عبادتوں اور بندگی میں ڈوبا وجود کب سے خواہشات اور خوابوں کے سراب کے پیچھے بھاگتا جا رہا تھا ...اندھا دھند ...
کہ بے بسی کا ایک آنسو مقبول ہوا ....
اور دعا کا جواب عطا سے آیا ...
جواب آیا ....کہ اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے .....
خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے آنکھیں آندھی ھو گئیں اب کیا دل بھی اندھا کرنا ہے ؟؟
چل ......فیصلہ کر لے ..
تین موقعے ہیں تیرے پاس ....
دعا کی قبولیت ،کا انتظار کر لے اس یقین کے ساتھ کہ یہ سب سنی جا رہی ...
یا یہ کہ اپنی دعا کا بدل لے لے دنیا میں یا آخرت میں ...
یا پھر ...تجارت کر لے میرے ساتھ ....
اپنی چاہت کو میرے لئے قربان کر دے اور دیکھ پھر میں تیری چاہت بن جاؤں گا ...
بول منظور ہے کیا ؟؟
اور ھو گا وہی پھر بھی جو میری چاہت ہے ...
برسوں سے کھڑا وجود ہاتھ جوڑے ...صرف اپنی خوائش کے لئے جھکتا تھا بس ...
اب تر ا ز و میں ...میری چاہت اور اس کی چاہت آ گئی تھی ...
دل کا دروازہ بند پڑا تھا ...دستک تو دی جا رہی تھی پر اندر سے آواز آ رہی تھی باہر کون ہے ؟؟
تیری چاہت یا میری چاہت ...
دروازہ اندر سے ہی کھلتا ہمیشہ .....کھولنے والے کی مرضی کہ وہ کھولے یا نہ کھولے .....
دل غیر سے آباد ھو تو ہر طرف ویرانے نظر آتے ہیں اور دل دلدار سے آباد ھو تو ہر طرف نور ہی نور نظر آتا ہے ...نظر میں بھی اور نظارے میں بھی ....
سودا مہنگا نہیں ویسے ....
خواہشات کا جم غفیر تھا آوازیں ہی آوازیں ....سکوت صرف اس بات میں تھا جہاں دھڑکن تھی ...
اک طرف طلب اک طرف مطلوب
اکطرف خوائش اک طرف رضا ۓ مطلوب ...
اور تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر وہ نہ چاہے تو .....
سودا مہنگا نہیں تھا پھر بھی ...سوچ کے در کھل گۓ ..
اک طرف آدھی ادھوری ٹوٹی پھوٹی خوایشیں اور دوسری طرف وہ خود پورے کا پورا ......
.رحمت ،محبت ،چاہت بن کے سامنے بھی کھڑا اور اندر بھی بسا ....بس اک پکار کا منتظر ....
بس دو باتیں ماننی تھی ...
خوائش ہے کہ کوئی خوائش نہ رہے ...
اور
دل کے دروازے پر دربان بن کے بیٹھ جا اور سوا ۓ اللّه کے کسی کو نہ اندر آنے دے ...
پھر دیکھ اس کی چاہت کے رنگ ...چار سو ہر سو کو بہ کو ...
اور تو خود کیا ہے ...؟؟؟؟
تو بھی تو صبغة اللہ ّ ہے ....رنگوں میں سے ہی ایک رنگ ....
چاہت کا سوال بھی چاہت اور جواب بھی چاہت ...
No comments:
Post a Comment