Wednesday, February 3, 2021

پینڈو لڑکا

مما  وہ پینڈو سا ہے میں اس سے شادی نہیں  کرنی 
افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی 
ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے 
افشاں نے کہا مما  وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہنے کی تمیز نہ اسے بات کرنے کی تمیز ہے 
میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی 
ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نا ہو 
افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی کہا صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی 
تم شادی سے انکار کر دو 
صارم نے کہا میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی  جا سکتا 
افشاں نے کہا میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی 
صارم نے کہا تم خود انکار کر دو 
میں تو کچھ نہ کہنے والا 
افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے کر رہے 
افشاں نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری ٹیبلٹ کھا لی 
ہسپتال کے گئے 
ڈاکٹرز نے معدہ  واش کیا جان  بچ گئی 
افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما  مجھ پہ رحم کرو 
میں اس جاہل انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی 
وہ بھی گاوں میں 
ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں وہ صارم بہت اچھا لڑکا ہے کیا ہوا وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے 
وہ گاوں میں رہتا ہے تو 

لیکن وہ لڑکا اچھا ہے 
افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی 
افشاں کی شادی صارم سے کروا دی 
افشاں نے بس سمجھ لیا زندگی برباد ہو گئی 
سارے خواب ختم ہو گئے 
سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں 
سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا 
پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے شادی ہو گئی لیکن مجھ سے دور رہو 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے افشاں آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں 
افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی صارم 
صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی 
صارم نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی 
اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ  آپ کے لیئے افشاں نے انگھوٹی 
اٹھا کر سائڈ پہ رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئ رونے لگی 
صارم نوافل ادا کرنے لگا 
پھر افشاں کے پاس لیٹ گیا 
یوں زندگی کا سفر شروع ہوا افشاں کا دم گھٹنے لگا صارم کے ساتھ 
صارم دیکھنے میں خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ڈیسینٹ سا بھی نہیں  تھا 
افشاں ماڈرن سی لڑکی تھی صارم صبح اٹھتے ہی افشاں کا ماتھا چومتا 
پھر خود ناشتہ بناتا افشاں کو غصہ آتا یہ بندہ مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے 
افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا 
صارم رات کو تھکا ہارا آتا افشاں بس خاموش سی اپنی دنیا میں گم سی رہتی اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی 
صارم کی 
صارم بھی افشاں کو کچھ نہ کہتا تھا 
گھر آ کر کھانا بناتا افشاں کو کھانا دیتا 
افشاں پتھر دل تھی شاید  
نہ گھر کی صفائی کرتی نہ وہ کبھی صارم کے کپڑے صفائی کرتی 
صارم اپنے کام خود کرتا سال گزر گیا 
صارم افشاں کی ہر بے رخی چوم کر برداشت کرتا 
افشاں کو یوں لگتا تھا ایک بدو سا انسان پلے پڑ گیا ہے 
صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا 
پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا جو ہمسفر ہو 
صارم نے ایک دن کہا افشاں تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی 
پاگل 
دیکھو رنگ کتنا دھیما  پڑ گیا تمہارا 
تمہارے بال دیکھو کتنے روکھے سے ہو گئے 
صارم افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں خو چھوا تھا 
افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا 
افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے صارم 
صارم نے کہا نہیں چھوڑوں  گا افشاں نے دھکا دیا 
آئل صارم کے اوپر گر گیا 
افشاں  جانے لگی اٹھ کر 
صارم نے بازو پکڑا پاس بیٹھا لیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا افشاں میں یوں ایسے آپ کو نہیں دیکھ سکتا 
افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے 
صارم نے پاس بٹھایا آئل لگانا شروع کیا افشاں کے سر میں 
افشاں کے سر میں آئل لگایا پھر چہرے پہ سکرب  کرنے لگا 
افشاں خاموش بیٹھی 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہا چڑیل جاو اب شاور لے کر او اور پنک  ڈریس پہنو  
میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں

افشاں حیران تھی اتنی بے رخی پہ بھی اتنا پیار کرتا ہے صارم 
افشاں شاور لے کر آئی آج چہرے پہ عجیب سی چمک تھی 
افشاں نے اپنی دوست کو کال کی یار صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ 
اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے اس کی قدر کرو 
افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے 
اس کئ دوست نے کہا افشاں قمست والوں کو ایسے مرد ایسے ہمسفر والے ملتے ہیں 
اتنے میں صارم نے آواز لگائی جاں پناہ کھانا تیار ہے آ جاو 
افشاں مسکرانے لگی 
آج بریانی سے مزے کی خوشبو آ رہی تھی 
افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا تعریف کرے صارم کی لیکن 
خاموش رہی کھانا کھایا کمرے میں سونے چلی گئی 
صارم نے برتن اٹھائے واش  کرنے لگا 
برتن واش کیئے سارا دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ پڑا سو گیا 
صبح اٹھا  افشاں کو اٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ تیار کر دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ  لے کر آوں  گا 
رات کو صارم گھر آیا 
ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی گارڈن میں 
ہلکی سی ہوا چل رہی تھی شام کا وقت تھا ہلکی دی روشنی تھی 
صارم گھٹنے کے بل بیٹھ گیا گلاب کا پھول افشاں کو دیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں 
افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد میرا آج برتھ ڈے ہے 
صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا افشاں 
پیپرز نکالے ایک لفافے سے کہا افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا افشاں جانتی ہو یہ پیپرز کا چیز کے ہیں 
افشاں کا دل دھڑکنے لگا کیا ہے یہ صارم 
صارم نے کہا یہ ہم دونوں کی خوشی ہے افشاں 
افشاں نے کہا بتاو صارم یہ کیا ہے 
صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں میں نے کیا گھر لیا ہے اور تمہارے نام کیا ہے 
افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا 
افشاں نے دیکھا نیا گھر وہ بھی میرے نام 
افشاں کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے 
صارم اتنی محبت 
صارم کی آنکھ سے پہلی بار آنسو چھلکا تھا 
صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا 
افشاں ایک چیز مانگوں 
افشاں نے ہاں میں سر ہلا دیا 
افشاں ہمیشہ خوش رہنا 
جانتی ہو تم پری سی ہو معصوم سی 
بہت پیاری ہو تم میں بہت خوش نصیب ہوں تم جیسی ہمسفر ملی مجھے 
افشاں ہماری شادی کو دو سال گزر گئے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سینے سے نہیں لگایا 
مجھے آج سینے سے لگا لو نا 
افشاں نہ چاہتے ہوئے آج صارم کو سینے سے لگا لیا 
صارم زور سے سینے سے لگا روتے ہوئے کہنے لگا 
یہ بانہیں کیا پتا پھر نصیب ہوں نہ ہوں 
اتنا کہہ کر صارم کمرے میں چلا گیا 
افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے صارم کو کیا سمجھتی صارم کتنا اچھا انسان ہے کتنا برا سلوک کیا میں صارم کے ساتھ 
افشاں کا دل چاہ رہا تھا صارم کی بانہوں میں سما جاوں 
صارم کی بے بے پناہ محبت 
دو سال میں صارم کو اگنور کرتی رہی صارم پھر بھی مجھے چاہتا رہا 
رات بھر افشاں خواب دیکھتی رہی کل صارم کے لیئے ناشتہ خود بناوں گی 
صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی 
صارم کو اب کبھی اداس نہ ہونے دوں گی 
رات بیت گئی افشاں اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا 
صارم کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی 
کافی ٹائم گزر گیا صارم نہ اٹھا افشاں کمرے میں گئی محبت سے آواز دینے لگی صارم اٹھ جائیں میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے 
صارم کروٹ کیئے سویا تھا 
افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا دیکھا صارم کا جسم ٹھنڈا پر چکا ہے 
افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا 
صارم کے بستر پہ خون پڑا تھا منہ پہ خون لگا ہوا تھا 
افشاں چیخنے  لگی 
زور زور کر آوازیں دینے لگی صارم اٹھ جاو یہ کیا ہوا آپ کو 
صارم اٹھو نا 
محلے والے اکھٹے ہو گئے ہسپتال لے گئے 
ڈاکٹر نے چیک کیا دیکھا صارم 
ڈاکٹر نے کہا میں نے کہا تھا اسے اپنا خیال رکھو اپنا علاج کرواو 
کسی کو ساتھ لیکر آو لیک  شاید یہ جینا نہیں چاہتا تھا 
افشاں نے روتے ہوئے کہا کیا تھا صارم کو 
ڈاکٹر نے ایک آہ بھری اور کہنے لگا صارم کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بلڈ کینسر تھا 
شاید اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا 
مجھے اکثر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے جیوں  
کوئی ہے ہی نہیں جو مجھے اپنا کہہ سکے 
میرے گھر میرا انتظار  کرنے والا کوئی نہیں ہے 
کوئی نہیں ہے جو مجھے محبت سے پوچھے دن کیسا گزرا 
کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں 
رات کو کمرےمیں اکیلا  درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے 
افشاں زمیں پہ گر گئی صارم یہ کیا کر دیا تم نے 
صارم مجھے معاف کر دو صارم 
میں پاگل ہو گئی تھی 
صارم نہ جاو مجھے چھوڑ کر 
صارم میں مر جاوں گی صارم تمہارے بنا 
صارم کی لاش سامنے پڑی تھی جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کو ترستا رہا 
افشاں صارم کے چہرے کو ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کے اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا 
صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو 
تبسم تو بس اتنا کہتا ہے کسی کے جذبات سے مت کھیلو 
کسی کو اتنا نہ ستاو کے وہ مر جائے 
اپنے ہمسفر کو سینے سے لگا ایک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے ایک دوسرے کو چوم لو
انا میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا 
چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں جب موت آ گھیرے 
محبت بانٹتے رہو 
کسی کے مرنے کے بعد پچھتاوے سے اچھا ہے کسی کو زندگی میں ہی سینے سے لگا لو.

No comments:

Post a Comment