زیادہ ملاقاتیں ہمیں تھکا دیتی ہیں۔
ہم صرف اس ملاقات سے تروتازہ ہوتے ہیں جسکی ہماری روح کو ضرورت ہوتی ہے
یہ ملاقات کچھ لمحوں کی ہی کیوں نہ ہو بہت تاثیر چھوڑتی ہیں۔
ہم خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہو ہمیں ہمیشہ کسی ہم راز کی ضرورت رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی ہم سوچ کی، کسی ہم سفر کی۔۔۔۔۔۔
ورنہ ہم اکیلے تھک جاتے ہیں۔
ہمیں ضرورت ہے ایک دوسرے کی لیکن ہر دوسرا ہمارا ہم راز نہیں ہوسکتا۔۔۔
ہمیں تلاش کرنی پڑتی ہے ایسے شخص کی کسی ایسے انسان کی جو ہمیں دبحمعی سے سن سکتا ہو۔
ہم ہر شخص کی گفتگو سے متاثر نہیں ہو سکتے ۔
گفتگو صرف اس بات نہیں کہ صرف تم سناؤ، سامنے والے کو سننا بھی گفتگو کے ارکان میں شامل ہوتا ہے
ہم بس سنانا جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم، ہم نہیں رہے، ہم میں بن گئے ہے۔۔
جب پاس رہنے والے لوگ پر سکون ہوں، تروتازہ اور شاداب
ہو تو انسان پریشان ہو کر بھی مطمئن رہتا ہیں۔
لیکن اگر ارد گرد والے مایوس ہوں، بیمار ہوں تو اچھا بھلا ہشاش بشاش چہرہ بھی بے سکون ہو جاتا ہے ، ڈیریشن میں چلا جاتا ہے.
ہم نہ اکیلے خوش رہ سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے ایسے لوگوں کے ساتھ جو مایوس ہو۔
ہر بات پر لمبی لمبی بحث کرنے والےہوں۔
ہمیں خوش رہنے کے لئے روحانی رشتوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
اپنی روح سے ملتے جلتے لوگوں کی۔۔۔۔۔۔
ہمیں ﷲ سے ہی دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ _"ہمیں مومن لوگوں کی محبت عطا کر اور ہمیں مثبت لوگوں کا ساتھ نصیب فرمادے"_۔۔۔۔۔۔
ماحول انسان پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔
ملاقاتیں انسان کو بہت متاثر کرتی ہے۔
ہمیں ملاقاتوں کا بہتر چناؤ کرنا چاہیے۔۔
جن ملاقاتوں سے ہم ڈپریس ہوں ہمیں ان ملاقاتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کبھی کبھار ہماری ڈپریشن ہمارے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔
ہمیں کوئی بڑی پریشانی نہیں ہوتی مگر پھر بھی ہم نیم نیم پریشان ہوتے ہیں ۔
بڑی پریشانی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہے کہ ہم کیوں پریشان ہیں ۔
کم از کم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اپنی حاجات تو طلب کر سکتے ہیں۔
یہ جو نیم نیم پریشانی ہوتی ہے یہ روح کو گھائل کر دیتی ہے۔
اس پریشانی میں سب سے بڑی پریشانی تو یہ ہوتی ہے کہ ہم دکھی کیوں ہے؟
سب کچھ ہمارے پاس ہے۔۔۔۔۔
سارے کام ہو رہے ہیں پھر بھی دماغ بوجھ محسوس کر رہا ہے۔
کس قدر بے بسی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔
بندہ کیا مانگے رب سے۔۔۔۔۔
لیکن اپنی دعاؤں میں سکون ضرور طلب کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
یہاں اچھے اور برے کو مان کر سکون نہیں ملتا ۔
یہاں سکون والا وہ ہے جسے اللہ سکون میں رکھے ۔۔۔
اللہ ہی سے دعا گو ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں کسی کا محتاج نہ بنائے ۔۔
یہاں قصور والا اور بنا قصور والے سب برابر ہیں،
ایک جیسی سزائیں دی جا رہی ہے
جس کا قصور اسے سزا اور جس کا قصور نہیں اس کی آزمائش۔۔۔
ہمیں رب سے یہ مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں سخت ترین آزمائشوں سے دور رکھے۔۔۔
No comments:
Post a Comment