Wednesday, December 23, 2020

بیٹا اور بیٹی کی تربیت

ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں، 
بولی اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟ 

شوہر نے جواب دیا ! میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔

خاتون نے پھر پوچھا:-
اگر بیٹی ہوئی تو؟ 

شوہر نے جواب دیا:-
میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔ 

میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔

بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک، 

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک، 

نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔ 

وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔ 

خاتون نے پھر پوچھا ! 
کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟ 

شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔ 

خاتون نے پوچھا !
لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟

 شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔ 

*یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کوختم کیا کہ بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا، لیکن بیٹا زندگی کے کسی بھی موڑ پہ ہمیں چھوڑ سکتا ہے..!```

معتدل معاشرہ

معتدل معاشرہ وہ ہے جہاں ادب، مذہب سے بیزار نہ ہو اور مذہب، ادب سے بیزار نہ ہو۔ ہمارے ہاں، ادب ہو یا مذہب دونوں نے اپنی توانائی ایک دوسرے کے خلاف صرف کی ہے۔ کچھ تنگ ذہن مولوی میر، غالب، انیس اور منٹو کی تکفیر کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب بعض ادیبوں کی تمام تر ادبی تخلیقات مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مذہب کو تنگ گلی نہ بننے دیں۔ ادب کو پراپیگنڈہ نہ بننے دیں۔

آپ کی پہچان

اس کا آغاز پہلے گھریلو ماحول سے کرنا ہوگا اور پھر تعلیمی اداروں سے.. جس طرح انگریزی بولنے پر بچوں کا ماتھا چوم لیتے ہیں اسی طرح انگریزی کا ترجمہ پوچھ کر بھی ماتھا چوم لیا جائے...
بتانا ہوگا کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے، آپ نے سیکھنی ہے مگر زبان کی حیثیت سے، اسے معیار سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی...
اردو آپ کی قومی زبان ہے، آپ کی پہچان اور آپ کی شناخت... انگریزی تب بولیں جب لازم ہو یا ضرورت ہو، بلا وجہ نہیں......
بچوں سے اردو میں بات کریں بیشک ساتھ ساتھ بتا دیں کہ انگریزی میں اس لفظ کو یہ کہتے ہیں مگر ہم الٹ چل رہے ہیں، انگریزی بول کر کہتے ہیں کہ اردو میں اسے یہ کہتے ہیں........
تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین بھی قصور وار ہیں، تعلیمی ادارے تو اس وقت ایک مارکیٹ بن چکے ہیں اور مارکیٹنگ کا تو اصول ہے کہ کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق چلنا ہے.... 
آپ لوگ بھی تو اس تعلیمی ادارے کو اچھا سمجھتے ہیں جہاں تین چار خوب صورت خواتین پہلے آپ کا استقبال کریں، پھر آپ کو ایک کپ ٹی کا دیا جائے، آپ کو انتظار کرنے کا کہا جائے، آپ کو کہا جائے کہ ابھی ڈائریکٹر یا پرنسپل صاحب مصروف ہیں، چاہے اندر پرنسپل صاحب فری بیٹھے ہوں، اس طرح کے ماحول سے آپ کو لگتا ہے واہ جی بچے واقع کسی اچھے ادارے میں پڑھ رہے ہیں..
یورپ میں والدین اس تعلیمی ادارے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا آسان ہو جبکہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا انتہائی مشکل ہو...... 

ایمان کا تقاضا

میرے ایک استاد اونگارتی تھے ، میں ان کا ذکر پہلے بھی کرتا رہا ہوں - میں نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " انھوں نے جواب دیا کہ " ایمان خدا کے کہنے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی " 
اٹلی میں ہمارے کمرے میں ایک بار آگ لگ گئی اور ایک بچا تیسری منزل پر رہ گیا شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پے کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا "چھلانگ مار بیٹا " اس لڑکے نے کہا بابا میں کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے اس کے باپ نے کہا " تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار تیرا باپ تیرے نیچے ہے تو مجھے نہیں دیکھ رہا " میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں نا !" اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں "
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں الله پہلے سے موجود ہے 

حَیٰیّ عَلَی الفلَاح

میں اللہ کو نہیں مانتا تھا۔ خُدا کو نہیں جانتا تھا۔ مگر دنیا کی سب نعمتیں ہوتے ہوۓ بھی میری روح بے چین رہا کرتی، جانے کیا چیز تھی جو مجھے بے سکون رکھتی تھی۔ اور وہ نوجوان "شاہ" اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ پہچانتا بھی تھا۔ میں گاڑی خریدنے کے لیئے اس کے شو روم گیا تھا۔ مجھے گاڑی پسند آ گئی سودا طے ہو گیا میں نے بیانہ ادا کیا۔ اُس نے مجھے دعا دی "خُدا اِسے تمہارے لیئے بابرکت کرے" میں خدا کو نہیں مانتا کہاں ہوتا ہے تمہارا خدا؟ جانے کیوں نہ چاہتے ہوۓ بھی میرالہجہ طنزیہ ہو گیا۔ "ایسے مت کہو" وہ تڑپ کر بولا "میرا خدا زندہ خدا ہے وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے" عجیب بات تھی جانے کیا تھا اُس کے لہجے میں۔ اُس رات پہلی بار میں نے خدا کے بارے میں سوچا اس کے لہجے کی تڑپ نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ وہ اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔اس کی آنکھیں خدا کا نام لیتے ہی یوں چمکتیں جیسے اندھیری رات میں جگنو۔ اس کی ہر بات اللہ سے شروع ہو کر اللہ پر ہی ختم ہو جاتی جیسے کوئی عاشق بات بے بات اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے۔ اور پھر میں اکثر کسی نہ کسی بہانے سے اُس لڑکے کے پاس جانے لگا۔ وہ اپنے اللہ کی باتیں کرتا۔ نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی باتیں اچھی لگنے تھیں ایک عجب سا سرُور ہوتا اُس کی باتوں میں-
اور پھر ایک روز ڈاکٹر نے مجھے کینسر ڈائگنوز کیا میرے پاس صرف چھ مہینے کی زندگی باقی تھی۔ تب پہلی مرتبہ مجھے خدا کا خیال آیا۔ میں بے بس تھا بے شمار دولت کے باوجود صحت اور زندگی خریدنے پر قادر نہیں تھا۔ جانے کیوں میں شاہ سے ملنے چلا آیا۔ میری بیماری کی خبر سنتے ہی اس نے کہا "اللہ فضل کرے گا" میں چیخ پڑا اللہ اللہ کان پک گئے ہیں اللہ کا نام سُنتے سُنتے۔ میں مرنا نہیں چاہتا اور تمہارا خدا مجھ سے میری زندگی چھیننا چاہتا ہے۔"اللہ تمہیں صحت دے گا انشاءاللہ۔ تم مانگ کر تو دیکھو۔ اللہ تمہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے گا" شاہ نے مجھے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔

مجھے تمہارے اللہ سے ملنا ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ "اللہ تمہیں روز ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے ہو۔ وہ تمہارے ارد گرد بہت ہی پاس رہتا ہے۔ کبھی وہ فقیر کے روپ میں ملتا ہے۔ کبھی یتیم کے اور کبھی مہمان بن کر چلا آتا ہے۔ ہو سکے تو اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ دو کچھ خرچ کرو اِس کا بہت اجر ہے اور یقیناً یہ بڑھ کر تمہیں واپس ملے گا۔ اللہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت کرتا ہے"

اُس دن گھر جاتے ہوۓ میں نے ایک مزدور عورت کو دیکھا اُس نے کمر پر بچہ باندھ رکھا تھا بچہ بھوک سے رو رہا تھا ماں کی چھاتی سے لگتے ہی بچہ پرسکون ہو گیا کون تھا وہ جس نے اُس کے لیئے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتارا یقیناً اللہ اور یوں میں نے پہلی بار اللہ کو دیکھا۔ میں نے مزدور عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اُس کے ہاتھ میں چند نوٹ تھماۓ اور آگے چل دیا۔اُس عورت کی آنکھوں میں بلکتی بھوک خوشی سے بھنگڑہ ڈالنے لگی۔اُس کی نظروں میں اچانک دو کیفیات کی تبدیلی حیرت انگیز تھی اور میرے دل میں بھی جہاں یاسیت کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔ عجیب نشہ اور سکون تھا اس اطمینان میں اور پھر میں ضرورتمندوں کو ڈھونڈنے لگا اور اللہ مُجھے۔ اُسی شام کونے والی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا نابینا رشید ملا اُس کے بار بار اللہ کے شکر ادا کرنے نے مجھے زمین پر پٹخ دیا۔ تم اندھے ہو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو میرے پوچھنے پر اس نے میرا ہاتھ بارش کی بوندوں کے آگے کر دیا میں بارش کو محسوس کرتا ہوں بوندوں کی جلترنگ سن سکتا ہوں اذان ہو رہی تھی "حَیٰیّ عَلَی الفلَاح" دیکھو وہ مجھے پکارتا ہے۔ میں نصیبے والا ہوں ُاس کی پکار سن سکتا ہوں خدا کی قسم میں خوش قسمت ہوں دل کے اندھوں سے زیادہ خوش قسمت۔اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی پیارے جگری دوست "لُکن میٹی" کھیل رہے تھے۔ میں جہاں بھی چُھپتا وہ میرا یار مجھے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اور پھر ہر جگہ مجھے اللہ نظر آنے لگا ساری کائنات اللہ سے بھر گئی تھی۔ جو کبھی دِکھا ہی نہیں تھا وہ پتھلا مار کر میرے دل میں بیٹھ گیا۔ شاہ سچ کہتا تھا اللہ تمہیں ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے۔ تب پہلی بار میں نے اللہ کو پکارا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی ناشکری کا احساس ہوا۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔ میں اس رات بہت سکون سے سویا۔ مجھے اللہ کی پہچان ہونے لگی تھی اب وہ مجھے اکثر ملنے لگا تھا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب مجھے اللہ سے پیار ہو گیا۔ مرنے کا خوف کہیں دور رہ گیا۔ میں جان چُکا تھا کہ سب کچھ اُسی کا ہے۔ وہ جِتنا اور جس کو چاہتا ہے امانتاً تھما دیتا ہے۔ مجھے باقی کی زندگی اللہ کے لیئے جینا تھا چاہے وہ ایک دن کی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ چھ مہینے کے بعد ڈاکٹر حیران تھے۔ میرا کینسر غائب ہو گیا تھا کہیں جسم میں بیماری کانام و نشان تک نہیں تھا۔ " یقیناً وہی ہے میرا رب جو شفاء دینے والا ہے" میں شاہ کے پاس چلا آیا میری رپوٹس دیکھ کر وہ رو رہا تھا۔ "الحمدللّٰہ دیکھو پاک ہے میرا رب بے شک پاک ہے میرا رب اس نے تمہارے جسم کو بیماری سے پاک کر دیا" شاہ بیٹا جسم کی پروا ہی اب کسے ہے یہ مِٹّی تو بس مِٹّی کی امانت ہے۔اسے کیڑوں نے ہی کھانا ہے۔ اُس پاک رب نے میرے دل سے بیماری کو دور کر دیا۔ وہ مجھے آن ملا وہ مجھے آن ملا دیکھو میرا رب مجھے آن ملا۔

"جب تم پہلی بار میرے پاس آۓ تھے مجھے تم دنیا کے غریب ترین انسان لگے تھے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی خدا کرے تمہیں خدا ملے بے شمار دولت سے سجا تمہارا پھیکا اور ویران جہاں سجنے لگے میں بس تمہیں رب سے ملوانا چاہتا تھا اُس نے میری دعا سن لی۔ کیا اب بھی تم کہتے ہو اللہ نہیں ہے۔ دیکھو تم نے اسے پکارا اور وہ دوڑا چلا آیا" شاہ بول رہا تھا اُس کی مسکراہٹ میں رب مسکراتا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ہی یار کے لیئے بھیگ رہی تھیں۔

میں نے اسی روز مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا الحمدللّٰہ۔ میں "تھامس" اب عبداللہ ہوں۔ آج پورے دو سال کے بعد میں شاہ کے ساتھ اس کے دفتر میں بیٹھا تھا اس کا چھوٹا سا بیٹا میرے پاس کھیل رہا تھا۔ عصر کا وقت تھا۔اذان ہو رہی تھی اس کے بیٹے نے میری اُنگلی تھامی اور کہنے لگا چلیں انکل میں آپ کو مسجد لے چلوں بالکل ایسے ہی جیسے اُس کا باپ میری اُنگلی تھام کر مجھے اللہ سے ملوا لایا تھا۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہمیں شاہ کے نئے شوروم کے افتتاح کے لیئے جانا تھا۔ جہاں وہ مجھے دعا کروانے کا کہہ رہا تھا جانے مجھ جیسے گنہگار کو اس نے اُس کام کے لیئے کیوں چنا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کیوں کہ آپ میرے بزرگ ہیں۔میں دل ہی دل میں ہنس دیا بزرگ تو وہ تھا میرا "پگلا کہیں کا" میری روح اپنے اصل کی طرف لوٹ کر سکون میں تھی بے شک ہم سب کو لوٹ کر اُسی کی طرف جانا ہے۔
☚ اللّٰہ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿں ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮰ ﺁﻣﯿﻦ.

Sunday, December 20, 2020

کچھ ایسا کرجاؤ.....

"ڈاکٹر جی ...
کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ھیں،
اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر: میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

ساس: پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟

ڈاکٹر: آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی،
میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

سسر: وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔

ڈاکٹر: وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا،
اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔

شوہر: مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟_*

ڈاکٹر : یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟
ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاھیئے؟

سسر: میں سمجھا نہیں؟

ڈاکٹر: ساھیوال کی گایوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو worried ہونا چاھیئے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی،
تو زیادہ دودھ دینے والی گایوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاھیئے کہ اگر یہ بھی مر گئ کہ تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟

سسر: ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر : آپ کے پَر دادے کا کیا کیا نام ہے؟

سسر: وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔

ڈاکٹر: مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا،
آپ کے پر دادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا؟ اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔

ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ 
آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ھڈیوں کو کونسا سرور آئے گا؟
علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا،
آج بھی نصاب میں انکا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔
گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ھسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔
ایدھی صاحب مر گئے،
لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔
کچھ ایسا کر جاو کہ لوگ تمہارا نام لیں بے شک تمہاری نسلیں تمہں بھول جائیں۔
انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں۔ 

Saturday, December 19, 2020

زندگی کی ریل

جب ریل کسی سرنگ میں سے گزرتی ہے اور ایک دم سے اندھیرا ہو جاتا ہے تو آپ اپنی ٹکٹ کو پھینک کر ریل سے باہر کود نہیں جاتے کیونکہ آپ کو ریل کے ڈرائیور پر بھروسہ ہوتاہے۔


اسی طرح جب زندگی کی ریل دکھوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کے اندھیروں ںسے گزر رہی ہو تو زندگی کی ٹرین کو چلانے والے پر بھروسہ رکھو وہ ان اندھیروں سے ضرور نکال لے جائے گا۔

بس کبھی کبھی یہ سرنگ چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی کبھی بہت بڑی مگر یقین رکھو ہوتی یہ سرنگ ہی ہے جس کے دوسرے سرے پر روشنی اور اجالا ہی اجالا ہوتا ہے۔ بس ہمیں صرف اس سفر کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے۔

Thursday, December 17, 2020

مولوی صاحب اور ھوٹل

شہر کے بیچ میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے ریحان کا چائے کا ہوٹل ہے۔ اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔ اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ ہندی ، انگریزی ، چائنیز وغیرہ، رات دس بجے کے بعد والے شو بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔ ریحان کو فلموں کی کافی جانکاری ہے۔ ہارر ، رومانوی ، تاریخی ، آرٹ ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔
ریحان پانچ وقت کا نمازی بھی ہے۔ جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سونپ کر مسجد کا رخ کرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔ یوں ریحان کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔ مگر تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ ریحان ایک نیک اور نمازی پرہیزگار آدمی ہے۔
مسجد کے امام کا نام مولوی "حافظ عبدالسبحان" ہے۔
پچیس سال کا خوب رو باریش نوجوان ، تازہ تازہ درس نظامی کر کے آیا ہے اور مسجد میں بلا معاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔
نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق حجرے میں جا بیٹھتا ہے اور کتابوں میں کھو جاتا ہے۔ کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پینے کا من ھوا تو مولانا صاحب کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے ریحان بھائی کے ہوٹل سے چائے پی جائے ۔ مسجد کے صدر دروازے پر ھوٹل ھے۔ چنانچہ وہ حجرے کا کواڑ لگا کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔ تمام فلم بین جو پیشاب روکے ، آنکھیں پھاڑے فلم میں مست تھے ، مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں چونکے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو ۔ مولوی صاحب نے چائے کا کہا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگ گئے، تیسری آنکھ سے دیکھنے والے کو صاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مجرم فقط ایک ذات تھی یعنی "مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب"۔
چائے پینے کے بعد حجرے میں لوٹ آئے ۔ نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مصلے امامت تک تشریف لائے تو مقتدیوں کے چہرے یوں بدلے ہوئے تھے جیسے کوفہ والوں کے مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے ۔ اطراف میں بات پھیل چکی تھی کہ مولوی صاحب فلمیں بہت دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ مولوی صاحب کی چھٹی کروا دی گئی۔ 
عشاء کے وقت جب مولوی"حافظ عبدالسبحان" صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو ریحان بھائی کے ہوٹل میں بیٹھے چاچا شریف نے ریحان کو پکارتے ہوئے کہا :
"اچھا کیا مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب کی چھٹی کروا دی، ایسے مولویوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور ہم مسلمانوں کی عزت نہیں ہے ۔" ریحان نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سے سب دوبارہ فلم میں مگن ہو گئے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال، ریحان سارا دن فلمیں دیکھنے اور دکھانے والا نیک ہے اور مولوی صاحب پانچ منٹ چائے پینے گئے تو بہت بڑے گناہ گار ھوگئے۔۔۔۔۔۔
الله هم سب كو هدايت عطا فرمائے ... 
آمین ثم آمین یارب العالمین۔

Wednesday, December 16, 2020

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Tuesday, December 15, 2020

بہلـــــــول دانا

ایک دن آپ بادشاہ کے پاس گئے جو اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔ 
آپ نے پوچھا: '' سوچتے کیا ہو؟ '' 
اُس نے کہا : '' میں اس وقت دنیا کی بےوفائی پر غور کررہا ہوں کہ اس بےوفا نے کسی سے بھی نباہ نہ کیا۔''
آپ نے کہا : '' اگر دنیا وفادار ہوتی تو تم آج بادشاہ کیونکر بن سکتے۔ پس اس قصے کو جانے دو اور کچھ سوچو۔'' 

ایک دفعہ بارش کی کثرت سے اکثر قبروں میں ایسے شگاف پڑ گئے کہ مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نظر آنے لگیں۔ 
بہلول قبرستان میں چند کھوپڑیاں سامنے رکھے دیکھ رہے تھے کہ اتفاقاً بادشاہ کی سواری بھی آ نکلی۔ 
اس نے انہیں اس شغل میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔ '' بہلول ! کیا دیکھ رہے ہو؟ ''
آپ نے فرمایا : '' تمہارا اور میرا دونوں کا باپ مرچکا ہے۔ میں اب یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے باپ کی کھوپڑی کونسی ہے اور میرے باپ کی کونسی؟۔'' 
بادشاہ نے کہا : '' کیا مُردہ امیر و غریب اور شاہ و گدا کی ہڈیوں میں بھی کچھ فرق ہوا کرتا ہے کہ پہچان لوگے۔؟ '' 
بہلول دانا نے کہا '' پھر چار دن کی جھوٹی نمود پر بڑے لوگ مغرور ہوکر غریبوں کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟۔'' 
بادشاہ قائل ہوگیا اور اس دن سے حلیمی اختیار کرلی۔

ایک مرتبہ کسی نے کہا : '' بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔'' 
فرمایا : '' اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ اور ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں