اُس شخص نے کار روک کر ایک طرف کھڑی کی اور تیزی سے نیچے اُتر کر کار کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھنا چاہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پتھر مارا کس نے تھا!!پتھر لگنے والی سمت میں اُسکی نظر گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جس کے چہرے پر خوف اور تشویش عیاں تھی۔آدمی بھاگ کر لڑکے کی طرف لپکا اور اُسکی گردن کو مضبوطی سے دبوچ کر دیوار پر لگاتے ہوئے پوچھا؛ اے جاہل لڑکے، تو نے میری کار کو پتھر کیوں مارا ہے؟ جانتے ہو تجھے اور تیرے باپ کو اِسکی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔لڑکے نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے بولا؛ جناب میں نے جو کُچھ کیا ہے اُسکا مجھے افسوس ہے۔ مگر میرے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ میں کافی دیر سے یہاں پر کھڑا ہو کر گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی بھی رُک کر میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لڑکے نے آدمی کو گلی کے وسط میں گرے پڑے ایک بچے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے بتایا؛ وہ میرا بھائی ہے جو فالج کی وجہ سے معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ میں اِسے پہیوں والی کُرسی پر بِٹھا کر لا رہا تھا کہ سڑک پر پڑے ایک چھوٹے گڑھے میں پہیہ اٹکنے سے کُرسی کا توازن بگڑا ا ور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر اتنا چھوٹا ہوں کہ اُسے نہیں اُٹھا سکا۔ میں آپکی منت کرتا ہوں کہ اُسے اُٹھانے میں میری مدد کیجیئے ۔ میرے بھائی کو گرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اِسلئے اب تو مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ اِس کے بعد آپ کار کو پتھر مارنے کے جُرم میں میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے میں حاضر ہونگا۔ آدمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، فورا اُس معذور لڑکے کی طرف لپکا، اُسے اُٹھا کر کرسی پر بٹھایا، جیب میں سے اپنا رومال نکال کر لڑکے کا منہ صاف کیا، اور پھر اُسی رومال کو پھاڑ کر ، لڑکے کو گڑھے میں گر کر لگنے والوں چوٹوں پر پٹی کی۔۔اسکے بعد لڑکے نے آدمی سے پوچھا؛ جی جناب، آپ اپنی کار کے نقصان کے بدلہ میں میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟آدمی نے مختصر سا جواب دیا؛ کچھ بھی نہیں بیٹے، مجھے کار پر لگنے والی چوٹ کا کوئی افسوس نہیں ہے۔آدمی اُدھر سے چلا تو گیا مگر کار کی مرمت کیلئے کسی ورکشاپ کی طرف نہیں، کار پر لگا ہوا نشان تو اُس نے اِس واقعہ کی یادگار کے طور پر ویسے ہی رہنے دیا تھا، اِس انتظار کے ساتھ کہ شاید کوئی اور مجبور انسان اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اُسے ایک پتھر ہی مار دے۔۔۔*****خدشات اور پریشانیوں کے اِس دور میں بسنے والے ہم لوگوں کے اپنے اپنے تحفظات اور اپنی اپنی لا متناہی خواہشات ہیں۔ راحت اور آسائشیں بڑھنے سے فرائض اور واجبات کے ساتھ ساتھ خدا بھی بھُولتا جا رہا ہے۔ صحت و تندرستی، مال و زر اور علم و مرتبہ سے بھرپور پُر مسرت اور پُر سکون زندگیاں تو اور بھی زیادہ شُکر کی مُستحق ہوا کرتی ہیں کہ ہم اِن نعمتوں اور مہربانیوں کے شکرگزار ہوں جو ہم پر برس رہی ہیں مگر غفلت نے ہم پر اور ہماری عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہوتا ہے۔اور پھر کبھی کبھی ناگہانی بیماریاں، مصیبتیں اور پریشانیاں شاید ہماری توجہ نعمتوں کے شُکر کی ادائیگی کیلئے، ہمیں سیدھی راہ پر لوٹانے اور ہمیں نعمتوں کے فضل کا احساس دلانے کیلئے نازل ہو ا کرتی ہیں۔اگر انسان ساری دنیا کی دولت و راحت کما لے مگر اپنے رب سے تعلق اور رابطہ کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ملے گا؟ہم ہزاروں کاموں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ گاڑی کی ضمانت مل جائے، گھر کی ضمانت دے دی جائے، گھر میں موجود ہر راحت و آسانی کی دستیابی کی ضمانت مِل جائے۔۔۔ مگر کیا دائمی زندگی کی بھی کوئی ضمانت ہے؟کچھ اِس طرف بھی توجہ ہے ہماری؟یا کسی پتھر کا انتظار ہے جو ہمیں آ کر لگے اورتب ہی ہم اپنی اِس غفلت سے جاگیں گے؟؟؟
Thursday, October 11, 2012
Tuesday, June 26, 2012
Friday, June 22, 2012
Monday, June 11, 2012
Saturday, June 9, 2012
Friday, June 8, 2012
Zindagi ki Qadr-o-Qeemat
وقت اور زندگی کی قدروقیمت
گرمی کا موسم تھا، ایک شخص دوپہر کو سڑک کے کنارے برف کی ایک سل رکھے پکار رہا تھا "لوگوں مجھ پر رحم کرو، میرا سرمایہ پگھل رہا ہے، وہاں سے ایک صاحب ِ دل گزرے اور جب انہوں نے یہ فریاد سنی ، تو بے ہوش ہو کرگر گئے، جب ہوش میں آئے اور لوگوں نے پوچھا یہ کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ تو فرمایا "میری زندگی کا سرمایہ پگھل رہا ہے (دن گزررہے ہیں) اور مجھے اس کا احساس تک نہیں ہے ، برف والے نے میری باطنی آنکھیں کھول دی ہیں اور مجھے اپنی زندگی کی قدروقیمت کا احساس ہوگیا ہے۔
Thursday, June 7, 2012
Sunday, June 3, 2012
پتھر کا انتظار
ایک متمول کاروباری شخص اپنی نئی جیگوار کار پر سوار سڑک پر رواں دواں تھا کہ دائیں طرف سے ایک بڑا سا پتھر اُسکی کار کو آ ٹکرایا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)