Thursday, December 24, 2020

میاں، بیوی اور عزت نفس

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کرسکتا ہے؟

ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟ 
یا ڈھیر سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟ 

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار ومدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے  ہاتھ میں ہوتا ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے،
اس سلسلے میں مال ودولت کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جنکی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے۔

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے چھ چھ سات سات بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین اعلیٰ سے اعلیٰ ترین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں دن دن بھر نئے سے نیا کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ہر روز شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی اس نے پوچھا:
پھر آخر آپ کی اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟ 
بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں،
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے۔

نامہ نگار خاتون نے پوچھا:
ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟ 

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے جان چھڑا رہی ہیں، اس کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتی ہیں،
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں:
پوری ہوگئی آپ کی بات؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں، کیونکہ میرا شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں بس۔

خاتون صحافی نے پوچھا:
اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں، کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت ہی نہیں کرتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں تو، اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے یہ دو دھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی۔

صحافی نے پوچھا، پھر آپ کیا کرتی ہیں؟ 
بوڑھی خاتون بولیں:
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لیکر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں:  پی لیجیے۔
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے،

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں،
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟ 
میں کہتی ہوں: نہیں تو،
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا: اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
بالکل میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟ 
خاتون صحافی نے پوچھا: اور آپکی عزت نفس (self respect)؟

بوڑھی خاتون بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو،
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی،
جب بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس؟

No comments:

Post a Comment