Saturday, September 26, 2020

قربانی

.             👈 *قربانی* 👉
(کتاب:سوچ کا ہمالیہ ،مصنف:قاسم علی شاہ)

جب آپ اپنی محنت میں فوکس شامل کرلیں تو اس کے بعد اگلا کام قربانی ہے، کیونکہ فوکس قربانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی موجود چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ فوکس آدمی کو ایک غیر معمولی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میںاسے تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ''خدا کرے زخم دور ہی نہ ہو کبھی۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے میں''۔ آدمی کو جو آنسو اور اضطراب چاہیے، وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوسکتا۔ 
 فوکس کی وجہ سے جو رویہ پیدا ہوتا ہے، اس کے تحت آدمی سب کچھ لگا دیتا ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ملیں گے، وہ تھوڑے سے ابنارمل نظر آئیں گے۔ بڑے لوگوں سے  مراد وہ لوگ ہیں جو ایک پروسیس سے گزر کر بڑے بنے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
 حقیقی فوکس نفع اورنقصان کے تصور کو بدلتا ہے۔ اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے  تو پھرفوکس نہیں ہے۔ فوکس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے، اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں۔ پہلے حاصل کا نام کمائی تھی، اب دینے کا نام کمائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے ہیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے۔ اس دن بکری ذبح ہوئی تھی جس کے چند ٹکڑے بچ گئے تھے، باقی بانٹ دیے گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آج یہی بچاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جو بانٹ دیا وہی بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علیؒ فرماتے ہیں، ''مال رکھنے کیلئے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ غریب کی جیب ہے۔'' آپ رکھ کر دیکھیں، دس گنا واپس آئے گا۔ ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں جہاں اس کی چوری کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
 نفع اور نقصان کا تصور بدلنے کے بعد بسا اوقات ایک چیز کی نمو بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے باقی تمام چیزیں دب جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پروفیشنل باڈی بلڈر چونکہ اپنے مسلز بنانے پر بہت زیادہ فوکس کرتا ہے تو اس کا جسم تو بہت اچھا بن جاتا ہے، مگر اس  کا آئی کیو اچھا نہیں ہوتا۔ اس کا سار ا فوکس اپنے جسم بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ذہن کو بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن کی ورزش نیا سوچنا اور غور وفکر کرنا ہے۔ مائیکل انجیلو جب مجسمہ بناتا تو اس کووقت کااحساس ہی نہیں رہتا تھا۔ جب مجسمہ بن جاتا تو پتا چلتا کہ پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس کے ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی۔ یہ فوکس کی انتہاتھی۔ 
 بعض اوقات انسان کسی چیز کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے اور جب وہ  چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی خوبصورت چیز بن جائے گی۔

No comments:

Post a Comment