتایا اس کی طلاق ہو چکی ہے بس
اس کے علاوہ کشف نے کچھ نہ بتایا
قاسم ہر روز کشف کو ملنے آتا کشف کے ساتھ ٹائم گزارتا
ایک رات کشف اداس کھڑی تھی
قاسم پاس آیا
کشف اداس سی تھی
کیا ہوا کشف خیریت ہے نا
کشف دھیمے سے لہجے میں بولی ہاں خیریت ہے
یہ کہہ کر آنسو اس کی پلکوں کو نم کر گئے
کشف کو بازو سے پکڑا فٹ پاتھ پہ بیٹھ گئے دونوں
کیا ہوا کشف آج سے پہلے تم کو اتنا اداس نہیں دیکھا میں نے
کشف روتے ہوئے بولی آج میری ماں مر گئی ہے
قاسم حیران ہو کر بولا تو تم یہاں کیا کر رہی ہو گھر جاو
کشف آنسو پوچھتے ہوئے بولی نہیں جا سکتی گھر میرا کوئی گھر ہی نہیں ہے میں کہاں جاوں
قاسم حیران تھا یہ خود کیسی پاگلوں والی باتیں کرتی ہے
قاسم نے پوچھا کہاں رہتی ہو کشف نے بتایا یہ پاس ہی ایک کرائے کے گھر میں رہتی ہوں
میری کچھ دوست بھی رہتی ہیں ساتھ
قاسم کشف کو گھر تک چھوڑ آیا
اس کو سکون نہیں آ رہا تھا آخر کشف کے ساتھ ایسا کیا ہوا کے وہ ایسی بن گئی ہے
اس نے سوچ لیا آج چاہے کچھ بھی ہو جائے کشف سے سچ پوچھ کر رہوں گا
قاسم رات کو کشف کے پاس آیا ہوٹل میں لے گیا
کشف بتاو مجھے آج اصل حقیقت کیا ہے
کشف اسکی طرف حسرت سے دیکھنے لگی ارے قاسم رہنے دو نا کیوں درد دیتے ہو مجھے
قاسم نے ضد کی نہیں کشف آج بتاوگی مجھے تم
کشف نے گہری سانس لی
آنکھوں سے آنسو نکلے وہ اپنے ماضی میں گم ہو گئی
بابا کی لاڈلی سی شہزادی تھی میں
سب بہت پیار کرتے تھے مجھ سے میرے 4 بھائی تھے
مجھے پیار سے سب شہزادی کہتے تھے
میرے سب نخرے اٹھاتے تھے بابا تو میری ہر بات مان لیتے تھے اکثر امی بابا سے کہا کرتی تھی آپ شہزادی کو کچھ زیادہ ہی پیار کرتے ہیں
بھائیوں کی جان بستی تھی مجھ میں
جیسے مجھے گلابوں کے بستر پہ سلایا کرتے تھے
میں سب سے چھوٹی تھی
مجھے بہت پیار ملا میں نے میٹرک کے امتحان دیئے تو بابا سے کہا مجھے میڈیکل میں داخلہ لے کر دیں
میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں
بابا راضی ہو گئے مجھے اچھے کالج میں داخلہ لے کر دیا
میں بہت خوش تھی
پھر کلب کے دن تھے مجھے ایک لڑکے سے پیار ہوا
وہ کب میری زندگی بن گیا محسوس نہ ہوا
ہم چوری ایک دوسرے کو ملنے لگے
اور پھر ایک دن ہم۔نے سب سے چھپ کر کورٹ میرج کر لی کسی کو کچھ نہ بتایا
ہم۔چوری ملتے رہے میں کالج جاتی رہی
لیکن ان دنوں میں حاملہ ہو گئی میں اپنا بچہ نہیں گرانا چاہتی تھی
لیکن وہ ضد کرتا رہا بچہ نہیں چاہیے
میں نے اسے کہا سب کو بتاو کے تم میرے شوہر ہو اور مجھے اپنے گھر لیکر جاو
میں کبھی اس کے گھر نہیں گئی تھی بس اعتبار تھا اس کی باتوں پہ
پھر ایک دن میں اسے کال ملاتی رہی اس کا نمبر بند آ رہا تھا
میں 3 دن مسلسل فون کرتی رہی میں روتی رہی ۔لیکن اس کا نمبر بند رہا
میں بے بس ہو گئی تھی میرے پیٹ میں بچہ تھا باپ بھائیوں کا ایک مان تھا مجھ پہ
میں نے سب کچھ ماں کو بتا دیا
ماں کو یقین نہ ہو رہا تھا ماں بابا کو کیسے بتاتی کچھ
ماں چھپ کر بہت رونے لگی
ماں نے میری طرف دیکھا کہنے لگی میں زہر لا کر دیتی ہو کھا لو یہ راز یہی دفن ہو جائے گا ۔تیرا باپ یہ جانے گا تو مر جائے گا جو تم نے کیا ہےہے لیکن ماں آخر ماں تھی
وہ مجھے زہر بھی تو نہیں دے سکتی تھی
میری غلطی نے میری ماں کو پاگل کر دیا ڈاکٹر کے پاس لے گئی ماں مجھے ڈاکٹر نے بتایا 6 ماہ کا حمل ہے مشکل ہے
بابا کو بتانا ضروری ہو گیا تھا
مجھے اچھے سے یاد ہے بابا اس دن میرے لیئے نیا برقع لیکر آ ئے تھے
میرے ہاتھ میں برقع دے کر کہنے لگے بیٹی یہ پہن کر کالج جایا کرو
لیکن کیا پتا تھا بابا کو ان کی بیٹی نے کیا گناہ کر دیا
وہ بدذات مجھ سے کھیل کر چلا گیا
ماں نے بابا کو سب کچھ بتا دیا
مجھے یاد ہے بابا دیوار کے ساتھ سر مار مار کر اہنا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے
میرا بچہ گرا دیا گیا
میں گھر آئی بھائی کچھ نہیں جانتے تھے وہ مجھ سے خوشی خوشی بات کیا کرتے تھے
لیکن بابا مجھ سے بات نہ کرتے
ماں مجھے گھر کا کوئی کام نہ کرنے دیتی
میں جان چکی تھی ماں بابا ناراض ہیں مجھ سے
میں نے ایک رات دیکھا تھا بابا میری بچن کی تصویریں نکال کر دیکھ رہے تھے چوم کر رو رہے تھے
میں مر گئی تھی اس دن
ماں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا
نہ جانے بھابھی کو کیسے پتہ چلا اس بات کا بھابھی نے بھائی کو بتایا سب بھائیوں کو بھی پتہ چل گیا
ایک بھائی نے مجھے گولی مارنے کی کوشش کی لیکن ماں نے بچا لیا مجھے
پھر بابا نے ایک جگہ میرا رشتہ کر دیا
وہ لڑکا شرابی تھا
پہلی رات اس نے شراب پہ کر میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا
میں بےبس ہو گئی تھی کہاں جاتی
بابا نے کہا تھا مر جانا اب ہمارے پاس واپس نہ آنا
وہ میرا شوہر مجھے بہت مارتا
میں کیا کرتی کہاں جاتی ایک دن میں بے بس ہو کر بابا کے پاس چلی گئی میری چہرے پہ زخموں کے نشان تھے
میں نے روتے ہوئے کہا بابا اپنے ہاتھوں سے مار دیں مجھے لیکن اس ظالم انسان سے بچا لیں
بابا منہ موڑ کر چلے گئے ماں نے مجھے گالیاں دی تم گھر بسا ہی نہیں سکتی
میری منتیں کرنے کے بعد اس ظالم سے طلاق لے لی
بھائی کوئی بھی بات نہیں کرتے تھے
ماں بھی بات نہیں کرتی تھی بھابھی اپنے بچوں کو مجھ سے دور رکھتی
ایک بار میں نے اپنی بھتیجی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا
بھابھی نے مجھے بہت گالیاں دی
اپنی بیٹی کو نہہلاتے ہوئے کلمہ پڑھنے لگی پاک کرنے لگی اپنی بیٹی کو
میں اتنی بری ہو چکی تھی
مجھ سے سب نے منہ موڑ لیا نہ بابا ماں بھائی سب کے لیئے میں بری تھی
میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی
اللہ تو معاف کر دیتا لیکن لوگ معاف نہیں کرتے
گھر میں کچھ بھی نقصان ہو جاتا سب مجھے منحوس کہتے
مجھے برا بھلا کہتے
اور پھر ایک دن میں بابا کے پیر پکڑ لیئے بہت روئی تھی میں اس دن بابا کی ٹانگوں سے لپٹ کر
بابا مجھ سے گناہ ہو گیا تھا مجھے بابا معاف کر
میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی
بابا کرسی پہ بیٹھ گئے انھوں نے مرے سر پہ ہاتھ رکھا
کچھ کہنا چاہتے تھے کے وہ بھی چھوڑ گئے دل کا دورہ پڑا اور مجھے روتا ہوا چھوڑ گئے
اس دن ماں نے مجھے منحوس بد بخت کہا
میں بہت روئی تھی بابا کی موت کے بعد بھائیوں نے مجھے گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا
مجھے بات بات پہ طعنے دیتے بھابھی لوگوں نے مجھے بدکرادار کہا میں اپنے سب رشتہ داروں میں بدنام ہو گئی
کوئی مہمان گھر آتا سب سے ملتا لیکن مجھ سے کوئی نہ ملتا
پھر مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا مجھے اس کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی
ماں بھی طعنے دیتی
اور ایک دن پھر فضل کا کافی نقصان ہوا بھائی سمجھنے لگے میری منحوسی کی وجہ ہے مجھے کہنے لگے تم دارایمان چلی جاو میں سب سے ہوتے ہوئے لاوارث تھی
ماں شاید مجبور تھی بیٹوں کے ہاتھوں یا سچ میں نفرت کرتی تھی مجھ سے
مجھے بھائی دارالامان چھوڑ گئے
لیکن یہاں بھی کچھ گندی نگاہ والے تھے میں جوان خوبصورت مجھے یہاں بھی ہراساں کیئے جانے لگا
بس حالات سے لڑتے لڑتے میں پھر اس گندگی میں آ گئی
ہاں ماں سے بات کرتی تھی میں فون پہ
ماں چوری بات کرتی تھی بھائیوں سے
بہت روتی تھی ماں میرے لیئے
لیکن شاید بے بس تھی رشتہ داروں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی ماں بیمار تھی مجھے آخری بار فون کر کے کہہ رہی تھی شاید کبھی اب بات نہ کر سکوں میں تم سے اپنا خیال رکھنا میری بچی
اور کل فون کیا تو بھائی نے فون اٹھایا میں خاموش رہی لیکن پیچھے رونے کی آواز آ رہی تھی میں سمجھ گئی تھی میری ماں اب نہیں رہی
کشف رو رہی تھی قاسم پاس بیٹھا تھا فجر کی اذان ہونے لگی
کشف نے آنسو پونچھے قاسم مجھے میرے گھر چھوڑ او
قاسم کی آنکھیں نم تھیں کشف کے قریب ہوا
آنسو صاف کیئے کشف آو میرے ساتھ کشف کو اپنے گھر لے گیا
قاسم کی ماں نماز پڑھ کر بیٹھی تھی قاسم کے بابا نہیں تھے 3 چھوٹی بہنیں تھی قاسم گھر میں داخل ہوا صبح صبح کر وقت تھا چڑیوں کی چووں چوں کی آوازیں آ رہی تھیں باغ میں کوئل کی پیاری سی آواز سنائی دے رہی تھی
بڑی بہن نے قاسم کے ساتھ کشف کو دیکھا
دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اماں بھائی پتا نہیں کس لڑکی کو گھر لے کر آئے ہیں
لڑکی ویسے بہت خوبصورت ہے
ماں نے قرآن پاک چوم کر بند کیا ۔اللہ خیر کرے
قاسم نے ماں کو سلام کیا ماں نے قاسم کا ماتھا چوما ۔آ جا میرے بچے بیٹھ جا کشف کے سر پہ ہاتھ پھیرا
آ میری بیٹی بیٹھ جا یہاں میرے پاس
ماں نے کوئی سوال نہ کیا کیوں کے وہ جانتی تھی اس کا بیٹا قاسم کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا
ماں نے بیٹی کو جلدی سے کہا ناشتہ بناو ہم کو ناشتہ دو
کشف کو پاس بٹھایا سر پہ ہاتھ رکھا ماشاللہ کتنی پیاری بیٹی ہے
نظر نہ لگے آنکھیں کیوں سرخ ہیں روئی ہو کیا
کشف اداسی چھپا کر مسکرانے لگی
نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں
ناشتہ کیا پھر قاسم نے ماں کو سب کچھ بتایا کشف کے بارے
ماں کے پاس بیٹھ کر بولا ماں اجازت دو تو میں نکاح کر لوں کشف سے
ماں پہلے خاموش رہی پھر اپنی بیٹیوں کی طرف اس کی جگہ میری بیٹی بھی ہو سکتی ہے
قاسم کو سینے سے لگایا ہاں بیٹا
سادگی سے نکاح کروا دیتی ہوں تم۔دونوں کا
قاسم اور کشف کا نکاح ہو گیا
کشف بہت خوش تھی اتنے دکھ کے بعد سکون ملا تھا
قاسم بہت اچھا تھا کشف کا جسم سگریٹ سے جگہ جگہ سے جلا ہوا تھا نشان نظر آتے تھے
کشف 5 وقت نماز ادا کرتی قرآن پاک کی تلاوت کرتی
ایک دن پرانی تصویریں دیکھ رہے تھے
کے اچانک کشف کی نظر ایک تصویر پر پڑھی
کشف نے وہ تصویر ہاتھ میں اٹھا کر قاسم سے پوچھا یہ کس کی تصویر ہے
قاسم کی ماں بھی پاس بیٹھی تھی
ماں روتے ہوئے بولی میرا جنتی بیٹا ہے جو آج سے 3 سال پہلے ایک ایکسیڈینٹ میں فوت ہو گیا تھا
کشف کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں وہ لڑکا کوئی اور نہیں قاسم کا بھائی اور کشف کا پہلا پیار جس سے چوری نکاح کیا تھا وہی لڑکا تھا
کشف خاموش رہی کسی سے کچھ نہ کہا آسمان کی طرف دیکھنے لگی یا اللہ تیرے راز ہیں سب
کشف کے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی قاسم ہی بہن سے ہوئی تھی
وہ جن رشتوں سے بھاگ رہے تھے وہ گھوم پھر کر ایک بار پھر سامنے آ گئے تھے
نہ چاہتے ہوئے ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا
لیکن ان سب میں قاسم بے حد پیار کرتا تھا کشف سے
اللہ نے ان کی خوبصورت سی بیٹی عطا کی
کشف کی زندگی جنت بنا دی تھی قاسم نے
ایک انسان ایک غلطی ایک بھول کتنا کچھ بدل جاتا ہے صرف ایک غلط قدم سے
کشف اور قاسم حج کر رہے تھے کشف رو رہی تھی
یا اللہ تیرا شکر ہے مجھے واپس زندگی دینے کے لیئے۔۔
No comments:
Post a Comment