Saturday, February 20, 2021

قران کے 101 مختصر پیغامات


1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83
2  غصے کو قابو میں رکھو، سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134
3  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،  سورۃ القصص، آیت نمبر 77
4  تکبر نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر 23 
5  دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، سورۃ النور، آیت نمبر 22
6  لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو، سورۃ لقمان، آیت نمبر 19
7  اپنی آواز نیچی رکھا کرو، سورۃ لقمان، آیت نمبر 19
8  دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11
9  والدین کی خدمت کیا کرو، سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23
‏10  والدین سے اف تک نہ کرو،  سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23
11  والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،  سورۃ النور، آیت نمبر 58
12  لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282
13  کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،  سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36
14  اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280
15  سود نہ کھاؤ،  سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278
16  رشوت نہ لو،  سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42
17  وعدہ نہ توڑو،  سورۃ الرعد، آیت نمبر 20
‏18  دوسروں پر اعتماد کیا کرو،  سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
19  سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42
20  لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،  سورۃ ص، آیت نمبر 26
21  انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،  سورۃ النساء، آیت نمبر 135
22  مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 8
23  خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں، سورۃ النساء، آیت نمبر 7
24  یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 2
‏25  یتیموں کی حفاظت کرو،  سورۃ النساء، آیت نمبر 127 
26  دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 6
27  لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10
28  بدگمانی سے بچو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
29  غیبت نہ کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
30  جاسوسی نہ کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
31  خیرات کیا کرو، سورۃ البقرة، آیت نمبر 271
32  غرباء کو کھانا کھلایا کرو سورة المدثر، آیت نمبر 44
33  ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو، سورة البقرۃ، آیت نمبر 273
34  فضول خرچی نہ کیا کرو،سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67
‏35  خیرات کرکے جتلایا نہ کرو، سورة البقرۃ، آیت 262
36  مہمانوں کی عزت کیا کرو، سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27
37  نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44
38  زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو، سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36
39  لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو، سورة البقرة، آیت نمبر 114
40  صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں، سورة البقرة، آیت نمبر 190
41  جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو، سورة البقرة، آیت نمبر 190
‏42  جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ، سورة الأنفال، آیت نمبر 15
43  مذہب میں کوئی سختی نہیں، سورة البقرة، آیت نمبر 256
44  تمام انبیاء پر ایمان لاؤ، سورۃ النساء، آیت نمبر 150
45  حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو، سورة البقرة، آیت نمبر، 222
46  بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ، سورة البقرة، آیت نمبر، 233
47  جنسی بدکاری سے بچو، سورة الأسراء، آیت نمبر 32
48  حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247
49  کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، سورة البقرة، آیت نمبر 286
50  منافقت سے بچو، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  14-16
‏51  کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو، سورة آل عمران، آیت نمبر 190
52  عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے، سورة آل عمران، آیت نمبر 195
53  بعض رشتہ داروں سے  شادی حرام ہے،  سورۃ النساء، آیت نمبر 23
54  مرد خاندان کا سربراہ ہے،  سورۃ النساء، آیت نمبر 34
55  بخیل نہ بنو، سورۃ النساء، آیت نمبر  37
56  حسد نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 54
57  ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر  29
58  فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر  135
‏59  گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  2
60  نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2
61  اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  100
62  صحیح راستے پر رہو، سورۃ الانعام، آیت نمبر  153
63  جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  38
64  گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو، سورۃ الانفال، آیت نمبر  39
65  مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3
‏66  شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90
67  جوا نہ کھیلو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90
68  ہیرا پھیری نہ کرو، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر  70
69  چغلی نہ کھاؤ، سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر  1
70  کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو، سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31
71  نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو، سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31
72  آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  6
73  طہارت قائم رکھو، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  108
74  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،  سورۃ الحجر، آیت نمبر  56
‏75  اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے، سورۃ النساء، آیت نمبر  17
76  لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ، سورۃ النحل، آیت نمبر  125
77  کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، سورۃ فاطر، آیت نمبر  18
78  غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر  31
79  جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر  36
‏80  کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)، سورۃ الحجرات، آیت نمبر  12
81  اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو، سورۃ النور، آیت نمبر 27
82  اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے، سورۃ یونس، آیت نمبر 103
83  زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو، سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63
84  اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔ سورة توبہ، آیت نمبر 105
85  اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، سورۃ الکہف، آیت نمبر  110 
‏86  ہم جنس پرستی میں نہ پڑو، سورۃ النمل، آیت نمبر 55
‏87  حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو، سورۃ توبہ، آیت نمبر 119
88  زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو، سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37
89  عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں، سورۃ النور، آیت نمبر 31
90  اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، سورۃ النساء، آیت نمبر 48
91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو، سورۃ زمر، آیت نمبر  53
92  برائی کو اچھائی سے ختم کرو، سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34
93  فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو، سورۃ الشوری، آیت نمبر 38
‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13
95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔ سورۃ الحدید، آیت نمبر 27
96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے، سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11
97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ، سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8
98 خود کو لالچ سے بچاؤ، سورۃ النساء، آیت نمبر 32
99  اللہ سے معافی مانگو  وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  199
100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو، سورۃ الضحی، آیت نمبر  10
101  مجرموں پر ترس نہ کھاؤ. انہیں سر عام سزائیں دیا کرو۔ سورة نور، آیت نمبر 2

اللّہ اس پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

آئینہ برآمدے والا!

وہ بڑے غور سے اپنے قدموں کی جانب دیکھ رہا تھا کہ یک دم دروازہ کھلنے کی آواز پر  چونک کر مڑا۔  اسی لمحے اس کے قدموں کے نیچے ایک دھماکا ہوا  اور وہ اچھل کر کئی قدم دور ہٹتا چلا گیا۔ زمین پر موجود آئینہ کرچی کرچی ہوچکا تھا۔
آج اتوار کا دن تھا۔  امی ابو کواچانک کسی سلسلے میں گاؤں جانا پڑا تھا، اس لیے سعد آج صبح سے ارسلان بھائی کا دماغ چاٹ رہا تھا۔ عمر میں کافی فرق ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ وقت اکٹھے نہیں گزرتا تھا۔ ارسلان بھائی عام طور پر اپنی چھوٹی سی لائبریری میں کمپیوٹر پر  مصروف رہتے ۔ لیکن آج امی نے ان کے ذمے سعد کو سنبھالنے کا کام لگایا تھا، چنانچہ سعد کو بھی بھائی جان سے خوب باتیں کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ 
"بھائی ایک بات تو بتائیے، ہم آئینے میں الٹے دکھتے ہیں نا؟ یعنی دائیں کی جگہ بایاں اور بائیں کی جگہ دایاں؟"  وہ صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے جب اس نے سوال کیا۔
"ہاں، دکھتے تو الٹے ہی ہیں۔" ارسلان بھائی نے کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔ 
"تو پھر دائیں بائیں کا فرق کیوں ہے؟  پاؤں کی جگہ سر اور سر کی جگہ پاؤں کیوں نہیں   نظر آتے؟" اس نے بال ان کی طرف پھینکتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
 اس بار سوچ کا وقفہ لمبا تھا۔
"بات تو تمہاری ٹھیک ہے یار۔۔۔  چلو آؤ دیکھتے ہیں۔"    وہ برامدے میں لگے آئینے کے سامنے آکر رکے اور مختلف زاویوں سے اس کے اندر جھانکنا شروع کیا، لیکن کچھ بھی سمجھ نہ آیا۔
"اچھا تم ایسا کرو، پودوں کو پانی دو۔۔۔ میں اتنی دیر اس کا جواب تلاش کرتا ہوں۔" انہوں نے چند منٹ بعد سعد سے کہا اور وہ سر ہلاتا ہوا بالٹی اٹھا کر صحن میں رکھے گملوں کی جانب بڑھ گیا۔
سعد پودوں کو پانی دے کر واپس آیا تو ارسلان بھائی اپنی لائبریری سے نکل رہے تھے۔  ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اس سوال کا جواب تلا ش کر چکے تھے۔
"بھائی جان ، دے دیا پودوں کو پانی۔۔۔ اب بتائیے نا جواب؟!" اس نے انہیں دیکھتے ہی بے تاب لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں، بتاؤں گا۔۔۔ لیکن پہلے تمہیں تین عدد تجربے کرنے ہوں گے ۔ ان تجربات کی مدد سے ہی تم اس جواب کو سمجھ سکتے ہو۔  تجربات کی تفصیل میں نے لکھ  دی ہے۔ بہت آسان سا کام ہے۔ تم یہ تینوں تجربات مکمل کر کے ان کے نتائج نوٹ کر لو، میں اتنی دیر میں کھانے کے لیے کچھ لے آتا ہوں۔" ارسلان بھائی نے  ایک کاغذ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
اب  سعد کے تجربات شروع ہوئے۔ پہلا کام آسان تھا۔ صرف ایک ہلکے کاغذ پر بال پوائنٹ پین سے اپنا نام لکھ کر آئینے میں ان کا عکس دیکھنا تھا۔
 دوسرے تجربے میں اس نے اپنے  دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں ہاتھ پر "بایاں" لکھا اور پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمتوں میں حرکت کو نوٹ کیا۔ ارسلان بھائی کی ہدایات کے مطابق وہ ساتھ ساتھ اپنے موبائل سے تصویریں بھی لے رہا تھا۔
 اس کے بعد باری آئی تیسرے تجربے کی۔ اس نے آئینے کو دیوار سے اتار کر زمین پر رکھا اور اس پر کھڑا ہوکر  اپنے پاؤں کی طرف دیکھنے لگا۔ ۔۔  یہی وہ لمحہ تھا جب دروازہ دھڑ سے کھلا تھا اور  ارسلان بھائی کھانے کا سامان اٹھائے اندر داخل ہوئے تھے ۔ اور اسی لمحےسعد کے  ایک دم مڑنے سے اس کے پاؤں کے نیچے موجود آئینہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔
"ارے واہ ! اسے کہتے ہیں علم حاصل کرنے کے لیے خون پسینہ بہانا۔" ارسلان بھائی نے س کے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"خخ۔۔۔خون  ؟ کہاں بہہ رہا ہے خون ؟ " سعد نے بوکھلا کر  اپنے پاؤں کی جانب دیکھا۔ 
"ہاہاہا۔۔۔ابھی نہیں، لیکن شاید جلد ہی بہے گا جب امی ابو کو پتا چلے گا  ۔ابھی پچھلے ہفتے ہی تو خریدا تھا یہ آئینہ۔۔۔ اور امی کو بہت پسند بھی تھا ۔" ان کا لہجہ اچانک شرارتی ہوگیا تھا۔
"لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ آپ نے ہی مجھے یہ تجربہ کرنے کے لیے کہا تھا۔" سعد نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"ہاں، لیکن آئینے پر کھڑے ہوکر اچھلنے کے لیے تو میں نے نہیں کہا تھا۔یہ تو تمہارے ہی کرتوت ہیں۔اب شام کو امی کو بھی تم خود ہی بتانا۔۔۔ اچھا چلو آؤ کھانا تو کھائیں۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔"  ارسلان بھائی نے فرش سے کرچیاں اکٹھے کرتے ہوئے سعد کی روہانسی حالت دیکھ کربات بدل دی۔ 
"اچھا یہ بتاؤ تینوں تجربات مکمل ہو گئے تھے؟ اور کوئی نتیجہ نکالا تم نے؟" کھانے کے دوران انہوں نے پوچھا۔
"جی تجربات تو ہوگئے تھے، میں نے تصاویر بھی لے لی تھیں، لیکن مجھے ان کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی۔" سعد کے لہجے میں الجھن تھی۔
"اچھاچلو، میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ پہلے تجربے میں تم نے  ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر آئینے میں اس کا عکس دیکھنا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر ہلکا کاغذ استعمال کرنے اور بال پوائنٹ سے لکھنے کا کہا تھا۔ اب تم ایک کام کرو، اس کاغذ کو الٹا کر کے پیچھے سے نظر آنے والی تحریر کا آئینے میں نظر آنے والے عکس سے موازنہ کرو۔ " سعد نے الٹا  کاغذ  اور عکس کی تصویر کو سامنے رکھا تو دونوں میں اس کا نام بالکل ایک جیسا نظر آرہا تھا۔
"  اب دوسرے تجربے پر آتے ہیں۔۔۔  تم نے دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں پر "بایاں" لکھا اور اور کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمت میں حرکت کا موازنہ کیا۔ یہاں اگر تم غور سے دیکھو تو پتا چلے گا کہ تمہارے دونوں ہاتھ اپنی جگہ پر ہی ہیں۔ اور جب ہم ہاتھوں کو اوپر نیچے یا دائیں بائیں حرکت دیتے ہیں تو عکس میں بھی ہاتھ اسی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔  لیکن کیا تم نے ایک فرق نوٹ کیا؟ جب ہم ہاتھوں کو آئینے کی طرف لے جاتے ہیں تو عکس میں موجود ہاتھ مخالف سمت میں (یعنی ہماری طرف) حرکت کرتے ہیں۔ اور اسی طرح جب ہم ہاتھ کو پیچھے کی طرف حرکت دیتے ہیں تو بھی عکس کی حرکت الٹی ہوجاتی ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسا کیوں ہے؟" وہ بولتے بولتے رک کر سعد کی طرف دیکھنے لگے، جو شاید پہلے سے بھی زیادہ الجھن کا شکار  تھا۔
"ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ آئینے میں ہمارا عکس واقعی الٹا ہوتا ہے۔۔۔  لیکن یہ الٹا جیسے کے مشہور ہے دائیں بائیں، یا آگے پیچھے یا  اوپر نیچے کی طرف نہیں بلکہ آئینے  کی سمت میں ہوتا ہے۔" انہوں نے چند لمحے رک کر خود ہی جواب دینا شروع کیا۔
" اور یہی بات سمجھانے کے لیے میں نے تمہیں تیسرا  تجربہ کرنے کو کہا تھا۔  جب تم زمین پر آئینہ رکھ کر اس پر کھڑے ہوئے تو تم نے دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزیں بدل گئی تھیں۔ تمہیں ایسا لگ رہا ہو گا کہ   عکس میں  تم سر کے  بل کھڑے ہو ۔ یعنی اب آگے پیچھے  کی بجائے اوپر نیچے کا فرق آگیا تھا، کیونکہ تم آئینے کے اوپر کھڑے تھے۔۔۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ  تم نے اسے آئینے پر چھلانگیں لگانے والا کوئی اور ہی تجربہ سمجھ لیا تھا۔ " انہوں نے سعد کو مصنوعی آنکھیں دکھائیں۔
"یعنی اس کا مطلب ہم میں اور عکس میں صرف   آئینے کی سمت میں الٹاؤ آتا ہے۔ باقی سب کچھ بالکل ویسا ہی رہتا ہے؟" سعد اب تک اپنی بنائی ہوئی تصاویر میں کھویا ہوا تھا۔ 
" بالکل!اب تم ٹھیک سمجھے ہو۔ اور  ہاں ، اگلی بار نواز بھائی کی دکان پر   بال کٹوانے جاؤ تو وہاں بھی ایک تجربہ کرنا۔ ان کی دکان میں آمنے سامنے دو آئینے لگے ہوئے ہیں، اور دونوں میں ایک دوسرے کا عکس نظر آتا ہے۔ اب یہ غور کرنا تمہار کام ہے کہ ان دونوں میں تمہارا عکس کیسا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد مجھے بتانا ضرور!  ۔۔۔ اچھا چلو اب تم اپنا ہوم ورک وغیرہ  مکمل کر لو ، مجھے بازار کے ایک دو کام نپٹانے ہیں۔" انہوں نے کھانے کے برتن  سمیٹتے ہوئے  بات مکمل کی، اور سعد سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔
"امی! مجھے آپ کو ایک بات بتانی ہے۔" شام کا سورج غروب ہونے تک امی ابو کی واپسی ہو گئی تھی، اور کافی سوچنے کے بعد سعد نے فیصلہ کیا تھا کہ  امی کو آئینے کے بارے میں   پتا چلنے سے پہلے اسے خود ہی بتا دینا چاہیے۔
"ہاں بیٹا! بولو کیا بات ہے؟"   وہ کام چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
"جی امی! وہ۔۔۔ وہ جو آئینہ تھا نا برامدے والا۔۔۔ وہ میں نے ناں۔۔۔!" انہیں اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ بوکھلا سا  گیا تھا۔
 تبھی اس کی نظر سامنے برامدے کی دیوار پر پڑی ۔  اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
آئینہ تو پوری آب و تاب سے وہاں آویزاں  تھا۔
"ہاں  سعد ! کیا ہوا برامدے والے آئینے کو؟" ارسلان بھائی، جو ابھی اپنے کمرے سے  نکلے تھے، انہوں نے  امی سے نظریں بچا کر آنکھ سے اسے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ امی کی نظریں بھی سعد پر ہی جمی تھیں۔ 
"جج۔۔۔ جی وہ۔۔۔ دراصل" اب وہ اور بوکھلا گیا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے۔
 لیکن پھر اچانک اسے ایک خیال سوجھا۔
"جی وہ  دراصل میں نے یہ پتا چلا لیا کہ ہمارے برآمدے والے آئینے  پر چڑیاں ٹھونگے کیوں مارتی ہیں۔ ہم نے سکول میں پڑھا کہ چڑیاں اوراکثر دوسرے پرندے دراصل اپنے عکس کو پہچان نہیں پاتے، اس لیے کئی دفعہ اسے دشمن سمجھتے ہوئے اس سے لڑائی کرنے لگتے ہیں۔  صرف چند ایک جانور اور پرندے ہی آئینے میں خود کو پہچان پاتے ہیں،  اور کچھ پرندوں جیسے کبوتر وغیرہ کو خود کی پہچان کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولتا چلا گیا۔
"ارے! یہ تو تم نے بہت دلچسپ بات سیکھی ہے۔ شاباش!" امی یہ کہتے ہوئے واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
  سعد نے ارسلان بھائی کو  جوابی  اشارہ کیا اور اپنے کمرے  کی طرف بڑھ گیا۔ 
برآمدے والے آئینے کا راز، راز ہی رہ گیا تھا!

ڈاکٹر اسامہ زاہد

احساس کی انتہا

ایک ریڑھی والے سے گول گپے کھانے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔"بھائی !! لاہور کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟"
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "سامنے اس ہوٹل کے پاس ۔"
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی ۔چائے واقعی بڑی مزیدار تھی ۔جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ گول گپے والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں ۔واپس دوڑتے ہوئے گول گپے والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں ،میں نے آپ سے گول گپے تو کھائے ہیں لیکن پیسے نہیں دیے؟"
تو گول گپے والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔"بھائی جس کے بچوں کی روزی انہی گول گپوں پہ لگی ہے ،وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟"
"تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟"
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
تو کہنے لگے"بھائی یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں،اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمساری نہ اٹھانا پڑے۔۔۔۔

جب تک مسلمان اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ اسکی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (مفہوم الحدیث)

ریاست مدینہ

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس زکوة کا مال آتا ہے
فرمانے لگے : غریبوں میں تقسیم کردو
بتلایا گیا اسلامی حکومت میں کوئی بھی فقیر نہیں رہا (اللہ اکبر)
فرمایا : اسلامی لشکر تیار کرو
بتلایا گیا اسلامی لشکر ساری دنیا میں گھوم رہے ہیں
فرمایا : نوجوانوں کی شادیاں کر دو
بتلایا گیا کہ شادی کے خواہش مندوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے
فرمایا : اگر کسی کے ذمہ قرض ہے تو ادا کر دو ، قرض ادا کرنے
کے بعد بھی مال بچ جاتا ہے
فرمایا : دیکھو ( یہودی اور عیسائیوں ) میں سے کسی پر قرض ہے تو ادا کردو
یہ کام بھی کر دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اھل علم کو مال دیا جائے ، 
اُن کو دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اس کی گندم خرید کر پہاڑوں کے اوپر ڈال دو
کہ مسلم حکومت میں کوئی پرندہ بھی بھو کا نہ رہے..

_(عربی کتاب "عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ از عبدالستار الشیخ الدمشقی "┅┄

کاش! میں اس قبر میں دفن کِیا جاتا



وہ ایک یتیم بچہ تھا۔اس کے چچا نے اس کی پرورش کی۔جب وہ بچہ جوان ہُوا تو چچانے اونٹ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی۔اس نے اسلام کے متعلق سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار نہ کرسکا۔
جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا "مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے۔میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا۔مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں"
چچا نے جواب دیا "دیکھ! اگر تو محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا۔تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا"
اس نے جواب دیا "چچا جان! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی اتباع قبول کروں گا۔شرک اور بت پرستی سے بیزار ہو چکا ہوں۔اب آپ کا جو منشاء ہے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے۔میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لیے میں ان کیلئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا"
اس نے یہ کہہ کر چچا کے دِیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہُوا اور کہا "میں مومن اور مسلمان ہوگیا ہوں، محمّد (صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں۔ستر پوشی کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے"
ماں نے ایک کمبل دے دِیا۔اس نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنالیا آدھا اوپر کر لِیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔
علی الصبح مسجدِ نبوی میں پہنچ گیا اور ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگا۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) جب مسجد میں آئے تو اسے دیکھ کر پوچھا "کون ہو؟"
کہا "میرا نام عبدالعزٰی ہے۔فقیر و مسافر ہوں طالبِ ھدایت ہو کر آپ کے در پر آپہنچا ہوں"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "آج سے تمہارا نام عبداللہ ہے "ذوالبجادین" لقب ہے۔تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو"
یوں عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحابِ صُفّہ میں شامل ہو گئے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا کرتے۔
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ہوتی ہے۔
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "عمر! اسے کچھ نہ کہو۔یہ تو اللہ اور اس کے رسول کیلئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے"
عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوۂ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا "الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں"
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا "یارسول اللہ ﷺ میں تو شہادت کا طالب ہوں"
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم نے فرمایا "جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گے"
تبوک پہنچ کر یہی ہُوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے۔
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے۔رات کا وقت تھا۔پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رہے تھے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرما رہے تھے "اپنے بھائی کو میرے قریب کرو"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی "اے اللہ! میں ان سے راضی ہُوا، تُو بھی ان سے راضی ہو جا"
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کاش! اس قبر میں، مَیں دفن کِیا جاتا...!! 
{بحوالہ مدارج النبوۃ(جلد 2صفحہ 90۔91)}

بنک اور کریڈٹ کارڈ


ایک لڑکا بڑے غصے میں گھر سے چلا آیا .

اتنا غصہ تھا کہ غلطی سے پاپا کے جوتے پہن کے نکل گیا
میں آج بس گھر چھوڑ دوں گا!! اور تبھی لوٹوں گا جب بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔!!

جب موٹر سائیکل نہیں دلوا سکتے تھے، تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں ؟!!

آج میں پاپا کا پرس بھی اٹھا لایا تھا .... جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے .

مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں کے حساب کی ڈائری ہوگی ....

پتہ تو چلے کتنا مال چھپا ہے ماں سے بھی .

اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو .

جیسے ہی میں عام راستے سے سڑک پر آیا، مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے ....
میں نے جوتا نکال کر دیکھا .
میری ایڑھی سے تھوڑا سا خون رس آیا تھا .
جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی، درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا .

اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر .

جیسے ہی کچھ دور چلا ....
مجھے پاؤں میں گیلا گیلا سا لگا، سڑک پر پانی پھیلا ہوا تھا .
پاؤں اٹھا کے دیکھا تو جوتے کی تلی پھٹی ہوئی تھی .

جیسے تیسے لنگڑا كر بس سٹاپ پر پہنچا پتہ چلا ایک گھنٹے تک بس نہیں آئے گی.

میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاشی لی جائے .

میں نے پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا .

لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرضے لئے پر !!!

لیپ ٹاپ تو گھر میں میرے پاس ہے؟

دوسرا ایک جوڑ مڑا دیکھا، اس میں ان کے آفس کی کسی شوق ڈے کا لکھا تھا
انہوں نے شوق لکھا: اچھے جوتے پہننا .
اوہ .... اچھے جوتے پہننا ؟؟؟
پر انکے جوتے تو . !!!!

ماں گذشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی ہے: نئے جوتے لے لو ...
اور وہ ہر بار کہتے: "ابھی تو 6 ماہ جوتے اور چل جائیں گے .."
میں اب سمجھا کتنے چل جائیں گے؟؟؟

تیسری پرچی .
پرانا سکوٹر دیجئے ایکسچینج میں نئی موٹر سائیکل لے جائیں .
پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا .
پاپا کا سکوٹر .
اوہ ہ ہ ہ ہ

میں گھر کی طرف بھاگا .
اب پاؤں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی .
میں گھر پہنچا .
نہ پاپا تھے نہ سکوٹر .
اوههه!!
نہیں!!
میں سمجھ گیا کہاں گئے؟ .

میں بھاگا .
اور
ایجنسی پر پہنچا .
پاپا وہیں تھے .

میں نے ان کو گلے سے لگا لیا، اور آنسؤوں سے ان کا کندھا بھیگ گیا .

نہیں ... پاپا نہیں ........ مجھے نہیں چاہئے موٹر سائیکل .

بس آپ نئے جوتے لے لو اور مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے .

وہ بھی آپ کے طریقے سے .

"ماں" ایک ایسی بینک ہے جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کر سکتے ہیں .

اور

"پاپا" ایک ایسا کریڈٹ کارڈ ہے جن کے پاس بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خواب پورے کرنے کی کوشش ہے..!!

*خدارا اپنے والدین کی قدر کریں❤❤*

غلطی اور اللّٰہ سے معافی

*💕 کبھی کبھی ہم اتنے شرمسار ہوتے ہیں اپنی غلطیوں پر کہ اللہ کی طرف پلٹ جانے سے بھی ڈرتے ہیں
، اس سے معافی مانگتے ہوئے بھی ڈرنے لگتے ہیں.
 کیا وہ معاف کرے گا بھی یا نہیں..؟ 
خود کو اس بچے کی جگہ رکھ کر سوچو جو غصے میں اپنی ماں پر چلایا ہو اور چلاتے ہی منہ کے بل زمین پر آ گرا ہو بس اس ٹھوکر کی دیر ہے تمہارے پکارنے کی دیر ہے، 
تمہاری آنکھ سے نکل کر رخسار تک آنسو کے آنے کی دیر ہے،
ماں اپنی تکلیف بھول کر، تمہاری چلاتی ہوئی آواز کو بھول کر تمہیں سینے سے لگا لیتی ہے، 
اب بھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اللہ تمہیں نہیں تھامے گا..؟
 اب بھی تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری تکلیف دور نہیں کرے گا..؟ 
وہ جس کی محبت عرش اور فرش سے کہیں وسیع ہے وہ جس کی محبت اس کے غضب پر بھاری ہے..* 💕

کلمہ اورطوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ  ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100 
 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ 
 ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

 " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ  ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ 
 ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ 

 " ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ 
 ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
 " ﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ" 

 ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ  ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔😓😓

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ  " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ 

 "ﮔﻠﻮ " ۔ 

 ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ساہیوﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ساہیوال ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ  ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ اپنے گاؤں کی وین ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔ 😍

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔😓 ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ 
!!!۔۔ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!!

ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے.

خوش رہیں۔۔💞

شایان شان

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا  اور چلا گیا لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو صحیح ۔