میں درود شریف پڑھتے پڑھتے گلی میں گھر کی طرف جاتے ہوئے کچھ فاصلے پر تھا کہ رحمان بابا نے مجھے آواز دی، رحمان بابا کے بلانے پر میں واپس انکے پاس گیا مجھے دیکھتے ہی وہ بولے: میں تمہیں بتانا بھول گیا اگر کوئی ضروری کام نہیں تو اس جمعرات مغرب کی نماز کے بعد لازمی آجانا یا ایک کام کرنا مغرب کی نماز میرے ساتھ پڑھنا۔
رحمان بابا کی دعوت دینے کا انداز انتہائی الگ اور منفرد تھا وہ ایک ساتھ حکم بھی دے رہے تھے اور دعوت بھی۔
اب بھلا ضروری کام بھی ہوتا تو میں رحمان بابا کے بلانے کی وجہ سے ملتوی کر دیتا، میں نے مسکراتے ہوئے ان کو اپنے آنے کی یقین دہانی کرائی اور میں رحمان کے ساتھ چل پڑا چلتے چلتے میں نے رحمان بابا سے کہا:
بابا جی ابھی جب آپ نے مجھے جمعرات کو آنے کی دعوت دی مجھے آپ کی درود شریف کی تلقین یاد آئی تو مجھے وہ گزرے ہوئے دن یاد آگئے، جب آپ نے مجھے درود شریف کی اصل تعریف بتائی تھی اور وہ بھی جمعرات کا ہی دن تھا میں اپنے بدلتے بگڑتے حالات سے تنگ ہو کر آپ سے ایک سوال کر بیٹھا تھا کہ رحمان بابا کوئی وظیفہ بتا دیں میں چاروں جانب سے الم کا شکار ہوں معاش ہو یا صحت یا پھر میں کہتے کہتے رک گیا۔۔۔
شاید کچھ بھولے ہوئے پل یا پرانے زخم تازہ ہونے لگے تھے یہ بات یاد کرت ہی میری آنکھوں سے آنسو برسنے لگے، رحمان بابا ہمیشہ میرے دل کی کفیت کو سمجھ جاتے تھے وہ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے چپ نہیں کراتے تھے وہ کبھی یہ نہیں کہتے تھے مرد نہیں روتے ان کا فلسفہ الگ تھا وہ مجھے کہتے رو لو خوب رو لو دل ہلکا کر لو۔
پھر رحمان بابا میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے علی بیٹا کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھا کرو جیسے اس کو پڑھنے کا حق ہے میں نے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا:
بابا جی یہ کثرت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ اور درود شریف کا حق کیا ہے۔۔۔۔؟
رحمان بابا نے ایک بار پھر اپنی شفقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جیسے تم کوئی نعت سنتے ہو یا قوالی یا شعر یا بے شک کوئی گانا سنتے ہو اگر اس کو تم پورے دن لگاتار سنتے رہو تو اس کی آواز تمہارے دماغ میں گونجتی رہتی ہے اور الفاظ تمہارے دل ودماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور سارا دن تمہاری زبان سے وہی الفاظ جاری ہوتے رہتے ہیں یہ کثرت ہے۔ درود شریف کو اس قدر پڑھو کہ تمہارا دل ذکر کرنے لگے تمہارے لب خاموش بھی ہوں تو دل درود شریف پڑھ رہا ہو تم بیشک اپنی آواز میں اُسے ریکارڈ کر لو اور وہ سنتے رہو ہر وقت وہ آواز تمہارے دل تمہارے دماغ میں گونجتی رہے گی۔
اور درود شریف کا حق کیا ہے۔۔۔؟
بابا میرے سوال پر مسکرائے تمہارا جنون تمہیں بہت فائدہ دے گا مگر
صبر ہی سے ملتا ہے نوع انسان کو ثمر
دیکھو علی بیٹا درود شریف کی کثرت ایک جنون پیدا کر دیتی ہے درود شریف ایک دعا ہے اور دعا کے لئے ظاہری اسباب کرنے لازم ہوتے ہیں، اگر تم اپنی گاڑی کو بند نا کرو اور دعا کرو کے کوئی چوری نا کرے یہ تو نہیں ہو سکتا، پہلے تو اس کے ظاہری اسباب بناؤ پھر دعا کرو، درود شریف سے رحمتیں تم پر بھی نازل ہوتی ہیں تو سوچو کیا تم اس رحمت کے حق دار ہو۔۔۔؟ درود شریف زبان سے پڑھنے کا نام نہیں درود شریف کا حق تو ویسا ہی ہے کہ وہ تمام چیزیں وہ تمام برائیاں وہ تمام باتیں چھوڑنی پڑتی ہیں جو محبوب کو نا پسند ہوں، عشق کا دعوٰی کرتے ہو نا مجازی عشق تو تم بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہو۔
وہ کیسے بابا جی۔۔؟
بابا جی کی بات سُن کر میرا پرانا زخم اب تازہ ہو چکا تھا تو میں خود کو سوال کرنے سے روک نہیں پایا،
تم کو وہ پہلا علی یاد ہے یا بھول گئے ہو۔۔۔؟
میں نے اپنے ماضی میں ٹٹولتے ہوئے سبھی دروازں پر ایک تصوراتی نگاہ ڈالتے ہوئے جواب دیا: وہ علی نا ہوتا تو آج یہ علی کبھی جنم نا لیتا۔۔ رحمان بابا نے میرے جذبات سے بھرپور جواب کو ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا علی یاد ہے تم مجھے کیا کہا کرتے تھے۔۔۔؟ بابا جی مجھے بس میرے روٹھے محبوب سے ملا دیں کوئی وظیفہ کوئی تعویز دے دیں، آپ کیسے بابا ہیں۔۔۔؟ سب کہتے ہیں محبوب آپ کے قدموں میں اور نا جانے کیا کیا نہیں بولتے تھے، تمہیں کس قدر جنون تھا تب تمہیں اگر کوئی اور بات بتائی جاتی تو تم کیسے واپس چلے جاتے تھے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
نا عِلماں وچ پھسا مُلاں بس یار دی گل سنا مُلاں
علی بیٹا بلکل ایسے ہی کے لب کُھلیں تو محبوب کی تعریف کریں آنکھ اُٹھے تو محبوب کو دیکھنے کے لئے اسے ڈھونڈنے کے لئے دل ہر وقت اسی کی یاد میں مگن رہے، کوئی بھی بات کرنے سے پہلے دل بولے کہیں یہ بات میرے محبوب کو نا پسند تو نہیں اسے برا تو نہیں لگے گا، اگر میں یہ کام کروں اسے کیا پسند ہے میں نے رحمان بابا کی طرف دیکھا اور بولا:
وہ مجھ کو میرے ہی ہاتھوں سے سنوار گئے ہیں
وہ ایک بار کہہ گئے تھے میں ایسے اچھا لگتا ہوں
رحمان بابا میری شاعری سن کر مسکرائے اور بولے: علی بیٹا بس یہی درود شریف پڑھنے کا حق ہے۔
رحمان بابا کی باتوں میں گم کب گھر کے سامنے آگیا پتہ ہی نہیں چلا رحمان بابا نے مجھ سے کہا چلو اب گھر جاؤ اور آج سے درود شریف پڑھنے کے ساتھ اس کا حق ادا کرنا شروع کر دو۔
میں نے بابا جی سے سلام کیا اور اجازت لے کر گھر داخل ہو گیا، گھر کے اندر جاتے ہی میں نے حساب لگانا شروع کر دیا کہ اب وہ دس بار بیس بار پچاس بار سو بار گِن کر درود شریف نہیں پڑھنا بلکہ پہلے درود شریف کا حق ادا کرنا ہے اپنے اندر بری عادات کو چھوڑنا ہے، جو محبوب کو پسند نہیں وہ سب اعمال چھوڑنے ہیں پھر ہر پل زبان و دل سے ذکرِ درود شریف کرنا ہے،
یہی درود شریف کا صحیح حق ہو گا۔
No comments:
Post a Comment