Thursday, August 27, 2020

استاد استاد ہی ہوتا ہے

​​کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اسنے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دئیے لیکن ایک نہ سکھایا۔ ​شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ بڑ ماری کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فن پہلوانی اور شہ روزی میں نہیں۔ اگر بادشاہ چاہے تو میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​ بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔​ وقت مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا ، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​ استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو فیل کردیا۔ آخر کار وہی پوشیدہ داؤ آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے جا کر زمین پر پٹخ دیا۔ شاگرد چاروں شانے چت گرا۔ استاد سینہ پر آن بیٹھا۔ ​لوگوں نے واہ واہ کا شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی کہا۔ "او ناہجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ ؟ "​ شاگرد نے جواب دیا۔" استاد مجھ سے طاقت میں نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ بار کےکہنے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ "​استاد نے جواب دیا۔" یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقت دشمنی نقصان پہنچائے۔"​

*سبـــــــق:*
*ہر شخص اپنےمحسن کو زک پہنچانےکی کوشش کرتا ہے
اسلیے 
*اپنے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی گر سنبھال کر رکھنا لازمی ہے

No comments:

Post a Comment