ایک ضروری کام کے لیے گھر سے نکلا تو باوجود پابندی کے ایک چھابڑی والا نظر آیا ۔۔
میں نے پوچھا ''تمہیں کرونا سے ڈر نہیں لگتا؟''
معلوم ہے اس نے کیا جواب دیا ؟ کہتا ہے کہ
''بھوک سے بلکتے بچوں کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا حافظ صاحب ، کرونا سے زیادہ بھوک خطرناک ہے ، میں کہیں سیدھے رستے سے بھٹک نہ جاؤں اس لیے کسی سے ڈرے بغیر کمانے نکلا ہوں۔"
میں نے کہا کہ ''مخلص لوگ اِن دِنوں بیروزگار ہوئے لوگوں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں ، کیا آپ کو نہیں ملا؟''
اس بات کے جواب میں جو اس نے کہا ملاحظہ فرمائیں، کہتا ہے کہ
*''کسی سے حدیث سنی تھی کہ کوئی تمہیں ہدیہ وغیرہ دےتو قبول کرلو ، مجھے بھی لوگ اشیاء دینے آئے تھے مگر اشیاء دیتے ساتھ انہوں نے کیمرے نکال لیے تاکہ مجھے راشن لیتے ہوئے دکھا کر اپنا نیک کام اور میری بے بسی لوگوں کو دکھا سکیں ، حافظ صاحب مجھے بھوکا رہنا یا قانون توڑ کر مزدوری کرنا منظور ہے لیکن اپنی عزت نفس کی بربادی ہوتے دیکھنا منظور نہیں۔"*
اور میں اس سے آگے کوئی سوال کرنے کے قابل نہ رہا تھا کیونکہ میں اور آپ جانتے ہیں کہ کیا مذہبی اور کیا دنیا دار کوئی بھی نیکی کو کیمرے کے بغیر قبول کروانے کے لیے آج کل راضی نہیں ہے، جس کا جی چاہتا ہے چند سو روپوں کا عطیہ دے کر کسی مفلس کی عزت نفس پر ضربِ کاری لگانے کا موقع ضائع نہیں کرتا ۔۔۔۔
*منقول*
Saturday, May 9, 2020
اپنا اصل ٹھکانہ بنائیں
ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے… صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے…انہوں نے گاڑی روکی اور دوکلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے… دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے…دستر خوان پر سب کچھ موجود تھا مگر انگور غائب… انہوں نے انگوروں کا پوچھا… گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا لئے…کچھ ہم نے چکھ لئے…معمولی واقعہ تھا مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت اونچا کر دیتے ہیں… اور اس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں… وہ صاحب فوراً دستر خوان سے اٹھے… اپنی تجوری کھولی، نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر بیگ میں ڈالیں اور گھر سے نکل گئے… انہوںنے اپنے کچھ ملازم بھی بلوا لئے …پہلے وہ ایک پراپرٹی والے کے پاس گئے … کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا…فوراً اس کی قیمت ادا کی…پھر ٹھیکیدار اور انجینئر کو بلایا … جگہ کا عارضی نقشہ بنوا کر ٹھیکیدار کو مسجد کی تعمیر کے لئے… کافی رقم دے دی… اور کہا دو گھنٹے میں کھدائی شروع ہونی چاہیے…وہ یہ سب کام اس طرح تیزی سے کر رہے تھے…جیسے آج مغرب کی اذان تک ان کی زندگی باقی ہو…ان کاموں میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں… مگر جب دل میں اخلاص کی قوت ہو… ہاتھ بخل اور کنجوسی سے آزاد ہو تو… مہینوں کے کام منٹوں میں ہو جاتے ہے…
یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائشی گاہ کا انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے.
_اس تحریر نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے._
یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائشی گاہ کا انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے.
_اس تحریر نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے._
دینو کی دعوت
دینو مسجد میں داخل ہواتو مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے. وہ چپ چاپ سنتا رہا معمولی پڑھا لکھا تھا کچھ سمجھ آیا کچھ نہ آیا لیکن جب مولوی صاحب نے بتایا کہ ہمیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور کچھ ایسے واقعات بھی سنائے جب کسی معمولی سے عمل کی بنیاد پر اللہ نے بےحساب اجر دیا تو اس نے سوچا کہ یہ کوشش تو میں بھی کرسکتا ہوں بس جناب نماز ختم ہوتے ہی وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے کوئی آسان سی کتاب مانگی جس پر عمل کرکے وہ بھی ثواب کما سکے. انہوں نے اسکا شوق دیکھتے ہوئے اسے ایک آسان سی حدیث کی باترجمہ کتاب تھما دی.
دینو کو نیا مشغلہ مل گیا تھا روز کھیتی کے کام سےفارغ ہو کر کتاب پکڑتا اور ہجے کر کر کے پڑھتا. سردیوں کے دن تھے. اسکے بیوی بچے اپنے میکےبرابر والے گاؤں میں گئے ہؤے تھےاس نے باہر جھانکا. ہر طرف خاموشی تھی کبھی کبھی کبھی کسی چرند پرندکی آواز سنائی دے جاتی یا کوئی اکا دکا دیہاتی گزرتا نظر آجاتا.وہ اپنے بستر پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کی دی ہوئی کتاب 📙 نکال کر پڑھنے لگا.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا
قیامت کے دن اللہ عزوجل ایک شخص سے فرمائیں گے اے ابن آدم، میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی۔
دینو چونک گیا اور حیرت کے عالم میں آگے پڑھنے لگا.
اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔
دینو مزید پریشان ہوگیا اسے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ کو بھی یہ سب چاہیے ہوتا ہے. اس نے اٹک اٹک کر آگے پڑھنا شروع کیا.
اے ابن آدم، میں نے تم سے پانی مانگا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا...
دینو کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے. اس نے کتاب بند کردی . سب سے پہلے تو اس نے رو رو کر اللہ سے اپنی لا علمی کی معافی مانگی اور پھرمولوی صاحب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دعا مانگنی شروع کردی. اور اللہ سے التجا کی کہ وہ اسے توفیق دے کہ وہ اس کے گھر پہنچ سکےیا اللہ کو جب ضرورت ہو خود اسکے گھر آئے وہ اسے کھانا بھی دیگا اور اسکی پوری دیکھ بھال بھی کریگا.
اگلے دن دینو صبح سویرے اٹھ گیا. اور جلدی جلدی گھر صاف کرنے لگا اسے بہت امید تھی کہ اللہ نے اسکی التجا سن لی ہوگی اور وہ ضرور اسکے گھر آکر اسے خدمت کا موقع دیگا
تب ہی اسے باہر کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی. اسنے جلدی سے دروازہ کھول کر باہر جھانکا لیکن.... باہر تو رحمت چاچا کھڑا تھا. وہ موچی تھا پورے گاؤں کے جوتے وہی بناتا تھا. دینو نے اس سے علیک سلیک کرنا چاہی مگر وہ کچھ بجھا بجھا نظر آرہا تھا.
" کیا بات ہے تمہاری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی" . دینو اسے گھر کے اندر لے آیا بےچارہ رحمت بخار میں پھنک رہا تھا. دینو نے جلدی سے اسے چائے بنا کر پلائ اور اس سے علاج کے بارے میں پوچھا.
"چھوڑو بھی کیا دوا لینی ہے کب سے ایسے ہی چل رہا ہے خود ہی ٹھیک ہوجائے گا". رحمت نے بے زاری سےجواب دیا.
دینو سمجھ گیا کہ رحمت کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں. وہ اندر گیا اور کچھ رقم اسے زبردستی تھمادی. اپنا علاج ٹھیک سے کرواؤ اور اگر مزید ضرورت ہو تو مجھے بتا ضرور دینا. رحمت ہکا بکارہ گیا اسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے. وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا.
دوپہر ہوچکی تھی دینو نے جلدی جلدی کھانے کی تیاری شروع کی. اسنے کھانے کی مقدار زیادہ رکھی تھی تا کہ جب اللہ آئے تو کھانا کافی ہو جائے وہ بار بار باہر جھانکتا لیکن اللہ کہیں نظر نہیں آیا. وہ تقریباً مایوس ہوچکا تھا کہ اسے کریم نظر آیا جو صبح سے شام تک مزدوری کرتا تھا کریم نے اسے بتایا کہ اسے کئی دن سے مزدوری نہیں ملی گھر میں اسکے بچے بھوکے ہیں اور وہ آج بھی مایوس گھر جارہا ہے. دینو کو یہ سب سن کر سخت افسوس ہوا اسنے کریم کو اپنے کھانے میں شامل کرلیا اور جب وہ جانے لگا تو راشن اور کھانے کا پارسل بنا کر اسے تھمادیا. کریم اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا.
دینو کو رحمت اور کریم کی مدد کرکے بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ کچھ اداس اور مایوس بھی تھا پورے دن انتظار کے بعد بھی اللہ اسکے پاس نہیں آیا کہیں اللہ اس سے ناراض تو نہیں. یہ سوچ کر وہ کچھ پریشان ساہوگیا اسنے جلدی سے اپنی حدیث کی کتاب نکالی پہلے پچھلا سبق دہرایا اور پھر آگے پڑھنا شروع کیا.
وہ شخص حیران ہوکر کہے گا کہ اے میرے رب، میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں.
ا للہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔
دینو کی آنکھوں کے سامنے یکدم رحمت کازرد چہرہ گھوم گیا. اسنے اگلی سطر پڑھی.
(حدیث کاباقی حصہ) وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا آپ تو دو جہان کے پالن ہار ہیں۔ اللہ فرمائیں گے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا تم اگر اسکو کھانا کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔
پھر وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب، میں آپ کو کیسے پانی پلاتا. آپ تو دوعالم کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا اگر تم اس کو پلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔
دینو کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اسکے تصور میں کریم اور رحمت جگمگا رہے تھے. وہ اپنا سبق نہ صرف سمجھ چکا تھا بلکہ اس میں کامیاب بھی ہو چکا تھا.
Thursday, May 7, 2020
آئینہ
ایک دَانا اپنی بستی کہ دروازے پر بیٹھا تھا.
ایک مُسافِر نے وہاں سے گُزرتے ہوئے اس سے پوچھا:
میں یہاں آباد ہونا چاہتا ہوں,,.مجھے بتاؤ کہ یہاں کِس قِسم کے لوگ بَستے ہیں؟
دانا انسان:جس بستی سے تم آرہے ہو وہاں کہ لوگ کیسے ہیں؟
مسافر:وہ کَمینے,ظالِم اور بد تہذیب ہیں
دانا انسان : اس بستی کہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں,
وہ مُسافر چلا گیا, کچھ دیر بعد ایک اور مسافر آیا اور اُس نے بھی دانا اِنسان سے یَہی پوچھا کہ اِس بستی کہ لوگ کیسے ہیں؟
دانا اِنسان نے اُس بھی ویسا ہی سُوال کیا کہ تمہاری بستی میں کیسے انسان بَستے ہیں؟
اس نے کہا مُہَذب, شَائِستہ ,مِہربان,نرَم خُو اور مہمان نواز,
دانا:تمہیں یہاں بھی ایسے ہی لوگ ملیں گے
ایک مُسافِر نے وہاں سے گُزرتے ہوئے اس سے پوچھا:
میں یہاں آباد ہونا چاہتا ہوں,,.مجھے بتاؤ کہ یہاں کِس قِسم کے لوگ بَستے ہیں؟
دانا انسان:جس بستی سے تم آرہے ہو وہاں کہ لوگ کیسے ہیں؟
مسافر:وہ کَمینے,ظالِم اور بد تہذیب ہیں
دانا انسان : اس بستی کہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں,
وہ مُسافر چلا گیا, کچھ دیر بعد ایک اور مسافر آیا اور اُس نے بھی دانا اِنسان سے یَہی پوچھا کہ اِس بستی کہ لوگ کیسے ہیں؟
دانا اِنسان نے اُس بھی ویسا ہی سُوال کیا کہ تمہاری بستی میں کیسے انسان بَستے ہیں؟
اس نے کہا مُہَذب, شَائِستہ ,مِہربان,نرَم خُو اور مہمان نواز,
دانا:تمہیں یہاں بھی ایسے ہی لوگ ملیں گے
پہلا قدم
ایک آدمی گدھا رہڑھی پر شیشہ لے کر جا رہا تھا کہ سڑک پر ایک کھلے گٹر کی وجہ سے اس کی ریڑھی الٹ گئی اور سارا شیشہ ٹوٹ گیا.
وہ غریب فٹ پاتھ پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور رونے لگا کہ مالک کو کیا جواب دوں گا۔ لوگ اس کے ارد گرد کھڑے ہوگئے اور ہمدردی تسلی دینے لگے۔
.
اتنے میں ایک بزرگ آگے بڑھے اور سو روپے اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہنے لگے بیٹا اس سے نقصان تو پورا نہیں ہوگا ۔۔۔ لیکن رکھ لو۔ بزرگ کی دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی اس کے ہاتھ پر سو پچاس کے نوٹ رکھنے شروع کر دئیے تھوڑی ہی دیر میں شیشے کی قیمت پوری ہوگئی. اس نے سب کا شکریہ ادا کیا ....
تو ایک شخص بولا بھئی شکریہ ان بزرگ کا ادا کرو جنھوں نے ہمیں یہ راہ دکھائی اور خود چپکے سے چل دئیے۔۔۔
پہلا قدم اٹھانے کی ہی دیر ہوتی ہے ؛؛
باقی قدم خود بخود اٹھنے لگتے ہیں ۔۔ !!
حاصل کلام : سب ہی اپنے طور پر نیکی کا کام کرنا چاہتے ہیں ؛؛
لیکن سوال یہ ہے کہ پہلا قدم بڑھائے کون، راستہ دکھائے کون ؟؟
وہ غریب فٹ پاتھ پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور رونے لگا کہ مالک کو کیا جواب دوں گا۔ لوگ اس کے ارد گرد کھڑے ہوگئے اور ہمدردی تسلی دینے لگے۔
.
اتنے میں ایک بزرگ آگے بڑھے اور سو روپے اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہنے لگے بیٹا اس سے نقصان تو پورا نہیں ہوگا ۔۔۔ لیکن رکھ لو۔ بزرگ کی دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی اس کے ہاتھ پر سو پچاس کے نوٹ رکھنے شروع کر دئیے تھوڑی ہی دیر میں شیشے کی قیمت پوری ہوگئی. اس نے سب کا شکریہ ادا کیا ....
تو ایک شخص بولا بھئی شکریہ ان بزرگ کا ادا کرو جنھوں نے ہمیں یہ راہ دکھائی اور خود چپکے سے چل دئیے۔۔۔
پہلا قدم اٹھانے کی ہی دیر ہوتی ہے ؛؛
باقی قدم خود بخود اٹھنے لگتے ہیں ۔۔ !!
حاصل کلام : سب ہی اپنے طور پر نیکی کا کام کرنا چاہتے ہیں ؛؛
لیکن سوال یہ ہے کہ پہلا قدم بڑھائے کون، راستہ دکھائے کون ؟؟
Tuesday, May 5, 2020
بندگی کا روزہ
*بھوک کی اذیت بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ مگر گرمی کے طویل روزے میں پیاس کی اذیت بھوک کی تکلیف کو بھلا چکی ہے۔ پیاس سے گلا خشک ہوچکا ہے۔ منہ سوکھ چکا ہے۔ جسم نڈھال ہوچکا ہے۔ مگر آپ کبھی پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پئیں گے۔ اس لیے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ یہ روزہ ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے جس کی بنا پر ہم اتنی مشقت جھیلتے اور اس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں۔*
*مگر دوسری طرف ہم سب ایک اور روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بندگی کا روزہ ہے۔ یہ روزہ خدا کی ہر نافرمانی کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہم بندگی کا روزہ ہر روز توڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ عین روزے کے عالم میں بھی توڑتے ہیں۔ مگر ہمارا ہر احساس اس سنگین جرم کو سمجھنے کے لیے مردہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اس جرم کو کبھی جرم ہی نہیں سمجھا۔*
*جس وقت ہم فواحش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حرام کھاتے اور کماتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتے، انھیں دھوکہ دیتے اور ان کا مال دباتے ہیں، بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ جس وقت ہم غیبت کر کے کسی کو رسوا کرتے ہیں۔ جس وقت ہم الزام و بہتان لگا کر کسی کو بدنام کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم اپنی خواہشات کو دین بنا لیتے ہیں۔ جس وقت ہم اپنے تعصبات کی بنا پر سچائی کو رد کر دیتے ہیں۔ جس وقت ہم عدل و انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*مگر دوسری طرف ہم سب ایک اور روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بندگی کا روزہ ہے۔ یہ روزہ خدا کی ہر نافرمانی کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہم بندگی کا روزہ ہر روز توڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ عین روزے کے عالم میں بھی توڑتے ہیں۔ مگر ہمارا ہر احساس اس سنگین جرم کو سمجھنے کے لیے مردہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اس جرم کو کبھی جرم ہی نہیں سمجھا۔*
*جس وقت ہم فواحش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حرام کھاتے اور کماتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتے، انھیں دھوکہ دیتے اور ان کا مال دباتے ہیں، بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ جس وقت ہم غیبت کر کے کسی کو رسوا کرتے ہیں۔ جس وقت ہم الزام و بہتان لگا کر کسی کو بدنام کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم اپنی خواہشات کو دین بنا لیتے ہیں۔ جس وقت ہم اپنے تعصبات کی بنا پر سچائی کو رد کر دیتے ہیں۔ جس وقت ہم عدل و انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
Monday, November 19, 2018
Pakistan Standard Time
a fact Imany Pakistanis may not be aware of...
پاکستان کا معیاری وقت ۔۔
شکرگڑھ آپکو معلوم ہے کہ پاکستان کا معیاری وقت کب اور کیسے طہ کیا گیا ؟
30 ستمبر 1951 پاکستان کے معیاری وقت کا تعین کیا گیا۔
پاکستان کا معیاری وقت شکرگڑھ سے لیا جاتا ھے.
" دین پناہ " وہ مقام ھے جہاں سورج کی پہلی کرن پاکستان پر پڑتی ھے. یہ گاوں دین پناہ بھائی پور اور لالیاں کے وسط میں واقع تھا یہ گاوں مکمل طور پر ختم ھو چکا ھے وھاں پر اب صرف ایک مسجد ہی باقی ھے. اسی مقام سے ھندوستان کا بارڈر ختم ھوتا ھے اور کشمیر کا بارڈر شروع ھوتا ھے.
پاکستان کا معیاری وقت گرینچ ٹائم سے پورے پانچ گھنٹے آگے ہے۔ اس کاتعین ممتاز ماہر ریاضی پروفیسر محمود انور نے کیا تھا۔حکومت پاکستان نے اسے اختیار کرنے کا اعلان 30 ستمبر 1951 کو کیا اور یہ یکم اکتوبر 1951 سے نافذ العمل ہو گیا تھا۔
پروفیسر محمود انور وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کا معیار ی وقت بھارت سے آدھ گھنٹہ پیچھے ہے۔ حکومت ِپاکستان نے ان کی اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کا معیاری وقت مقرر کیا۔
پاکستان کا معیاری وقت ۔۔
شکرگڑھ آپکو معلوم ہے کہ پاکستان کا معیاری وقت کب اور کیسے طہ کیا گیا ؟
30 ستمبر 1951 پاکستان کے معیاری وقت کا تعین کیا گیا۔
پاکستان کا معیاری وقت شکرگڑھ سے لیا جاتا ھے.
" دین پناہ " وہ مقام ھے جہاں سورج کی پہلی کرن پاکستان پر پڑتی ھے. یہ گاوں دین پناہ بھائی پور اور لالیاں کے وسط میں واقع تھا یہ گاوں مکمل طور پر ختم ھو چکا ھے وھاں پر اب صرف ایک مسجد ہی باقی ھے. اسی مقام سے ھندوستان کا بارڈر ختم ھوتا ھے اور کشمیر کا بارڈر شروع ھوتا ھے.
پاکستان کا معیاری وقت گرینچ ٹائم سے پورے پانچ گھنٹے آگے ہے۔ اس کاتعین ممتاز ماہر ریاضی پروفیسر محمود انور نے کیا تھا۔حکومت پاکستان نے اسے اختیار کرنے کا اعلان 30 ستمبر 1951 کو کیا اور یہ یکم اکتوبر 1951 سے نافذ العمل ہو گیا تھا۔
پروفیسر محمود انور وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کا معیار ی وقت بھارت سے آدھ گھنٹہ پیچھے ہے۔ حکومت ِپاکستان نے ان کی اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کا معیاری وقت مقرر کیا۔
Saturday, November 17, 2018
ہماری اصلیت
فرض کیجئے آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں اور کوئی آپ کو دھکا دے دیتا ہے، تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کے کپ سے چائے چھلک جاتی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کپ سے چائے کیوں چھلکی؟ تو آپ کا جواب ہوگا : کیونکہ فلاں نے مجھے دھکا دیا۔۔۔
غلط جواب۔۔
درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لئے چھلکی۔۔۔
آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے۔۔۔۔
اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے، تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔۔۔
آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے۔۔۔۔
تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا؟
صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار۔
یا
غصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت۔
چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے۔۔۔
فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے..!!
Subscribe to:
Posts (Atom)