Friday, September 25, 2020

ڈائری لکھئے مسائل حل کیجئے

اصلاحِ ذات کے ماہر کہتے ہیں کہ منفی ذہنیت کو مثبت رویے میں تبدیل کرنے سے زندگی بہترین انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ 
آپ بھی وہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے ڈائری لکھنا، یعنی ایک ڈائری بنائیں اور اس پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو تفصیل سے لکھنا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے۔ ڈائری لکھنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا ہے۔ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت ترک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ پہلے رات کو سوتے وقت لکھا کرتے تھے۔ پھر اس نے صبح لکھنے کا تجربہ کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ صبح ہی ڈائری لکھنے کا بہترین وقت ہے۔ ڈائری ہر کامیاب آدمی لکھتا ہے اور ڈائری لکھیں تو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔
صبح سویرے ڈائری لکھنے سے آپ اپنی مشکلات کو اچھے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی عملی قدم اٹھانے کے بغیر ہی، کسی مشکل کے بارے میں شکایت کرنا اور اسے ہر ہفتے بلکہ ہر مہینے دہراتے رہنا، بہت ہی کٹھن ہوگا۔ یہ ڈائری ہمیں اکساتی ہے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں اور اپنی مشکلات کا حل تلاش کریں۔
ڈائری ایک سادہ کاپی نہیں رہتی جب اُس پر کچھ لکھ لیا جائے۔ یہ ایک تحریک بن جاتی ہے۔

ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے


"کل میں نے اپنے والد کے ساتھ ایک گھنٹہ بینک میں گزارا تھا ، کیونکہ انہیں کچھ رقم منتقل کرنا پڑی۔ میں خود مزاحمت نہیں کرسکا اور پوچھا ...

'' والد ، آپ اپنا انٹرنیٹ بینکنگ کیوں نہیں چالو کرتے ہیں؟ ''

'' میں ایسا کیوں کروں گا؟ '' انہوں نے جواب دیا ...

'' ٹھیک ہے ، پھر آپ کو منتقلی جیسی چیزوں کے لیے یہاں ایک گھنٹہ نہیں گزارنا پڑے گا۔

یہاں تک کہ آپ اپنی شاپنگ آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔ سب کچھ بہت آسان ہوگا! ''

میں انہیں نیٹ بینکنگ کی دنیا میں متعارف کرانے کے بارے میں بہت پرجوش تھا۔
 انہوں نے پوچھا '' اگر میں یہ کروں تو ، مجھے گھر سے نکلنا نہیں پڑے گا؟

''ہاں ہاں''! میں نے کہا. میں نے انہیں بتایا کہ یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی اب گھر پر کس طرح پہنچائی جاسکتی ہیں اور ایمیزون کس طرح سب کچھ فراہم کرتا ہے!

ان کے جواب نے مجھے زبان سے باندھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ '' جب سے میں آج اس بینک میں داخل ہوا ہوں ، میں نے اپنے چار دوستوں سے ملاقات کی ہے ، میں نے عملے سے کچھ دیر گفتگو کی ہے جو اب تک مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

 میں تنہا ہوں ... یہ وہ کمپنی ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔ مجھے تیار ہوکر بینک آنا پسند ہے۔ میرے پاس کافی وقت ہے ، یہ وہ جسمانی لمس ہے جو مجھے پسند ہے۔

دو سال پہلے میں بیمار ہوا ، اس اسٹور کا مالک جس سے میں پھل خریدتا ہوں ، مجھے دیکھنے آیا اور میرے پلنگ کے پاس بیٹھ گیا اور میری صحت کے بارے میں سوال کیا

جب آپ کی والدہ صبح کی سیر کے دوران کچھ دن پہلے گر گئیں۔ ہمارے مقامی دکاندار نے اسے دیکھا اور فوری طور پر اسے نزدیکی اسپتال لے گیا اور فون کے ذریعہ ہمیں اس کی اطلاع دی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں کہاں رہتا ہوں۔

کیا سب کچھ آن لائن ہوجاتا ہے؟

میں کیوں چاہتا ہوں کہ سب کچھ مجھ تک پہنچا دیا جائے اور مجھے صرف اپنے کمپیوٹر کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کیا جائے؟

میں اس شخص کو جاننا چاہتا ہوں جس کے ساتھ میں صرف 'فروخت کنندہ' نہیں بلکہ معاملہ کر رہا ہوں۔ یہ رشتوں کے رشتوں کو تشکیل دیتا ہے۔

کیا ایمیزون بھی یہ سب فراہم کرتا ہے؟ ''

ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے ..
لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں .. آلات کے ساتھ نہیں۔ "

خود کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں




آج صبح میں جوگنگ کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے آدھا کلومیٹر دور تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے تھوڑا آہستہ دوڑ رہا ہے، مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی، میں نے سوچا اسے ہرانا چاہئے۔ تقریبا ایک کلو میٹر بعد مجھے اپنے گھر کی جانب ایک موڑ پر مڑنا تھا۔ میں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی منٹوں میں، میں دھیرے دھیرے اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔جب میں اس سے 100 فٹ دور رہ گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی جوش اور ولولے کے ساتھ میں نے تیزی سے اسے پیچھے کردیا۔ 

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ  "یس!! میں نے اسے ہرادیا"

حالانکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ریس لگی ہوئی ہے۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ اسے پیچھے کرنے کی دھن میں میں اپنے گھر کے موڑ سے کافی دور آگیا ہوں۔ پھر مجھے احساس ہواکہ میں نے اپنے اندرونی سکون کو غارت کردیا ہے، راستے کی ہریالی اور اس پر پڑنے والی سورج کی نرم شعاعوں کا مزہ بھی نہیں لے سکا۔ چڑیوں کی خوبصورت آوازوں کو سننے سے محروم رہ گیا۔میری سانس پھول رہی تھی،  اعضاء میں درد ہونے لگا، میرا فوکس میرے گھر کا راستہ تھا اب میں اس سے بہت دور آگیا تھا۔ 

تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہماری زندگی میں بھی ہم خوامخواہ Competition کرتے ہیں، اپنے co workers کے ساتھ، پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ، ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہت بھاری ہیں ، زیادہ کامیاب ہیں، یا زیادہ اہم ہیں، اور اسی چکر میں ہم اپنا سکون، اپنے اطراف کی خوبصورتی، اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے```

اس بیکار کے Competition کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔_

ہر جگہ کوئی نا کوئی آپ سے آگے ہوگا، کسی کو آپ سے اچھی جاب ملی ہوگی، کسی کو اچھی بیوی، اچھی کار، آپ سے زیادہ تعلیم، آپ سے ہینڈسم شوہر، فرمانبردار اولاد، اچھا ماحول، یا اچھا گھر وغیرہ

 یہ ایک حقیقت ہےکہ آپ خود اپنے آپ میں بہت زبردست ہیں، لیکن اس کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے compare کرنا چھوڑ دیں۔

بعض لوگ دوسروں پر بہت توجہ دینے کی وجہ سے بہت nervous اور insecure محسوس کرتے ہیں، اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر focus کیجئے، اپنی height، weight ، personality، جو کچھ بھی حاصل ہے اسی سے لطف اٹھائیں۔اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ اللہ نے آپ کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔۔۔
مقابلہ بازی یا تقابل ہمیشہ زندگی کے لطف پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے مزے کو کرکرا کر دیتے ہیں۔

تقدیر سے کوئی مقابلہ نہیں، سب کی اپنی اپنی تقدیر ہوتی ہے، تو صرف اپنے مقدر پر فوکس کیجئے۔

دوڑیئے ضرور!  مگر اپنی اندرونی خوشی اور سکون کیلئے نہ کہ دوسروں کو اپنے سے چھوٹا ثابت کرنے کے لیے، نیچا دکھانے کے لیے یا پیچھے چھوڑنے کے لئے۔۔..

تین فطری قوانین



پہلا قانون فطرت  
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
 اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔

دوسرا قانون فطرت
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ 
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔

تیسرا قانون فطرت
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔
* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" ریاکاری" بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔
* مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے "دشمنی" بڑھتی ہے۔
* غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔
* اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" خطرات" میں اضافہ ہوتا ہے۔

اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور  لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔

نائی اور غربت دی چس



ایک گاوں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا.
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔
اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا....
*لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔*

جب میں نے یہ کہانی سنی تو پھر ایک خیال سا آیا۔

میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔
جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔
ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد۔۔۔۔!
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہو گے۔۔۔۔!
اج ای تے غربت دی چس آئی اے ۔۔۔۔

چھوٹی سی کوشش

میں ایک ضروری کام نمٹا کر گھر کی طرف جارہا تھا، جب اچانک کسی نے سامنے آکر پرجوش انداز میں پکارا،
"السلام علیکم سر!!"
میں نے سلام کا جواب دیا۔۔ یقینا وہ میرا کوئی پرانا طالبعلم ہوگا، لیکن میں پہچان نہیں پایا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اور مسرت بھرے انداز میں پوچھا۔
"مجھے پہچانا سر؟"
میں نے اب کے غور سے اسے دیکھا ، وہ چھ فٹ لمبا قد ، نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی اور قدرے فربہی کی طرف مائل جسم اور لباس کے لحاظ سے آسودہ حال ایک خوبصورت جوان تھا، عمر کوئی پینتیس سال کے لگ بھگ تھی۔
"معذرت چاہتا ہوں بیٹا ، لیکن میں واقعی نہیں پہچان پا رہا"
مں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"کوئی بات نہیں سر۔۔۔ اتنا لمبا عرصہ جو گزر چکا ہے"
ساتھ ہی اس نے جس کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اس کا نام بتاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔۔
"میں نوید اختر ہوں سر بیس سال پہلے تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے "
میرے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا، ساتھ ہی میں نے اسے گلے لگا لیا۔۔
"تم نوید اختر ہو۔۔۔۔؟، مجھے یقین نہیں آرہا کتنے بدل گئے ہو تم"
وہ انتہائی قابل اور میرے پسندیدہ طالبعلموں میں سے ایک تھا،
اس کے بعد اس سے چند ایک رسمی باتیں ہوئیں جس کے بعد اس نے مجھے قریب ہی موجود اپنے گھر میں چلنے کی دعوت دی۔۔۔۔ میں نے انکار کرنا چاہا لیکن اس کا خلوص دیکھ کر میں خود کو اس کے ساتھ چلنے سے نہیں روک پایا۔۔
پانچ منٹ بعد ہم ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں داخل ہونے کے بعد نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔
کچھ دیر بعد دیگر لوازمات کے ساتھ چائے بھی آگئی۔۔۔
چائے پیتے ہوئے باتوں کے دوران ہی مجھے باقی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلا کہ وہ آج کل ایک سرکاری محکمے میں بہت اچھی پوسٹ پر ہے اور یہ گھر اس نے پچھلے سال ہی خریدا تھا، سات سال پہلے اس کی شادی بھی ہوچکی تھی اور بچے بھی تھے، تاہم اس کی بیوی بچوں سمیت دو دن کے لیے میکے گئی ہوئی تھی۔۔
میں واقعی اس کی کامیاب اور پرسکون زندگی پر دل ہی دل میں بے حد مسرور تھا۔۔۔
باتوں کے دوران اچانک اس نے جذباتی انداز میں کہا۔۔
"میری زندگی میں شاید آج یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر وہ فرشتہ صفت انسان میری زندگی میں نہ آتا"
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔
"کیا مطلب۔۔ کون فرشتہ صفت انسان۔۔؟"

"میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں سر۔۔۔۔"
اب مجھے اس کی کہانی میں مزید دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔۔
اس نے بتانا شروع کیا۔۔
"سر آپ کو تو پتا ہی ہے کہ سیکنڈ ائیر کے دوران میرے ابو جی کی وفات کے بعد ہمارا گھریلو حالات کافی متاثر ہوگئے تھے۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ان کی پنشن سے جیسے تیسے کرکے گزر بسر تو ہوجاتی لیکن تھرڈ ائیر میں پہنچنے کے بعد اس مہنگے کالج کی فیس ادا کرنا ہمارے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔۔۔اور میں اسی کالج میں پڑھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا تھا کیونکہ اس کالج کا تعلیمی معیار بہت اچھا تھا۔۔۔۔ میں نے پارٹ ٹائم کام بھی شروع کیا لیکن مقررہ وقت تک فیس کی مطلوبہ رقم اکٹھی نہ ہو سکی۔۔ اور پھر وہ دن آگیا جب میری منت سماجت کے باوجود مجھے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا۔۔۔ ابو کی وفات کے بعد دوسری بار اس دن میں کمرے میں چھپ کر بہت رویا تھا۔۔۔ مجھے اپنے سارے خواب ٹوٹتے نظر آرہے تھے اور میں خود کو دنیا کا بد قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔۔۔
اور پھر پتا ہے سر کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
اگلے ہی دن مجھے کالج دوبارہ بلوایا گیا اور مجھے پتا چلا کہ میری فیس ادا ہو چکی ہے۔۔۔
میں نے پتا چلانے کی بہت کوشش کی کہ کس نے میری فیس ادا کی ہے لیکن ناکام رہا۔۔۔
تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے آپ پڑھاتے بھی بہت اچھا تھے اور پڑھائی کے علاوہ آپ کی بتائی گئی باتیں ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے پر اکساتی تھیں۔۔۔ شاید آپ کو پتا نہیں لیکن آپ میرے ہیرو تھے اور صرف میرے ہی نہیں پتا نہیں کتنے طلبا کے آپ ہیرو تھے۔۔آپ کی وجہ سے بہت سی زندگیاں بدلی ہیں۔۔۔آپ کی باتیں ہمیشہ ہمارے اندر نئی روح پھونک دیتی تھیں۔۔ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی تھیں"
نوید اختر ایک عقیدت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
اور میں دل ہی دل میں اس پروردگار کے سامنے عاجزی سے جھکا ہوا تھا جس نے مجھے یہ توفیق بخشی تھی۔۔
نوید اختر نے بات جاری رکھی۔۔۔
"تھرڈ ائیر کے آخر میں آپ کی گورنمنٹ کالج میں لیکچرار کی جاب ہوگئی اور آپ ہمارے کالج سے چلے گئے لیکن آپ کی باتیں ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔۔۔۔دوسری طرف ہر سمسٹر میں میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرجاتا۔۔۔ اور مجھے خبر تک نہ ہوتی۔۔۔ میں اور میری والدہ دل سے اس عظیم انسان کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتے تھے۔۔۔ فورتھ ائیر میں بھی میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرتا رہا۔۔۔
بیچلرز کے بعد مجھے ایک مناسب جاب مل گئی لیکن میں نے پڑھائی کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔۔۔ اور اللہ کے کرم سے آج میرے پاس سب کچھ ہے۔۔۔لیکن میں اس عظیم انسان کو آج تک نہیں بھولا۔۔۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں اس اللہ کے بندے سے ملوں جس نے میری اس وقت مدد کی جب میرے نزدیک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔۔۔اور اگر وہ میری مدد نہ کرتا تو شاید آج میرے پاس یہ سب کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔ کاش مجھے پتا چل سکتا کہ وہ کون ہے۔۔۔ "
اس انسان کا ذکر کرتے ہوئے نوید اختر کافی جذباتی ہوچکا تھا۔۔۔
"بس بیٹا کچھ لوگوں کو اللہ وسیلہ بنا دیتا ہے اپنے بندوں کی مدد کا"
میں نے کہا۔۔۔
وہ چند لمحے میری آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر اس نے نظریں جھکا لیں۔۔۔
"اچھا بیٹا کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔ میں اب چلتا ہوں۔۔۔ اور واقعی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔ اللہ آپ کو دنیا اور آخرت کی ڈھیر ساری کامیابیاں اور اپنی رضا نصیب فرمائے "
میں یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔ میرے اٹھتے ہی وہ بھی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
میں نے ڈرائنگ روم کے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔ ابھی میں دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے اس کی بھرائی ہوئی آوازمیرے کانوں میں پڑی۔۔۔
"سر۔۔۔۔!"
میں چونک کر پیچھے مڑا۔۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اچانک وہ تیزی سے آگے بڑھا اور مجھ سے لپٹ کرپھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔
"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا کہ میری فیس آپ ہی ادا کرتے رہے ہیں۔۔۔"
میں ہکا بکا رہ گیا۔۔۔
وہ اب ہچکیاں لے کر رو رہا تھا۔۔۔۔اس نے اپنے بازووں کی گرفت مزید مضبوط کرکے روتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں نے پرنسپل سے بھی بہت ہوچھا تھالیکن انھوں نے نہیں بتایا۔۔۔لیکن کل میں ان کے پاس دوبارہ گیا تھا۔۔ اور ان سے ہوچھ کر ہی دم لیاکہ وہ کون تھا جس نے میری زندگی میں روشنی بھری ہے۔۔۔۔۔
آپ نے اچھا نہیں کیا سر۔۔۔ آپ کومجھے بتانا چاہیے تھا۔۔۔ آپ ویسے بھی میری نظر میں ہیرو تھے۔۔۔لیکن اب آپ کا مقام میری نظر میں اتنا بلند ہوچکا ہےکہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے"
وہ چھ فٹ لمبا جوان بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔
اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوتے ہی میں چونکا۔۔۔ نجانے کس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے تھے۔۔۔
ایک چھوٹی سی کوشش نے کسی کی زندگی کو اتنا بدل دیا تھا کہ میرا ہر ہر انگ اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے کو تڑپ رہا تھا.

سچی توبہ

قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،
سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا، ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،
مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،
ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا، انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،
سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟ اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تب نہیں، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا
توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔

نسبت سے فرق تو پڑتا ہے

 گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟ 
وہ بھی  گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔
 اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے
وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو…
 ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
 اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﻟﯿﮟ
 ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﻮ
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ..
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ..
ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ....
ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍیک ....
ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ...
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ...
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ....
ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ
ﮨﻮﺋﯽ.....
ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﻨﮕﺎ ﭘﺎﻭﮞ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠّﻪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ٹیکتے ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺳﮧ  ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺩوﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺗﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺍ!...
ﻗﯿﻤﺖ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ.....
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﻨﭧ ﺍﯾﮏ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻟﮕﺎئی ﺑﮭﯽ...
ﻓﺮﻕ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ
ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺗﮭﯽ
ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺴﺒﺖ اللہ والوں ﺳﮯ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔

Sunday, September 20, 2020

خونی رشتے


کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے
کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے
مگر ایک شرط پر ،، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،
اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ،
اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،،
اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،، گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے
اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا یہاں تک کہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ،
کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ،
یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں.....

اوور کوٹ

''یہ سبق مجھے میرے والد نے دیا تھا۔ میں دن رات ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صدق دل سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں''۔

وہ رکا، رومال سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور بولا ''میرے والد کو سردی کا مرض لاحق تھا۔ وہ گھر میں بھی اوور کوٹ پہن کر پھرتے تھے۔ میرے والد جون جولائی میں بھی دھوپ میں بیٹھتے تھے۔ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی تھی لیکن ان کی سردی کم نہیں ہوتی تھی۔ وہ گرمیوں میں بھی لحاف لے کر سوتے تھے۔ پاؤں میں ڈبل جرابیں پہنتے تھے اور صبح شام ہیٹر کے قریب بیٹھتے تھے۔ سردیاں ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی تھیں۔ وہ اکتوبر میں کپکپانا شروع کر دیتے تھے۔
ہم انھیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی شفٹ کر دیتے تھے، وہ چھ ماہ دبئی میں رہتے تھے اور چھ ماہ لاہور میں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک بیماری کے باوجود ان پر بڑا کرم کیا تھا۔ وہ ارب پتی تھے، وہ حقیقتاً مٹی کو ہاتھ لگاتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ وہ دنیا کے مشہور ترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے، لیکن اس خوفناک مرض نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ آخری عمر میں سنکی ہو گئے تھے۔ وہ روز مجھے اپنے پاس بٹھاتے، 
میری ٹھوڑی پکڑتے اور نمناک آواز میں کہتے تھے عبدالمالک مجھے موت سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں جب سوچتا ہوں، میں زمین سے چھ فٹ نیچے پڑا ہوں گا، اندر اندھیرا اور سردی ہو گی اور میرے بدن پر صرف دو چادریں ہوں گی تو میری روح تک کانپ جاتی ہے۔ عبدالمالک کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟ میں ہر روز جواب دیتا؛ ابا جی آپ حکم کریں، میں جی لڑا دوں گا۔ میرے والد بڑی لجاجت سے فرماتے؛ بیٹا تم کسی سے فتویٰ لے کر مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا۔ یہ ممکن نہ ہوا تو تم کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست ضرور کر دینا۔ میں فوراً حامی بھر لیتا تھا۔
میرا خیال تھا میں کسی نہ کسی عالم سے فتویٰ لے کر اباجی کو اوور کوٹ میں دفن کر دوں گا۔ میں ان کی قبر بھی گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا۔ ہم لوگ امیر تھے۔ میں اکثر سوچتا تھا اگر کوئی عالم تیار نہ ہوا تو میں فتویٰ خرید لوں گا۔ مجھے جتنی بھی رقم خرچ کرنا پڑی کر دوں گا لیکن میں اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔''

وہ رکا، ٹھنڈی آہ بھری اور بولا؛ ''لیکن میں فیل ہو گیا۔ میرے والد ٢٠٠٠ء میں فوت ہو گئے۔ ہم نے انھیں گرم پانی سے غسل دیا، انھیں اوور کوٹ پہنایا اور اس اوور کوٹ پر کفن لپیٹ دیا۔
مولوی صاحب نے جب اوورٹ کوٹ دیکھا تو جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے انھیں ہر قسم کا لالچ دیا، میں نے ان کی منت بھی کی لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے تنگ آ کر انھیں دھمکی دے دی، وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم نے اس کے بعد بے شمار مولویوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی نہ مانا، یہاں تک کہ میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں جب والد کی میت کے پیچھے کھڑا ہوا تو لوگوں نے جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان کی بھی منتیں کیں لیکن وہ بھی نہ مانے۔

والد کی قبر کا ایشو بھی بن گیا۔ میں قبر میں ''انسولیشن'' کرنا چاہتا تھا لیکن لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا۔ پورے شہر کا کہنا تھا قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ فرعونوں کے علاوہ آج تک کسی شخص کی قبر اندر سے پکی نہیں ہوئی، یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میں مصیبت میں پھنس گیا یہاں تک کہ میرے پاس لوگوں کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہ بچا۔ مجھے والد کا اوورکوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی توڑنی پڑی۔ میں نے بڑے دکھی دل کے ساتھ اپنے والد کو دفن کیا اور قبر پر دیر تک روتا رہا۔ میں جب بھی سوچتا تھا میں اپنے والد کی معمولی سی خواہش پوری نہیں کر سکا تو میری ہچکی بندھ جاتی تھی۔ میں اس کے بعد جب بھی والد کی قبر پر جاتا تھا۔ میں شرمندگی سے سر جھکاتا تھا اور ان سے معافی مانگتا تھا۔ یہ سلسلہ مہینہ بھر جاری رہا۔

میں ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا، میرے والد میرے خواب میں آ گئے۔ وہ سفید کفن میں ملبوس تھے۔ انھیں شدید سردی لگ رہی تھی، وہ کپکپا رہے تھے اور مجھے بلا رہے تھے۔ عبدالمالک! عبدالمالک! اٹھو اور میری بات سنو! میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا، وہ بولے؛ میرے بیٹے میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوئی۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی میں غور سے سن رہا ہوں، آپ فرمائیے۔
وہ بولے؛ بیٹا میں ارب پتی تھا، میں چیک پر خود دستخط نہیں کرتا تھا، میرے منیجر کرتے تھے۔ میں زمین جائیداد کا مالک بھی تھا اور میں تم جیسے سعادت مند بیٹوں کا باپ بھی تھا لیکن تم اور میری ساری دولت مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے۔ میں گرم کپڑوں اور گرم قبر میں دفن نہ ہو سکا۔
میں نے اس سے اندازہ لگایا انسان کی ساری دولت اور ساری آل اولاد مل کر بھی موت کے بعد اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ یہ قبر میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ یہ سب اگر مجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہیں پہنا سکے تھے تو یہ اس سے آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ چنانچہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی آپ کا ساتھ دے اور اولاد وہ ہے جو زندگی کے بعد بھی اولاد رہے۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی آپ کی بات یقیناً ٹھیک ہو گی لیکن میں یہ سمجھ نہیں سکا۔ وہ مسکرائے اور فرمایا دولت اور اولاد کو صالح بناؤ۔ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آتی رہے گی، ورنہ دوسری صورت میں یہ تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہے گی۔ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولے؛ بیٹا میں نے پوری زندگی دولت کمائی، میں اس کا ٩٩ فیصد حصہ دنیا میں چھوڑ گیا۔
یہ ٩٩ فیصد حصہ میرے بعد نااہل ثابت ہوا جب کہ میں نے اس کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لئے اسکول بنایا تھا۔ دولت کا وہ ایک فیصدحصہ میرے لئے صالح ثابت ہوا، وہ آج بھی میرے کام آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیئے تھے۔ میں نے ان تمام بچوں کو پریکٹیکل بنا دیا۔ یہ بچے دنیا دار ہیں، یہ زندگی میں مجھ سے زیادہ کامیاب ہیں۔
یہ دھڑا دھڑ پیسہ کما رہے ہیں لیکن مجھے آج ان میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہاں البتہ میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلائی تھی۔ وہ بچی ڈاکٹر بن گئی، وہ ڈاکٹر ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ مجھے ان دو دنوں کا بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ بچی اور اس کے دو دن میرے لئے صالح ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی دولت کا ایک فیصد اپنے اوپر خرچ کرو اور ٩٩ فیصد کو صالح بنا دو۔ تم مرنے کے بعد بھی خوشحال رہو گے اور تم اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ ویلفیئر پر لگا دو۔ یہ صالح ہو جائے گی اور یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک نفع پہنچاتی رہے گی۔
میرے والد اٹھے، میرا ماتھا چوما اور چلے گئے۔ میرا خواب ٹوٹ گیا۔ میں جاگ کر بیٹھ گیا''

وہ رکا، لمبا سانس لیا، ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور ہنس کر بولا؛ ''بس میرے والد نے مجھے زندگی کی ڈائریکشن دے دی۔ میں نے اولاد اور دولت کو صالح بنانا شروع کر دیا۔ میں نے اپنی دولت جمع کی، دس فیصد حصہ الگ کیا، یہ دس فیصد پراپرٹی میں لگایا۔ ایسے اثاثے بنائے جن کے کرایوں سے ہم اچھی اور پرآسائش زندگی گزار سکتے ہیں اور باقی دولت میں نے اللہ کے نام وقف کر دی۔
میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنوئیں کھدوائے اور اسکول اور ڈسپنسریاں بنانا شروع کر دیں۔ میں نے دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور موذی امراض کے شکار لوگوں کی بہبود کے لئے بھی وقف کر دیا۔ یوں میری دولت صالح ہوتی چلی گئی، میں اب اپنے بچوں کو بھی ویلفیئر کے کام پر لگا کر صالح بناتا جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ بھی ایک نہ ایک دن میری قبر کے لئے ٹھنڈک بن جائیں گے۔

وہ خاموش ہو گیا، میں نے عرض کیا؛ ''آپ بچوں کو کیسے صالح بنا رہے ہیں؟ '' وہ مسکرایا اور بولا؛ ''میں بچوں کو ٹریننگ دے رہا ہوں۔ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے، ہم جب تک اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے ہم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے۔ آپ انجینئر ہیں تو آپ اپنی انجینئرنگ کا ایک حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وقف کریں اور دوسرا حصہ صدقہ کر دیں۔ لوگوں کو اپنے علم اور اپنے فن کے فوائد میں شامل کر لیں آپ صالح ہو جائیں گے۔
آپ اسی طرح اگر ڈاکٹر ہیں تو آپ لوگوں کا مفت علاج کریں، یہ مفت علاج آپ کی طرف سے صدقہ ہو گا اور یہ صدقہ آپ کو صالح بنا دے گا اور آپ اگر تاجر ہیں تو آپ اپنی تجارت کو منافع خوری، ملاوٹ اور بددیانتی سے پاک کرتے جائیں۔ آپ صالح تاجر ہو جائیں گے اور اس کا آپ اور آپ کے والدین کو فائدہ ہو گا۔''


وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا؛ ''آپ کو اب تک اس پریکٹس کا کیا فائدہ ہوا؟ '' وہ مسکرایا اور بولا؛ ''میں زندگی اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں۔ وہ اکثر اوور کوٹ پہن کر میرے خواب میں آتے ہیں، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور اونچی آواز میں کہتے ہیں ''شاباش عبدالمالک'' اور میں نہال ہو جاتا ہوں۔ میں خوش ہو جاتا ہوں''۔