جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے
شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے گلہ کیا کہ میرے پاس جوتا نہیں ہے - آگے جا کے دیکھا تو ایک آدمی کی ٹانگیں ہی نہیں - اس آدمی نے فوری طور پر شکر ادا کیا - کمال کی بات تو یہ ہے کہ جوتوں کا گلہ کرنے والا جوتے کے بغیر ہی شکر کر گیا - یہ حسن_نظر ہے ! اسے پتہ چلا کہ جس بات کا مجھے گلہ تھا وہ بات تو شکر والی تھی_______
آپ بھی یاد رکھنا! زندگی میں جہاں جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے - زندگی میں جہاں آپ کو رکاوٹیں ہیں وہی شکر کی انتہا تھی - آپ جس مقام پر ناراض ہوں، وہ شکر کا مقام ہے - اس لیے دنیادار کے لئے جہاں صبر کرنے کا حکم ہے تو وہاں اپنے بندوں کو شکر کرنے کا حکم ہے - جب دنیا دار کے ساتھ حادثہ ہو جائے ہم کہتے ہیں صبر کرو، صبر کرو، غم کے دن کٹ جائیں گے - اور اگر اپنا بندہ ہو تو کہیں گے شکر کر کہ اللہ کے قریب ہونے کی چٹھی آ گئ ہے اور اس کے قریب ہونے کے زمانے آ گئے ہیں - اس لیے فضل کا متلاشی بن جانا ہی فضل کی ابتدا ہے اور یہی اس کی انتہا ہے - اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ مرتے دم تک اس کلمے سے رشتہ نہیں توڑیں گے تو کلمہ تجھے کب چھوڑے گا - اب یہ آپ کو کیوں چھوڑے گا کیونکہ آپ نے نہیں چھوڑا تو یہ کیسے چھوڑے گا - اگر آپ وفا کی ابتدا کریں تو ادھر سے وفا ہی وفا ہے - آپ جب مان جائیں تو سمجھنا کہ آپ ادھر سے مانے گئے - جب آپ اس طرف چل پڑے تو سمجھ لو کہ منزل نے اجازت دے دی - اس سفر پر کوئی مسافر اس وقت تک نہیں جا سکتا جب تک منزل خود نہ پکارے اس لئے آپ لوگوں کو صداقت اور نیکی کا سفر کرنے کی جو خواہش ہے یہ سمجھو کہ اس طرف سے منظوری کا اعلان ہے - جس کو منظور نہیں کیا جاتا اس کو یہ شوق ہی نہیں ملتا۔
حضرت واصف علی واصف رح
کتاب۔ گفتگو 4
No comments:
Post a Comment