خطا کا پتلا ہونا انسان کا وصف ٹھہرا تو اللہ نے بھی اپنے رحم و کرم اور غافر الذنب کے وصف کو فوقیت دی، اللہ نے انسان کو ایسے معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے جیسے وہ نومولود بچہ ہو، جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہی نہ ہو، معافی مانگی جائے تو وہ مانگنا دل سے ہو، توبہ کی جائے تو وہ حقیقی ہو، اور ایسی ہو کہ دوبارہ اس عمل کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے جس سے توبہ کی ہے، پھر بھی ہم دل کے ہلکے ہیں ہماری توبہ ٹوٹتی جڑتی رہتی ہے، لیکن یاد رکھیں بار بار معافی مانگتے ہوئے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پتہ نہیں اب کی بار معافی ملے یا نہ ملے توبہ قبول ہو یا نہ ہو، اللہ کی طرف جانے والے راستے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، یہ اربابِ اقتدار کے وہ دروازے نہیں ہیں جو "میں'' پرستی میں ڈوبے، غرور و تکبر میں مبتلا ہیں کہ کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو دروازوں کے کواڑوں اسقدر سختی سے بھینچ ڈالتے ہیں کہ کوئی صدائیں لگاتا مر بھی جائے تو رحم کی کوئی کلی انکے پتھروں سے سخت دلوں میں نہیں کھلتی، یہ تو میرے اللہ کے دروازے ہیں جو بڑے سے بڑے گناہگار کے لیے بھی کبھی بند نہیں ہوئے، جب وہ معافی اور توبہ ویسے کرے جیسا اوپر بیاں ہو چکا ہے۔
No comments:
Post a Comment