ایک شخص جنگل میں راستہ بھول گیا، وه بهوک و پیاس کی حالت میں کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھا کہ کوئی گھر یا کوئی جھونپڑی نظر آ جائے تاکہ کم از کم کچھ کھانے کو مل جائے۔
چنانچہ کچھ دیر بعد اس کو دور سے ایک گھر نظر آیا امید کی کرن نظر آئی وه شخص جلدی جلدی اس گھر کے دروازے پر پہنچا دروازے پر دستک دی اندر سے ایک عورت نے کہا کون ہے اس شخص نے کہا میں مسافر ہوں اور بھوکا ہوں، کچھ کھانے کی چیز مل جائے تو مہربانی ہو گی۔ چنانچہ عورت نے اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی اور اسے کھانا پیش کیا وه کھانے لگا کہ اس عورت کا شوہر جو کہ کسی کام سے کہیں گیا ہوا تھا واپس آ گیا۔ اس نے جب ایک اس شخص کو دیکھا تو اپنی زوجہ سے پوچھا یہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ ایسے ایسے آیا ہے اور حاجت مند تها، میں نے اس کو کھانا کھلانے کے لئے یہاں پر رکنے کی اجازت دی ہے۔
چنانچہ اس شخص نے کہا یہ کون ہوتا ہے جو ہمارے ہاں سے کچھ کھائے۔ چنانچہ اس نے مسافر کو ذلیل کرنے کے بعد گھر سے نکال دیا۔
وه پهر جنگل میں کسی دوسرے سہارے کی تلاش میں چلنے لگا، کچھ ہی دیر بعد اسے ویسا ہی دوسرا گھر نظر آ گیا۔ چنانچہ اس نے وہاں پر آواز لگائی مسافر ہوں اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے کچھ کھانا کھلا دیں۔ وہاں سے بھی ایک عورت نکلی اس نے اس شخص کو ذلیل و خوار کر کے کہا کہ جاؤ یہاں سے ہم کیوں دیں تمہیں، کچھ وه مسافر شرمندہ اور مایوس ہو کر جانے لگا کہ اس عورت کا شوہر آ گیا۔
اس نے اپنی زوجہ سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا تھا۔ عورت نے کہا کہ ایسے ایسے کہہ رہا تھا میں نے کہا جاؤ اور پهر ہم کیوں کھلائیں کسی کو ۔۔۔ یہ سن کر شوہر نے اس مسافر کو واپس بلایا، گھر میں بٹهایا، کھانا کھلایا۔ وه مسافر بہت حیران ہوا۔
اس نے اپنے میزبان سے کہا کہ مجھے یہ بات بہت پریشان کر رہی ہے کہ میں جس پہلے گھر میں گیا تھا تو وہاں پر مجهے عورت نے اچهی طرح سے کھانا پیش کیا اور مسافر کی طرح میری مدد کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس کے خاوند نے مجهے ذلیل کر کے بھگا دیا۔ اور آپ کے ہاں آپ کی زوجہ محترمہ نے بالکل اسی شخص کے جیسا رویہ اختیار کیا اور بهگا دیا اور آپ نے اس عورت جیسا رویہ اختیار کیا ....
اس شخص نے کہا پہلے تم جس گھر میں داخل ہوئے تھے وه میری بہن تهی جس نے تمہیں کھانا کھانے کے لئے دیا اور وه شخص جس نے تہیں وہاں سے نکال دیا تھا وه میری بیوی کا بهائی ہے ۔ اور ان دونوں نے تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جو ان کی فطرت میں شامل تھا اور میں نے اور میری بہن نے تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہماری فطرت میں ہے .
اس حکایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہم اپنے گھر سے ہی اصل ادب و احترام سیکھتے ہیں جو ہمارے گھر کا کلچر ہوتا ہے اگر گھر میں بچوں کو ادب و احترام، حسن سلوک، صلہ رحمی، در گزر، ایثار و قربانی اور نیکی کرنا سکھایا جائے تو عین ممکن ہے کہ بڑے ہو کر یہ بچے وہی کریں گے جو ان کو کرنا سکھایا گیا ہے .
No comments:
Post a Comment