Friday, September 25, 2020

چھوٹی سی کوشش

میں ایک ضروری کام نمٹا کر گھر کی طرف جارہا تھا، جب اچانک کسی نے سامنے آکر پرجوش انداز میں پکارا،
"السلام علیکم سر!!"
میں نے سلام کا جواب دیا۔۔ یقینا وہ میرا کوئی پرانا طالبعلم ہوگا، لیکن میں پہچان نہیں پایا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اور مسرت بھرے انداز میں پوچھا۔
"مجھے پہچانا سر؟"
میں نے اب کے غور سے اسے دیکھا ، وہ چھ فٹ لمبا قد ، نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی اور قدرے فربہی کی طرف مائل جسم اور لباس کے لحاظ سے آسودہ حال ایک خوبصورت جوان تھا، عمر کوئی پینتیس سال کے لگ بھگ تھی۔
"معذرت چاہتا ہوں بیٹا ، لیکن میں واقعی نہیں پہچان پا رہا"
مں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"کوئی بات نہیں سر۔۔۔ اتنا لمبا عرصہ جو گزر چکا ہے"
ساتھ ہی اس نے جس کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اس کا نام بتاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔۔
"میں نوید اختر ہوں سر بیس سال پہلے تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے "
میرے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا، ساتھ ہی میں نے اسے گلے لگا لیا۔۔
"تم نوید اختر ہو۔۔۔۔؟، مجھے یقین نہیں آرہا کتنے بدل گئے ہو تم"
وہ انتہائی قابل اور میرے پسندیدہ طالبعلموں میں سے ایک تھا،
اس کے بعد اس سے چند ایک رسمی باتیں ہوئیں جس کے بعد اس نے مجھے قریب ہی موجود اپنے گھر میں چلنے کی دعوت دی۔۔۔۔ میں نے انکار کرنا چاہا لیکن اس کا خلوص دیکھ کر میں خود کو اس کے ساتھ چلنے سے نہیں روک پایا۔۔
پانچ منٹ بعد ہم ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں داخل ہونے کے بعد نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔
کچھ دیر بعد دیگر لوازمات کے ساتھ چائے بھی آگئی۔۔۔
چائے پیتے ہوئے باتوں کے دوران ہی مجھے باقی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلا کہ وہ آج کل ایک سرکاری محکمے میں بہت اچھی پوسٹ پر ہے اور یہ گھر اس نے پچھلے سال ہی خریدا تھا، سات سال پہلے اس کی شادی بھی ہوچکی تھی اور بچے بھی تھے، تاہم اس کی بیوی بچوں سمیت دو دن کے لیے میکے گئی ہوئی تھی۔۔
میں واقعی اس کی کامیاب اور پرسکون زندگی پر دل ہی دل میں بے حد مسرور تھا۔۔۔
باتوں کے دوران اچانک اس نے جذباتی انداز میں کہا۔۔
"میری زندگی میں شاید آج یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر وہ فرشتہ صفت انسان میری زندگی میں نہ آتا"
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔
"کیا مطلب۔۔ کون فرشتہ صفت انسان۔۔؟"

"میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں سر۔۔۔۔"
اب مجھے اس کی کہانی میں مزید دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔۔
اس نے بتانا شروع کیا۔۔
"سر آپ کو تو پتا ہی ہے کہ سیکنڈ ائیر کے دوران میرے ابو جی کی وفات کے بعد ہمارا گھریلو حالات کافی متاثر ہوگئے تھے۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ان کی پنشن سے جیسے تیسے کرکے گزر بسر تو ہوجاتی لیکن تھرڈ ائیر میں پہنچنے کے بعد اس مہنگے کالج کی فیس ادا کرنا ہمارے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔۔۔اور میں اسی کالج میں پڑھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا تھا کیونکہ اس کالج کا تعلیمی معیار بہت اچھا تھا۔۔۔۔ میں نے پارٹ ٹائم کام بھی شروع کیا لیکن مقررہ وقت تک فیس کی مطلوبہ رقم اکٹھی نہ ہو سکی۔۔ اور پھر وہ دن آگیا جب میری منت سماجت کے باوجود مجھے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا۔۔۔ ابو کی وفات کے بعد دوسری بار اس دن میں کمرے میں چھپ کر بہت رویا تھا۔۔۔ مجھے اپنے سارے خواب ٹوٹتے نظر آرہے تھے اور میں خود کو دنیا کا بد قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔۔۔
اور پھر پتا ہے سر کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
اگلے ہی دن مجھے کالج دوبارہ بلوایا گیا اور مجھے پتا چلا کہ میری فیس ادا ہو چکی ہے۔۔۔
میں نے پتا چلانے کی بہت کوشش کی کہ کس نے میری فیس ادا کی ہے لیکن ناکام رہا۔۔۔
تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے آپ پڑھاتے بھی بہت اچھا تھے اور پڑھائی کے علاوہ آپ کی بتائی گئی باتیں ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے پر اکساتی تھیں۔۔۔ شاید آپ کو پتا نہیں لیکن آپ میرے ہیرو تھے اور صرف میرے ہی نہیں پتا نہیں کتنے طلبا کے آپ ہیرو تھے۔۔آپ کی وجہ سے بہت سی زندگیاں بدلی ہیں۔۔۔آپ کی باتیں ہمیشہ ہمارے اندر نئی روح پھونک دیتی تھیں۔۔ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی تھیں"
نوید اختر ایک عقیدت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
اور میں دل ہی دل میں اس پروردگار کے سامنے عاجزی سے جھکا ہوا تھا جس نے مجھے یہ توفیق بخشی تھی۔۔
نوید اختر نے بات جاری رکھی۔۔۔
"تھرڈ ائیر کے آخر میں آپ کی گورنمنٹ کالج میں لیکچرار کی جاب ہوگئی اور آپ ہمارے کالج سے چلے گئے لیکن آپ کی باتیں ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔۔۔۔دوسری طرف ہر سمسٹر میں میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرجاتا۔۔۔ اور مجھے خبر تک نہ ہوتی۔۔۔ میں اور میری والدہ دل سے اس عظیم انسان کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتے تھے۔۔۔ فورتھ ائیر میں بھی میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرتا رہا۔۔۔
بیچلرز کے بعد مجھے ایک مناسب جاب مل گئی لیکن میں نے پڑھائی کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔۔۔ اور اللہ کے کرم سے آج میرے پاس سب کچھ ہے۔۔۔لیکن میں اس عظیم انسان کو آج تک نہیں بھولا۔۔۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں اس اللہ کے بندے سے ملوں جس نے میری اس وقت مدد کی جب میرے نزدیک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔۔۔اور اگر وہ میری مدد نہ کرتا تو شاید آج میرے پاس یہ سب کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔ کاش مجھے پتا چل سکتا کہ وہ کون ہے۔۔۔ "
اس انسان کا ذکر کرتے ہوئے نوید اختر کافی جذباتی ہوچکا تھا۔۔۔
"بس بیٹا کچھ لوگوں کو اللہ وسیلہ بنا دیتا ہے اپنے بندوں کی مدد کا"
میں نے کہا۔۔۔
وہ چند لمحے میری آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر اس نے نظریں جھکا لیں۔۔۔
"اچھا بیٹا کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔ میں اب چلتا ہوں۔۔۔ اور واقعی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔ اللہ آپ کو دنیا اور آخرت کی ڈھیر ساری کامیابیاں اور اپنی رضا نصیب فرمائے "
میں یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔ میرے اٹھتے ہی وہ بھی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
میں نے ڈرائنگ روم کے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔ ابھی میں دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے اس کی بھرائی ہوئی آوازمیرے کانوں میں پڑی۔۔۔
"سر۔۔۔۔!"
میں چونک کر پیچھے مڑا۔۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اچانک وہ تیزی سے آگے بڑھا اور مجھ سے لپٹ کرپھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔
"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا کہ میری فیس آپ ہی ادا کرتے رہے ہیں۔۔۔"
میں ہکا بکا رہ گیا۔۔۔
وہ اب ہچکیاں لے کر رو رہا تھا۔۔۔۔اس نے اپنے بازووں کی گرفت مزید مضبوط کرکے روتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں نے پرنسپل سے بھی بہت ہوچھا تھالیکن انھوں نے نہیں بتایا۔۔۔لیکن کل میں ان کے پاس دوبارہ گیا تھا۔۔ اور ان سے ہوچھ کر ہی دم لیاکہ وہ کون تھا جس نے میری زندگی میں روشنی بھری ہے۔۔۔۔۔
آپ نے اچھا نہیں کیا سر۔۔۔ آپ کومجھے بتانا چاہیے تھا۔۔۔ آپ ویسے بھی میری نظر میں ہیرو تھے۔۔۔لیکن اب آپ کا مقام میری نظر میں اتنا بلند ہوچکا ہےکہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے"
وہ چھ فٹ لمبا جوان بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔
اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوتے ہی میں چونکا۔۔۔ نجانے کس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے تھے۔۔۔
ایک چھوٹی سی کوشش نے کسی کی زندگی کو اتنا بدل دیا تھا کہ میرا ہر ہر انگ اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے کو تڑپ رہا تھا.

No comments:

Post a Comment