جو بھی موڑ ہیں، چکر ہیں، کھائیاں ہیں، اترائیاں ہیں، اچھے کے لیے ہیں. اسی سفر کا حصہ ہیں اور اگلے سنگ میل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہیں. ہاں ہوسکتا ہے کچھ لمحات کے لیے رستہ دھند میں کھو جائے یا نظر دھندلا جائے مگر جو یہ جو چھوٹا موٹا غوطہ ہے یہ ہمیں جگانے کے لیے ضروری ہے کہ رستہ ہموار ہو تو ہماری آنکھ لگ جاتی ہے.
پیدائشی خوف صرف دو ہیں، تیز آواز کا خوف اور اونچائی سے ڈرنے کا خوف، باقی سب ہم نے سیکھے ہیں. لیکن جو سیکھا گیا ہو، اس کو تو بھلایا بھی جاسکتا ہے. اگر ہم اپنے خوف کے ساتھ بند کمرے میں کچھ وقت گذار سکیں اور اس کی آنکھوں میں جھانک سکیں تو اچانک اس کا حجم کم ہونے لگتا ہے. خوف اس مشہور کلاسیکی کہانی کے دیو کی طرح ہے جس کا سر آسمان سے لگ رہا ہوتا ہے مگر جب ہیرو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے تو اس کا قد سکڑنے اور سمٹنے لگ جاتا ہے. اور پھر سکڑ کر اس کا حجم چڑیا بھر رہ جاتا ہے. تاہم اس کی آنکھوں میں دیکھنا شرط ہے.
چیزیں بگڑ سکتی ہیں، بنا بنایا کھیل تلپٹ ہوسکتا ہے اور یہی زندگی کے کھیل کی خوبصورتی ہے. مگر اسی طرح معجزاتی طور پر اجنبی لوگ مل جائیں گے، دست غیب سے امداد ہوجائے گی، ڈوبتی کشتی پار لگ جائے گی. اور ایک لمحہ رک کر سوچیں تو یہ چھوٹے موٹے معجزے آپ سب کے ساتھ ہوچکے ہیں. تاہم نامعلوم کیوں ہم یہ سب بھول جاتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور آہ بھرتے ہیں. "آخر یہ برا میرے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے؟"
آپ نے امتحان دیا، ناکامی ہوگئی، لگا زندگی کا اختتام ہوگیا. محبت کی مگر منزل نہ مل سکی، اب دیوداس بنے پھرتے ہیں. ملازمت کے لئے مشقت کی، مگر انکار ہوگیا. باہر ویزے کے لیے اپلائی کیا، پراجیکٹ بنا کر بھیجا، پے درپے پریزینٹیشز دے ماریں مگر آگے سے ملا ٹھینگا، کاروبار کیا مگر دیوالیہ نکل گیا، لگا جینے کا مقصد ختم ہوگیا. مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک وقتی مسئلے کو ایک کمبل کی طرح کھینچ کھانچ کےپوری زندگی ہر چڑھا لیتے ہیں جب کہ بنانے والے نے یہ کھیل بڑی حکمت سے ترتیب دیا ہے. یہ خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ زندگی کے کھیل میں ہمیشہ فاتح کوئی نہیں رہتا. ہر کوئی اپنی باری پر ضرور ہارتا ہے. اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جیتتا بھی ضرور ہے.
چلیں کرکٹ کو ہم سب ہی سمجھتے ہیں توہمارے دوست سندیپ مہیش واری کے لفظوں میں سوچ لیتے ہیں کہ زندگی کرکٹ کا کھیل ہے.فرض کریں کہ کرکٹ کا میچ چل رہا ہے۔ آپ بیٹنگ کر رہے ہیں۔ پیچھے کوئی وکٹ نہیں، کوئی وکٹ کیپر نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں۔ سامنے زندگی ہے جو ایک کے بعد ایک گیند آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ ایک بال آئی۔ آپ نے بیٹ گھمایا، بال بیٹ کے اوپر سے گذر کے پیچھے چلی گئی۔ اب آپ کیا کرو گے؟ یہ کھیل ایسا ہے کہ میں نے آپ سے کہا ناں کہ کوئی وکٹ نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں مطلب اگر آپ چاہو بھی تو اس زندگی کے کھیل میں آپ آوٹ نہیں ہو سکتے۔ تب تک کہ جب تک آپ میدان کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی اگر آپ پِچ پر ڈٹے رہو۔ زندگی کا بس ایک کام ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک گیند پھینکتی جا رہی ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ آپ ایک ایک کرکے گیند کھیلتے جائیں.
یہ گیندیں کیا ہیں؟ ۔۔ ۔ یہ مواقع ہیں جو ایک کے بعد ایک زندگی آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ تو اب کرنا کیا ہے پِچ پر ڈٹے رہنا ہے۔ ایک گیند چھوٹ گئی لگ جاتی تو بہت اچھا ہوتا نہیں لگی تو بھی خوب ہے۔ اپنی توجہ پِچ کی طرف رکھو، اپنی نظر زندگی کی طرف رکھو، غور سے دیکھو ایک اور موقع گیند کی صورت میں آپ کی طرف آ رہا ہے۔ پھر بیٹ گھمایا۔ گیند کو چھوئے بغیر بیٹ آگے بڑھ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ کھیل ختم نہیں ہوا۔ دنیا کی نظر میں آپ ہار رہے ہو مگر ڈٹے رہو۔ یہاں پہ اووَرز کی کوئی حد نہیں۔ ہزاروں گیندیں اور ہیں۔ اسی طرح پانچ گیند ضائع ہوئے، آپ نے ہار نہیں مانی۔ چھٹی گیند پر آگے بڑھے اور بیٹ گھمایا، گیند بیٹ کو لگی اور چھَکّا۔ پانچ بال کی کمی پوری ہوئی۔ سارا کھیل پلٹ جائے گا ایک دن کے اندر۔ وہ ایک دن، جس دن آپ یہ ٹھان لو گے کہ چاہے جتنی بھی مشکلیں آئیں، چاہے جتنی بھی مصیبتیں آئیں۔ مجھے ہارنا نہیں ہے، میں ہارنے کے لئے اس دنیا میں نہیں آیا/آئی۔ میں لڑوں گا /گی۔ ڈٹ کر ان پریشانیوں کا سامنا کروں گا/گی۔ وہ دن آپ کی تمام پریشانیوں اور تکلیفوں کا آخری دن ہو گا۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ پھر زندگی میں پریشانیاں نہیں آئیں گی، وہ آتی رہیں گی، بس یہ ہوگا کہ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں اور اگلی گیند پر کھیل تبدیل بھی ہوسکتا ہے. اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی کا کوئی چکر نہیں کہ کوئی بھی واقعہ زندگی کے بڑے پزل کا ایک بس چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے.
یہاں اشفاق احمد صاحب کی کئی بار سنائی ہوئی چینی حکایت انہی سے سنتے ہوئے مزہ لیجئے. ایک منگ بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔ گائوں کا رہنے والا۔ بہت ہی غریب آدمی تھا، لیکن تھاوہ صوفی آدمی، روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ تو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا، اعلیٰ درجے کا گھوڑا۔ دنیا اسے دیکھنے کے لیے آتی۔ اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بناکے رکھا ہوا تھا۔ اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا، اس کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ ایک گھوڑا ہی تھا اس کے پاس۔
بادشاہ وقت کو پتا چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جوکہ بہت اعلیٰ درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہیے۔ تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں، وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، ''اے فقیر! مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟اس نے کہا، ''حضور یہ بکائو مال نہیں ہے۔ یہ شوق سے رکھا ہوا ہے۔ یہ بیچا نہیں جاسکتا۔ یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ ،،اس نے کہا نہیں! ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے۔ اس نے کہا ، نہیں جی میں نے بیچنا نہیں ہے۔ اس نے کہا، پھر غور کرلے۔ ہم تجھے ایک پرگنہ ایک ریاست دیں گے۔ اس کے بدلے تو ہمیں یہ گھوڑا دیدے۔ وہ پھر بھی نہیں مانا۔ ضدی آدمی تھا۔ سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا، ''آدھی سلطنت لے لے، گھوڑا مجھے دے دے۔ '' اس نے کہا ، ''جناب عالی ! میں نے بتایا کہ اس کا مول کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں دے دیتا آپ کو، لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔'' تو اس نے کہا، اچھا تیری مرضی ۔
جب بادشاہ چلا گیا تو گائوں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق، بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہ وقت تیرے پاس آیا۔ اس نے آدھی سلطنت آفر کی۔ اگر ظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھی مزے کرتے۔ سارے گائوں کے مزے ہوتے۔ تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھرآئے دھکادے دیا، باہر پھینک دیا۔ تو اس نے کہا، وہ عجیب وغریب آدمی تھا کہ میرا گھوڑا ہے۔ اس نے اس کا مول لگایا، میں نے نہیں دیا۔ اس میں خوش نصیبی یا بدنصیبی کی کیا بات ہے۔ یہ تو میری زندگی ہے۔ میرا گھوڑا ہے۔ خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو، میں نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا توضدی آدمی ہے۔ تو شروع ہی سے ایسا ہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔
تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔ صبح اٹھا چارہ ڈالنے کے لیے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل میں گھوڑا نہیں تھا۔ اصطبل خالی تھا۔ گائوں کے لوگ آئے ، روتے پیٹتے ۔ کہنے لگے ہمارے گائوں کا حسن تباہ ہوگیا۔ تجھ سے کہا تھا ناکہ بادشاہ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔ تیرا گھوڑا پاس نہیں رہا۔ تیرے ساتھ بڑا ظلم ہوا تو تباہ ہوگیا۔ برباد ہوگیا۔ اس نے کہا، میں کہاں سے تباہ ہوگیا۔ کہاں سے برباد ہوگیا۔ ایک گھوڑا تھا، چھوٹی سی چیز تھی۔ میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔ یہ اس کا ایک حصہ تھا۔ حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو، کہ چونکہ تمہارا گھوڑا چلا گیا، اس لیے تم برباد ہوگئے۔ معمولی سی بات ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔ تجھے اللہ نے عقل ہی نہیں دی۔ وہ پھر واپس چلے گئے۔ کوئی ایک مہینہ گیارہ دن کے بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آگیا۔ اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔ وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں ، اور جنگل میں جاکر انہیں سیٹ کرتا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ تو گیارہ گھوڑے نئے اعلیٰ درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔ جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔ انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑے کردیا۔
گائوں کے لوگ آئے۔ انہوں نے کہا ''تو بڑا خوش نصیب ہے۔ تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کمال کی چیز لاکردی۔ اس نے کہا، میری کہاں خوش نصیبی ہے، گھوڑا تھا ، چلا گیا تھا۔ واپس آگیا ۔ تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے، اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔ تم اتنے نالائق لوگ، سمجھتے نہیںہو۔ تم آکر کہتے ہو، کیا خوش نصیبی ہے۔ وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔ اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔ تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت پیارا جی جان سے عزیز تھا۔ ایک باپ تھا، ایک بیٹا تھا۔ اس نے کہا، باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔ میں ان کو سدھائوں گا۔ بریک ان کروں گا ان ہارسز کو۔ چنانچہ اس نے ایک کو رسہ پھینک کر پکڑا۔ پکڑکر اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔ چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی منہ زور گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کی۔ اس کو لے کر گیا۔ بھگایا۔ جنگل میں چکر لگایا۔
دوسرے دن پھر جب اس پر چڑھا تو گھوڑے سے گر گیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی، اور زمین پر تڑپنے لگا۔ اس کا باپ آیا اس کو اٹھا کر لے گیا گھر۔ گائوں کے لوگ روتے پیٹتے آئے، تیری بدقسمتی ہے۔ تیراایک ہی بیٹا تھا تو تومارا گیا ۔ تباہ ہوگیا۔ بربادہو گیا ۔ ہم تو رونے، سیاپا کرنے آئے ہیں۔ اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے کہا، بھائی اس میں میری بدقسمتی کدھر سے آگئی۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔ مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے۔ تم مجھے سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تو تو مارا گیا ، توتو برباد ہوگیا۔ تیرے گھر میں تو بدنصیبی آگئی ہے۔ تائو ایک مذہب ہے۔ اس کے پیروکار بڑے وحدانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ تو یہ پوری تصویر کو مانتے ہیں اور یہ جو ٹوٹے آتے ہیں، ان کو نہیں مانتے۔ اب وہ بدنصیب باپ اور بدنصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کارن پڑا۔ جنگ طول اختیار کرگئی تو بادشاہ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔ اس نے ڈنکا بجادیا گائوں گائوں میں ڈونڈی پھیر دی اور جونوجوان بچے تھے ان کی زبردستی جبری بھرتی کے لیے وہ گائوں میں آگئے۔ جتنے خوب صورت تگڑے مضبوط بچے تھے ان کو کان سے پکڑ کر جنگ میں لے گئے۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، وہ کسی کام کا ہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے۔
گاؤں کے لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے، یار! ہمارے تو پیارے بیٹے تھے، سب کو ہانک کر لے گئے۔ تو بہت اچھا رہا۔ خوش قسمت ہے۔ اس نے کہا، یار!تم بندے اس قابل نہیں ہوکہ تمہارے ساتھ رہا جائے۔ یہ گائوں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمہاری جدائی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گاؤں میں چلا گیا ۔
تو پیارے پڑھنے والے، کوئی غوطہ، کوئی جھٹکا، کوئی ناکامی، کوئی خواری، حتیٰ کہ کوئی کامیابی بھی مستقل نہیں ہے. ہماری زندگی کی فلم میں اس کی انٹری ایک خاص موقع پر کسی گانے، کسی دوگانے، کسی ڈائیلاگ کے لیے ضروری ہے. ہمیں صرف یہ سمجھا ہے اس ہونی کا مطلب کیا ہے اور پھر اگلی گیند کھیلنے کے لیے تیار ہوجانا ہے. کریز پر موجود رہیں اور بلا گھماتے جائیں. کہانی باقی ہے میرے دوست اور میچ بھی چل رہا ہے. کہانی ہٹ ہوئی یا نہیں، یہ فیصلہ تماشائیوں کو کرنے دیں، آپ کی انٹری کمال کی ہونی چاہیے.
عارف انیس
( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)
No comments:
Post a Comment