وہ بڑے غور سے اپنے قدموں کی جانب دیکھ رہا تھا کہ یک دم دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر مڑا۔ اسی لمحے اس کے قدموں کے نیچے ایک دھماکا ہوا اور وہ اچھل کر کئی قدم دور ہٹتا چلا گیا۔ زمین پر موجود آئینہ کرچی کرچی ہوچکا تھا۔
آج اتوار کا دن تھا۔ امی ابو کواچانک کسی سلسلے میں گاؤں جانا پڑا تھا، اس لیے سعد آج صبح سے ارسلان بھائی کا دماغ چاٹ رہا تھا۔ عمر میں کافی فرق ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ وقت اکٹھے نہیں گزرتا تھا۔ ارسلان بھائی عام طور پر اپنی چھوٹی سی لائبریری میں کمپیوٹر پر مصروف رہتے ۔ لیکن آج امی نے ان کے ذمے سعد کو سنبھالنے کا کام لگایا تھا، چنانچہ سعد کو بھی بھائی جان سے خوب باتیں کرنے کا موقع مل گیا تھا۔
"بھائی ایک بات تو بتائیے، ہم آئینے میں الٹے دکھتے ہیں نا؟ یعنی دائیں کی جگہ بایاں اور بائیں کی جگہ دایاں؟" وہ صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے جب اس نے سوال کیا۔
"ہاں، دکھتے تو الٹے ہی ہیں۔" ارسلان بھائی نے کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔
"تو پھر دائیں بائیں کا فرق کیوں ہے؟ پاؤں کی جگہ سر اور سر کی جگہ پاؤں کیوں نہیں نظر آتے؟" اس نے بال ان کی طرف پھینکتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
اس بار سوچ کا وقفہ لمبا تھا۔
"بات تو تمہاری ٹھیک ہے یار۔۔۔ چلو آؤ دیکھتے ہیں۔" وہ برامدے میں لگے آئینے کے سامنے آکر رکے اور مختلف زاویوں سے اس کے اندر جھانکنا شروع کیا، لیکن کچھ بھی سمجھ نہ آیا۔
"اچھا تم ایسا کرو، پودوں کو پانی دو۔۔۔ میں اتنی دیر اس کا جواب تلاش کرتا ہوں۔" انہوں نے چند منٹ بعد سعد سے کہا اور وہ سر ہلاتا ہوا بالٹی اٹھا کر صحن میں رکھے گملوں کی جانب بڑھ گیا۔
سعد پودوں کو پانی دے کر واپس آیا تو ارسلان بھائی اپنی لائبریری سے نکل رہے تھے۔ ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اس سوال کا جواب تلا ش کر چکے تھے۔
"بھائی جان ، دے دیا پودوں کو پانی۔۔۔ اب بتائیے نا جواب؟!" اس نے انہیں دیکھتے ہی بے تاب لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں، بتاؤں گا۔۔۔ لیکن پہلے تمہیں تین عدد تجربے کرنے ہوں گے ۔ ان تجربات کی مدد سے ہی تم اس جواب کو سمجھ سکتے ہو۔ تجربات کی تفصیل میں نے لکھ دی ہے۔ بہت آسان سا کام ہے۔ تم یہ تینوں تجربات مکمل کر کے ان کے نتائج نوٹ کر لو، میں اتنی دیر میں کھانے کے لیے کچھ لے آتا ہوں۔" ارسلان بھائی نے ایک کاغذ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
اب سعد کے تجربات شروع ہوئے۔ پہلا کام آسان تھا۔ صرف ایک ہلکے کاغذ پر بال پوائنٹ پین سے اپنا نام لکھ کر آئینے میں ان کا عکس دیکھنا تھا۔
دوسرے تجربے میں اس نے اپنے دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں ہاتھ پر "بایاں" لکھا اور پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمتوں میں حرکت کو نوٹ کیا۔ ارسلان بھائی کی ہدایات کے مطابق وہ ساتھ ساتھ اپنے موبائل سے تصویریں بھی لے رہا تھا۔
اس کے بعد باری آئی تیسرے تجربے کی۔ اس نے آئینے کو دیوار سے اتار کر زمین پر رکھا اور اس پر کھڑا ہوکر اپنے پاؤں کی طرف دیکھنے لگا۔ ۔۔ یہی وہ لمحہ تھا جب دروازہ دھڑ سے کھلا تھا اور ارسلان بھائی کھانے کا سامان اٹھائے اندر داخل ہوئے تھے ۔ اور اسی لمحےسعد کے ایک دم مڑنے سے اس کے پاؤں کے نیچے موجود آئینہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔
"ارے واہ ! اسے کہتے ہیں علم حاصل کرنے کے لیے خون پسینہ بہانا۔" ارسلان بھائی نے س کے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"خخ۔۔۔خون ؟ کہاں بہہ رہا ہے خون ؟ " سعد نے بوکھلا کر اپنے پاؤں کی جانب دیکھا۔
"ہاہاہا۔۔۔ابھی نہیں، لیکن شاید جلد ہی بہے گا جب امی ابو کو پتا چلے گا ۔ابھی پچھلے ہفتے ہی تو خریدا تھا یہ آئینہ۔۔۔ اور امی کو بہت پسند بھی تھا ۔" ان کا لہجہ اچانک شرارتی ہوگیا تھا۔
"لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ آپ نے ہی مجھے یہ تجربہ کرنے کے لیے کہا تھا۔" سعد نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"ہاں، لیکن آئینے پر کھڑے ہوکر اچھلنے کے لیے تو میں نے نہیں کہا تھا۔یہ تو تمہارے ہی کرتوت ہیں۔اب شام کو امی کو بھی تم خود ہی بتانا۔۔۔ اچھا چلو آؤ کھانا تو کھائیں۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔" ارسلان بھائی نے فرش سے کرچیاں اکٹھے کرتے ہوئے سعد کی روہانسی حالت دیکھ کربات بدل دی۔
"اچھا یہ بتاؤ تینوں تجربات مکمل ہو گئے تھے؟ اور کوئی نتیجہ نکالا تم نے؟" کھانے کے دوران انہوں نے پوچھا۔
"جی تجربات تو ہوگئے تھے، میں نے تصاویر بھی لے لی تھیں، لیکن مجھے ان کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی۔" سعد کے لہجے میں الجھن تھی۔
"اچھاچلو، میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ پہلے تجربے میں تم نے ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر آئینے میں اس کا عکس دیکھنا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر ہلکا کاغذ استعمال کرنے اور بال پوائنٹ سے لکھنے کا کہا تھا۔ اب تم ایک کام کرو، اس کاغذ کو الٹا کر کے پیچھے سے نظر آنے والی تحریر کا آئینے میں نظر آنے والے عکس سے موازنہ کرو۔ " سعد نے الٹا کاغذ اور عکس کی تصویر کو سامنے رکھا تو دونوں میں اس کا نام بالکل ایک جیسا نظر آرہا تھا۔
" اب دوسرے تجربے پر آتے ہیں۔۔۔ تم نے دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں پر "بایاں" لکھا اور اور کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمت میں حرکت کا موازنہ کیا۔ یہاں اگر تم غور سے دیکھو تو پتا چلے گا کہ تمہارے دونوں ہاتھ اپنی جگہ پر ہی ہیں۔ اور جب ہم ہاتھوں کو اوپر نیچے یا دائیں بائیں حرکت دیتے ہیں تو عکس میں بھی ہاتھ اسی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ لیکن کیا تم نے ایک فرق نوٹ کیا؟ جب ہم ہاتھوں کو آئینے کی طرف لے جاتے ہیں تو عکس میں موجود ہاتھ مخالف سمت میں (یعنی ہماری طرف) حرکت کرتے ہیں۔ اور اسی طرح جب ہم ہاتھ کو پیچھے کی طرف حرکت دیتے ہیں تو بھی عکس کی حرکت الٹی ہوجاتی ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسا کیوں ہے؟" وہ بولتے بولتے رک کر سعد کی طرف دیکھنے لگے، جو شاید پہلے سے بھی زیادہ الجھن کا شکار تھا۔
"ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ آئینے میں ہمارا عکس واقعی الٹا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن یہ الٹا جیسے کے مشہور ہے دائیں بائیں، یا آگے پیچھے یا اوپر نیچے کی طرف نہیں بلکہ آئینے کی سمت میں ہوتا ہے۔" انہوں نے چند لمحے رک کر خود ہی جواب دینا شروع کیا۔
" اور یہی بات سمجھانے کے لیے میں نے تمہیں تیسرا تجربہ کرنے کو کہا تھا۔ جب تم زمین پر آئینہ رکھ کر اس پر کھڑے ہوئے تو تم نے دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزیں بدل گئی تھیں۔ تمہیں ایسا لگ رہا ہو گا کہ عکس میں تم سر کے بل کھڑے ہو ۔ یعنی اب آگے پیچھے کی بجائے اوپر نیچے کا فرق آگیا تھا، کیونکہ تم آئینے کے اوپر کھڑے تھے۔۔۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ تم نے اسے آئینے پر چھلانگیں لگانے والا کوئی اور ہی تجربہ سمجھ لیا تھا۔ " انہوں نے سعد کو مصنوعی آنکھیں دکھائیں۔
"یعنی اس کا مطلب ہم میں اور عکس میں صرف آئینے کی سمت میں الٹاؤ آتا ہے۔ باقی سب کچھ بالکل ویسا ہی رہتا ہے؟" سعد اب تک اپنی بنائی ہوئی تصاویر میں کھویا ہوا تھا۔
" بالکل!اب تم ٹھیک سمجھے ہو۔ اور ہاں ، اگلی بار نواز بھائی کی دکان پر بال کٹوانے جاؤ تو وہاں بھی ایک تجربہ کرنا۔ ان کی دکان میں آمنے سامنے دو آئینے لگے ہوئے ہیں، اور دونوں میں ایک دوسرے کا عکس نظر آتا ہے۔ اب یہ غور کرنا تمہار کام ہے کہ ان دونوں میں تمہارا عکس کیسا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد مجھے بتانا ضرور! ۔۔۔ اچھا چلو اب تم اپنا ہوم ورک وغیرہ مکمل کر لو ، مجھے بازار کے ایک دو کام نپٹانے ہیں۔" انہوں نے کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے بات مکمل کی، اور سعد سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔
"امی! مجھے آپ کو ایک بات بتانی ہے۔" شام کا سورج غروب ہونے تک امی ابو کی واپسی ہو گئی تھی، اور کافی سوچنے کے بعد سعد نے فیصلہ کیا تھا کہ امی کو آئینے کے بارے میں پتا چلنے سے پہلے اسے خود ہی بتا دینا چاہیے۔
"ہاں بیٹا! بولو کیا بات ہے؟" وہ کام چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
"جی امی! وہ۔۔۔ وہ جو آئینہ تھا نا برامدے والا۔۔۔ وہ میں نے ناں۔۔۔!" انہیں اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ بوکھلا سا گیا تھا۔
تبھی اس کی نظر سامنے برامدے کی دیوار پر پڑی ۔ اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
آئینہ تو پوری آب و تاب سے وہاں آویزاں تھا۔
"ہاں سعد ! کیا ہوا برامدے والے آئینے کو؟" ارسلان بھائی، جو ابھی اپنے کمرے سے نکلے تھے، انہوں نے امی سے نظریں بچا کر آنکھ سے اسے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ امی کی نظریں بھی سعد پر ہی جمی تھیں۔
"جج۔۔۔ جی وہ۔۔۔ دراصل" اب وہ اور بوکھلا گیا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے۔
لیکن پھر اچانک اسے ایک خیال سوجھا۔
"جی وہ دراصل میں نے یہ پتا چلا لیا کہ ہمارے برآمدے والے آئینے پر چڑیاں ٹھونگے کیوں مارتی ہیں۔ ہم نے سکول میں پڑھا کہ چڑیاں اوراکثر دوسرے پرندے دراصل اپنے عکس کو پہچان نہیں پاتے، اس لیے کئی دفعہ اسے دشمن سمجھتے ہوئے اس سے لڑائی کرنے لگتے ہیں۔ صرف چند ایک جانور اور پرندے ہی آئینے میں خود کو پہچان پاتے ہیں، اور کچھ پرندوں جیسے کبوتر وغیرہ کو خود کی پہچان کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولتا چلا گیا۔
"ارے! یہ تو تم نے بہت دلچسپ بات سیکھی ہے۔ شاباش!" امی یہ کہتے ہوئے واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
سعد نے ارسلان بھائی کو جوابی اشارہ کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
برآمدے والے آئینے کا راز، راز ہی رہ گیا تھا!
ڈاکٹر اسامہ زاہد
No comments:
Post a Comment