Saturday, May 9, 2020

دینو کی دعوت

دینو مسجد میں داخل ہواتو مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے. وہ چپ چاپ سنتا رہا معمولی پڑھا لکھا تھا کچھ سمجھ آیا کچھ نہ آیا لیکن جب مولوی صاحب نے بتایا کہ ہمیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور کچھ ایسے واقعات بھی سنائے جب کسی معمولی سے عمل کی بنیاد پر اللہ نے بےحساب اجر دیا تو اس نے سوچا کہ یہ کوشش تو میں بھی کرسکتا ہوں بس جناب نماز ختم ہوتے ہی وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے کوئی آسان سی کتاب مانگی جس پر عمل کرکے وہ بھی ثواب کما سکے. انہوں نے اسکا شوق دیکھتے ہوئے اسے ایک آسان سی حدیث کی باترجمہ کتاب تھما دی. 

دینو کو نیا مشغلہ مل گیا تھا روز کھیتی کے کام سےفارغ ہو کر کتاب پکڑتا اور ہجے کر کر کے پڑھتا. سردیوں کے دن تھے. اسکے بیوی بچے اپنے میکےبرابر والے گاؤں میں گئے ہؤے تھےاس نے باہر جھانکا. ہر طرف خاموشی تھی کبھی کبھی کبھی کسی چرند پرندکی آواز سنائی دے جاتی یا کوئی اکا دکا دیہاتی گزرتا نظر آجاتا.وہ اپنے بستر پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کی دی ہوئی کتاب 📙 نکال کر پڑھنے لگا.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا
 قیامت کے دن اللہ عزوجل ایک شخص سے فرمائیں گے اے ابن آدم، میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی۔

دینو چونک گیا اور حیرت  کے عالم میں آگے پڑھنے لگا. 

اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔

دینو مزید پریشان ہوگیا اسے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ کو بھی یہ سب چاہیے ہوتا ہے. اس نے اٹک اٹک کر آگے پڑھنا شروع کیا. 

اے ابن آدم، میں نے تم سے پانی مانگا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا... 

دینو کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے. اس نے کتاب بند کردی . سب سے پہلے تو اس نے رو رو کر اللہ سے اپنی لا علمی کی معافی مانگی اور پھرمولوی صاحب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دعا مانگنی شروع کردی. اور اللہ سے التجا کی کہ وہ اسے توفیق دے کہ وہ اس کے گھر پہنچ سکےیا اللہ کو جب ضرورت ہو خود اسکے گھر آئے وہ اسے کھانا بھی دیگا اور اسکی پوری دیکھ بھال بھی کریگا. 

اگلے دن دینو صبح  سویرے اٹھ گیا. اور جلدی جلدی گھر صاف کرنے لگا اسے بہت امید تھی  کہ اللہ نے اسکی التجا سن لی ہوگی اور وہ ضرور اسکے گھر آکر اسے خدمت کا موقع دیگا
تب ہی اسے باہر کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی. اسنے جلدی سے دروازہ کھول کر باہر جھانکا لیکن.... باہر تو رحمت چاچا کھڑا تھا. وہ موچی تھا پورے گاؤں کے جوتے  وہی بناتا تھا. دینو نے اس سے علیک سلیک کرنا چاہی مگر وہ کچھ بجھا بجھا نظر آرہا تھا.
" کیا بات ہے تمہاری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی" . دینو اسے گھر کے اندر لے آیا بےچارہ رحمت بخار میں پھنک رہا تھا. دینو نے جلدی سے اسے چائے  بنا کر پلائ اور اس سے علاج کے بارے میں پوچھا. 

"چھوڑو بھی کیا دوا  لینی ہے کب سے ایسے ہی چل رہا ہے  خود ہی ٹھیک ہوجائے گا". رحمت نے بے زاری سےجواب دیا. 
دینو سمجھ گیا کہ رحمت کے پاس علاج کے پیسے  نہیں ہیں. وہ اندر گیا اور کچھ رقم اسے زبردستی تھمادی. اپنا علاج ٹھیک سے کرواؤ اور اگر مزید ضرورت ہو تو مجھے بتا ضرور دینا. رحمت ہکا بکارہ گیا اسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے. وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا. 

دوپہر  ہوچکی تھی دینو نے جلدی جلدی کھانے کی تیاری شروع کی. اسنے کھانے کی مقدار زیادہ رکھی تھی تا کہ جب اللہ آئے تو کھانا کافی ہو جائے وہ بار بار باہر جھانکتا لیکن اللہ کہیں نظر نہیں آیا. وہ تقریباً مایوس ہوچکا تھا کہ اسے کریم نظر آیا جو صبح سے شام تک مزدوری کرتا تھا کریم نے اسے بتایا کہ اسے کئی دن سے مزدوری نہیں ملی گھر میں اسکے بچے  بھوکے ہیں اور وہ آج بھی مایوس گھر جارہا ہے. دینو کو یہ سب سن کر سخت افسوس ہوا اسنے کریم کو اپنے کھانے میں شامل کرلیا اور جب وہ جانے لگا تو راشن اور کھانے کا پارسل بنا کر اسے تھمادیا. کریم اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا. 

دینو کو رحمت اور کریم کی مدد کرکے بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ کچھ اداس اور مایوس بھی تھا پورے دن انتظار کے بعد بھی اللہ اسکے پاس نہیں آیا کہیں اللہ اس سے ناراض تو نہیں. یہ سوچ کر وہ کچھ پریشان ساہوگیا اسنے جلدی سے اپنی حدیث کی کتاب نکالی پہلے پچھلا سبق دہرایا اور پھر آگے پڑھنا شروع کیا. 

وہ شخص حیران ہوکر کہے گا کہ اے میرے رب، میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں. 
ا للہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔

دینو کی آنکھوں کے سامنے یکدم رحمت کازرد چہرہ  گھوم گیا. اسنے اگلی سطر پڑھی. 
(حدیث کاباقی حصہ) وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا  آپ تو دو جہان کے پالن ہار ہیں۔ اللہ فرمائیں گے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا تم اگر اسکو کھانا کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔
 پھر وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب، میں آپ کو کیسے پانی پلاتا. آپ تو دوعالم کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا اگر تم اس کو پلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔

دینو کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اسکے تصور میں کریم اور رحمت جگمگا رہے تھے. وہ اپنا سبق نہ صرف سمجھ چکا تھا بلکہ اس میں کامیاب بھی ہو چکا تھا.

No comments:

Post a Comment