Sunday, November 22, 2020

اللّٰہ کی پہچان

جو اللّٰه کو پہچان جائے وہ اس سے محبت کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا..وہ اتنا کریم ہے، اتنا رحیم ہے، وہ ایسی خوبصورت اور باکمال ذات ہے جس کو اگر کوئی جان لے، تو اسے اس ذات سے بے پناہ محبت ہو جائے، اس کی معرفت مل جائے تو اس سے محبت کرنے کے لئے خود پر جبر نہ کرنا پڑے، اصل بات ہی یہ ہے کہ ہم اسے پہچانتے ہی نہیں ہیں...

اللّٰہ کی گڈ لسٹ

"اللّٰہ کی گڈ لسٹ میں شامل ہونے کی کوشش کریں انسانوں کی نہیں، انسانوں کی لسٹ تو وقت اور مفاد کے مطابق بد لتی رہتی ہے"

باتوں کو بھلانے کی عادت

باتوں کو بھلانے کی عادت ڈال لیجیئے - 
ھـر بات کو یاد رکھنا ، اپنے دماغ کا سکون خراب کرنے کے برابر ہوتا ہے -
زِندگی کے کچھ مقامات پر لاپرواہ رہنا سیکھیئے ، کیونکہ
جس طرح ہر بات کہنے والی نہي ہوتی اِسی طرح ہر بات سننے والی بھی نہيں ھـوتـی۔

کیسا یہ عشق ھے

ایک بچے نے اک استاد کو اپنےگھر ایک مضمون پڑھانے کے لئے مقرر کیا. استاد نے اسے اک ٹاپک سمجھایا اور کہا کہ آج شام میں گھر آکر اس کا ٹیسٹ لوں گا اس کی پریکٹس کر کے ٹیسٹ تیار کرلینا. 
 استاد جب شام کو بچے کے گھر گئے تو دیکھا کہ گلی میں قالین بچھا ھوا تھا جس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں اسے ڈھانپے ھوئے تھیں. گلی کے دونوں طرف کے تما گھروں کی دیواروں پر ہر رنگ کی بتیاں جل رھی تھیں. اورگلی کےاوپر رنگ برنگی جھنڈیوں کی چادر تنی ھوئی تھی آخرتک. 
 استاد جب گلی میں سے گزر کر بچے کے گھر کے دوازے پر پہنچے تو ان پر چھت سے پھولوں کی بارش برسائی گئی. اور فضا "مرحبا یااستاذ" کےفلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی. گھر کے دروازے پر بچے نے استاد کا پرتپاک استقبال کیا اور استاد کے ہاتھوں کو جھک کر ادب سے چوما اور انھیں آنکھوں پر لگایا. 
استادنے پوچھا کہ "بیٹا یہ سب کیا ھے..‫؟" تو بچے نے جواب دیا کہ،،،، "استاد محترم مجھے آپ سے والہانہ پیار، محبت، عقیدت اورعشق ھے. آپ آج میرے گھر تشریف لائے ھیں تو یہ سارا انتظام آپ کی آمد کی خوشی میں آپ کے استقبال کے لئے میں نے کیا ھے.تاکہ آپ مجھ سے راضی اور خوش ھوجائیں."
 استاد نے فرمایا کہ "اچھا بیٹا یہ بتاؤ کہ تم نے وہ ٹیسٹ تیار کیا ھے جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں.؟" تو بچے نے جوب دیا کہ "استاد محترم دراصل میں آپ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف رہا تھا اس لئے میں وہ ٹیسٹ تیار نھیں کر سکا." تو استاد نے فرمایا کہ.، ، ، 
 " بیٹا جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں اور جس کام سے میں نے تم سے راضی اور خوش ہونا تھا وہ تو یہ ٹیسٹ تھا جو تم نے تیار ھی نھیں کیا. اور جس کام کے کرنے کے لئے میں نے ایک مرتبہ بھی آپ کو نھیں کہا تھا آپ نے اس کام میں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر مجھے خوش کرنے کا کیسے سوچ لیا.؟ جس کام کے کرنے کا میں نے کہا ھی نھیں تھا اس کام سے بھلا میں خوش کیسے ھو سکتا ھوں.؟ اور جس کام سے میں نے خوش ھونا تھا وہ آپ نے کیا ھی نھیں. آپ کےخلوص اور جذبے پر مجھے کوئی شک نھیں بیٹا لیکن اس جذبے کی تکمیل اس راستے سے کبھی نھیں ھو سکتی جو آپ کو پسند ھو بلکہ صرف اسی طریقے سے ھو سکتی ھے جو مجھے پسند ھے."
بس یہی حقیقت ہمارے اپنے نبی سے عشق و محبت کی میرے بھائیو! جس کا بخار ہمیں صرف ربیع الاول میں ھوتا ھے. اگر ہم اپنے نبی کو راضی و خوش کرنا چاھتے ھیں تو اس کے لئے ہمیں طریقہ بھی وھی اختیار کرنا ھوگا جو خود نبی علیہ السلام نے بتایا تھا اور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جس پر عمل کرکے دکھایا تھا. 
 بے شک ہمارے خلوص اور عشق کی سچائی میں کوئی شک نھیں لیکن محبوب راضی اسی طریقے سے ھوتا ھے جو محبوب کو پسند ھو نہ کہ عاشق کو پسند ھو. اور وہ ایک ھی طریقہ ھے کہ حکم الله کا ھو اور طریقہ ِمحمد الرسول الله کا ھو. صلی الله عليه وسلم. اور زندگی اسی محبوب کی سنتوں کی اتباع میں گزر جائے. 
 کوئی لڑائی نھیں کوئی جھگڑا نھیں کوئی بحث و مناظرہ نھیں بس صرف آسان الفاظ میں آپ کےلیے سادہ سی دعوت فکر ھے. اس امید کے ساتھ کہ، ، ، ،
شاید کہ اتر جائےکسی دل میں میری بات

آنسو پونچھنا سیکھو

کل ایک کمال کا لطیفہ سنا. کسی لاہوری کا بیٹا تلاش روزگار میں ملک سے باہر گیا تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا داتا دربار گیا اور وہاں جا کر صدق دل سے پنجابی میں ایک دعا مانگی. "یا داتا، اسماعیل نوں دبئی وچ سیٹ کرادیو، پکا سیٹ کرادیو، جیویں تسی آپ لاہور وچ سیٹ او".( داتا صاحب، میرے بیٹے اسماعیل کو بھی اسی طرح دبئی میں سیٹ کرادیں، جیسے آپ خود لاہور میں سیٹ ہیں).ہنسا بھی، پھر خیال بھی آیا جس شہر میں قطب الدین ایبک، جلال الدین اکبر، جہاں گیر، نورجہاں، شاہ جہاں، آصف جاہ، رنجیت سنگھ جیسے آئے اور گرد بن گئے، وہاں داتا صاحب اتنے عرصے سے سیٹ کیسے بیٹھے ہیں؟ جواب ملا، بس ہزار سال سے لوگوں کے آنسو پونچھ پونچھ کر سیٹ ہوگئے ہیں. باقی شاہ اور شہنشاہ شاید یہ کام نہیں جانتے تھے تو وقت کے آتشدان میں راکھ ہوگئے. 

ہاں، اپنی سارے علم کو، ادب کو، فلسفے کو، توانائی کو، ولولے کو، تجربے کو، فہم کو، کامرانیوں کو، باقی سب جگہوں پر کام میں لے کر آؤ، مگر ایک کام سب سے ضروری ہے. وہ یہ ہے کہ سر پر ہاتھ رکھنا سیکھو، گلے لگانا سیکھو، آنسو پونچھنا سیکھو، اگر باقی سارےگن سیکھ لئے مگر یہ گن نہ سیکھا تو سب ڈسٹ بن میں چلا جائے گا.

مرغی اور بطخ کے بچے پیدا ہونے کے پہلے گھنٹے میں اپنے آپ کو سنبھالنے جوگے ہوجاتے ہیں. ایک قسم کے زرافے کے بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں. کچھ طرح کی مکھیاں ہیں، ان کے بچے پانچ منٹ میں اپنی ماں کی طرح اڑنا سیکھ لیتے ہیں. مگر انسان ہے جسے اپنا جوگا ہونے میں ماہرین کے مطابق نو سال کی مدت درکار ہوتی ہے. وہ اتنے عرصے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے. پھر درمیان میں ایک مدت ایسی آتی ہے کہ اسےلگتا ہے کہ وہ پہاڑوں کاسرمہ بنادے گا اور کوہساروں کو شق کر کے دودھ کی نہر نکال دے گا اور بادلوں کوآپس میں ٹکرا دے گا. پھر اس کی زندگی کا آخری وقت آتا ہے جب وہ پھر چلنے، پھرنے، کھانے پینے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے. دائرہ پھر مکمل ہوجاتا ہے.

دلائی لامہ نے کیسی خوبصورت بات کی ہے "ہماری زندگی کے ابتدائی اور انتہائی دونوں ادوار لوگوں کے سہارے گزرتے ہیں، جزبات اور احساسات کے سہارے گزرتے ہیں. یہ دنیا کتنی بہتر ہوجائے کہ ہم درمیان والی مدت میں بھی زور کی بجائے رحم، کرم اور شفقت سے کام لیتے رہیں اور یہ سبق بھلا نہ دیں".

لیکن عام طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ دنیا زورآوروں آور زرداروں کی ہے. ماہرین نفسیات اور بشریات نے بہت دلچسپ تجزیہ کیا کہ گو دنیا بھر کے سہارے مذاہب اور ثقافتوں میں عاجزی کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں، مگر واقعی اس ثقافت کا اصل کیا ہے، اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب بھی آپ اسی ثقافت میں ان کے مجسموں کا مطالعہ کریں گے. اگر ان کے تمام ہیروز مغرور اور جنگجو لوگ ہوں گے، یہیں سے سمجھ جانا چاہیے کہ آپ کی اندرونی نفسیات کیسے کام کرتی ہے. جب سفید گھوڑے پر سمشیر خاراشگاف لہراتے ہوئے سورما کا انتظار ہوگا تو سوچ بھی متشدد ہوجائے گی. ایدھی اور چاہئیں، ڈاکٹر امجد ثاقب اور چاہئیں، رتھ فاؤ اور چاہئیں تو مجسمے بھی انہی کے لگانے ہوں گے.

کچھ لوگ زندگی میں اس قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ ہتھوڑا ہیں، اور باقی دنیا کیل ہے، جہاں کیل دیکھو، اسے ٹھونک دو. اس قانون پر پوری زندگی گزارتے گزارتے کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑے ہتھوڑے کی زد میں آتے ہیں اور کسی کیل کی طرح ٹھونک دیے جاتے ہیں. ایسے ہتھوڑے ہمارے آس پاس ہر طرح کے کرداروں کی شکل میں موجود ہیں، ویسے تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے جیسے نیم قبائلی معاشروں میں ہتھوڑے اور کیل زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں. نوکر شاہی اور لیڈرشپ کی پاکستانی نفسیات جہاں تک سیکھی تھی اس کے حساب سے اپنے ہاں تقریباً ہر کیل کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ بڑی ہوکر ہتھوڑا بن جائے.

ہاں، صرف کیل اور ہتھوڑوں کے کلچر میں نہیں رہا جاسکتا. کوئی مرہم لگانے والا بھی ہو، کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی ہو، کوئی آنسو پونچھنے والا بھی ہو. کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کوئی ہم خود ہی ہوں. کیا ہی بہتر ہو جس عاجزی ہر ہم اپنے خیال میں ایمان رکھتے ہیں، ہمارے مجسمے بھی اسی لے میں ڈھل. جائیں.  جہاں کیل، ہتھوڑے بنتے ہیں، وہاں مرہم بھی تو بنا جاسکتا ہے.

( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )

پرعزم انسان راستہ کبھی نہیں بدلتا

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا

Saturday, November 21, 2020

رشتے اور صبرو برداشت

سوال ۔رشتے نبھانے کے لیے صبر اور برادشت کو انسان کی کمزوری سمجھا جا تا ہے ،صبر کرنے کی صورت میں انعام کیا ملتا ہے؟
سرفراز شاہ صاحب 
رشتے نبھانے کے لیے انسان کا فقیر ہو نا ضروری نہیں ہے ۔اب یہ فقیر کا لفظ بھی بڑا ٹریکی ہے ہمارے ہاں بھکاری کو بھی فقیر کہا جا تا ہے حالانکہ فقیر اور بھکاری میں بڑا فرق ہے فقیر وہ ہے جس نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور بھکاری وہ ہے جس کو دنیا نے ٹھکرا یا ہے ۔انسان کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے اس میں رشتے بھی شامل ہیں ۔مسلمان کے لیے صبر کی بڑی تلقین کی گئی ہے اور اللہ کے ہاں اسکا بڑا اجر ہے ۔اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ۔  انسان جس قدر بڑی کامیابی کے لیے کو شش کرتا ہے دشواری بھی اتنی ہی ہو تی ہے ۔جب انسان صبر کرتا ہے تو بہت سے لو گ اس کو بے وقوف سمجھ رہے ہو تے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد وہی لو گ اس کی عزت واحترام کرتے ہیں اوراس کی تعریف کرتے ہیں ۔

مردانگی

مردانگی طاقت دیکھانے کا نام نہیں. مردانگی غصہ ،جبر و جلال کا نام بھی نہیں .مردانگی حکومت کرنے خود کو حاکم منوانے کا نام نہیں کیونکہ طاقت ،غصہ ،جبر وجلال اور حکومت کرنے والا مادہ تو مخالف جنس میں بھی موجود ہوتا ہے.تو مرد کیا ہوتا ہے؟ مردانگی کیا ہے؟ 
مرد ایک ذمہ داری کا نام ہے 
مرد ایک سہارے کا نام ہے 
مرد خوداری کا نام ہے 
مرد برداشت کا نام ہے 
مرد صبر کا نام ہے 
مرد معاف کر دینے کا نام ہے 
مرد انصاف کا نام ہے
مرد تلوار ہے جو ظلم کو خلاف لڑتی ہے 
مرد عورت کا ہتھیار ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے 
مرد شان ہے معاشرے کی 
مرد طاقت ہے کسی قوم کی 
 

اللہ کی راہ اور نفسانی ترغیبات

سوال: راہ خدا میں درپیش آنے والی نفسانی ترغیبات کو کیسے کنٹرول کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
بزرگوں نے جو اس کا حل بتایا ہے وہ ہ ہے کہ جب بھی آپ کا نفس کچھ بھی کرنے کو کہے توآپ اس کی مخالفت کریں ۔جب بھی آپ یہ بار بار کریں گے تو آپ کا نفس سو جائے گا،اگرچہ وہ مرے گا نہیں لیکن اس کو کنٹرول کیا جاسکتاہے۔جب ایسا ہو جاتا ہے تو جو آپ کے اندر       تر غیبات اٹھتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔جب آپ بار بار اپنے نفس کی مخالفت کریں گے تو بغیر کسی شعوری کو شش کے آپ کے اندر کی ترغیبات ختم ہو نا شروع ہو جائیں گی ۔

رب صرف پہلی ترجیح پرملتا ہے

گرو گندم کے کھیتوں میں چہل قدمی کررہا تھا کہ اس کا چیلا ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گیا. چیلے کے چہرے پر شکنیں تھیں اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا.
گرو نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا. 

"میں بہت پریشان ہوں. سمجھ نہیں آتا کہ سیدھا راستہ کیا ہے؟ صراط مستقیم تک کیسے پہنچا جائے؟ خالق کو کیسے ڈھونڈا جائے؟ سب سے پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ میں یہ معمہ حل کرنے سے قاصر ہوں، تھک گیا ہوں". چیلے نے بے چارگی سے کہا.

گرو نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا "یہ تم نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر کیا پہنا ہوا ہے؟"

"یہ ہیرے کی انگوٹھی ہے جو میرے سسر نے شادی کے وقت مجھے تحفتاً دی تھی "چیلے نے جواب دیا.

گرو نے ہاتھ بڑھایا" یہ مجھے پکڑاؤ".

چیلے نے کچھ تذبذب کے ساتھ حکم کی تعمیل کی.

گرو نے انگوٹھی ہاتھ میں پکڑی، ایک نظر اسے دیکھا اور پھر گھما کر دور گندم کے گھنے کھیت میں پھینک دی. چیلا ہکا بکا رہ گیا. 

" یہ کیا کیا مرشد؟ وہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کرلایا.

" اب تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے مجھے صرف یہ ہیرے کی انگوٹھی ڈھونڈنی پڑے گی. اوپر سے شام ہونے والی ہے، مگر اسے ڈھونڈنے کے لیے مجھے یہاں رات بھی گزارنی پڑی، کچھ بھی کرنا پڑا تو کروں گا".

گرو کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری.

"بس تمہیں تمہارے سوال کاجواب مل گیا. جو سب سے ضروری ہوتا ہے وہ پہلا انتخاب بن جاتا ہے. ساری پگڈنڈیاں اس ایک رستے میں مدغم ہوجاتی ہیں. جو اولین ترجیح بن جائے، سارے رستے اسی کی طرف لے جاتے ہیں. اور جو سب سے ضروری ہوتا ہے وہ متبادل یا دوسری ترجیح کے طور پر نہیں ملتا".