Friday, September 4, 2020

ادلے کا بدلہ

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔

"کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔"

چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔

دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ ۔

"اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔"
خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی
*حـــــــاصـــــــک کـــــــلام​:*
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے.

خاموش دوست

جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا

کبھی  کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , " اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا* 
      *تو آج ہم بھی ... فلاں کی طرح عالیشان گھر , گاڑی میں گھوم رہے ہوتے "*  
    *" کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا " جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں* 

    *" سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے "  انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں* 

    *اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں  , گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر* 
    *خود سُرخرو ہو جاتے ہیں "  ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے , کاروبار کرتے "* 
    *اس میں شک نہیں* 
    *اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے* 
    *جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے* 

    *بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا  پہلا  ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں* 

    *وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک  جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے*      
    
     *جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا  چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی  ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے* 

    *باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے*  
    *اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر*  
    *کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ* 
    *کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا* 

    *نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا ,  سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد* 

    *جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر , دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں* 
    *جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پًوچھ ہی لیں " بیٹا  آپ کے ہاں  گرم پانی آتا ہے ؟ "* 

    *جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ " کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی "* 

    *جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللّه اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے* 
    *تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی , بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا* 

    *ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا*  

    *سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟*  

    *اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں* 

     *یہ ایک عجیب احساس ہے , جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے* 
    *لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں* 

    *اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
 باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا , یہ تو بچپن کی باتیں ہیں* 

    *باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں* 
    *پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ؟* 
    *پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے* 
    *اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا*

    *ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی* 
    *ہر خوائش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے*  

    *لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں*  
    *یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے* 
    *اولاد کے  ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے , اور* 
    *یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے*  
    *جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں*  
    *تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے*  

    *اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے , وقت پر دیکھ لے* 
    *تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا*       

_*ھمیشہ ٹوٹ کے ماں باپ کی کرو خدمت،*_  
*_ھیں کتنی دیر یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم_*                         
_*ان کے ھونے سے بخت ھوتے ھیں،*_ 
_*باپ گھر میں درخت ھوتے ھیں._.... 

اللہ ہم سب کے والدین کو تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرامائے...  
آمین...

جنـــــــرل اور چـــــــرواہـــــــا

یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل 
سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا.

جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا  ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا.

کتا چرواہے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے،دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے،درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے،لیکن پاونڈ کی مالیت تو آدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر  لالچی مسکراہٹ پھیل گئی،اس نے کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا.

جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو  میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں،چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی،جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا.

جنرل چند قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟

جنرل نے انکار میں سر ہلایا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا،تم نے صرف تین پاونڈ کے لئے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی،اس کے ٹکڑے کیا اور چوتھے پاونڈ کے لئے اسے کھانے کے لئے بھی تیار ہو،اور یہی چیز مجھے یہاں چاہئے.

پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.

آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے،اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں.

اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار،ہر قابض،ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے،اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی ہے اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے. 

آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں میں کتنے ہی ایسے 'چرواہے' ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اپنے ہم وطن بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں.

_ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب "لمحات_اجتماعية_من_تاريخ_العراق" سے ماخوذ_

مادری زبان

"مادری زبان میں تعلیم ایسا ہے جیسے بچوں کو بادام سے چھلکا اتار کر بادام کا مغز دیا جائے. جب وہ کھائے گا تو ذائقہ محسوس کرے گا اور شوق سے کھائے گا. کسی اور زبان میں تعلیم دینا ایسا ہے جیسے بچے کو بادام چھلکے سمیت کھلایا جائے. اُسے نہ ذائقے کا پتہ چلے گا اور نہ اُس کے بدن کو فائدہ پہنچے گا. بلکہ وہ چھلکا اُتارنے میں وقت گزارے گا"۔
مولانا ابوالکلام آزاد

Sunday, August 30, 2020

ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﮦ

ﮬﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ۔۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﻭ ﻭﺣﺸﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ ﺷﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺗﺎﺗﺎﺭﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ​ ﺗﮭﯿﮟ، ﺟﻨﮑﻮ ﮐﻮ ﺁﺝ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﻮﻻ، ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮﺩﻭ !
ﺍﻭﺭ ﺟﻼﺩ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺌﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺌﯽ، ﺗﯿﺴﺮﮮ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﮐﯽ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮯﻗﺼﻮﺭ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻏﺮﯾﺐ ﻗﯿﺪﯼ ﺟﻮﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻔﯿﻞ، ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮈﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺻﻔﺎﯾﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ​ ﮔﺮﺯ ﻟﯿﮯ ﺍﭼﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﮟ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﺟﻼﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻭﺍﺭ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ ، ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ​ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ،
ﺟﻼﺩ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﭼﻼ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺭﮮ ﺍﭼﮭﻞ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮐﭧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺟﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﮭﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ؟ ﺍﺱ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺑﮉﮬﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﺗﮏ ﺑﭽﮯ ﮔﺎ ؟
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺟﻼﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮﮐﺮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ، ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮔﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﻼﺩ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﯽ ،
ﺭﮎ ﺟﺎﻭ ! ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ ،
ﺑﺎﺑﺎ ﺑﺘﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ،
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ،
ﺑﺎﺑﺎ ﺍﺏ ﺑﺘﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﻒ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ، ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﻮ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﻭ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻮﺕ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﭽﯽ، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ، ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﺅﮞ​ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﯿﺴﯽ ﺣﺎﻡ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﮩﮑﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺑﮭﻼ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺱ ﻭﺍﺣﺪ ﻻﺷﺮﯾﮏ ﺭﺏ ﭘﺮ ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﺎ، ﻭﮦ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺫﺍﺕ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ،
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮑﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﺯ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﭼﺎﺑﮏ ﺩﺳﺖ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺟﻨﮕﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻻﮎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮔﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮑﮍ ﻟﮯ، ﺍﺳﯽ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﻭﮞ ﺭﮐﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﭘﮍﺍ، ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ، ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﮐﯽ، ﻟﺸﮑﺮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﺳﺮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﭩﺦ ﭘﭩﺦ ﮐﺮ ﺍﺳﻘﺪﺭ ﻟﮩﻮﻟﮩﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﺗﮑﺒﺮ ﺑﮭﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﮩﻨﻢ ﺭﺳﯿﺪ ﮨﻮﮔﺌﯽ ،
ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﺮ ﺑﺮﮮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﻼ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﻮﻓﺰﺩﺍﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺑﺎ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﻭﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﻝ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ٬
ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ !
ﯾﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ۔
*_ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﺍﮐﺒﺮ _*
*_ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﻭﺑﺤﻤﺪﮦ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺍﻟﻌَﻈِﯿﻢ _*

Saturday, August 29, 2020

رشتے

دادا ابو ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ:
دین محمد کے بیٹے کی شادی تھی 
*لیکن دین محمد کا بڑا بھائی کسی بات پر کچھ عرصے سے خفا تھا.*
بیٹے کی شادی قریب آئی تو دین محمد نے اپنے بڑے بھائی کو منانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں.
کیسے ممکن تھا کہ دین محمد کے بیٹے کی شادی میں دین محمد کا بڑا بھائی اور دلہے کا تایا ہی موجود نہ ہو؟
کیونکہ پہلے اس بات کو بہت غلط سمجھا جاتا تھا کہ
جس سے اپنے سگے رشتے نہیں سنبھالے جاتے وہ آنے والے رشتے یا بننے والے رشتے کیا خاک سنبھالے گا؟
🧐
آج کل تو خیر ہم لوگ ماڈرن ہو چکے ہیں اب تو باپ کے بنا بیٹے کی اور ماں کے بنا بیٹی کی بھی شادی ہو جاتی ہے تو پھر باقی رشتے کس کھیت کی مولی ہیں؟
😈⛺😈
دین محمد اپنے بیٹے کو لے کر اپنے بڑے بھائی یعنی دلہا کے تایا کے گھر پہنچ گیا اور منانے کی ہر ممکن کوشش کی.
بڑے بھائی سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی اور پیر پکڑ کر ہر طرح کی منت سماجت بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا.
اگلے روز ہی بارات لے کر لڑکی والوں کی طرف جانا تھا.
جب بڑا بھائی جانے کیلئے تیار نہیں ہوا تو دین محمد نے اپنے بیٹے یعنی دلہے کو بڑے بھائی کے گھر کے باہر ایک دیوار کے ساتھ بٹھا دیا
 اور بڑے بھائی سے یہ کہتے ہوئے واپس پلٹ گیا کہ
"صبح نو بجے بارات کا وقت مقرر ہے اور آپ کے بنا بارات لے کر نہ میں جا سکتا ہوں اور نہ ہی آپ کا بھتیجا اپنے تایا کے بغیر بارات لے کر جانے پر رضا مند ہے.
فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے" .
دین محمد کے جانے کے بعد دلہے کا تایا بار بار گلی میں جھانک کر دیکھتا رہا کہ شاید بھتیجا چلا گیا ہو لیکن بھتیجا جوں کا توں وہاں موجود تھا.

رات کے تین بجے دلہے کے تایا نے اپنے کپڑے بدلے اور اپنا حقہ ہاتھ میں لے کر گلی میں پہنچا.
اپنے بھتیجے کا ہاتھ پکڑ کر کہا چل یار چلتے ہیں. 
*تیرا باپ تو ویسے بھی پاگل ہے.*
تایا اور بھتیجا شادی والے گھر پہنچے تو سب نے استقبال کیا اور دین محمد نے پوچھا کہ بھائی جان آ گئے آپ؟
جواب ملا کہ
کیسے نہ آتا؟
لڑکی والے کیا سوچتے کہ دلہے کا تایا بارات میں کیوں نہیں آیا اور ایسے خاندان کی بدنامی ہوتی اور اوپر سے تم دلہے کو گلی میں بٹھا کر چلے گئے تھے.
یوں ہنسی خوشی یہ شادی اپنے اختتام کو پہنچی.
رشتے اس طرح جوڑے جاتے ہیں.
یہ مقام ہوتا ہے رشتوں کا.
مگر خیر چھوڑیں ہم تو ماڈرن ہیں.
نئے زمانے کے لوگ ہیں.

Thursday, August 27, 2020

استاد استاد ہی ہوتا ہے

​​کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اسنے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دئیے لیکن ایک نہ سکھایا۔ ​شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ بڑ ماری کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فن پہلوانی اور شہ روزی میں نہیں۔ اگر بادشاہ چاہے تو میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​ بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔​ وقت مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا ، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​ استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو فیل کردیا۔ آخر کار وہی پوشیدہ داؤ آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے جا کر زمین پر پٹخ دیا۔ شاگرد چاروں شانے چت گرا۔ استاد سینہ پر آن بیٹھا۔ ​لوگوں نے واہ واہ کا شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی کہا۔ "او ناہجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ ؟ "​ شاگرد نے جواب دیا۔" استاد مجھ سے طاقت میں نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ بار کےکہنے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ "​استاد نے جواب دیا۔" یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقت دشمنی نقصان پہنچائے۔"​

*سبـــــــق:*
*ہر شخص اپنےمحسن کو زک پہنچانےکی کوشش کرتا ہے
اسلیے 
*اپنے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی گر سنبھال کر رکھنا لازمی ہے

Tuesday, August 25, 2020

مٹتا ہوا لاہور

لاہور جو ایک شہر تھا۔۔۔۔۔

لاہور 
ناشپاتیوں، سنگتروں، مٹھوں، آڑوؤں، اناروں اور امرودوںکے باغات میں گھرا ہوتا تھا۔ 

موتیے اور گلاب کے کھیت عام تھے۔ 

حتیٰ کہ سڑکوں کے اطراف بھی گلاب اُگے ہوتے، 
جنہیں لاہور کے گردا گرد چلنے والی نہر سیراب کرتی۔ 

گلاب کے پھول لاہور سے دہلی تک جاتے۔ 

صحت بخش کھیلوں اور سرگرمیوں کا رواج تھا۔ 

نوجوان رات دس گیارہ بجے تک گتکا سیکھتے۔ 

اسکولوں میں گتکے کا باقاعدہ ایک پیریڈ ہوتا۔ 

تب شیرانوالا کے حاجی کریم بخش لاہور کے مشہور گتکاباز تھے، 
اور گورنمنٹ کنٹریکٹر موچی دروازہ کے میاں فضل دین مشہور بٹیرباز۔ 

تقریبات کو روشن کرنے کے لیے حسّا گیساں والا بھی لاہور کی معروف شخصیت تھے۔ 

خوشی، غمی، جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات حسّا گیساں والے کے گیسوں سے جگمگ کرتیں۔ 

شادی کی رونق سات سات دن جاری رہتی۔ 

لاہور میں بناسپتی گھی رائج ہوا تو بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے، وہ بھی چھپ کر۔ 

کوئی شادی پر بناسپتی گھی استعمال کرتا تو برادری روٹھ جاتی۔ 

جب چائے کا عادی بنانے کے لیے لپٹن والوں نے لاہور میں گھر گھر پکی ہوئی چائے مفت بانٹنا شروع کی 
تو ساندہ کی عورتوں نے چائے بانٹنے والے سکھ انسپکٹر کی پٹائی کردی۔ 

تعلیم کی طرف رجحان کا یہ عالم تھا کہ ماسٹر گھر گھر جاکر منتیں کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرائو۔ 

صدی پون صدی قبل کے لاہور کا یہ ماحول 
تین بزرگ لاہوریوں 
موچی دروازہ کے حافظ معراج دین، 
شیرانوالا اور فاروق گنج کے مستری محمد شریف 
اور ساندہ کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک نے 
ماہنامہ آتش فشاں کے ایڈیٹر منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے ان انٹرویوز میں بیان کیا ہے 

جو کتاب ''مٹتا ہوا لاہور'' میں شائع ہوئے ہیں۔

 ایک سو سات برس قبل 
24 فروری1911ء کے روز 
سرآغاخاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے جلسۂ تقسیم انعامات کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو لاہوریے ایک پُرجوش اور پُرہجوم جلوس کی صورت میں انہیں ایمپریس روڈ پر نواب پیلس میں لائے۔ 

ان کی آمد سے پہلے ان پر برسانے کے لیے پھول اکٹھا کیے گئے 
تو لاہور کے کھیت ویران ہوگئے اور پھول دوسرے شہروں سے منگوانا پڑے۔ 

یہی صورت 21 مارچ 1940ء کو پیش آئی 
جب قائداعظمؒ لاہور سیشن میں شرکت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو دوسرے شہروں سے بھی پھول منگوائے گئے۔ 

تب لاہور اگرچہ سیاسی، سماجی اور روایتی جلسوں جلوسوں سے زبردست رونق دار تھا، 
پھر بھی اس کا سکون، خاموشی اور ٹھیرائو مثالی تھا۔

 ''مٹتا ہوا لاہور'' کے ان انٹرویوز کے مطابق شیر چڑیا گھر میں دھاڑتا 
تو اس کی گرج لاہور میں گونجتی۔ 

شہر اس قدر کھلا کھلا تھا 
کہ موچی دروازہ سے مزار داتا صاحبؒ اور مزار شاہ ابوالمعالی ؒ صاف نظر آتے 
اور لوگ موچی دروازہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی دعا مانگ لیا کرتے۔

 بعض جگہوں اور تقریبات کے ناموں میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔

 چڑیا گھر کو چڑی گھر کہتے تھے۔ 

کوٹ خواجہ سعید کا نام کوٹ خوجے سعید تھا۔ 

دسویں محرم یا یومِ عاشور کو گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

عید میلاد النبیؐ بارہ وفات کہلاتی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں کہ اس روز جلوس نکالنے کا فیصلہ 
میں نے، نعمت کدہ کے مہر بِسّا اور مولانا محمد بخش مسلم نے کیا تھا۔ 

پہلا جلوس 1933ء میں نکلا۔ 

اس سے پہلے لاہور کی مساجد میں چنوں پر ختم ہوتا۔ 

باہر بچے کھڑے ہوتے جو نمازیوں کے باہر آنے پر آوازیں لگاتے:''میاں جی چھولے، میاں جی چھولے''۔ 
وہ چنے ان میں بانٹ دیے جاتے۔ 

مستری محمد شریف کہتے ہیں کہ جلوسِ عید میلادالنبیؐ میں لوگ گڈوں پر ہوتے یا پیدل۔ 

پچاس ساٹھ نوجوان گھڑ سوار برجسیں اور سبز پگڑیاں پہنے آگے ہوتے۔ 

ان کے پیچھے گتکا کھیلنے والے۔ 

پھر نعت خواں۔ 

آخر میں بینڈ والے۔ 

مستری صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں مسلمانوں کے صرف تین مذہبی جلوس نکلتے تھے۔ 

عید میلادالنبیؐ، بڑی گیارہویں شریف اور دسویں محرم کے روز، 
جسے گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

اُس وقت کسی کو پتا نہیں تھا شیعہ سنی کا۔ 
خلقت امڈ کے آتی تھی۔ 

سنی گھوڑا تیار کرتے، سبیلیں لگاتے، کھانے پکاتے، روشنی کا انتظام کرتے، 

شیرانوالا اسکول کے ڈرل ماسٹر اور 
لاہور کی پہلی مگر خاموش فلم ''ڈاٹرز آف ٹوڈے'' 
عرف آج کی بیٹیاں کے ہیرو 
ماسٹر غلام قادر سنی تھے، 
لیکن گھوڑے کے جلوس کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان لے کے چلتے۔ 

تب لاہور میں بھائی چارہ اور محبت بھرے رویّے عام تھے۔ ا

یک کی بیٹی سب کی بیٹی، 
ایک کا داماد سارے محلے کا داماد۔ 
دکھ اور خوشیاں سانجھی۔ 

مستری شریف نے گلوگیر لہجے میں کہا: 
اب وہ وقت نہیں آئیں گے 
جب کالیے دے کھو پر 
سویرے سویرے وارثی دیوانہ گاتا
''میرے اللہ کریو کرم دا پھیرا'' 
تو لوگوں کے آنسو نکل آتے۔ 

اس کی آواز دور دور تک جاتی۔ 

لال آندھی چلتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ 

مستری صاحب لاہور میں نورجہاں جب وہ بے بی نورجہاں تھی، کے ذکر میں کہتے ہیں 
کہ وہ کالے کپڑے پہن کر 
نگار سنیما کے اسٹیج پر نعت گاتی 
تو فوٹوگرافر محمد بخش اس پر لال، نیلی، پیلی لائٹیں مارتا۔ 

محمد بخش کی شکل جارج پنجم پر تھی۔ 
جب جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اسکول کے ہر بچے کو دیسی گھی کے سواسواسیر لڈو دیے گئے۔

لاہور کی ثقافتی اور روایتی صورت اس قدر بدل چکی ہے 
کہ برانڈ رتھ روڈ کیلیاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ 

بہ قول محمد دین فوق '' یہ کیلے کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی۔ 

رات تو رات دن میں بھی کسی اکیلے دُکیلے آدمی کا یہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا''۔ 

شیخ عبدالشکور کہتے ہیں: 
''انارکلی بازار میں نیچے دکانیں تھیں، 
اوپر طوائفوں کے بالا خانے تھے۔ 
بعد میں وہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ 

شاہ محمد غوث کے سامنے جہاں اب وطن بلڈنگ ہے، 
وہاں عمدہ ناشپاتیوں کا باغ تھا''۔ 

اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں چندے کھولنے میں مشہور تھے۔ 
اخبار وطن میں 1902ء میں انہوں نے حجاز ریلوے کے لیے چندہ کھولا 
کہ لاہور سے مدینہ منورہ تک ٹرین چلائی جائے گی۔ 
ٹرین تو نہ چلی، وطن بلڈنگ بننا شروع ہوگئی۔ 

لاہوریے پوچھتے تو انہیں جواب ملتا: 
پہلے ریلوے اسٹیشن تو بن جائے، پھر ٹرین بھی چل جائے گی۔ 
جو آج تک نہیں چلی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں: ''جو دو روپے چندہ دیتا، رئیس سمجھا جاتا''۔

دہلی دروازے کے باہر 
ہر اتوار کو گھوڑوں اور گدھوں کی منڈی لگتی۔ 
نیلامی ہوتی۔ 
اندھا گدھا کم قیمت پر بکتا۔ 

یہیں لاہور کی ککے زئی برادری کے ایک بڑے خان بہادر ملک نذر محمد کا گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ 

خاں بہادر نذرمحمد انسانی حقوق کی معروف علَم بردار عاصمہ جہانگیر کے دادا تھے۔ 

وہ اپنے دور میں لاہور کی ایک خوشحال اور بڑی معزز و معتبر شخصیت تھے۔ 

انہیں انگریز نے منٹگمری (اب ساہی وال) میں گھوڑی پال مربعے دیے تھے۔ 

وصیت کے مطابق انہیں قبرستان شاہ محمد غوثؒ میں دفن کیا گیا۔ 

یہاں پنجاب کے سرسید ڈپٹی برکت علی، خواجہ عبدالعزیز ککڑو، ہندو بیرسٹر دیناتھ سمیت 
بڑی نامور شخصیات بھی دفن ہیں 

یہ تاریخی قبرستان دن دہاڑے اس طرح ختم کردیا گیا ہے 
کہ اس کے اوپر لینٹل ڈال کر مسجد وہاں تک پھیلا دی گئی ہے۔ 

قبرستان تک جانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا۔

 ان کئی جگہوں کا ذکر بھی ہے 
جو عدم توجہی سے برباد ہوگئیں یا ہورہی ہیں۔ 

مثلاً شادی لال بلڈنگ، 
برکت علی محمڈن ہال، 
لاہور کا پہلا سنیما پاکستان ٹاکیز، 
علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اورپاکستان کی نسبت سے صنوبر سنیما اور یونیورسٹی گرائونڈ وغیرہ وغیرہ۔ 

تاریخی یونیورسٹی گرائونڈ جہاں قائداعظمؒ نے لاہور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا، 
اسپورٹس کے حوالے سے بھی ایک یادگار جگہ ہے، 
جو اورنج لائن میٹرو پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 

اسی طرح موج دریا روڈ پر جہاں انکم ٹیکس ہائوس ہے 
وہاں مہاراجا کپورتھلہ کا پُرشکوہ محل تھا۔ 

30جنوری1884ء کو سرسید احمد خاںؒ لاہور آئے 
تو اسی مکان میں ٹھیرے۔ 

لاہوریوں کو ''زندہ دلانِ لاہور'' کا لازوال خطاب سرسیدؒ ہی نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران میں دیا تھا۔

1926ء میں علامہ اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے لیے کھڑے ہوئے 
تو لاہور ''پتلون پوش ولی کو ووٹ دو'' کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 

جیت کے بعد لاہوریوں نے علامہ کے اعزاز میں موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں جلسۂ عام کیا۔  

اگلی صف میں رستم زماں گاماں پہلوان کو بیٹھا دیکھ کر علامہ نے اسے بھی تقریر کی دعوت دے دی۔ 

موچی دروازے کی اجڑی اور مٹتی ہوئی اس جلسہ گاہ کے ذکر میں 
جنرل ایوب کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی امیدوار تھیں۔ 

موچی دروازے کی اسی جلسہ گاہ میں مادرملتؒ کے مقابلے میں اتنا بڑاجلسہ آج تک نہیں ہوا۔ 

جلسہ گاہ میں ان کی آمد پر لاہوریوں نے پُرزور اور پُرجوش آتش بازی بھی کی۔ 

کتاب کے مؤلف منیر احمد منیر نے موچی دروازے کے ایک ایسے جلسۂ عام کا بھی چشم دید احوال بیان کیاہے 
جس میں ایک بھی سامع نہ تھا۔

لاہور کے تاریخی دنگلوں، پہلوانوں، غنڈوں، سیاسی و سماجی تحریکوں اور ان کے نمایاں کرداروں کے علاوہ 
لاہور کی کئی قدیمی ہندو شخصیات کے ذکر میں 
بیلی رام تیل والا کی غنڈہ گردی 
اور ساہوکاربلاقی شاہ کی سودخوری کے واقعات بھی دیے گئے ہیں

کہ ممتاز دولتانہ کے والد احمد یار خاں دولتانہ اور مالیرکوٹلہ کے وزیراعظم نواب ذوالفقار علی خاں تک 
اس کے مقروض تھے۔

 اور اس ہندو سرمایہ دار لچھے شاہ کے اعلانِ پاکستان کے بعد 
دیے گئے اس چیلنج کی تفصیل بھی درج ہے 

کہ ''جو شاہ عالمی کو آگ لگائے گا میں اسے بیٹی کا ڈولا دوں گا''۔

 حافظ معراج دین کہتے ہیں:

مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے جواب میں موچی دروازے والوں نے شاہ عالمی جلادیا 
لیکن ہم نے اس کی بیٹیوں کی پوری حفاظت کی۔ 

مستری محمدشریف کہتے ہیں: 

ہندو عورتیں ساڑی پہنتی تھیں۔ مسلمان عورت کی شناخت برقع تھی۔ 

لاہور حیاداری سے اس قدر اٹااٹ تھا کہ رات تک نوجوان لڑکے لڑکیاں لاہور کے سرکلر گارڈن میں کھیلتے۔ 

کوئی لڑکا لڑکی کی طرف بری نظر سے نہ دیکھتا۔ 

پھل دار درختوں اور پھول دار پودوں سے بھرے ہوئے اس تاریخی باغ میں 
رات دس گیارہ بجے تک میں نوجوانوں کو گتکا سکھاتا۔ 

ہریالی اس قدر تھی کہ شیرانوالہ سے ہم داتا صاحبؒ حاضری کے لیے جاتے 
تو سڑک کو شیشم کے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا۔ ہم راستہ چھائوں ہی میں طے کرتے۔ 

اب وہ دور نہیں آئے گا۔ 
جب کھوٹ ملاوٹ کا کسی کو پتا ہی نہ تھا۔ جان و مال محفوظ تھی۔ 
زیورات سے لدی عورت کلکتے سے پشاور تک اکیلی جاتی، 
کوئی اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتا نہ تھا۔

"مٹتا ہوا لاہور" سے کچھ یادیں

سچا شریک حیات

ایک مرد و عورت کی شادی ہوئی اور انکی زندگی ماشاءاللہ خوشیوں سے بهری تهی.
شوہر ایک دن بیوی سے: تم نے آج نماز نہیں پڑھی۔۔؟؟
بیوی: میں تھک گئی تھی، اس لیے نہیں پڑهی، صبح پڑھ لوں گی۔۔
شوہر کو یہ بات بری لگی مگر اس نے بیوی سے کچھ نہ کہا. خود نماز پڑهی تلاوت کی اور سو گیا.

شوہر دوسرے دن بیوی کے اٹهنے سے پہلے ہی نماز پڑھ کر دفتر کیلئے نکل گیا۔۔
بیوی اٹهی۔ شوہر کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئی کہ اس سے پہلے ایسا کبهی نہیں ہوا۔ پریشانی ک عالم میں شوہر کو فون کیا لیکن کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ بار بار کال کی مگر جواب ندارد۔
بیوی کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تهی۔ کچھ گھنٹے بعد کال کی تو شوہر نے اٹینڈ کی۔
بیوی نے ایک سانس میں نہ جانے کتنے سوال کر دیے.
کہاں تھے آپ۔۔؟
 کتنی کالز کی میں نے جواب نہیں دے سکتے تهے۔ پتہ ہے یہ وقت مجھ پہ کیسے گزرا.۔۔ آپ کو ذرا خیال نہیں. کم سے کم بتا تو سکتے تهے.
 شوہر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی کہ تهکا ہوا تها اس لیے لیٹ گیا تو نیند آگئی۔۔
بیوی: دو منٹ کی کال کر کے بتا دیتے تو کتنی تهکاوٹ بڑھ جاتی۔ آپکو مجھ سے ذرا پیار نہیں.

شوہر نے تحمل سے جواب دیا: کل آپ نے بھی تو اس پاک ذات کی کال کو نظرانداز کیا..
کیا آپ نے حی علی الفلاح کی آوازسنی تهی۔۔؟؟ وہ خدا کی کال تهی جو آپ نے تهکاوٹ کی وجہ سے نہیں سنی۔ اس وقت بهی 5 منٹ کی بات تهی.نماز پڑھنے سے آپ کی تهکاوٹ کتنی بڑھ جاتی.؟؟
 کیا آپکو اپنے اس پروردگار سے اتنا پیار بهی نہیں جس نے آپکو سب کچھ دیا. کیا پروردگار کو یہ بات پسند آئی ہو گی.

بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور روتے ہوئے بولی:
 مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں سمجھ گئی ہوں۔ میں سچے دل سے استغفار کرتی ہوں۔ میرے پروردگار مجهے معاف فرما۔ 

سچا شریک حیات وہی ہے جو آپ کو دنیاوی تحفظ اور خوشیوں کے ساتھ کے آخرت میں  بهی سرخرو کروائے اور آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ کو بھٹکنے سے بچائے.
اللہ تعالی ہم سب کو نماز پڑهنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین یارب العالمین

*حقیقی نوٹ:*
اس پوسٹ نے میری زندگی بدل دی۔ میں ساری رات سوچتا رہا کہ میرے رب کو کتنا برا لگتا ہوگا کہ میرا تخلیق کیا گیا بندہ، میرے ہی بلاوے کو نظر انداز کر رہا ہے۔۔
اللّٰہ تعالیٰ میری غلطیوں کو معاف فرمائے۔۔ 

کمال کیا ہے....؟؟؟

👈 _ایک_فارســـــــی_حـــــــکایت_ 👉


ابوسعید ابوالخیر* سے کسی نے کہا؛ 
''کیا کمال کا انسان ھو گا وہ جو ھوا میں اُڑ سکے۔''

ابوسعید* نے جواب دیا؛ 
''یہ کونسی بڑی بات ھے، یہ کام تو مکّھی بھی کر سکتی ھے۔''

''اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے اُس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ھے؟

''یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ھے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ھے۔''

ؔؔ''تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ھے؟''

''میری نظر میں کمال یہ ھے کہ لوگوں کے درمیان رھو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔
جھوٹ کبھی نہ کہو، کسی کا تمسخر مت اُڑاؤ، کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ، یہ کمال ھیں۔

یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے، یہ کافی ھے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی رائے قائم نہ کریں۔

یہ لازم نہیں ھے کہ ھم ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کریں، یہ کافی ھے کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ ھم دوسروں کی اصلاح کریں، یہ کافی ھے کہ ھماری نگاہ اپنے عیوب پر ھو۔

حتّیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ھم ایک دوسرے سے محبّت کریں، اتنا کافی ھے کہ ایک دوسرے کے دشمن نہ ھوں۔

دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ھے۔''