Wednesday, September 6, 2023

خود کشی..... حرام ہے..

بجلی کا بِل زیادہ آ جائے۔۔ خودکشی 
گھر میں غربت ہے، کھانا نہیں ہے۔۔ خودکشی 

خودکشی۔۔ حرام ہے۔۔ حرام ہے۔۔ حرام ہے..

خود کشی کی سزا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور اسی عذاب میں مبتلا رہے گا، جس عمل کے ذریعہ اس نے خودکشی کی ہے۔ خود کشی کرنے والا دوزخ میں اپنے آپ کو مسلسل مارتا رہے گا اور تکلیف سے بار بار مرتا رہے گا. 

اگر بجلی کا بل دینے کے پیسے آپ کے پاس نہیں ہیں تو بجلی کٹ جانے دیں۔ صرف بجلی نہ ہونے  پر پاکستانی قوم اپنے آپ کو مار سکتی ہے۔۔ تو پھر یوں سمجھ لیں کہ دشمنوں کے لیے اس قوم کو ختم کر دینا نہایت ہی آسان ہے۔ تھوڑا برداشت کرنا سیکھیں۔ حالات سے مقابلہ کریں۔ بجلی کٹ رہی ہے کوئی ہمیں خنجر تو نہیں گھونپ رہا ہے ناں۔۔ بجلی کٹ جانے دیں۔۔
 الحمد للہ آپ کے پاس ہاتھ ہیں، پیر ہیں، دل ہے، دماغ ہے، قوت ہے، صلاحیتیں ہیں، سوچیں کہ حالات کی بہتری کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں؟  

بجلی تو پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے مبارک ادوار میں بھی نہیں تھی اور ان ادوار میں مسلمانوں نے جتنی ترقی کی ہے، بجلی آنے کے بعد نہیں کی۔ ہم تو ایسے پاک نبی کے امتی ہیں جنھوں نے کبھی دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ خالی پیٹ کی وجہ سے، پیٹ پر پتھر باندھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام نے جنگیں لڑی ہیں۔ مگر ہم تو اپنی غربت سے گھبرا گئے ہیں ! بجلی کا زیادہ بل دیکھ کر زندگیاں ختم کر بیٹھتے ہیں ! جبکہ  ہمارے پاس تو عمل کرنے کے لیے بہترین مثالیں موجود ہیں۔ 

غربت ہے۔۔ بہت غربت ہے۔۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں؟ تو یاد کیجیے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو۔۔ ویران بیابان میں صرف ایک تنہا عورت اور اس کے ساتھ اس کا شیر خوار بچہ۔۔ دور دور تک کوئی انسان نہیں۔۔ انسان تو کیا، کوئی تیسرا جاندار تک نہیں۔۔ پھر بھی خود کشی کرنے کا تو سوچا تک نہیں۔۔ بھاگتی رہیں۔۔ دوڑتی رہیں۔۔ اللہ کو یاد کرتی رہیں۔۔ کوشش کرتی رہیں۔۔ کرتی رہیں۔۔ پھر انتہائی درجہ کی کوششوں کے بعد معجزہ رونما ہوا اور بلکتے ہوئے اسماعیل علیہ السلام کے پیروں میں جبریل علیہ السلام کے پر مارنے سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اللہ نے اس واقعہ کو ہمارے لیے قیامت تک نشانی بنا دیا ہے اور اس واقعہ کے اندر ہم پاکستانیوں کے لیے تو سوچنے کے بہت سے پہلو موجود ہیں اور وہ یہ ہیں کہ:

خود زندہ رہنے اور اولاد کو زندہ رکھنے کے لیے اللہ کو زبان اور دل کی گہرائی کے ساتھ پکارنا اور عملی طور پر بھی انتہائی جدوجہد، بھاگ دوڑ کرنا نہایت ضروری ہے. رزق ہمارے ہاتھوں میں بیٹھے بٹھائے نہیں آ جاتا۔ جہاں پہلے کبھی تن تنہا صرف ایک ماں، ایک شیر خوار بچہ اور تیسرا زمزم زمزم کا مبارک پانی تھا، اس جگہ پر لوگ پانی کو دیکھ کر آباد ہوتے چلے گئے۔ اللہ نے پانی کو اپنی ایک نشانی بنایا ہے یعنی جس جگہ پانی ہوتا ہے وہی جگہ آباد بھی ہو جاتی ہے، اسی جگہ رزق بھی آ جاتا ہے۔

 ہمارے ملک میں بھی الحمد للہ سمندر ہے، دریا ہیں، نہریں ہیں، جن لوگوں کے پاس غربت کی وجہ سے کھانا پینا نہیں وہ پانی کے ان قدرتی خزانوں سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ پانی سے تو لوگوں کو رزق بھی ملتا ہے اور روزی بھی ملتی ہے۔ 
چلیں سمندر، دریا کے قریب آپ نہ جا سکیں تو کیا گھر کے اندر ہی آلو پیاز اگا نہیں سکتے؟ اڑتے کبوتر، چڑیا یا کسی حلال پرندے کو پکڑ کر نہیں کھا سکتے؟ یعنی آپ کا رزق آپ کی آنکھوں کے سامنے اڑ اڑ کر آ رہا ہے تب بھی بھوک کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہیں؟ یاد کیجیے کہ بنی اسرائیل بھی جب فرعون کی غرقابی کے بعد ایک میدان میں ٹہرے تھے، جہاں کوئی چیز بھی نہیں تھی تب اللہ نے ان کے لیے پرندوں کے گوشت کا ہی بہترین انتظام فرمایا تھا۔ کیا آپ حلال پرندے پکڑنے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں؟ خود ہی یہ سوچ کر بتائیں کہ خودکشی کرنے والا بدترین عذاب کا مستحق ہوتا ہے یا نہیں؟ 

میری پاکستانی بہنو اور بھائیو! تم لوگ اپنی بھرپور کوشش تو کرو۔ اللہ کو یاد تو کرو، اللہ کو راضی تو کرو۔ معجزہ دکھا دینا بھی اللہ کے لیے کوئی مشکل تو نہیں ہے ! رزق کے ہزاروں ذریعے بھی اللہ نے پیدا فرما دیے ہیں۔۔ تو پھر خود کشی کس لیے؟

No comments:

Post a Comment