آج کل جس گلی محلے رشتے داری میں جائیں تو سر میں اترتی چاندی کے ساتھ رشتے کے انتظار میں لڑکیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔۔۔
*وجہ یہ ھے کہ...* شروع میں لڑکیاں اور والدین بہت نخرے کرتے ہیں۔
1 ذاتی گھر ھو۔
2 گاڑی ھو۔
3 آمدنی لاکھوں میں ھو۔
4 برادری اچھی ھو۔
5 فیملی چھوٹی ھو۔
یہ سب مطالبات فضول اور بے بنیاد ہیں۔ کوٸی یہ نہی کہتا کہ ہمیں اچھا انسان مل جاۓ۔ شریف اور نیک انسان مل جاۓ۔ہماری بچی بہت لاڈ پیار میں پلی بڑھی ھے۔ اس کے لیے کوٸی اچھا سا گھر تلاش کریں۔ جہاں تمام سہولیات ہوں، رشتہ جب دکھاتے ہیں تو پسند نہیں آتا، یہ اس کا خرچ کہاں سے پورا کرے گا" یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں۔ لڑکے کی آمدنی موجودہ دور میں 15سے 20 ہزار ہو تو میرے خیال میں بہت اچھی آمدنی ھے...
جبکہ ان لڑکی والوں کا اپنا حال یہ ہوتا ہے کہ آپ رہتے تو کچی آبادیوں میں هيں لیکن نخرے آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ والد کی پنشن یا معمولی تنخواہ سے گزارا چل رہا ہوتا ہے۔ اپنا گھر بوسیدہ ہوتا ہے لیکن کوٹھیوں کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔پھر جب لاڈلی صاحبہ 30 سال کو پہنچ جاتی ہیں پھر رشتہ کروانے والوں کی خیر نہیں۔صبح بھی فون... شام بھی فون کوٸی بھی لے آٶ صدیقی صاحب! جلدی کرو بہت مجبوری ھے... اور ساتھ ایک اور کام کرتے ہیں کہ عمر کم بتاتے ہیں، لڑکی کی شادی کی بہترین عمر 18سے 25سال ھے۔ عمر زیادہ ہوجاۓ تو پھر لڑکے والوں کے نخرے شروع ہو جاتے ہیں، لڑکی تو خوبصورت ہے پر عمر زیادہ ھے بچے نہیں ہونگے، ہاتھوں پر بڑھاپے کے اثرات ہیں، سر کے بال سفید ہیں۔ اس کی عمر تو 30 نہی 40 لگتی ھے۔ موٹاپا بھت ہوگیا ہے، یہ تو اماں لگتی ہے اللہ حفاظت فرماۓ طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ بندہ سن کر حیران ہو جاتا ہے۔
زیادہ پیسے والوں کےچکر میں نہ پڑیں... جن کے پاس شادی سے پہلے تو سب کچھ ہوتا ھے۔ خوب سبزباغ دکھاتے ہیں اور شادی کے بعد اچانک حالات خراب ھوجاتے ہیں۔ رشتہ کروانے والے کو دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا ان بیچاروں کے پاس ۔اللہ حفاظت فرماۓ ایسے لوگوں سے۔👏
*میں تمام والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ کوٸی بھی مناسب سا جوڑ دیکھ کر رشتہ طے کردیں۔ اللہ اسی میں برکت عطا۶ فرماۓ گا۔ والدین اپنی ازدواجی محبت بھری زندگی کی شروعات کو یاد کریں اور خدارا اولاد پر ترس کھائیں۔ یہ دنیا جزا سزا کی جگہ نہیں لیکن اگر اللہ آپ کو دکھا دیتا کہ جوان بچی کو گھر بٹھانے اور خاوند سے دور رکھنے کا کتنا بڑا گناہ ہے تو آپ گھر ہی داخل نہ ہوتے جب تک رشتہ تلاش نہ کر لیتے۔ نام نہاد پڑھے لکھے دین سے دور والدین اور نام نہاد ظاہری دین دار حضرات بچیوں کو بٹھاۓ رکھنے کے گناہ عظیم سے توبہ کریں*
No comments:
Post a Comment