Monday, September 28, 2020

درمیانی پُل یا اختلاف

ایک دلچسپ مشورہ

وہ دونوں بھائی چالیس سال سے آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں سات سات گھر تھے۔
دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی بہت پیار اور محبت تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔
چھوٹے بھائی نے غصے میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔


اگلے روزبڑے بھائی نے ایک مستری کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔


مستری نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سےضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .

موقع دیکھنے کے بعد مستری بڑے بھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔


مستری نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔


غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔
مستری کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتےرہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے باپ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔


دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ، آنکھوں میں آنسو لئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔


بڑے بھائی نے مستری کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس
پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔


مستری نے کہا
اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

"جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"

یہ کہہ کر مستری نے اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔

اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس مستری کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں۔۔۔ برائے مہربانی دیواریں نہ بنائیں ۔"

No comments:

Post a Comment