قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،
سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا، ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،
مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،
ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا، انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،
سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟ اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تب نہیں، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا
توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment