Friday, May 29, 2020

شکایت


شکایت ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ نہ صرف عام انسان بلکہ پیغمبروں کے بارے میں بھی بڑی بڑی شکایتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ حتی کہ نعوذ باللہ خود خدا بھی شکایتوں سے مستثنی نہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں کے لیے خدا کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک مستقل بحث ہے جس کو بگاڑ کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ اس کے دعویدار کہتے ہیں کہ یا تو خدا کا وجود نہیں ہے۔ اور اگر خدا ہے تو وہ کامل معیار والا نہیں۔ خدا اگر کامل معیار والا ہوتا تو دنیا میں بگاڑ کیوں ہوتا۔ 
شکایت کبھی واقعہ ہوتی ہے اور کبھی محض شکایت کرنے والے شخص کے اپنے ذہن کا نتیجہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کسی کے خلاف کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کرو [الحجرات ۶]۔  تحقیق سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بات صحیح تھی یا نہیں۔ 
شکایت کی بہت سے قسمیں ہیں۔ ان میں سے سے بری قسم وہ ہے جو احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے کو بطور خود بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس کو خدا نے اس سے اوپر کردیا ہو تو یہ اول الذکر شخص کے لیےبڑا سخت لمحہ ہوتا ہے۔ عام طور پر وہ تسلیم نہیں کرپاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔  وہ اپنی بڑائی کے ٹوٹنے کو برداشت نہیں کرپاتا۔ اس کی شخصیت پھٹ جاتی ہے وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کی تحقیر کرتا ہے تاکہ اپنے جذبہ برتری کی تسکین حاصل کرے۔ وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تاکہ اس کو بے عزت کرکے اپنے متکبرانہ نفسیات کو غذا فراہم کرے۔ وہ خود ساختہ طور پر طرح طرح کی باتیں نکال کر اس کو چھوٹا ظاہر کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے یہ اطمینان حاصل کرسکے کہ وہ بڑا ہے ہی نہیں۔ آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے تیار رہے تو تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ آدمی چونکہ حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنے آپ کو شکایت سے اوپر اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ 

No comments:

Post a Comment