Sunday, February 14, 2021

بدشگونی یا نیک شگون

اکثر و بیشتر آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا ہوگا، تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ دن اچھا نا گزرنے پر یا کوئی کام الٹ ہو جانے پر لوگ مخلتف چیزوں کو کوس رہے ہوتے ہیں مثلاً 

" آج صبح فلاں شخص میرت متھے لگا، میرا تو سارا دن ہی برا گزرا ۔۔۔
آج صبح ہی صبح فلاں کام الٹ ہو گیا جس کی وجہ سے آج میں سارا دن مصیبت میں رہا۔۔۔ 
آج فلاں شخص نے یہ بات مجھ سے کہہ دی جس کی وجہ میرا سے سارا دن خراب گزرا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ " 

اسے بدفالی کہتے ہیں اور بدفالی بھلے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو یہ صریح گناہ ہے_اسلام میں بدفالی اور بدشگونی کی حد درجے ممانعت کی گئ ہے، بدشگونی سے مراد تو یہی ہے کہ العیاذ باللہ ہمارا رب پہ اعتقاد کمزور پڑ گیا ہے اور ہم اللہ سے بدگمانی کر رہے ہیں_

ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ بدفالی یا بدشگونی تو منع ہے لیکن نیک شگون اور نیک فالی ہرگز منع نہیں_ اگر ایک کام اچھا ہوتا ہے تو آپ اللہ پہ نیک گمان کر سکتے ہیں کہ جیسے اللہ تعالی نے میرا یہ کام آسان بنایا وہ باقی کے سارے کام بھی اپنی رحمتِ واسعہ سے اچھے کرے گا_ واثق امید ہے کہ یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی اس امیدِ رحمت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے گا__

صحیح مسلم، سنن ابی داود اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: 

" ان عند ظن عبدی بی ان ظن بی خیر فلہ وان ظن شر فلہ " 

" میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، وہ اگر میرے بارے میں اچھا گمان کرتا ہے تو میرا اس کے ساتھ معاملہ ویسا ہی ہے، اور وہ میرے بارے میں برا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اس کے ساتھ ویسا ہی ہے۔۔۔"

حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں 
(صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان کی بنیاد ہے اسکی رحمت، اسکی قدرت اور اسکے مختارِ کل ہونے کا یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے__

جو اللہ تعالی کے بارے اچھا گمان رکھتا ہے اللہ تعالی اسکی دستگیری فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بندہ اپنے تئیں نیک کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ظن کو پورا کر دکھائے گا_ اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے بارے زبان سے یا عمل کے ذریعے بدگمان ہوگا تو اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ ناراض ہوں گے اور اس کے ظن کے مطابق ویسا ہی فیصلہ فرمائیں گے کیوں کہ اس کی رحمت سے مایوس تو وہی ہوتے ہیں جو کفر کرتے ہیں_
 
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے بدگمانی ایک مومن مسلمان کو زیب نہیں دیتی، البتہ حسنِ ظن باللہ ایک مسلمان کا حقیقی شیوہ ہے__
منقول

No comments:

Post a Comment