ارے بیٹا یہ کیا؟ شرم نہیں آتی، بغیر پوچھے ایک اجنبی کو اپنے گھر لے آئے۔۔ دروازے کے ساتھ گھنٹی کا بٹن ہے، اسے دبا کر اطلاع کردیتے، تاکہ تمہاری بہنیں اور ماں سائیڈ پر ہوجاتیں۔
بیٹا :- ارے بابا یہ خیال آپ کو تب نہیں آتا، جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں اور میری بہنوں اور ماں کی موجودگی میں ایک نامحرم شخص سامنے آجاتا ہے، اس کی وقت تو کبھی آپ نے بے پردگی کا نہیں کہا۔
باپ :- وہ ٹی وی ہوتا ہے، وہ شخص تمہاری ماں بہن کو دیکھ یا سن نہیں رہا ہوتا، اس لیے اپنی بحث اپنے پاس رکھو اور جلدی سے اس شخص کو باہر نکالو۔
بیٹا :- بابا آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ شخص بھی بولنے اور سننے سے قاصر ہے کیونکہ یہ پیدئشی بہرا اور نابینا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس کا ہونا نہ ہونا تقریبا برابر ہی ہے۔
باپ :- لیکن تمہاری بہنیں اندھی نہیں ہیں، اس لیے جلدی سے اس اجنبی کو باہر چھوڑ کر آجاؤ۔
بیٹا :- بس میں اسے صرف اسی لیے آج ساتھ لایا تھا تاکہ آپ کو یہ سمجھا سکوں کہ ٹی وی پر آنے والے مرد اور عورتوں کو دیکھنا بھی گناہ ہے، جس طرح آپ کو ابھی غیرت آرہی ہے، اسی طرح اس وقت بھی غیرت آنی چاہیے جب ٹی وی پر کوئی نامحرم آجائے اور میری بہنیں اسے دیکھ رہی ہوں۔
ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا بھی بیٹھی ہوئی تھیں، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ )نابینا صحابی( تشریف لائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس سے پردہ کرو۔ ہم نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو نابینا ہیں یہ نہ ہم کو دیکھتے ہیں نہ ہی پہچانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اس کو نہیں دیکھتی؟
اب بابا آپ خود ہی انصاف کریں، وہ ٹی وی والے اگر نہیں دیکھتے تو کیا ہماری بہنوں کو ان نا محرموں کو دیکھنا چاہیے یا نہیں؟
لیکن شیطان ہمیں بہلاتا پھسلاتا ہے اور اس دھوکے میں رکھتا ہے کہ سب ٹھیک ہے، ہر کسی کے گھر میں بھی تو ٹی وی ہے تو کیا سب غلط ہیں؟؟
باپ :- بس کرو، تم لوگوں کی فرمائش تھی کہ گھر پر ٹی وی ہو، تمہیں پڑوسیوں کے گھر جانے سے روکنے کی غرض سے ہی تو میں ٹی وی گھر لایا تھا۔
بیٹا :- بابا میں اس بات کو نہیں مانتا، جس کسی سے ٹی وی رکھنے کی وجہ پوچھو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ بچے دوسروں کے گھر جاتے تھے اس لیے ٹی وی لایا، آپ کو معلوم ہے کہ بڑے بھائی باہر سگریٹ پیتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی آپ نے ان کیلئے گھر سگریٹ کی ڈبیا نہیں رکھی کہ بیٹا باہر کیوں پیتے ہو گھر پیا کرو، بلکہ الٹا آپ انہیں منع کرتے ہیں کہ باہر نہ پیا کرو۔
باپ :- ہر کوئی جانتا ہے کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس لیے کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا سگریٹ پئیے، لیکن اس سب کا ٹی وی سے کیا تعلق ہے؟
بیٹا :- بابا سگریٹ سے جسمانی صحت خراب ہوتی ہے جبکہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں گانوں سے اخلاقی اور روحانی صحت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی کل قیامت کے دن وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسا یہ دو انگلیاں )شہادت والی اور اس کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کرکے دکھایا( ساتھ ساتھ ہیں۔
ایک جگہ ارشاد ہے کہ ہر شخص اپنے کنبے کا والی وارث ہے اور اس سے اس کے کنبے کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی، تو ظاہر ہوا کہ کسی اجتماعی گناہ کا وبال والی وارث پر ہی ہوگا، جیسے اولاد کی تربیت میں کوتاہی کا وبال یا اولاد کے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں کل قیامت کو ماں باپ جواب داہ ہوں گے۔
جیسے نیک اولاد جنت میں جانے کا ذریعہ بنتی ہے ٹھیک اسی طرح بری اولاد جہنم میں لے جانے کا سبب بھی ہوگی۔
*حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا* فرماتی ہیں کہ *نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ اسے جہنم میں جانے کا حکم دیا گیا اس شخص کی نیک بچیاں اس سے چمٹ گئیں اور رونے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ اے اللہ ہمارے باپ نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا اور ہماری تربیت میں بہت محنت اٹھائی، تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر رحم فرما کر بخش دیا۔
بابا کہیں یہ نہ ہو کہ کل قیامت کو آپ کو جنت جانے کا حکم ملے اور آپ کی بیٹیاں بھی آپ کے پاؤں سے چمٹ جائیں کہ اے اللہ تو نے ہمیں نیک اور معصوم پیدا کیا تھا، پھر ہمارے باپ نے ہمیں دنیا کے ہر علم اور آسائش سے ہمیں آراستہ کیا، اعلیٰ تعلیم دلائی، دنیا کی ہر آسائش کا بندوبست کیا لیکن کبھی نماز کی تلقین نہیں کی، کبھی قرآن سکھانے کا اچھا بندوبست نہیں کیا، کبھی پردے کا نہ کہا۔۔۔
کہیں ان کی التجاء کی بدولت آپ کو جنت کی بجائے جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔
باپ :- بس بیٹا بس، میں جان گیا، آج تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، واقعی اپنی اولاد کی اچھی تربیت میری ہی ذمہ داری ہے جس میں میں نے آج تک کوتاہی برتی، اللہ مجھے معاف کرے۔
بیٹا :- اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بات آپ کو سمجھ آگئی، اور اولاد کی نیک تربیت کا صلہ صدقہ جاریہ کی صورت میں مل جایا کرتا ہے۔ مطلب جب بھی اولاد کوئی نیکی کرتی ہے اس کا اجر اور صلہ اس کے ماں باپ کو بھی پورے کا پورا ملتا ہے۔
باپ :- ارے ہم تمہارے دوست کو تو بھول ہی گئے، انہیں کوئی چائے وائے پلاؤ۔۔۔
No comments:
Post a Comment