Sunday, September 13, 2020

‎مولانا روم رحمة اللّہ علیہ


‎مولانا روم رحمة اللّہ علیہ  کا واقعہ  ہے کہ آپ بڑے عالمِ  دین تھے اور حدیث و فقہ پڑھاتے تھے ۔ ان کا اپنا مدرسہ تھا ۔ تو ، وہاں پر ایک دن پڑھا رہے تھے کہ ایک درویش آگیا ، وہ ایک مجذوب درویش تھا ۔ اس نے کہا ... " یہ کتابیں کیا ہیں ؟ "  

‎  مولانا روم رح نے کہا ، " تُو درویش آدمی ہے ، تُو کیا جانے کہ یہ کیا ہے ؟  یہ بہت اعلیٰ باتیں ہیں ، نوٹس ہیں ، حدیث ہے ، فقہ ہے ، قرآن ہے ، تفسیر ہے ، اب  میں تمہیں کیا بتاوٴں کہ یہ کیا کچھ ہے ۔ تُو اسے جانے دے  اور تُو  جا ۔ " 

‎مجذوب نے کہا ، اچھا ،  اور  پھر یہ کام کیا کہ ،  ساری کتابیں اٹھا کر تالاب کے پانی میں ڈال دیں  ، جو کہ مسجد کے صحن میں تھا ۔ 

‎     مولانا نے چیخیں لگانی شروع کر دیں کہ میری زندگی بھر کی محنت چلی گئی  ہے ، اور میری ساری زندگی کا حاصل غرق ہو گیا  ۔ 

‎   مولانا روم رح جب بہت زیادہ  روئے ،  تو اس درویش نے  ہاتھ ڈالا ، اور بالکل خشک کتابیں پانی سے نکال لیں  ۔ مولانا حیران رہ گئے اور کہا ، " یہ کیا ہے ؟ "

‎    وہ کہنے لگے ، " تُو کیا جانے کہ یہ کیا ہے  ؟ تُو اپناکاروبار کر ۔"   اتنا کہہ کر وہ آگے چلے گئے ۔ 

‎   کہتے ہیں تین سال مولانا روم اس درویش کے پیچھے پیچھے اور وہ آگے چلتے رہے ۔
‎بڑی مشکل سے مولانا نے انہیں پکڑا کہ خدا کے لئے  مجھے معاف کر دیں .

‎    میں تین سال سے آپ کے پیچھے پھر رہا ہوں کہ مجھے اپنا بنا لو ۔ 

‎  کہنے لگے ۔۔۔۔،
‎    " تُو صرف تین سال سے میرے پیچھے ہے اور میں تو پچیس سال سے تیری تلاش میں ہوں ۔ " 
 
‎  تو بات اتنی ساری ہے کہ ،  جو سچا پیر ہوتا ہے ، وہ سچے مرید کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ سچا پیر  بڑی Rare  چیز ہوتا ہے ۔ 

‎    حضرت واصف علی واصف رح
‎   ( گفتگو 3 )

Find yourself

"آج میں پانچ منٹ میں ان لوگوں تک ایک سبق پہنچانا چاہتا ہوں.۔ جو کسی بھی وجہ زندگی میں رک گئے ہیں۔ ہم سب کی زندگی میں ایسے حادثے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں گرا دیتے ہیں توڑ دیتے ہیں۔
"ہمیں لگتا ہے۔ ہم برے ہیں, ہم بد قسمت ہیں, تبھی ہم خود سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں. لوگوں سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ خود کو اپنے کمرے میں, گھر میں قید کر لیتے ہیں۔ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ زندگی جہنم ہو جاتی ہے۔ موت کی طلب بڑھ جاتی ہے۔"

"مگر آج میں ہر ٹوٹے دل, ہارے ہوئے, تھکے ہوئے سے مخاطب ہوں۔ یہ کچھ پوائنٹ اٹھا لو اور آگے بڑھو۔

"سب سے پہلے
identify yourself.

خود کو پہچانو۔ تم کون ہو, تمہارا مقصد کیا ہے۔ اللہ نے تمہیں کیوں بھیجا ہے۔ زمین پر موجود ایک درخت, ایک پہاڑ, ایک کیڑا بھی بوجھ نہیں ہے۔ تو تم بے مقصد نہیں ہو سکتے۔ خود کی تلاش میں نکلو۔ اپنے دل میں جھانکو۔ سجدوں میں ڈھونڈو۔ رات کے اندھیرے میں ہاتھ اٹھاؤ۔ جب تم میں خود کو جاننے کی طلب ہو گی تو اللہ تمہارے دل میں تمہارا مقصد ڈال دے گا۔" 

"بی یور سیلف "Be yourself

"جو ہو وہی رہو۔ خود کو لوگوں کی دیکھا دیکھی مت بدلو۔
Dont try to be someone else bcz everybody else is already taken
(کسی اور کی طرح بننے کی کوشش مت کرو کیوں کہ وہ پہلے ہی لیا جا چکا ہے)

اور "بی یورسیلف" کا اصول ہے کہ خود کا دوسروں سے موازنہ مت کرو۔ اگر موٹیویشن چاہئیے تو اوپر والوں کو دیکھو اور اگر احساس کم تری ہو رہا ہے۔ تکلیف ہو رہی ہے تو فوراً نیچے والوں سے موازنہ کرو۔ تمہارے پاس گاڑی نہیں ہے تو دیکھو کسی کے پاس سائکل بھی نہیں ہے۔ تمہارے پاس بڑا گھر نہیں ہے توکوئی فٹ پاتھ پر سو رہا ہے۔ تمہارے پاس کھانے کو پزا برگر نہیں ہے کوئی کچرے سے کھا رہا ہے۔ موازنہ کرنا ہی ہے تو ایسے کرو۔"

" ویلیو یورسیلف. " Value yourself

"جب تم خود کو جان جاؤ تو اپنے آپ کو اہمیت دو۔ ویلیو دو۔ خود پر کام کرو۔ خود کو اپ گریڈ کرو۔ نئی سکلز سیکھو فیوچر ڈگری کا نہیں ہنر کا ہے۔ میں کہتی ہوں ہر لڑکا اور لڑکی کو ایک ایسا ہنر ضرور آنا چاہئے کہ جب وہ چاہے اس سے پیسے بنا لے۔ خود کو بہتر سے بہتر بناؤ۔".

"ویلیو دینے کا دوسرا اصول ہے کہ کسی کو بھی اجازت مت دو کہ تم پر انگلی اٹھائے۔ وہ تمہیں تکلیف دے, اپنے گرد ہیلتھی باؤنڈری بنا لو۔ ہر کسی کو یہ باؤنڈری پار مت کرنے دو اور زندگی میں 'نہ' کہنا سیکھو۔ جب کوئی تمہیں تمہاری مرضی کے خلاف یا تمہاری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کوئی کام کروانا چاہتا ہو تو اسے نہ کہہ دو۔ (نہ کہنا سیکھیں, کیونکہ دوسروں کو نہ کہہ کر آپ خود کو ہاں کہہ رہے ہوتے ہیں۔) 

" ایکسیپٹ یور سیلف. "Accept yourself

"تم جیسے ہو خود کو قبول کرو۔ قد چھوٹا ہے, رنگ کالا ہے, بہت لمبے ہو۔ جو بھی ہے جیسے بھی ہے خود کو قبول کرو لوگ تب ہی تمہیں قبول کریں گے۔ جب تم خود کو قبول نہیں کرتے تو لوگ تمہارا مزاق اڑاتے ہیں۔ تم خود کو آج قبول کر لو۔ اس حد تک قبول کر لو کہ جب کوئی تمہاری کسی کمی کا مزاق اڑائے تو اس اعتماد سے سر اٹھائے بیٹھے رہو کہ اسے لگے اس نے کچھ غلط بول دیا۔"

" فار گو یور سیلف "forgive yourself

"ٹھیک ہے تم نے غلط بندہ چن لیا, ٹھیک ہے تم وقت پر صحیح لوگوں کو ٹائم نہیں دے سکے۔ ٹھیک ہے تم میڈیکل میں نہیں جا سکے, ٹھیک ہے تم انجینیئر نہیں بن سکے, ٹھیک ہے تم نے زندگی میں غلط فیصلے لے لیے, ٹھیک ہے تم اچھے لوگوں کو نہیں پہچان سکے۔ اب خود کو معاف کر دو پلیز۔ دوسروں کی معافی کے لیے ضروری ہے کہ تم خود کو معاف کر دو۔ ہر پچھتاوا پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ آؤ۔ کوئی تمہیں تمہاری تکلیفوں سے نکالنے نہیں آئے گا مگر تم خود اپنا بازو پکڑ کر خود کو باہر کھینچ لاؤ۔ اپنا مسیحا خود بن جاؤ۔" 

" لو یورسیلف. "Love yourself

"لو یور سیلف کا اصول ہے رسپیکٹ یور سیلف۔ کوئی تمہاری تب تک عزت نہیں کرے گا جب تک تم اپنی عزت نہیں کرو گے۔ پیارے بھائیوں ! خود سے محبت کرو۔ دوسروں کے سامنے گرنا نہیں کھڑا ہونا ہے۔
Don't let any body disrespect you

"اور جب تم خود کو عزت دینا, ویلیو دینا سیکھ جاؤ گے تو تم دوسروں کو بھی یہ سب دے سکو گے اور پھر جب تم زند گی میں کسی مقام پر پہنچ جاؤ تو اپنے سے نیچے والوں کا ہاتھ تھام کر اوپر کھینچ لینا۔"

"مجھے عہد چاہئیے کہ ہم ہار نہیں مانیں گے۔ اپنے لیے لڑیں گے۔ اپنی پہچان بنائیں۔ میں ان لوگوں سے انسپائر نہیں ہوتی جو اپنے والد کا پیسہ شو آف کرتے ہیں۔ اگر تم کچھ ہو تو اپنا کمایا دکھاؤ۔ مجھے بتاؤ تمہارا کیا ہے۔ ہم وکٹم نہیں ہیں ہم فائٹر ہیں, ہم لڑیں گے۔ اپنی تکلیفوں سے، اپنے غموں سے۔"

"We all will rise"
"پیارے دوستوں! وی آل ول رائز۔ لیکن ضروری ہے کہ خودی کو پہچان لو. ہم عام نہیں ہیں۔ کوئی بھی عام نہیں ہے۔ سب اپنی اپنی پسند کی فیلڈ میں آگے بڑھ آؤ, کچھ کر جاؤ۔ تمہاری پہچان تمہارا خاندان, تمہارے ماں باپ, بہن بھائ نہیں ہیں۔ اپنی پہچان تم خود ہو.مجھے بتاؤ تم کون ہو۔
Find yourself, find the purpose of yourself
اپنے آپ کو وقت دیجیۓ۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ پر کامل یقین رکھیے۔ جزاک اللہ خیرا....

Friday, September 11, 2020

اصلاح نفس

اصلاح نفس کے چار اصول ہیں :
 *1- "مشارطہ"* 
*اپنے نفس کیساتھ"شرط" لگانا کہ"گناہ" نہیں کروں گا-*
 *2- " مراقبہ"* 
*کہ آیا "گناہ" تو نہیں کیا*-
 *3- "محاسبہ"* 
*کہ اپنا حساب کرے کہ کتنے "گناہ"کیے اور کتنی "نیکیاں" کیں-*
 *4- "مواخذه"* 
*کہ"نفس" نے دن میں جو "نافرمانیاں" کیں ہیں اس کو ان کی"سزا" دینا اور وہ سزا یہ ہے کہ اس پر "عبادت" کا بوجھ ڈالے-*
(امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ احیاء علوم الدین)
1)*هرصبح نفس کے ساتھ شرط لگائی جائے کہ آج دن بھر گناه نہیں کروں گا...*
2) *دن بھر اپنی نگرانی رهے کہ گناه نہ هوجائے*.
3) *رات کو سونے سے پہلے تنہائی میں دن بھر کا جائزه لیا جائے کہ کیا غلط هوا اور کیا اچھا هوا۔ *
4) *جوغلط هوا اس پر شرمندگی کے ساتھ استغفار کرلے اور جو اچھاکیا اس پر خوب اللہ تعالٰی کا شکر کرے.*.
*یہ حاصل هے اوپر ذکرکئے گے اصلاح نفس کے اصول کا.*
*اللہ تعالٰی هم سب کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ فرمائیں*۔

جی لو اپنی زندگی !!!

یہ عادتیں ہی ہیں جو ہمیں بگاڑتی ہیں، سنوارتی ہیں یا جیتا رکھتی اور مارتی ہیں. یہ عادتیں ہی ہیں جن کے ہاتھوں ہم کم کم جیتے ہیں، یا پھر اپنی زندگی کا نقش چٹانوں پر چھوڑ جاتے ہیں. ہم وہی کچھ بن جاتے ہیں جو ہم مسلسل کرتے ہیں. 

کیا آپ اپنی کسی ایسی عادت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو پچھلے دس برس سے آپ کے ساتھ ہے؟ اگر آپ وہاں تک پہنچ چکے ہیں تو آپ کو یہ احساس بھی ہوجائے گا کہ وہ عادت آپ کی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی ہے، چاہے اسے گاڑی چلانی آتی ہے، یا نہیں. 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی عادتوں کے بارے میں کم اور ہمیں جاننے والے ان عادتوں سے زیادہ واقف ہوتے ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر عادتوں کے ہاتھوں ہپناٹائز ہوچکے ہوتے ہیں. اور آٹو پر چل رہے ہوتے ہیں. 

عادتوں کی نفسیات پر پچھلے تیس برسوں میں بہت کام ہوا. انہی دنوں سٹیون کووے کی سات عادتوں کی کتاب بہت مقبول ہوئی. اب بات اس سے بہت آگے جاچکی ہے. مثال کے طور نفسیات نے حال ہی میں دریافت کیا کہ اگر آپ کوئی بھی کام، یہ جانتے ہوئے کریں کہ وہ آپ اپنے بجائے کسی اور کے لیے کر رہے ہیں تو وہ کام زیادہ جذبے اور تندہی سے انجام دیا جاتا ہے.

مثال کے طور پر اگر دو لوگ دوڑ رہے ہیں. ایک اپنی جان بنانے کے لیے اور دوسرا اپنی والدہ کے علاج کے لیے فنڈ ریزنگ کرنا چاہتا ہے تو وہ زیادہ انرجی کے ساتھ زیادہ دیر تک بھاگ سکے گا. 

اکثر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر کمند ڈالنے کے بجائے چھوٹے موٹے کاموں میں خرچ ہورہے ہیں، جب کہ ان کی منزل آسمانوں میں ہے. ایسے افراد عموماً اپنی عادات کے ہاتھوں ایک اوسط درجے کی زندگی گھسیٹ رہے ہوتے ہیں. ہائی پرفارمر بننے کے لئے اپنی عادتوں کو نتھ ڈالنی پڑتی ہے. 

نفسیات نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ اور کرنے والی عادتیں خود نہیں بنتیں بلکہ ان کے لیے پسینہ بہانا پڑتا ہے. 

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر، اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ہر روز دوہرا کر خوش رہتے ہیں. اکثر افراد کا بیس سالہ تجربہ ایک جیسی حرکتیں، مسلسل بیس برس تک کرتے رہنا ہوتا ہے. ایسا رویہ کچھ سیکھنے اور اپنی نشوونما کے لیے سم قاتل ہے. آپ نے اپنے دوستوں میں کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جنہوں نے گزشتہ بیس، پچیس برس میں مجال ہے اپنے آپ کو بدلا ہو. یہ رویہ اوسط درجے کی زندگی گزارنے کے لیے تیر بہدف نسخہ ہے. 

عادتوں کے حوالے سے ایک وارننگ دیتا چلوں کہ دنیا میں آپ کی عادتوں کے حوالے کر سب سے بڑا ایکسرے مشین آپ کی اہلیہ یا خاتون دوست کے اندر لگی ہوئی ہوتی ہے. 

عادتوں کے حوالے سے مشہور ہے کہ کوئی بھی کام اگر 21 دن مسلسل کرلیا جائے تو اس کو عادت میں بدلا جاسکتا ہے. ماسٹر ہیبٹ کے لیے تقریباً دس ہزار کے آس پاس گھنٹے درکار ہوتے ہیں. اگر آپ بولنے کو لکھنے کو پڑھنے کو، بھاگنے کو، یا کسی بھی مہارت کو دس ہزار گھنٹے دیں توانائی اس میں ماسٹری پیدا کرسکتے ہیں. 

بدقسمتی سے سیلف ڈسپلن، یعنی اپنے آپ سے الجھنا اور اپنے آپ سے کشتی کرنا، کسی بھی نئی عادت کے جنم لینے کے لیے سب سے بڑی شرط ہے. اکثر لوگ یہیں کھیت رہتے ہیں. مثال کے طور اپنے نیو ائیر ریزولیوشن ذہن میں لے کر آئیں؟ یا جب آپ نے آخری بار اپنا وزن کم کرنے کی نیت کی تھی؟ یا صبح کی سیر کے لئے الارم لگایا تھا؟ یا میٹھے سے پرہیز کا وچن کیا تھا؟ تبھی دنیا میں ٹیلنٹ کا سب سے بڑا مرکز قبرستان کو کہا جاتا ہے جہاں طرح طرح کے تان سین، ارطغرل، ٹییپو سلطان، محمد علی کلے، ساچن ٹنڈولکر اور دیگر ہیرو اپنے دل کے ارمان دل ہی میں لیے سو رہے ہوتے ہیں. 

چلیں ایک اور ٹیسٹ کرلیتے ہیں، آپ اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنی دھن کے پکے ہیں اور کوئی موسم، گرمی، سردی انہیں ان کے معمول یا فوکس سے باز نہیں رکھ سکتی؟ آپ انہیں بمشکل اپنی دس انگلیوں پر گن پائیں گے. 

ایک اور ٹیسٹ کر لیں، آپ کے خاندان یا دوستوں میں سے کس نے پچھلے پانچ برس میں وزن کم کیا اور پھر پانچ برس سے وہی کمی برقرار بھی رکھی ہے؟ اب صرف ایک ہاتھ کی انگلیاں ہی کافی ہورہیں گی. 

نفسیات کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق کامیاب سی ای او صرف اپنے بزنس میں ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی فٹ ہوتے ہیں اور ان کا انرجی لیول ایتھلیٹس کے مقابلے کا ہوتا ہے. اور یہ لیول صرف ورزش کی عادت پختہ ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے. 

تحقیقات کے مطابق دیکھا گیا ہے کہ ہر نئے دن کے آغاز پر اس دن یا دن میں ہونے والے کاموں کے بارے میں اپنی نیت واضح کرنے والے افراد زیادہ کامیاب رہتے ہیں. بس کوئی بھاری بھرکم کام نہیں. صرف یہی سوچنا ہے کہ آپ آج کے دن سے کیا چاہتے ہیں، کوئی بھی کام کیوں کررہے ہیں، اور کسی بھی ملاقات، فون کال یا سرگرمی سے کیا نکالنا چاہتے ہیں. سننے میں تو یہ عام سی بار لگتی ہے، آج سے کرنا شروع کریں تو اثرات معجزاتی ہوسکتے ہیں. 

تحقیقات میں یہ بھی دیکھنا گیا کہ اپنے کام سے پیچھے رہنے والے افراد ای میل لکھنے میں اپنے وقت جا ایک تہائی خرچ کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو ڈیڈ لائن دینے میں کمال رکھتے ہیں، تاہم چونکہ نیت میں کھوٹ ہوتا ہے سو صرف بیس فیصد نتائج حاصل ہوتے ہیں اور باقی ڈیڈ لائن مس ہوجاتی ہیں.

عادات کے حوالے سے ایک کمال کا سبق یہ سیکھا ہے کہ اگر دو عادتیں ہوں جن میں ایک عادت سے نشوونما ہوتی ہو، جب کہ دوسری عادت صرف تسلسل لے کر آتی ہو تو تسلسل والی عادت زیادہ بہتر ہے چاہے اس کے فوری نتائج سامنے نظر نہ آتے ہوں. تسلسل سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی نہیں. ہم وہی بن جاتے ہیں جو ہم ہر روز کرتے ہیں. غصے والے، نفرت والے، پریشانی میں مہارت رکھے والے، ایکسپرٹ ڈیپریسر، آج کا کام کل پر چھوڑنے والے ان کاموں میں دس ہزار گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی مہارت اوج کمال تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے، اپنے حساب اے آپ انہیں ڈاکٹر کہ سکتے ہیں. 

حوصلہ بھی بڑی عادتوں میں سے ایک ہے. ایک بہت بڑی بدقسمتی، ایک ایسی زندگی گزارنا ہے، جو آپ گزارنا نہیں چاہتے. یہ تو عمر قید ہوئی جس میں آپ اپنے ساتھ ہی بند رہ جائیں. تاہم بہت سے لوگ ایسا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی کا نقش نہیں چھوڑ پاتے. مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں ایک پینڈو بچے کے طور پر شہر میں آیا تھا تو کلاس میں سوال پوچھنے سے لے کر ہاتھ کھڑا کرنے جیسی چھوٹی چیز پر بھی گلے میں پھندا لگ جایا کرتا تھا. صنف نازک سے بات کرتے وقت تو باقاعدہ تھرتھلی چھوٹ جایا کرتی تھی،خیر ابھی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے. تاہم حوصلے کے حوالے سے یہی شئیر کروں گا کہ حوصلہ سیکھا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ حوصلے کی اداکاری بھی کرلی جائے تو کام بن جاتا ہے. 

ساری کہانی کا لب لباب یہ ہے لوگ غیر معمولی پیدا نہیں ہوتے، بلکہ اچھوتی عادتیں سیکھ کر اپنے آپ سے بڑے ہوجاتے ہیں. آپ اپنی عادتوں پر نظر رکھیں کہ آپ کی زندگی کا بڑا حصہ ان کے ہاتھوں لکھا جائے گا. جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیوں زندہ ہیں اور ہر روز واضح نیت کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں ان میں سے اکثر موت سے پہلے اپنی کچھ نہ کچھ زندگی جینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. 

ایک مثبت عادت، دینے یا بانٹنے کی عادت ہے. یہ عادت بہت سی عادتوں کی سردار عادت ہے. سچی بات تو یہی ہے کہ وہی ہمارے کام آتا ہے جو ہم بانٹ چکے ہوتے ہیں. 

عارف انیس 

( نئی کتاب 'صبح بخیر زندگی' سے اقتباس )

بیج کے اپنے دل میں کیا ہے؟

ایک مرضی دہقان کی، کسان کی، باغبان کی ہوتی ہے. 
ایک مرضی زمین کی ہوتی ہے. 
ایک سب سے بڑی مرضی اوپر والے کی ہوتی ہے.
مالی دا کم مشکاں لانا، بھر بھر مشکاں لاوے، ہو! 
مالک دا کم، پھل، پھل لانا، لاوے یا نہ لاوے 

ہر سال کسان ہل چلاتا ہے، کھاد ڈالتا ہے، جڑی بوٹیاں تلف کرتا ہے اور پھر بیج پھینکتا ہے اور پانی دیتا ہے. بہت سے بیج آگ آتے ہیں، کونپلیں سر اٹھاتی ہیں، برگ و بار لاتی ہیں. 

پھر ایک مرضی بیج کی ہوتی ہے. 

جتنا مرضی ہل چل جائے، کھاد ڈل جائے، کھیت سیراب کردیا جائے، اگر بیج کی مرضی نہیں ہے تو وہ اپنی کھال پھاڑ کر زمین کے سینے پر دستک نہیں دے گا. کونپل نہیں پھوٹے گی. بیج اپنے آمد موجود امکانات، پیغامات، کھلیان سب اپنے ساتھ سمیٹ کر لے جائے گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے. 

یہی پرسنل ڈیویلپمنٹ کی سائنس کا دل ہے. تبدیلی کا سارا تحرک بیج کا ذاتی فیصلہ ہے، ورنہ ہل چلانے والے، کھاد ڈالنے والے تھک جائیں گے، اگر بیج اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لئے فنا ہونے پر آمادہ نہیں ہوگا! 

سیکھنے کے سلسلے میں ایک قانون واضح ہے کہ طالب جب سیکھنے کے لیے تیار ہو تو استاد کو، مربی کو، مرشد کو حاضر ہونا پڑتا ہے. یاد رکھیں، ترتیب یہی رہے گی. تڑپ استاد یا مرشد کے دل میں نہیں، طالب کے دل میں ہوگی اور سکھانے والا ظاہر ہوجائے گا. اس کے پاس کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں.

آپ اپنی زندگی میں یاد کریں جب کسی بھی سلسلے میں ایسی تڑپ پیدا ہوئی تو جیسے عالم غیب سےکوئی آن ٹپکا. اگلے کے پاس کوئی چوائس نہیں، سوال یہ ہے کہ ہو بیڈ یو وانٹ اٹ! اس کا کم از کم نسخہ یہ ہے کہ طلب میں اتنی شدت ہونی چاہیے جتنی سانس لینے کے لئے ہوتی ہیں. جب دم گھٹتا ہے اور رؤؤاں رؤؤاں اکھٹا ہوکر سر پٹختا ہے. اگر طلب میں شدت نہیں ہے تو لے ادھوری رہ جائے گی. 

مرشد رومی کہتے ہیں، جس کی تجھے تلاش ہے، وہ تیری تلاش میں تھکتا پھر رہا ہے، خواری کرتا پھر رہا ہے. بوہے، باریاں جھانکتا پھر رہا ہے. کہانی یہی ہے کہ اس تلاش میں شدت کتنی ہے؟ وجد کتنا ہے؟ 

چار سال پہلے کی بات ہے جب لندن کے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی بھرے ہوئے ہال میں، میں اور دیپک چوپڑا اکٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ٹونی بیوزان موجود تھا. دونوں ہی میرے مرشد تھے. بیوزان سے میں نے دماغ کو رنگ اور روپ کے زاویے سے پکڑنا دیکھا تھا. بیوزان کی مائنڈ میپنگ تکنیک نے مجھے صرف 45 دن میں سی ایس ایس میں کامیاب ہونے میں مدد دی تھی. 

چوپڑا ایک اور طرح کا جادوگر تھا. وہ گورے کو اسی کی زبان میں مار دیتا تھا، اس کی ساری سائنس، ساری کیمسٹری، فزکس، بائیالوجی اس کے اوپر الٹاتا تھا اور پھر جب سامعین اور ناظرین کی سوچ ہانپ جاتی تھی تو وہ تمام تر علم کے اوپر بیٹھے خدا سے آہستہ آہستہ نقاب سرکاتا تھا. آج بھی دنیا کے ڈھیر ساری رنگوں والی قومیتیں سانس روکے اس کی گفتگو سن رہی تھیں اور وہ انہیں چیلنج کر رہا تھا کہ کائنات %68 ڈارک انرجی سے بنی ہے، %27 ڈارک میٹر ہے اور %5 نارمل میٹر جس کو آج تک ہم سارے سائنسی علوم سے کسی حد تک سمجھ پائے ہیں.

پھر وہ ایک لحظے کے لیے رکا اور کہنے لگا. میرے پاس ایک سوال ڈارک میٹر اور کائنات کی بنت سے بھی زیادہ مشکل ہے. بلکہ دو سوال. اور ان دو سوالات سے مشکل سوال ڈکشنری میں وجود نہیں رکھتے. 

پانچ سو لوگ اب دم سادھے اس کے انتظار میں تھے 

"میں صبح اٹھتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں اور رات کو سوتے وقت بھی. تو کبھی آدھا جواب ملتا ہے، کبھی پاؤ بھر، مگر جتنا بھی مل جائے، کمال کا ہے. سوال بہت سادہ ہیں، شاید جواب مشکل ہیں."

ہال میں سانسوں کی سمفنی تیز ہوگئی. سینکڑوں آنکھیں اس پر جم چکی تھیں. 

"سوال دو ہیں. 
1: تم کون ہو؟ ہو آر یو؟ 
2:تم کیا چاہتے ہو؟ وٹ ڈو یو وانٹ؟ ". 
ہال میں طاری سکتہ بے تحاشا تالیوں سے ٹوٹا. لوگ بے ساختہ اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر تالیاں پیٹ رہے تھے. 

تم چاہتے کیا ہو؟ کئی بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا. اور سچی بات تو یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس کا جواب پتہ ہے، پھر آپ لکھتے ہیں، چند لکیریں کھینچے ہیں، فہرست بناتے ہیں، پھر فہرست لمبی ہوجاتی ہے. پھر صفحے ختم ہونے لگتے ہیں. پر چاہت ختم نہیں ہوتی اور فہرست دیکھ کر لگتا ہے کہ مجھے یہ نہیں، شاید کچھ اور چاہیے. 

جب بیج جان لیتا ہے کہ اسے کیا چاہیے تو پھر اسے پھوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر ایک ہی چیز بیج کے لیے مشکل ہے کہ اسے اپنا "بیج پنا" فنا کرکے اگلی صورت قبول کرنی ہوگی. وہ ایک ہی وقت میں بیج اور کونپل نہیں ہوسکتا. بیج اور درخت نہیں ہوسکتے. بیج اور پھل نہیں ہوسکتا. کیا تم تیار ہو؟ 

جب طالب مانگتا ہے اور اپنی موجودہ حالت کو کھونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو پھر استاد، مربی یا مرشد کا ظہور ہوجاتا ہے. 

کہ ہم جس کی طلب میں ہوتے ہیں، وہی ہمیں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے. 

کس کی طلب میں ہو؟ کیا ڈھونڈ رہے /رہی ہو؟ 
کون ہو تم؟ 
کیا چاہتے /چاہتی ہو؟ 
بیج کے دل میں کیا ہے؟ 

عارف انیس

( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

زندگی، کرکٹ کا گھوڑا ہے



جو بھی موڑ ہیں، چکر ہیں، کھائیاں ہیں، اترائیاں ہیں، اچھے کے لیے ہیں. اسی سفر کا حصہ ہیں اور اگلے سنگ میل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہیں. ہاں ہوسکتا ہے کچھ لمحات کے لیے رستہ دھند میں کھو جائے یا نظر دھندلا جائے مگر جو یہ جو چھوٹا موٹا غوطہ ہے یہ ہمیں جگانے کے لیے ضروری ہے کہ رستہ ہموار ہو تو ہماری آنکھ لگ جاتی ہے. 

پیدائشی خوف صرف دو ہیں، تیز آواز کا خوف اور اونچائی سے ڈرنے کا خوف، باقی سب ہم نے سیکھے ہیں. لیکن جو سیکھا گیا ہو، اس کو تو بھلایا بھی جاسکتا ہے. اگر ہم اپنے خوف کے ساتھ بند کمرے میں کچھ وقت گذار سکیں اور اس کی آنکھوں میں جھانک سکیں تو اچانک اس کا حجم کم ہونے لگتا ہے. خوف اس مشہور کلاسیکی کہانی کے دیو کی طرح ہے جس کا سر آسمان سے لگ رہا ہوتا ہے مگر جب ہیرو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے تو اس کا قد سکڑنے اور سمٹنے لگ جاتا ہے. اور پھر سکڑ کر اس کا حجم چڑیا بھر رہ جاتا ہے. تاہم اس کی آنکھوں میں دیکھنا شرط ہے. 

چیزیں بگڑ سکتی ہیں، بنا بنایا کھیل تلپٹ ہوسکتا ہے اور یہی زندگی کے کھیل کی خوبصورتی ہے. مگر اسی طرح معجزاتی طور پر اجنبی لوگ مل جائیں گے، دست غیب سے امداد ہوجائے گی، ڈوبتی کشتی پار لگ جائے گی. اور ایک لمحہ رک کر سوچیں تو یہ چھوٹے موٹے معجزے آپ سب کے ساتھ ہوچکے ہیں. تاہم نامعلوم کیوں ہم یہ سب بھول جاتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور آہ بھرتے ہیں. "آخر یہ برا میرے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے؟"

آپ نے امتحان دیا، ناکامی ہوگئی، لگا زندگی کا اختتام ہوگیا. محبت کی مگر منزل نہ مل سکی، اب دیوداس بنے پھرتے ہیں. ملازمت کے لئے مشقت کی، مگر انکار ہوگیا. باہر ویزے کے لیے اپلائی کیا، پراجیکٹ بنا کر بھیجا، پے درپے پریزینٹیشز دے ماریں مگر آگے سے ملا ٹھینگا، کاروبار کیا مگر دیوالیہ نکل گیا، لگا جینے کا مقصد ختم ہوگیا. مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک وقتی مسئلے کو ایک کمبل کی طرح کھینچ کھانچ کےپوری زندگی ہر چڑھا لیتے ہیں جب کہ بنانے والے نے یہ کھیل بڑی حکمت سے ترتیب دیا ہے. یہ خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ زندگی کے کھیل میں ہمیشہ فاتح کوئی نہیں رہتا. ہر کوئی اپنی باری پر ضرور ہارتا ہے. اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جیتتا بھی ضرور ہے.

چلیں کرکٹ کو ہم سب ہی سمجھتے ہیں توہمارے دوست سندیپ مہیش واری کے لفظوں میں سوچ لیتے ہیں کہ زندگی کرکٹ کا کھیل ہے.فرض کریں کہ کرکٹ کا میچ چل رہا ہے۔ آپ بیٹنگ کر رہے ہیں۔ پیچھے کوئی وکٹ نہیں، کوئی وکٹ کیپر نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں۔ سامنے زندگی ہے جو ایک کے بعد ایک گیند آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ ایک بال آئی۔ آپ نے بیٹ گھمایا، بال بیٹ کے اوپر سے گذر کے پیچھے چلی گئی۔ اب آپ کیا کرو گے؟ یہ کھیل ایسا ہے کہ میں نے آپ سے کہا ناں کہ کوئی وکٹ نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں مطلب اگر آپ چاہو بھی تو اس زندگی کے کھیل میں آپ آوٹ نہیں ہو سکتے۔ تب تک کہ جب تک آپ میدان کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی اگر آپ پِچ پر ڈٹے رہو۔ زندگی کا بس ایک کام ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک گیند پھینکتی جا رہی ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ آپ ایک ایک کرکے گیند کھیلتے جائیں. 

یہ گیندیں کیا ہیں؟ ۔۔ ۔ یہ مواقع ہیں جو ایک کے بعد ایک زندگی آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ تو اب کرنا کیا ہے پِچ پر ڈٹے رہنا ہے۔ ایک گیند چھوٹ گئی لگ جاتی تو بہت اچھا ہوتا نہیں لگی تو بھی خوب ہے۔ اپنی توجہ پِچ کی طرف رکھو، اپنی نظر زندگی کی طرف رکھو، غور سے دیکھو ایک اور موقع گیند کی صورت میں آپ کی طرف آ رہا ہے۔ پھر بیٹ گھمایا۔ گیند کو چھوئے بغیر بیٹ آگے بڑھ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ کھیل ختم نہیں ہوا۔ دنیا کی نظر میں آپ ہار رہے ہو مگر ڈٹے رہو۔ یہاں پہ اووَرز کی کوئی حد نہیں۔ ہزاروں گیندیں اور ہیں۔ اسی طرح پانچ گیند ضائع ہوئے، آپ نے ہار نہیں مانی۔ چھٹی گیند پر آگے بڑھے اور بیٹ گھمایا، گیند بیٹ کو لگی اور چھَکّا۔ پانچ بال کی کمی پوری ہوئی۔ سارا کھیل پلٹ جائے گا ایک دن کے اندر۔ وہ ایک دن، جس دن آپ یہ ٹھان لو گے کہ چاہے جتنی بھی مشکلیں آئیں، چاہے جتنی بھی مصیبتیں آئیں۔ مجھے ہارنا نہیں ہے، میں ہارنے کے لئے اس دنیا میں نہیں آیا/آئی۔ میں لڑوں گا /گی۔ ڈٹ کر ان پریشانیوں کا سامنا کروں گا/گی۔ وہ دن آپ کی تمام پریشانیوں اور تکلیفوں کا آخری دن ہو گا۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ پھر زندگی میں پریشانیاں نہیں آئیں گی، وہ آتی رہیں گی، بس یہ ہوگا کہ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں اور اگلی گیند پر کھیل تبدیل بھی ہوسکتا ہے. اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی کا کوئی چکر نہیں کہ کوئی بھی واقعہ زندگی کے بڑے پزل کا ایک بس چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے. 

یہاں اشفاق احمد صاحب کی کئی بار سنائی ہوئی چینی حکایت انہی سے سنتے ہوئے مزہ لیجئے. ایک منگ بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔ گائوں کا رہنے والا۔ بہت ہی غریب آدمی تھا، لیکن تھاوہ صوفی آدمی، روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ تو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا، اعلیٰ درجے کا گھوڑا۔ دنیا اسے دیکھنے کے لیے آتی۔ اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بناکے رکھا ہوا تھا۔ اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا، اس کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ ایک گھوڑا ہی تھا اس کے پاس۔

بادشاہ وقت کو پتا چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جوکہ بہت اعلیٰ درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہیے۔ تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں، وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، ''اے فقیر! مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟اس نے کہا، ''حضور یہ بکائو مال نہیں ہے۔ یہ شوق سے رکھا ہوا ہے۔ یہ بیچا نہیں جاسکتا۔ یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ ،،اس نے کہا نہیں! ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے۔ اس نے کہا ، نہیں جی میں نے بیچنا نہیں ہے۔ اس نے کہا، پھر غور کرلے۔ ہم تجھے ایک پرگنہ ایک ریاست دیں گے۔ اس کے بدلے تو ہمیں یہ گھوڑا دیدے۔ وہ پھر بھی نہیں مانا۔ ضدی آدمی تھا۔ سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا، ''آدھی سلطنت لے لے، گھوڑا مجھے دے دے۔ '' اس نے کہا ، ''جناب عالی ! میں نے بتایا کہ اس کا مول کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں دے دیتا آپ کو، لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔'' تو اس نے کہا، اچھا تیری مرضی ۔

جب بادشاہ چلا گیا تو گائوں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق، بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہ وقت تیرے پاس آیا۔ اس نے آدھی سلطنت آفر کی۔ اگر ظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھی مزے کرتے۔ سارے گائوں کے مزے ہوتے۔ تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھرآئے دھکادے دیا، باہر پھینک دیا۔ تو اس نے کہا، وہ عجیب وغریب آدمی تھا کہ میرا گھوڑا ہے۔ اس نے اس کا مول لگایا، میں نے نہیں دیا۔ اس میں خوش نصیبی یا بدنصیبی کی کیا بات ہے۔ یہ تو میری زندگی ہے۔ میرا گھوڑا ہے۔ خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو، میں نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا توضدی آدمی ہے۔ تو شروع ہی سے ایسا ہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔ 

تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔ صبح اٹھا چارہ ڈالنے کے لیے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل میں گھوڑا نہیں تھا۔ اصطبل خالی تھا۔ گائوں کے لوگ آئے ، روتے پیٹتے ۔ کہنے لگے ہمارے گائوں کا حسن تباہ ہوگیا۔ تجھ سے کہا تھا ناکہ بادشاہ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔ تیرا گھوڑا پاس نہیں رہا۔ تیرے ساتھ بڑا ظلم ہوا تو تباہ ہوگیا۔ برباد ہوگیا۔ اس نے کہا، میں کہاں سے تباہ ہوگیا۔ کہاں سے برباد ہوگیا۔ ایک گھوڑا تھا، چھوٹی سی چیز تھی۔ میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔ یہ اس کا ایک حصہ تھا۔ حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو، کہ چونکہ تمہارا گھوڑا چلا گیا، اس لیے تم برباد ہوگئے۔ معمولی سی بات ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔ تجھے اللہ نے عقل ہی نہیں دی۔ وہ پھر واپس چلے گئے۔ کوئی ایک مہینہ گیارہ دن کے بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آگیا۔ اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔ وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں ، اور جنگل میں جاکر انہیں سیٹ کرتا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ تو گیارہ گھوڑے نئے اعلیٰ درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔ جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔ انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑے کردیا۔

گائوں کے لوگ آئے۔ انہوں نے کہا ''تو بڑا خوش نصیب ہے۔ تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کمال کی چیز لاکردی۔ اس نے کہا، میری کہاں خوش نصیبی ہے، گھوڑا تھا ، چلا گیا تھا۔ واپس آگیا ۔ تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے، اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔ تم اتنے نالائق لوگ، سمجھتے نہیںہو۔ تم آکر کہتے ہو، کیا خوش نصیبی ہے۔ وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔ اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔ تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت پیارا جی جان سے عزیز تھا۔ ایک باپ تھا، ایک بیٹا تھا۔ اس نے کہا، باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔ میں ان کو سدھائوں گا۔ بریک ان کروں گا ان ہارسز کو۔ چنانچہ اس نے ایک کو رسہ پھینک کر پکڑا۔ پکڑکر اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔ چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی منہ زور گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کی۔ اس کو لے کر گیا۔ بھگایا۔ جنگل میں چکر لگایا۔ 

دوسرے دن پھر جب اس پر چڑھا تو گھوڑے سے گر گیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی، اور زمین پر تڑپنے لگا۔ اس کا باپ آیا اس کو اٹھا کر لے گیا گھر۔ گائوں کے لوگ روتے پیٹتے آئے، تیری بدقسمتی ہے۔ تیراایک ہی بیٹا تھا تو تومارا گیا ۔ تباہ ہوگیا۔ بربادہو گیا ۔ ہم تو رونے، سیاپا کرنے آئے ہیں۔ اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے کہا، بھائی اس میں میری بدقسمتی کدھر سے آگئی۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔ مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے۔ تم مجھے سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تو تو مارا گیا ، توتو برباد ہوگیا۔ تیرے گھر میں تو بدنصیبی آگئی ہے۔ تائو ایک مذہب ہے۔ اس کے پیروکار بڑے وحدانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ تو یہ پوری تصویر کو مانتے ہیں اور یہ جو ٹوٹے آتے ہیں، ان کو نہیں مانتے۔ اب وہ بدنصیب باپ اور بدنصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کارن پڑا۔ جنگ طول اختیار کرگئی تو بادشاہ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔ اس نے ڈنکا بجادیا گائوں گائوں میں ڈونڈی پھیر دی اور جونوجوان بچے تھے ان کی زبردستی جبری بھرتی کے لیے وہ گائوں میں آگئے۔ جتنے خوب صورت تگڑے مضبوط بچے تھے ان کو کان سے پکڑ کر جنگ میں لے گئے۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، وہ کسی کام کا ہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ 

گاؤں کے لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے، یار! ہمارے تو پیارے بیٹے تھے، سب کو ہانک کر لے گئے۔ تو بہت اچھا رہا۔ خوش قسمت ہے۔ اس نے کہا، یار!تم بندے اس قابل نہیں ہوکہ تمہارے ساتھ رہا جائے۔ یہ گائوں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمہاری جدائی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گاؤں میں چلا گیا ۔

تو پیارے پڑھنے والے، کوئی غوطہ، کوئی جھٹکا، کوئی ناکامی، کوئی خواری، حتیٰ کہ کوئی کامیابی بھی مستقل نہیں ہے. ہماری زندگی کی فلم میں اس کی انٹری ایک خاص موقع پر کسی گانے، کسی دوگانے، کسی ڈائیلاگ کے لیے ضروری ہے. ہمیں صرف یہ سمجھا ہے اس ہونی کا مطلب کیا ہے اور پھر اگلی گیند کھیلنے کے لیے تیار ہوجانا ہے. کریز پر موجود رہیں اور بلا گھماتے جائیں. کہانی باقی ہے میرے دوست اور میچ بھی چل رہا ہے. کہانی ہٹ ہوئی یا نہیں، یہ فیصلہ تماشائیوں کو کرنے دیں، آپ کی انٹری کمال کی ہونی چاہیے.

عارف انیس 

( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

وقت پر فیصلہ کریں

ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں - جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا 
بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔۔۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے 
"وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟"
سوچیئے! 
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ 
مینڈک کو مارنے والی چیز وہ "بے غیرت انسان" ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالا
یا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ 
مینڈک اُبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا۔۔۔ 
لیکن،
سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا ۔۔۔
ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق ۔۔۔۔
اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے 
اس لیے وقت اور توانائی رہتے "جمپ" کرنے کا فیصلہ کریں ۔۔۔۔اور ہر دفعہ کنوئیں کا مینڈک بننے سے پرہیز کریں.

رشتے اور جُدائیاں - کل اور آج

ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جب گاوں کے ایک گھر تنور گرم کیا جاتا تو گھر والی خاتون  اپنی بچی کو پڑوس کے گھر بھجواتی کہ آ کے روٹیاں لگا لیں۔اور خواتین اپنا آٹا لے کر پہنچ جاتیں۔ ایک تو سب کا بھلا ہو جاتا دوسرا تنور میں جو آگ جلائی جاتی وہ ایندھن ضائع ہونے سے بچ جاتا کیونکہ ایک دفعہ آپ تنور گرم کر لیں تو پانچ گھروں کی روٹیاں پکا سکتے ہیں۔پھر تنور کے اندر بینگن سیخ میں پرو کر ڈالے جاتے اور بھون لیے جاتے اس کے بعد بھی آگ اتنی ہوتی کہ بڑے پتیلے میں پانی بھر کر چنے۔گندم۔باجرہ بمع گڑ ڈال دیتے اور کچھ دیر میں گھگھنیاں تیار ہو جاتیں۔ ہماری مائیں گھگھنیاں خیرات کے طور پر پکاتی تھیں۔جس خاتون نے قران کا اس دن ختم کیا ہوتا وہ گھنگنیاں پکا کے خیرات کرتی۔ صبح جب مکھن کے لیے دودھ بلویا جاتا تو پڑوسی بچے اس گھر لسی لینے پہنچ جاتے اور ایک ایک لیٹر لسی سب کو فری ملتی۔ گاٶں والی ماسیاں  چھوٹا سا مکھن کا پیڑا بھی ڈال دیتیں۔ اگرچہ غریبی کا زمانہ تھا مگر لوگوں کے دل بہت بڑے تھے۔ گاوں کے گھروں میں بچے ایک دوسرے کے گھر سے نمک۔مرچ۔لہسن۔پیاز۔ مانگنے آتے تو پیار محبت سے دے دئیے جاتے اور یکجہتی میں اضافہ ہوتا۔ پکے ہوے سالن کی مُنگری تو ساتھ کے ایک دو گھر ضرور جاتی اب فریج میں سب کچھ جمع رہتا ہے ۔ شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔جب گاوں میں شادی کی تقریب ہوتی ہر گھر سے لڑکے ایک ایک چارپائی جمع کرتے رنگدار پانی کے ساتھ گھر والے کا نام لکھا جاتا اور شادی مکمل ہونے پر واپس کرتے۔سردیوں میں ایک ایک بستر بھی جمع  کیا جاتا۔ شروع میں جب ریڈیو اور پھر ٹی وی ہمارے گھر آیا تو شام کو بچوں کی پوری کلاس بیٹھ کے ریڈیو سنتی اور ٹی وی دیکھتے کیونکہ پورے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھر تھا۔اس کے لیے زمین پر دریاں بچھائی جاتیں۔ ہمارے مکان کچے تھے ہر سال ساون کے مہینے سے پہلے لپائی کرنی ہوتی۔اس کے لیے گاوں کے پندرہ بیس آدمی بلاۓ جاتے جس کو وِنگار کہتے۔ یہ سب بلا معاوضہ گھر کی لپائی کر دیتے صرف کھانا اور چاے ان کو مہیا کی جاتی۔ اسی طرح عورتیں پنگھٹ پر یا کنویں سے گھڑوں میں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو یہ ایک قسم کی کیمونٹی میٹنگ ہوتی۔ایک دوسرے کے دکھ درد۔بیماری خوشی۔کا پتہ چلتا اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے۔ یہ سب پیار سب یکجہتی اس وقت ختم ہونا شروع ہوئی جب باھر کے لوگ ہمارے گاوں پہنچے۔پہلے پہل ہمیں قومی اور نسلی تفاخر کا سبق پڑھایا گیا کہ یہ تورانی۔یہ افغانی  یہ فلاں یہ فلاں ہم سے کمتر اور ہم بہتر ہیں۔ جب یہ فارمولا پورا کامیاب نہ ہوا تو جمھوریت نے حملہ کر دیا۔ گاوں میں گروپ بن گئیے کون کونسلر بنے گا کس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ بس اب ہم جدا ہونا شروع ہوۓ۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے کچھ پڑھے لکھے عالم تشریف لاے ۔انہوں نے ہمیں واضع کیا کہ آپ کا باپ بریلوی ۔بھائی دیوبندی۔کزن شیعہ۔ماموں وہابی۔چچا پتھری۔ خالو ض صحیح نہیں پڑھتا۔ پھوپھا تبلیغی ہے۔بس پھر تو وہ گرد اڑی کی خدا کی پناہ ہم نے مسجدیں جدا جدا بنا کر اپنا مسلک لکھ دیا ۔میناروں پر چار پانچ لاوڈسپیکرز لگا لیے ۔امام صاحب علیحدہ۔نمازیں الگ۔جنازے الگ۔عیدیں الگ۔ پھر فرقہ واریت کا جو نتیجہ نکلا اور خون کی ہولی کھیلی گئی سب کے سامنے ہے۔ ابھی کچھ کسر باقی تھی کہ سیاسی پارٹیاں نمودار ہو گئیں پھر ایک بار ہم فلاں زندہ باد فلاں مردہ باد نعرے لگاتے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گیے۔ ہمارے لیڈر ہم سے ووٹ لے کر پانچ سال کے لیے غائیب ہو  جاتے ہیں مگر ہم ووٹر روز لڑتے رہتے ہیں۔ان تمام عوامل کا اثر یہ ہوا کہ آج ہمارے گاوں میں بھائی اپنے بھائی سے جدا ہے اور جمہوریت، فرقہ بندی ،نااتفاقی ، لڑائی جھگڑوں،نسلی فخر اور غرور کے جہنم کے گڑھے میں جل رہا ہے اور یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس آگ کو بھڑکانے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟

دکھ درد بانٹیں

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ "بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟"

میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-

جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا " امی! میرے کان"

انہوں نے کہا "نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-"

بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ "امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ"

انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا "تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں"

پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ "نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-"

پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-

جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا "کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسہ ہے-"

مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-

انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا! "یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے"

انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! "بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-"

میں نے پوچھا! "کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟"

انہوں نے کہا کہ "نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-

یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-

دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا
اس لیئے دوسروں کا دکھ درد بانٹیں انکا سہارا بنیں خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔

Thursday, September 10, 2020

خواتین کیلئے سفر کے دوران حفاظتی اقدامات

ٹیکسی وغیرہ میں سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ باتیں پتہ ہونی چاہیے :

کار میں بیٹھتے ہوئے اس نے سب سے پہلے دروازے میں نیچے کی جانب لگا "چائلڈ لاک" اوپر کیا۔ ایسا کرنے سے ڈرائیور خود سے دروازہ لاک نہیں کر سکتا تھا۔ اور کسی مصیبت میں وہ دروازہ کھول کر فرار ہو سکتی تھی۔ 

پھر وہ بجائے بیچ میں بیٹھنے کے ڈرائیونگ سیٹ کے بالکل پیچھے بیٹھی تھی کہ اگر ڈرائیور اس پر حملہ بھی کرنا چاہئے تو اسکا ہاتھ نہ پہنچے۔ 

پھر اس نے اپنا بیگ گود میں رکھا۔ اور بیگ چیک کرکے تسلی کی کہ بال پن، باڈی سپرے اور اضافی اسکارف یا کوئی اور کپڑا موجود ہے ناں جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی اپنے دفاع کیلئے۔ کیونکہ اگر ڈرائیور کوئی غلط موڑ مڑتا یا اسے گڑبڑ لگتی تو سب سے پہلے پیچھے سے وہ بال پن اسکے بازو پر مارتی تا کہ ڈرائیور گھبرا کر یکدم بریک لگائے اور پھر باڈی سپرے سے ڈرائیور کی آنکھوں پر سپرے کردے اور پھر اپنے سکارف کی مدد سے ڈرائیور کی گردن سیٹ سے باندھ دے کہ وہ اس پر حملہ نہ کر سکے ۔

اور ان سب کے بعد وہ باآسانی کار سے نکل کر اپنا بچاؤ کر سکے۔
یہ سب شانزے نے ایک سیلف ڈیفنس ویڈیو میں دیکھا تھا جسے وہ ہمیشہ ذہن میں رکھتی تھی۔ 
اور 
باہر سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ حفاظتی اقدامات پتہ ہونے چاہے۔

رکشہ میں سفر کے دوران بھی انہی احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھا جا سکتا

*نوٹ:* 
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے