Wednesday, December 23, 2020

حَیٰیّ عَلَی الفلَاح

میں اللہ کو نہیں مانتا تھا۔ خُدا کو نہیں جانتا تھا۔ مگر دنیا کی سب نعمتیں ہوتے ہوۓ بھی میری روح بے چین رہا کرتی، جانے کیا چیز تھی جو مجھے بے سکون رکھتی تھی۔ اور وہ نوجوان "شاہ" اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ پہچانتا بھی تھا۔ میں گاڑی خریدنے کے لیئے اس کے شو روم گیا تھا۔ مجھے گاڑی پسند آ گئی سودا طے ہو گیا میں نے بیانہ ادا کیا۔ اُس نے مجھے دعا دی "خُدا اِسے تمہارے لیئے بابرکت کرے" میں خدا کو نہیں مانتا کہاں ہوتا ہے تمہارا خدا؟ جانے کیوں نہ چاہتے ہوۓ بھی میرالہجہ طنزیہ ہو گیا۔ "ایسے مت کہو" وہ تڑپ کر بولا "میرا خدا زندہ خدا ہے وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے" عجیب بات تھی جانے کیا تھا اُس کے لہجے میں۔ اُس رات پہلی بار میں نے خدا کے بارے میں سوچا اس کے لہجے کی تڑپ نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ وہ اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔اس کی آنکھیں خدا کا نام لیتے ہی یوں چمکتیں جیسے اندھیری رات میں جگنو۔ اس کی ہر بات اللہ سے شروع ہو کر اللہ پر ہی ختم ہو جاتی جیسے کوئی عاشق بات بے بات اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے۔ اور پھر میں اکثر کسی نہ کسی بہانے سے اُس لڑکے کے پاس جانے لگا۔ وہ اپنے اللہ کی باتیں کرتا۔ نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی باتیں اچھی لگنے تھیں ایک عجب سا سرُور ہوتا اُس کی باتوں میں-
اور پھر ایک روز ڈاکٹر نے مجھے کینسر ڈائگنوز کیا میرے پاس صرف چھ مہینے کی زندگی باقی تھی۔ تب پہلی مرتبہ مجھے خدا کا خیال آیا۔ میں بے بس تھا بے شمار دولت کے باوجود صحت اور زندگی خریدنے پر قادر نہیں تھا۔ جانے کیوں میں شاہ سے ملنے چلا آیا۔ میری بیماری کی خبر سنتے ہی اس نے کہا "اللہ فضل کرے گا" میں چیخ پڑا اللہ اللہ کان پک گئے ہیں اللہ کا نام سُنتے سُنتے۔ میں مرنا نہیں چاہتا اور تمہارا خدا مجھ سے میری زندگی چھیننا چاہتا ہے۔"اللہ تمہیں صحت دے گا انشاءاللہ۔ تم مانگ کر تو دیکھو۔ اللہ تمہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے گا" شاہ نے مجھے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔

مجھے تمہارے اللہ سے ملنا ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ "اللہ تمہیں روز ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے ہو۔ وہ تمہارے ارد گرد بہت ہی پاس رہتا ہے۔ کبھی وہ فقیر کے روپ میں ملتا ہے۔ کبھی یتیم کے اور کبھی مہمان بن کر چلا آتا ہے۔ ہو سکے تو اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ دو کچھ خرچ کرو اِس کا بہت اجر ہے اور یقیناً یہ بڑھ کر تمہیں واپس ملے گا۔ اللہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت کرتا ہے"

اُس دن گھر جاتے ہوۓ میں نے ایک مزدور عورت کو دیکھا اُس نے کمر پر بچہ باندھ رکھا تھا بچہ بھوک سے رو رہا تھا ماں کی چھاتی سے لگتے ہی بچہ پرسکون ہو گیا کون تھا وہ جس نے اُس کے لیئے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتارا یقیناً اللہ اور یوں میں نے پہلی بار اللہ کو دیکھا۔ میں نے مزدور عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اُس کے ہاتھ میں چند نوٹ تھماۓ اور آگے چل دیا۔اُس عورت کی آنکھوں میں بلکتی بھوک خوشی سے بھنگڑہ ڈالنے لگی۔اُس کی نظروں میں اچانک دو کیفیات کی تبدیلی حیرت انگیز تھی اور میرے دل میں بھی جہاں یاسیت کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔ عجیب نشہ اور سکون تھا اس اطمینان میں اور پھر میں ضرورتمندوں کو ڈھونڈنے لگا اور اللہ مُجھے۔ اُسی شام کونے والی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا نابینا رشید ملا اُس کے بار بار اللہ کے شکر ادا کرنے نے مجھے زمین پر پٹخ دیا۔ تم اندھے ہو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو میرے پوچھنے پر اس نے میرا ہاتھ بارش کی بوندوں کے آگے کر دیا میں بارش کو محسوس کرتا ہوں بوندوں کی جلترنگ سن سکتا ہوں اذان ہو رہی تھی "حَیٰیّ عَلَی الفلَاح" دیکھو وہ مجھے پکارتا ہے۔ میں نصیبے والا ہوں ُاس کی پکار سن سکتا ہوں خدا کی قسم میں خوش قسمت ہوں دل کے اندھوں سے زیادہ خوش قسمت۔اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی پیارے جگری دوست "لُکن میٹی" کھیل رہے تھے۔ میں جہاں بھی چُھپتا وہ میرا یار مجھے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اور پھر ہر جگہ مجھے اللہ نظر آنے لگا ساری کائنات اللہ سے بھر گئی تھی۔ جو کبھی دِکھا ہی نہیں تھا وہ پتھلا مار کر میرے دل میں بیٹھ گیا۔ شاہ سچ کہتا تھا اللہ تمہیں ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے۔ تب پہلی بار میں نے اللہ کو پکارا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی ناشکری کا احساس ہوا۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔ میں اس رات بہت سکون سے سویا۔ مجھے اللہ کی پہچان ہونے لگی تھی اب وہ مجھے اکثر ملنے لگا تھا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب مجھے اللہ سے پیار ہو گیا۔ مرنے کا خوف کہیں دور رہ گیا۔ میں جان چُکا تھا کہ سب کچھ اُسی کا ہے۔ وہ جِتنا اور جس کو چاہتا ہے امانتاً تھما دیتا ہے۔ مجھے باقی کی زندگی اللہ کے لیئے جینا تھا چاہے وہ ایک دن کی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ چھ مہینے کے بعد ڈاکٹر حیران تھے۔ میرا کینسر غائب ہو گیا تھا کہیں جسم میں بیماری کانام و نشان تک نہیں تھا۔ " یقیناً وہی ہے میرا رب جو شفاء دینے والا ہے" میں شاہ کے پاس چلا آیا میری رپوٹس دیکھ کر وہ رو رہا تھا۔ "الحمدللّٰہ دیکھو پاک ہے میرا رب بے شک پاک ہے میرا رب اس نے تمہارے جسم کو بیماری سے پاک کر دیا" شاہ بیٹا جسم کی پروا ہی اب کسے ہے یہ مِٹّی تو بس مِٹّی کی امانت ہے۔اسے کیڑوں نے ہی کھانا ہے۔ اُس پاک رب نے میرے دل سے بیماری کو دور کر دیا۔ وہ مجھے آن ملا وہ مجھے آن ملا دیکھو میرا رب مجھے آن ملا۔

"جب تم پہلی بار میرے پاس آۓ تھے مجھے تم دنیا کے غریب ترین انسان لگے تھے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی خدا کرے تمہیں خدا ملے بے شمار دولت سے سجا تمہارا پھیکا اور ویران جہاں سجنے لگے میں بس تمہیں رب سے ملوانا چاہتا تھا اُس نے میری دعا سن لی۔ کیا اب بھی تم کہتے ہو اللہ نہیں ہے۔ دیکھو تم نے اسے پکارا اور وہ دوڑا چلا آیا" شاہ بول رہا تھا اُس کی مسکراہٹ میں رب مسکراتا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ہی یار کے لیئے بھیگ رہی تھیں۔

میں نے اسی روز مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا الحمدللّٰہ۔ میں "تھامس" اب عبداللہ ہوں۔ آج پورے دو سال کے بعد میں شاہ کے ساتھ اس کے دفتر میں بیٹھا تھا اس کا چھوٹا سا بیٹا میرے پاس کھیل رہا تھا۔ عصر کا وقت تھا۔اذان ہو رہی تھی اس کے بیٹے نے میری اُنگلی تھامی اور کہنے لگا چلیں انکل میں آپ کو مسجد لے چلوں بالکل ایسے ہی جیسے اُس کا باپ میری اُنگلی تھام کر مجھے اللہ سے ملوا لایا تھا۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہمیں شاہ کے نئے شوروم کے افتتاح کے لیئے جانا تھا۔ جہاں وہ مجھے دعا کروانے کا کہہ رہا تھا جانے مجھ جیسے گنہگار کو اس نے اُس کام کے لیئے کیوں چنا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کیوں کہ آپ میرے بزرگ ہیں۔میں دل ہی دل میں ہنس دیا بزرگ تو وہ تھا میرا "پگلا کہیں کا" میری روح اپنے اصل کی طرف لوٹ کر سکون میں تھی بے شک ہم سب کو لوٹ کر اُسی کی طرف جانا ہے۔
☚ اللّٰہ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿں ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮰ ﺁﻣﯿﻦ.

No comments:

Post a Comment