Thursday, December 24, 2020

نصیب سے ہار گئی

آج پہلی رات تھی بستر پہ پھول سجائے گئے تھے 
نبیلہ اور کامران کی شادی ہوئی تھی 
شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی 
نبیلہ بیڈ پہ بیٹھی تھی کمیرہ مین تصاویر بنا رہا تھا وہ کبھی دائیں سر کر رہی کبھی بائیں طرف 
سب لوگ نئے تھے ہر چہرہ اجنبی تھا 
کامران پاس بیٹھا تھا 
سب محلے والے دلہن دیکھنے آئے ہوئے تھے 
نبیلہ نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی
رات کے 12 بج چکے تھے وہ بہت تھک چکی تھی 
بھوک سے برا حال تھا 
سب چلے  گئے 
دروازہ بند ہوا کامران نبیلہ کے پاس بیٹھا آپ ایسا کریں چینج کر لیں 
تھک گئی ہوں گی 
نبیلہ نے ڈریس  چینج کیا 
بھوک سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی 
لیکن کیا کر سکتے تھے کامران کو اس کی تھکن سے کیا واسطہ تھا 
وہ محبت بھری باتیں کہاں کرنا چاہتا تھا 
نبیلہ کو اپنی مردانگی کا روب ڈالتے ہوئے ہوئے بولا 
دیکھو مجھے تماشے اچھے نہیں لگتے 
میری باتیں کام کھول کر سن لو 
میں بار بار یہ باتیں نہیں بولوں گا 
گھر کے سارے کام تمہارے ذمہ ہیں کھانا بنانے سے لیکر جھاڑو صفائی تک 
سن رہی ہو نا نبیلہ نے ہاں میں سر ہلایا 
نبیلہ سوچ رہی تھی کوئی گفٹ  دے گا کوئی محبت بھری باتیں کرے گا لیکن اس کو نبیلہ سے کام کروانے کی فکر تھی
شادی کے دن گزر گئے 
ہاتھ میں جھاڑو مقدر میں کچن  لکھ دیا 
نبیلہ کی جھٹانی ان کی رشتہ دار تھی لیکن یہ غیروں سے بیاہ کر گئی تھی 
نبیلہ کھانا بنانا صاف صفائی کرنا کپڑے برتن سب کام 
جب تھک کر ٹوٹ جاتی تو رات کو شوہر کے نخرے اٹھانا 
کامران بہت روکھے ہوئے لہجے میں بات  کرتا تھا نبیلہ سے 
رات ڈنر ہوا 
اپنے کمرے میں چلے گئے نبیلہ کامران کے پاس بیٹھ گئی 
کامران شادی کو تین مہینے گزر گئے ہیں 
آپ مجھے کہیں  گھمانے لیکر نہیں گئے 
کامران حیرت سے دیکھ رہا تھا نبیلہ کی طرف 
نبیلہ گھمانے مطلب کہاں جانا ہے تم نے 
اس نے اتنے روکھے لہجے میں پوچھا کے نبیلہ سہم سی گئی 
کامران آپ کیوں اتنے غصے سے بات کرتے ہیں مجھ سے 
کامران ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا 
نبیلہ جاو میرے کپڑے استری کرو دماغ نہ خراب کرو یار میرا 
سارا دن کا تھکا ہوا ہوں میں 
نبیلہ پیروں کی طرف بیٹھ گئی اچھا چلیں آپ لیٹ جائیں میں آپ کو دبا دیتی ہوں 
کامران لیٹ گیا نبیلہ کامران کا دبانے لگی 
کامران سو گیا تھا 
وہ کامران کے پیروں کو اپنی گود میں رکھ کر سوچ رہی تھی 
کامران میں نے شادی سے پہلے بہت دکھ دیکھے ہیں 
مجھے محبت چاہئے آپ کا ساتھ چاہیئے 
آپ کیوں میری آنکھوں سے میرا درد نہیں سمجھ پاتے 
اصل میں نبیلہ کی ماں نہیں تھی سوتیلی ماں کے ساتھ جوان ہوئی اور سوتیلی مائیں کیا سلوک کرتی ہیں یہ مجھے لکھنے کی ضروت نہیں ہے 
نبیلہ نے بہت درد سہہ تھا سوتیلی ماں کے ہاتھوں 
یہاں ایک ظلم یہ بھی تو کیا گیا تھا نبیلہ 20 سال۔کی تھی اور کامران 36 سال کا 
جیسے نبیلہ سے جان چھڑانی تھی ان لوگوں نے 
وہ قدموں کے ساتھ لپٹی ہوئی اپنے ہمسفر سے احساس کی بھیک سی مانگ رہی تھی 
صبح وہ فجر کہ نماز سے پہلے جاگ جاتی 
ناشتہ بنانا سب کے لیئے اس کا ذمہ تھا 
وہ اہنا درد کسی پہ عیاں نہ ہونے دیتی 
وہ بس اپنے گھر میں آباد ہونا چاہتی تھی کامران کا ساتھ اسے چاہیے تھا بس 
اکثر کبھی تھکن کی وجہ سے برتن نہ دھو سکتی یا جھاڑو ٹائم پہ نہ لگا پاتی تو ساس اسے لاکھوں باتیں سناتی 
وہ اپنے لبوں کو سی کر ہر طعنہ برداشت کر جاتی تھی 
کامران مجھے ہر مہینے 5 ہزار دے دیا کریں نا 
کامران نے زہر آلود نگاہوں سے دیکھا نبیلہ کی طرف 
خیر ہے نا 5 ہزار کیوں چاہیے تم کو 
نبیلہ نے بڑے پیار سے جواب دیا کامران میں عورت ہوں نا 
میری ضروریات ہوتی ہیں 
پیسے پاس ہوں تو کبھی بازار جاوں تو اپنے لیئے کچھ ضروری چیزیں خرید لیا کروں 
اب میں آپ کے بھائی سے تو یہ سب باتیں کہہ نہیں سکتی 
کامران کو نہ جانے کیوں ایک چڑ سی تھی نبیلہ سے 
اس نے غصے میں بولا 
نبیلہ دیکھو میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کے تم۔کو الگ سے دے سکوں 
جو چاہیے ہو امی سے کہہ دیا کرنا وہ لا دیا کریں گی الگ سے خرچہ چاہیے اس کو 
نبیلہ 
کامران کے پاس بیٹھ گئی 
کامران آپ نہ دیں مجھے کچھ میں آپ کے ساتھ خوش ہوں 
بس آپ مجھ سے پیار سے بات کر لیا کریں 
مجھے پیار سے آواز دیا کریں 
میرا نام پیار سے پکارا کریں قسم خدا کی میں سب کچھ بھول جایا کروں گئ دن بھر کی تھکن 
وہ پرانے درد سب کچھ بس آپ مجھے محبت سے پکارا کریں 
کامران نے وقتی طور مسکرا کر کہا تو پیار سے ہی تو رہتا ہوں تمہارے ساتھ 
نبیلہ ناز اٹھانے والے لہجے میں بولی کامران آپ نہیں نا کرتے پیار سے بات مجھ سے 
لیکن آپ بس غصہ ہی دکھاتے ہیں 
کامران یہ دیکھیں کہ میری برتھ ڈے تھی میں نے اپ کا نام اپنے ہاتھ پہ مہندی سے لکھا ہے 
کامران جیسے بس بیزار سا ہو رہا تھا اس کی باتوں سے 
نبیلہ پیار سے باتیں کر رہی تھی کامران سے 
لیکن کامران دل ہی دل میں بول رہا تھا کیا پاگل پلے پڑ گئی ہے میرے 
اس کو کیا کہوں میں 
نہ جانے کیوں بے رخی کرتا تھا وہ
انھوں نے نیا  گھر بنا نا تھا گاوں کے لوگ تھے 
کامران نے نبیلہ سے کہا نبیلہ آج رات انٹیں آ جائیں گی تم ہماری مدد کرنا انٹیں گھر میں پھینکنی ہیں 
نبیلہ نے دن بھر گھر کے کام۔کیئے پھر رات کو وہ انٹیں اٹھا اٹھا کر گھر میں پھیکنے  لگی 
رات کے 3 بج گئے تھے 
کام ختم ہوا 
اس کا جسم درد اور تھکن سے بے جان سا ہو رہا تھا ۔
کامران لیٹ گیا 
نبیلہ پاس گئی کامران پلیز میرا سر دبا دیں نا 
مجھے بہت درد ہو رہا ہے کامران نے کروٹ بدلی یار جا و پیناڈول کھا لو مجھ سے دبایا نہیں جاتا 
وہ بستر پہ لیٹ گئی 
نہ جانے کیوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے 
وہ رو رہی تھی اس کو بہت درد ہو رہا تھا وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر سانس روکنے کی کوشش کر رہی تھی 
کامران پاس سویا ہوا تھا 
وہ درد سے سو نہ سکی فجر کی اذان ہونے لگی 
کے اس کئ آنکھ لگ گئی
وہ سوئی ہی تھی کے ساس گالیاں دے رہی تھی میڈم سوئی ہوئی ہے 
شرم ہی نہیں ہے ٹائم دیکھو  
کامران بھی برہم۔ہوا 
وہ اٹھی کامران غصے میں تھا نبیلہ شرم ہے تم کو ٹائم دیکھو امی خود ناشتہ بنا رہی ہے تیاری آنکھ ہی نہیں کھلتی 
نبیلہ کیا کہتی جب کے اب کامران کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا نبیلہ مر رہی ہو یا کسی درد میں ہو 
وہ خاموش ہوئی کچن میں چلی گئی 
سارا کام کیا اس کئ حالت کافی خراب تھی 
اس نے کسی سے کچھ نہ کہا 
شادی کو 3 سال گزر گئے تھے لیکن اولاد نہیں تھی 
ان 3 سالوں میں کوئی ایسی سانس نہیں تھی جب کبھی سکون پایا ہو 
نئے گھر کا کام شروع کیا 
وہ مزدوروں کی طرح کام۔کرنے لگی 
دن بھر سب کے لیئے کھانا بناتی 
پھر کبھی انٹیں اٹھا کر دیتی تو کبھی مٹی اٹھا رہی تھی 
4 مہینے اس نے مزدوری کی  گھر تیار ہوا 
کامران کے ساتھ رہتے ہوئے وہ کامران سے دور تھی 
کامران اس سے دور رہنے لگا 
دن کی دوری سے راتوں کی دوریاں بھی بڑھنے لگی تھی  
اولاد نہ ہونے کے طعنے دینے لگے 
ایک ڈر سا اسے ستانے لگا 
کامران تو پہلے ہی اسے دکھ دیتا تھا لیکن اب اولاد نہ ہونے کے طعنے 
ان دنوں کہیں  اس سے چھپ کر کامران کی دوسری شادی کی باتیں ہونے لگیں 
وہ سب کے رویے سمجھ رہی تو کچھ تو غلط ہو  رہا تھا 
نبیلہ ایک نوکرانی سے بڑھ کر کچھ نہ تھی 
وہ لبوں کی سیئے بیٹھی تھی نبیلہ کو ایک خوف تھا کہیں  کامران مجھے دور نہ کر دے 
لیکن جھٹانی کی چھوٹی بیٹی نے بتایا 
آنٹی نبیلہ ماما کہہ رہی تھیں 
کامران چاچو کی شادی کرنی ہے نئی آنٹی لیکر آنی ہے 
نبیلہ سمجھ چکی تھی کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہے 
لیکن وہ خاموش تھی 
کامران کمرے میں بیٹھا چہرے پہ کریم۔لگا رہا تھا 
نبیلہ پاس گئی 
آجکل بہت کریم لگا رہے ہیں 
بڑے سوہنے لگ رہے ہیں آپ نبیلہ کامران کے کندھے پہ سر رکھ کر بتا رہی تھی 
کامران آپ خوش رہیں ہمیشہ 
میں نماز پڑھ کر آپ کے لیئے بہت دعائیں مانگا کرتی ہوں 
آپ کی زندگی کی دعا مانگتی ہوں 
آپ کے ساتھ ہی تو میرا سب کچھ ہے 
جیسے وہ ایک درد دل میں چھپا کر خود کو سمجھا رہی ہو کے کامران مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا 
اور پھر وہ دن آگیا لڑکی والے کامران کے گھر آئے 
ساس نے سختی سے کہا کھانا بناو اور اپنے کمرے میں چلی جاو سامنے نہ آنا منحوس 
وہ اتنی بے رخی سمجھ رہی تھی 
اس نے شادی کے بعد ایک کام۔سیکھ لیا تھا درد کو چھپانا 
خاموشی سے رونا اور نے پناہ گلے لیکن شکوہ نہ کرنا 
وہ واپس پلٹ کر دیکھتی تو سوتیلی ماں تھی جو اسے واپس قبول نہ کرتی 
سامنے کامران کی شادی تھی جو کبھی بھی دھکے دے کر نکال سکتا تھا 
کامران کا رشتہ طے ہوا کچھ دنوں میں ہی دوسری بیوی کو لے آئے بیاہ کر 
جس کمرے وہ کامران کے ساتھ رہتی تھی آج اس کمرے میں کامران کی بانہوں میں  کوئی اور تھی
اسے الگ سے ایک کمرہ دے دیا 
وہ حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی  رہتی تھی 
کامران اپنی دوسری بیوی کو مری گھمانے لے گیا وہ بہت خوش تھا
لیکن ایک دیمک درد نبیلہ کو کھائے جا رہا تھا 
گھر کے کام دن بھر کی تھکن رات کی تنہایاں درد بے پناہ 
لاپرواہی  
نئی دلہن کو سب بہت پیار کرتے تھے لیکن نبیلہ ایک کونے میں پڑی شاہد موت کے قریب آ گئی تھی 
اور پھر ایک رات وہ کمرے میں سوئی تھی شاہد آج وہ درد نہ برداشت کر پا رہی تھی 
سر کا درد شدید تھا وہ سر پہ دونوں ہاتھ رکھے چیخنے لگی 
سب اپنے کمروں میں سو چکے تھے 
درد اتنا شدید تھا برداشت نہ کر پائی 
وہ کامران کو آوازیں دیتی رہی لیکن کامران دوسری بیوی کی بانہوں میں سو رہا تھا 
وہ زمین پہ گر گئی تڑپنے لگی نہ جانے کتنی آوازیں دی تھی اس نے اور آخر وہ سکون کی نیند  سو گئی 
وہ دنیا چھوڑ گئی 
صبح ساس گالیاں دے رہی تھی کمینی آج بھی نہیں اٹھی ناشتہ بنانے کے لیئے کامران نے آواز دی امی نبیلہ کو بولو ہمارا ناشتہ ہمارے کمرے میں بیجھ دے 
ماں نے گالی دی وہ منحوس سوئی ہوئی ہے ابھی تک 
سونے دو آج اسے کوئی نہ جائے اس کے کمرے میں 
دوپہر کا وقت ہو رہا تھا سب اہنے کاموں میں مصروف تھے 
لیکن ابھی تک نبیلہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھی آخر ساس کمرے میں گئی دیکھا نبیلہ اوندھے  منہ زمیں پہ پڑی تھی 
ساس نے شور مچا دیا سب اکھٹے ہو گئے 
دیکھا وہ اکڑ چکی تھی 
اس کی لاش کو چارپائی پہ ڈالا 
اس کے آنسو ابھی تک آنکھوں میں تھے 
اچانک سے کیسے مر گئی 
ان لوگوں نے اسے دفنا دیا جنازہ ہوا 
کوئی آنکھ نہ روئی تھی 
ایک دن اس کے کمرے کی صفائی کرتی کامران کی دوسری بیوی نے دیکھا کچھ رپورٹ اور دوائیاں تھی اس کے کمرے میں 
وہ دیکھ کر حیران ہو گئی اس کو برین ٹیومر تھا 
نہ جانے کب سے وہ یہ درد سہہ رہی تھی 
ایک ڈائری بھی لکھ رکھی تھی 
یہاں وہ اپنے درد لکھا کرتی 
اس کی ڈائری کے کچھ جملے
کامران مجھ سے روٹھا روٹھا رہتا یے میری طرف دیکھتا ہی نہیں 
آج میں نے سارا دن مزدوری کی کامران نے مجھے ٹھنڈا پانی پلایا میں بہت خوش ہوں 
کامران کہتا ہے میں بہت اچھی ہوں لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھ سے دور رہتا ہے 
آج میں اس کے لیئے تیار ہوئی تھی خود کو سنواراتھا لیکن پاگل نے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا پھر میں ناراض بھی نہیں ہوئی وہ بہت ڈانٹتا ہے کچھ کہوں تو
مجھے جان لیوا بیماری ہے لیکن میں کامران کو نہیں بتاوں گی وہ پریشان ہو جائیں گے 
ہمارا گھر بن کر تیار ہو گیا میں نے اپنا کمرہ بہت سجایا 
کامران کی شادی کر رہے ہیں مجھے گھر سے نکالا تو کہاں جاوں گی میں میرا تو کوئی ہے بھی نہیں 
بس نوکرانی بن کر مرنے تک یہی رہوں گی 
کامران اپنی دلہن سے بہت پیار کرتا ہے اسے برگر لا کر دیا 
میں نے کہا مجھے بھی لا دو کہتا ہے تم۔برتن دھو جا کر دماغ نہ خراب کرو میرا 
بھلا میں نے برگر ہی تو مانگا تھا 
آج صبح سے میری سانس رک رہی ہے ایسے لگ رہا ہے میرا وقت قریب آ گیا 
کاش کامران کی بانہوں میں مر سکتی 
کاش کامران میرا درد سمجھتا 
مجھے سینے سے لگاتا میں سکون سے مر جاتی 
کامران آپ کبھی میری یہ ڈائری پڑھیں تو خود کو میری موت کا ذمہ دار نہ ٹھرانا  بہت پیار کرتی ہوں آپ سے 
بس نصیب سے ہار گئی ہوں 
شاید کے میری قمست میں خوشیاں نہیں لکھی 
اور ہاں پاگل ایک برگر ہی تو تھا کنجوس تم۔مجھے لا دیتے تو کیا ہو جاتا ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی 
اپنی دوسری بیوی کا خیال رکھنا میں تو نہیں ہوں گی جب آپ کے ہاں اولاد ہوئی نا تو میری قبر پہ ضرور آنا ایک بار 
تمہاری نبیلہ 
مجھے بہت درد ہو رہا ہے اب لکھا بھی نہیں جا رہا کامران 
دل چاہ رہا ہے آپ کے پاس آ جاوں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کے بعد سب کچھ ادھورا رہ گیا نبیلہ خاموشی سے مر گئی کامران ڈائری پڑھ کر بہت رویا لیکن اب رونے کا کیا فائدہ تھا وہ بیچاری نہ جانے کتنا روئی تھی 
اس کی قبر پہ قدموں کی طرف بیٹھ کر معافی مانگنے لگا 
لیکن اب معافی مانگتا یا کچھ بھی کرتا وہ کہاں لوٹ کر آنے والی تھی 
ایس نہ جانے کتنی نبیلہ آج بھی ہیں جو اپنے ہمسفر کی بے رخی پہ جی رہی ہیں 
جو درد سہتی ہیں شکوہ نہیں کرتی۔۔ 
ارے  بے قدرو اپنی ہمسفر کو محبت سے دیکھ ہی لیا کرو خدا کی قسم وہ ہر درد ہر دکھ بھول جاتی ہیں 
اس سے پہلے کوئی نبیلہ دنیا سے چلی جائے اور آپ کو جب تک سمجھ آئے دیر ہو چکی ہو کے یاد رکھنا 
قیامت کے دن محشر کو پوچھا جائے گا...

No comments:

Post a Comment