Sunday, November 8, 2020

دستبرداری

میں نے زندگی میں کئی سبق سیکھے مگر جس سبق نے میری زندگی بدل دی وہ ہے *"دستبرداری"*
دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جاؤ سکون پا لو گے.. یہ بات تو طے ہے کہ ہم میں بھی یہ چیز اس سطح پر موجود نہیں ہے لیکن جب جب ہم کسی چیز سے دستبردار ہوتے ہیں  سکون مل جاتا,
ہم ہر چیز کو اپنا سمجھ کر اس پر حق ملکیت جتانے لگتے ہیں بس یہیں سے بے سکونی کی ابتداء ہوتی ہے,
 ہم تو خود بھی اپنے نہیں, پھر کوئی چیز ہماری ملکیت کیسے ہو سکتی ہے!!
 ہماری تخلیق کا اصل مقصد بس اخلاص اور خلوص کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی ہے...

کتنی گرہیں اب باقی ہیں

قاسم بائیک پہ گھر جا رہا تھا 
وہ کسی  وجہ سے آج لیٹ ہو گیا تھا 
راستے میں دیکھا ایک بہت خوبصورت لڑکی کھڑی تھی 
قاسم پہلے اس کے پاس سے گزر گیا 
پھر بائیک روک کر واپس آیا 
ہائے . آپ اس وقت اندھیری رات میں خیریت ہے نا 
وہ لڑکی مسکرا کر بولی ہاں جناب خیریت ہے 
قاسم کے قریب ہوئی مسکرانے لگی 
موڈ ہے کیا۔ قاسم کے چہرے کو ہاتھ لگا کر پوچھ رہی تھی 
قاسم حیران ہوا وہ اتنی خوبصورت کے اس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے اور وہ ایسے کام کر رہی ہے  
قاسم مسکرانے لگا میڈم کیا مذاق  ہے
وہ لڑکی تھوڑا اور قریب ہوئی کیوں مسٹر کیا غلط کر رہی ہوں میں آ جاو 1000 روپے دے دینا 
قاسم حیران تھا یار اتنی خوبصورت لڑکی یہ کام آخر کیوں کر رہی ہے 
تھوڑے فاصلے پہ اور بھی لڑکیاں موجود تھیں
لیکن وہ اتنی خوبصورت نہیں تھی
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔اچھا سنو 1000 روپے لیکر کتنا ٹائم گزارو گی میرے ساتھ 
وہ لڑکی قاسم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی 
صرف دو گھنٹے قاسم نے حامی بھر لی ٹھیک ہے بیٹھو پیچھے 
میں دوں گا تم کو ہزار روپے  
وہ اس لڑکی کو ساتھ لیکر چلا گیا 
اچھا بتاو کیا کرتی ہو تم وہ لڑکی قاسم کہ طرف دیکھتے ہوئے بولی میں کچھ نہیں کرتی بس تم اپنا کام کرو اور مجھے واپس وہاں پہ چھوڑ کر آو 
قاسم اسے ایک ہوٹل میں لے گیا کمرہ بک کیا 
بیڈ پہ بیٹھ گیا جا کر 
اچھا اتنا بتاو نام کیا ہے تمہارا 
اس نے حیرت سے قاسم کی طرف دیکھا 
ارے تم اپنا کام کرو اور جاو نام پوچھ کر کیا کرو گے
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا  اچھا صرف نام بتانے کا 1000 روپے زیادہ دوں گا 
بتاو کیا نام ہے وہ لڑکی چڑا کر بولی میرا نام کشف ہے 
وہ جلدی سے اپنے کپڑے اتارنے لگی 
قاسم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کپڑے نہ اتارو کشف 
کوئی ضرورت نہیں ہے کپڑے اتارنے کی 
میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرنے والا 
کشف حیران تھی مجھے یہاں لیکر آگیا لیکن یہ کیا بات کیسا مرد ہے 
کشف خاموشی سے بیٹھ گئی ٹھیک ہے دو گھنٹے کے لیئے میں تمہاری ہوں جو کرنا ہے کر لو 
ایک گھنٹہ باقی ہے 
قاسم نے گھڑی کی طرف دیکھا پھر سے پوچھا کیا ہر روز آتی ہو یہاں 
کشف نے ہاں میں سر ہلایا جی ہاں ہر روز آتی ہوں 
قاسم نے نمبر مانگا لیکن کشف نے نمبر دینے سے انکار کر دیا 
میں نمبر نہیں دوں گی 
ہر روز میں یہی پہ ہوتی ہوں 
دو گھنٹے گزر گئے قاسم نے اسے واپس اسی جگہ پہ چھوڑ دیا اس کے ہاتھ میں دو ہزار رکھے اور چلا گیا 
کشف ہر روز وہاں  آتی جسم بیچتی پیسے کماتی 
قاسم گھر آیا بہت پریشان تھا یار ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے وہ لڑکی جسم بیچتی ہے اتنی خوبصورت ہے 
پڑھی لکھی لگتی ہے پھر کیوں ایسا کرتی ہے میری سمجھ سے باہر ہے 
قاسم دوسری رات پھر وہاں گیا 
کشف کچھ لوگوں کے ساتھ بات کر رہی تھی 
قاسم انتظار کرتا رہا 
کشف نے دیکھ لیا تھا قاسم کو وہ لوگوں سے فری ہو کر قاسم کے پاس آئی 
آگئے مسٹر قاسم نے سلام کیا جی ہاں آ گیا 
کیسی ہو کشف 
کشف بائیک کے پیچھے بیٹھ گئی چلو ہوٹل لے چلو 
قاسم مسکرانے لگا تم کو کیسے پتا میں ہوٹل لے کر جاوں گا 
کشف نے قاسم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اتنا تو سمجھتی ہی ہوں جناب 
وہ ہوٹل چلے گئے 
قاسم نے ضد کی بتاو کیوں کرتی ہو ایسا 
اپنی فیملی کے بارے میں بتاو 
کشف خاموش رہی نہیں سر میں اپنے بارے کچھ نہیں بتاوں گی 
لیکن قاسم کی ضد پہ کشف نے صرف اتنا بتایا اس کی طلاق ہو چکی ہے بس 
اس کے علاوہ کشف نے کچھ نہ بتایا 
قاسم ہر روز کشف کو ملنے آتا کشف کے ساتھ ٹائم گزارتا 
ایک رات کشف اداس کھڑی تھی 
قاسم پاس آیا 
کشف اداس سی تھی 
کیا ہوا کشف خیریت ہے نا 
کشف دھیمے سے لہجے میں بولی ہاں خیریت ہے 
یہ کہہ کر آنسو اس کی پلکوں کو نم کر گئے 
کشف کو بازو سے پکڑا فٹ پاتھ پہ بیٹھ گئے دونوں 
کیا ہوا کشف آج سے پہلے تم کو  اتنا اداس نہیں دیکھا میں نے 
کشف روتے ہوئے بولی آج میری ماں مر گئی ہے 
قاسم حیران ہو کر بولا تو تم یہاں کیا کر رہی ہو گھر جاو 
کشف آنسو پوچھتے ہوئے بولی نہیں جا سکتی گھر میرا کوئی گھر ہی نہیں ہے میں کہاں جاوں  
قاسم حیران تھا یہ خود کیسی پاگلوں والی باتیں کرتی ہے 
قاسم نے پوچھا کہاں رہتی ہو کشف نے بتایا یہ پاس ہی ایک کرائے کے گھر میں رہتی ہوں 
میری کچھ دوست بھی رہتی ہیں ساتھ 
قاسم کشف کو گھر تک چھوڑ آیا 
اس کو سکون نہیں  آ رہا تھا آخر کشف کے ساتھ ایسا کیا ہوا کے وہ ایسی بن گئی ہے 
اس نے سوچ لیا آج چاہے کچھ بھی ہو جائے کشف سے سچ پوچھ کر رہوں گا 
قاسم رات کو کشف کے پاس آیا ہوٹل میں لے گیا 
کشف بتاو مجھے آج اصل حقیقت کیا ہے 
کشف اسکی طرف حسرت سے دیکھنے لگی ارے قاسم رہنے دو نا کیوں درد دیتے ہو مجھے 
قاسم نے ضد کی نہیں کشف آج بتاوگی مجھے تم 
کشف نے گہری سانس لی 
آنکھوں سے آنسو نکلے وہ اپنے ماضی میں گم ہو گئی 
بابا کی لاڈلی سی شہزادی تھی میں 
سب بہت پیار کرتے تھے مجھ سے میرے 4 بھائی تھے 
مجھے پیار سے سب شہزادی کہتے تھے
میرے سب نخرے اٹھاتے تھے بابا تو میری ہر بات مان لیتے تھے اکثر امی بابا سے کہا کرتی تھی آپ شہزادی کو کچھ زیادہ ہی پیار کرتے ہیں 
بھائیوں کی جان بستی تھی مجھ میں  
جیسے مجھے گلابوں کے بستر پہ سلایا کرتے تھے 
میں سب سے چھوٹی تھی 
مجھے بہت پیار ملا میں نے میٹرک کے امتحان دیئے تو بابا سے کہا مجھے میڈیکل میں داخلہ لے کر دیں 
میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں 
بابا راضی ہو گئے مجھے اچھے کالج میں داخلہ لے کر دیا 
میں بہت خوش تھی 
پھر کلب کے دن تھے مجھے ایک لڑکے سے پیار ہوا 
وہ کب میری زندگی بن گیا محسوس نہ ہوا 
ہم چوری ایک دوسرے کو ملنے لگے 
اور پھر ایک دن ہم۔نے سب سے چھپ کر کورٹ میرج کر لی کسی کو کچھ نہ بتایا 
ہم۔چوری ملتے رہے میں کالج جاتی رہی 
لیکن ان دنوں میں حاملہ ہو گئی میں اپنا بچہ نہیں گرانا چاہتی تھی 
لیکن وہ ضد کرتا رہا بچہ نہیں چاہیے 
میں نے اسے کہا سب کو بتاو کے تم میرے شوہر ہو اور مجھے اپنے گھر لیکر جاو 
میں کبھی اس کے گھر نہیں گئی تھی بس اعتبار تھا اس کی باتوں پہ 
پھر ایک دن میں اسے کال ملاتی رہی اس کا نمبر بند آ رہا تھا 
میں 3 دن مسلسل فون کرتی رہی میں روتی  رہی ۔لیکن اس کا نمبر بند رہا
میں بے بس ہو گئی تھی میرے پیٹ میں بچہ تھا باپ بھائیوں کا ایک مان  تھا مجھ پہ 
میں نے سب کچھ ماں کو بتا دیا 
ماں کو یقین نہ ہو رہا تھا ماں بابا کو کیسے بتاتی کچھ 
ماں چھپ کر بہت رونے لگی 
ماں نے میری طرف دیکھا کہنے لگی میں زہر لا کر دیتی ہو کھا لو یہ راز یہی دفن ہو جائے گا ۔تیرا باپ یہ جانے گا تو مر جائے گا جو تم نے کیا ہےہے لیکن ماں آخر ماں تھی 
وہ مجھے زہر بھی تو نہیں دے سکتی تھی 
میری غلطی نے میری ماں کو پاگل کر دیا ڈاکٹر کے پاس لے گئی ماں مجھے ڈاکٹر نے بتایا 6 ماہ کا حمل ہے مشکل ہے 
بابا کو بتانا ضروری ہو گیا تھا 
مجھے اچھے سے یاد ہے بابا اس دن میرے لیئے نیا برقع لیکر آ ئے تھے
میرے ہاتھ میں برقع دے کر کہنے لگے بیٹی یہ پہن کر کالج جایا کرو 
لیکن کیا پتا تھا بابا کو ان کی بیٹی نے کیا گناہ کر دیا 
وہ بدذات مجھ سے کھیل کر چلا گیا 
ماں نے بابا کو سب کچھ بتا دیا 
مجھے یاد ہے بابا دیوار کے ساتھ سر مار مار کر اہنا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے 
میرا بچہ گرا دیا گیا 
میں گھر آئی بھائی کچھ نہیں جانتے تھے وہ مجھ سے خوشی خوشی بات کیا کرتے تھے 
لیکن بابا مجھ سے بات نہ کرتے 
ماں مجھے گھر کا کوئی کام نہ کرنے  دیتی 
میں جان چکی تھی ماں بابا ناراض ہیں مجھ سے 
میں نے ایک رات دیکھا تھا بابا میری بچن کی تصویریں نکال کر دیکھ رہے تھے چوم کر رو رہے تھے 
میں مر گئی تھی اس دن 
ماں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا 
نہ جانے بھابھی کو کیسے پتہ چلا اس بات کا بھابھی نے بھائی کو بتایا سب بھائیوں کو بھی پتہ چل گیا 
ایک بھائی نے مجھے گولی مارنے کی کوشش کی لیکن ماں نے بچا لیا مجھے 
پھر بابا نے ایک جگہ میرا رشتہ کر دیا 
وہ لڑکا شرابی تھا 
پہلی رات اس نے شراب پہ کر میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا 
میں بےبس ہو گئی تھی کہاں جاتی 
بابا نے کہا تھا مر جانا اب ہمارے پاس واپس نہ آنا 
وہ میرا شوہر مجھے بہت مارتا 
میں کیا کرتی کہاں جاتی ایک دن میں بے بس ہو کر بابا کے پاس چلی گئی میری چہرے پہ زخموں کے نشان تھے 
میں نے روتے ہوئے کہا بابا اپنے ہاتھوں سے مار دیں مجھے لیکن اس ظالم انسان سے بچا لیں 
بابا منہ موڑ کر چلے گئے ماں نے مجھے گالیاں دی تم گھر بسا ہی نہیں سکتی 
میری منتیں کرنے کے بعد اس ظالم سے طلاق لے لی 
بھائی کوئی بھی بات نہیں کرتے تھے 
ماں بھی بات نہیں کرتی تھی بھابھی اپنے بچوں کو مجھ سے دور رکھتی 
ایک بار میں نے اپنی بھتیجی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا 
بھابھی نے مجھے بہت گالیاں دی 
اپنی بیٹی کو نہہلاتے ہوئے کلمہ پڑھنے لگی پاک کرنے لگی اپنی بیٹی کو 
میں اتنی بری ہو چکی تھی 
مجھ سے سب نے منہ موڑ لیا نہ بابا ماں بھائی سب کے لیئے میں بری تھی 
میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی 
اللہ تو معاف کر دیتا لیکن لوگ معاف نہیں کرتے 
گھر میں کچھ بھی نقصان ہو جاتا سب مجھے منحوس کہتے 
مجھے برا بھلا کہتے 
اور پھر ایک دن میں بابا کے پیر پکڑ لیئے بہت روئی تھی میں اس دن بابا کی ٹانگوں سے لپٹ کر 
بابا مجھ سے گناہ ہو گیا تھا مجھے بابا معاف کر 
میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی 
بابا کرسی پہ بیٹھ گئے انھوں نے مرے سر پہ ہاتھ رکھا 
کچھ کہنا چاہتے تھے کے وہ بھی چھوڑ گئے دل کا دورہ پڑا اور مجھے روتا ہوا چھوڑ گئے 
اس دن ماں نے مجھے منحوس بد بخت کہا 
میں بہت روئی تھی بابا کی موت کے بعد بھائیوں نے مجھے گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا 
مجھے بات بات پہ طعنے دیتے بھابھی لوگوں نے مجھے بدکرادار کہا میں اپنے سب رشتہ داروں میں بدنام ہو گئی 
کوئی مہمان گھر آتا سب سے ملتا لیکن مجھ سے کوئی نہ ملتا 
پھر مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا مجھے اس کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی 
ماں بھی طعنے دیتی 
اور ایک دن پھر فضل کا کافی نقصان ہوا بھائی سمجھنے لگے میری منحوسی کی وجہ ہے مجھے کہنے لگے تم دارایمان  چلی جاو میں سب سے ہوتے ہوئے لاوارث  تھی 
ماں شاید مجبور تھی بیٹوں کے ہاتھوں یا سچ میں نفرت کرتی تھی مجھ سے 
مجھے بھائی دارالامان چھوڑ گئے 
لیکن یہاں بھی کچھ گندی نگاہ والے تھے میں جوان خوبصورت مجھے یہاں بھی ہراساں کیئے جانے لگا 
بس حالات سے لڑتے لڑتے میں پھر اس گندگی میں آ گئی 
ہاں ماں سے بات کرتی تھی میں فون پہ 
ماں چوری بات کرتی تھی بھائیوں سے 
بہت روتی تھی ماں میرے لیئے 
لیکن شاید بے بس تھی رشتہ داروں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی ماں بیمار تھی مجھے آخری بار فون کر کے کہہ رہی تھی شاید کبھی اب بات نہ کر سکوں میں تم سے اپنا خیال رکھنا میری بچی 
اور کل فون کیا تو بھائی نے فون اٹھایا میں خاموش رہی لیکن پیچھے رونے کی آواز آ رہی تھی میں سمجھ گئی تھی میری ماں اب نہیں رہی 
کشف رو رہی تھی قاسم پاس بیٹھا تھا فجر کی اذان ہونے لگی 
کشف نے آنسو پونچھے قاسم مجھے میرے گھر چھوڑ او 
قاسم کی آنکھیں نم تھیں کشف کے قریب ہوا 
آنسو صاف کیئے کشف آو میرے ساتھ کشف کو اپنے گھر لے گیا 
قاسم کی ماں نماز پڑھ کر بیٹھی تھی قاسم کے بابا نہیں تھے 3 چھوٹی بہنیں  تھی قاسم گھر میں داخل ہوا صبح صبح کر وقت تھا  چڑیوں کی چووں چوں کی آوازیں آ رہی تھیں باغ میں کوئل کی پیاری سی آواز سنائی دے رہی تھی 
بڑی بہن نے قاسم کے ساتھ کشف کو دیکھا 
دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اماں بھائی پتا نہیں کس لڑکی کو گھر لے کر آئے ہیں 
لڑکی ویسے بہت خوبصورت ہے 
ماں نے قرآن پاک چوم  کر بند کیا ۔اللہ خیر کرے 
قاسم نے ماں کو سلام کیا ماں نے قاسم کا ماتھا چوما ۔آ جا میرے بچے بیٹھ جا کشف کے سر پہ ہاتھ پھیرا  
آ میری بیٹی بیٹھ جا یہاں میرے پاس 
ماں نے کوئی سوال نہ کیا کیوں کے وہ جانتی تھی اس کا بیٹا قاسم کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا 
ماں نے بیٹی کو جلدی سے کہا ناشتہ بناو ہم کو ناشتہ دو 
کشف کو پاس بٹھایا سر پہ ہاتھ رکھا ماشاللہ کتنی پیاری بیٹی ہے 
نظر نہ لگے آنکھیں کیوں سرخ ہیں روئی ہو کیا 
کشف اداسی چھپا کر مسکرانے لگی 
نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں 
ناشتہ کیا پھر قاسم نے ماں کو سب کچھ بتایا کشف کے بارے 
ماں کے پاس بیٹھ کر بولا ماں اجازت دو تو میں نکاح کر لوں کشف سے 
ماں پہلے خاموش رہی پھر اپنی بیٹیوں کی طرف اس کی جگہ میری بیٹی بھی ہو سکتی ہے 
قاسم کو سینے سے لگایا ہاں بیٹا 
سادگی سے نکاح کروا دیتی ہوں تم۔دونوں کا 
قاسم اور کشف کا نکاح ہو گیا 
کشف بہت خوش تھی اتنے دکھ کے بعد سکون ملا تھا 
قاسم بہت اچھا تھا کشف کا جسم سگریٹ سے جگہ جگہ سے جلا ہوا تھا نشان نظر آتے تھے 
کشف 5 وقت نماز ادا کرتی قرآن پاک کی تلاوت کرتی 
ایک دن پرانی تصویریں دیکھ رہے تھے 
کے اچانک کشف کی نظر ایک تصویر پر پڑھی 
کشف نے وہ تصویر ہاتھ میں اٹھا کر قاسم سے پوچھا یہ کس کی تصویر ہے 
قاسم کی ماں بھی پاس بیٹھی تھی 
ماں روتے ہوئے بولی میرا جنتی بیٹا ہے جو آج سے 3 سال پہلے ایک ایکسیڈینٹ میں فوت ہو گیا تھا 
کشف کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں وہ لڑکا کوئی اور نہیں قاسم کا بھائی اور کشف کا پہلا پیار جس سے چوری نکاح کیا تھا وہی لڑکا تھا 
کشف خاموش رہی کسی سے کچھ نہ کہا آسمان کی طرف دیکھنے لگی یا اللہ تیرے راز ہیں سب 
کشف کے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی قاسم ہی بہن سے ہوئی تھی 
وہ جن رشتوں سے بھاگ رہے تھے وہ گھوم  پھر کر ایک بار پھر سامنے آ گئے تھے 
نہ چاہتے ہوئے ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا 
لیکن ان سب میں قاسم بے حد پیار کرتا تھا کشف سے 
اللہ نے ان کی خوبصورت سی بیٹی عطا کی 
کشف کی زندگی جنت بنا دی تھی قاسم نے 
ایک انسان ایک غلطی ایک بھول کتنا کچھ بدل جاتا ہے صرف ایک غلط قدم سے 
کشف اور قاسم حج کر رہے تھے کشف رو رہی تھی 
یا اللہ تیرا شکر ہے مجھے واپس زندگی دینے کے لیئے۔۔ 

مکان براۓ فروخت

بڑھاپے میں والدین کو آپکی ضرورت ہوتی ھے۔

پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"

اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی
وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی اجازت دینے لگے میں نے ان سے کہا ہماری آج پہلی ملاقات ہے اور ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور آپ نے اتنا تکلف کیوں کیا ؟
بابا جی نے دھیمے سے لہجے میں کہا بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے کچھ دیر بعد چاۓ وغیرہ پی کر میں نے بابا جی سے پوچھا آپ مکان کی بات کریں یہ مکان آپ کتنے میں دیں گے ؟ تو بابا جی نے کہا مکان کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے میں حیران ہو کر بولا بابا جی آپ کا مکان تو تیس لاکھ روپے کا بھی نہیں اور آپ پچاس لاکھ مانگ رہے ہیں؟ حیرت کی بات ہے آپ نے ہمیں چاۓ پلا کرہم پر احسان کیا ہے اور مکان کی قیمت بھی بہت زیادہ مانگی ہے لہٰذا ہمارا سودا نہیں ہو سکتا تو بابا جی نے کہا کوئی بات نہیں یہ کھانا پیناکچھ نہیں انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے ۔ خیر ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے ۔
تین مہینے بعد میں نے اخبار میں پھر سے اسی مکان کی فروخت کا اشتہار پڑھا اور تعجب ہوا کہ ابھی تک بابا جی کا مکان نہیں بکا دوبارہ رابطہ کرنے کے لئیے ایک دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر بابا جی کا مکان دیکھنے چلا گیا جیسےہی دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے پر تپاک طریقے سے اندر آنے کی دعوت دی اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر بعد وہی خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل لے کر ہماری طرف آ رہی تھی
میں نے بے ساختہ لہجے میں کہا بابا جی آپ اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں آپ مکان کتنے میں بیچنا چاھتے ہیں بابا جی نے کہا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں کرتے ہیں ۔ پہلے کی مرتبہ اس بار بھی چاۓ وغیرہ پینے کے بعد کچھ گفتگوہوئی اور بابا جی سے مکان کی بات کرنا چاہی تو بابا جی نے پھر پچاس لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی مجھے غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بابا جی دماغی مریض لگتےہیں ہم نے اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آ گئے ۔ 
اس بات کو کافی ماہ گزر گئے میرا ایک دوست جو پراپرٹی ڈیلر تھا اس کا مجھے فون آیا اور اس نے کہا ایک مکان مل رھا ہے کافی سستا ہے اگر ارادہ ہے تو چلو ساتھ تمہیں مکان دکھا دوں میں نے کہا چلو چلتے ہیں جب میں اس کے ساتھ گیا تو وہ وہی مکان تھا جو بابا جی کا تھا میں نے اپنے دوست کو ہنستے ہوے بتایا یہ بابا جی کا مکان ہے اور وہ بابا جی پاگل ہیں شاید- پھر میں نے اپنے دوست کو پچھلے دونوں واقعیات سناۓ تو اس دوست نے کہا اس بات میں کچھ نہ کچھ راز تو ضرور ہے چلو پتا کرتےہیں
ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پہلے کی مرتبہ اس بار بھی اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں لے گئے کچھ دیر بعد وہی خاتون چاۓ کی ٹرالی ٹیبل ہماری طرف لاتی ہوئی دکھائی دیں بابا جی نےہمیں چاۓ نوش کرنے کا کہا ۔ میرے دوست نے کہا بابا جی آج ھم چاۓ تب تک نہیں پئیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آپ مکان کی فروخت کا اشتہار دیتے رہتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں کرتے اور جو مکان خریدنے آتا ہے اس کی تواضح کر کے اسے بھیج دیتےہیں آخر ماجرا کیا ہے ؟
یہ بات سن کر بابا جی نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور اداسی والی نگاہوں سے میری طرف پلٹے اور کہا ھم نے مکان نہیں بیچنا ھم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کوئی آتا جاتا رہے ہم کسی سے بات چیت کرتے رہیں اور کوئی ھم سے باتیں کرے ہم بوڑھےہیں لاچار ہیں ھمارے 3 بیٹے ہیں جنھیں ہم نے اچھی تعلیم دلوائی وہ ملک سے باہر ہیں لیکن ہمارے لئیے نہ ہونے کے برابر ہیں ہم اکیلے پن کی وجہ سے اپنے آپ کو اس گھر کی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اس لئیے ہم نے سوچا ھم اپنی اس اداسی کو لوگوں کی تواضح سے ختم کریں ان کی باتیں سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نےسوچا بڑھاپا اور اکیلا پن ان دونوں چیزوں کے ساتھ زندگی کس قدر کٹھن ہے بابا جی نے کہا بیٹا دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیے سب کچھ پاس ہے لیکن بڑھاپے میں اولاد کا سہارا ہی ساتھ دیتا ہے-

بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو آپکے پیسے کے نہیں بلکہ آپکی ضرورت زیادہ ہوتی ھے۔ لہذا والدین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں ۔.. !!!!!!!

"انمول ھیں وہ  لوگ جو دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں"۔

پاک محبت

تحریر:         _گلزیب فاطمہ_
میں حال میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی کے اچانک دروازے پر دستک ہوئی جب دیکھا تو سامنے وہ کھڑا تھا 
ذولید تم!  تم یہاں کیا کر رہے ہو آنے سے پہلے فون تو کر دیتے ؟
ہاں ! 
وہ تم سے ملنا تھا کچھ کہنا تھا .
اچھا آؤ اندر آؤ کیا بات ہے؟
کیا ہوا چپ کیوں ہو ؟
میری شادی ہے اگلے ہفتے آفرین .
کچھ پل کے لئے لگا جیسے پیرو کے تلے سے زمین نکل گئ
کیا ؟
ہاں بس یہی کہنے آیا تھا میں شادی کر رہا ہوں ،
کس سے ؟
امی کی بھتیجی سے بہت اچھی لڑکی ہے گھر پر سب کو پسند ہے. 
اور میں ؟ میرا کیا ؟ 
میرے گھر والے زیادہ انتظار نہیں کر سکتے میں مجبور ہوں یار تم تو سمجھوں. 
کیا کیا سمجھوں میں ؟
تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو نا تو شادی کسی اور سے کیسے کر سکتے ہو کیا تہمیں میری فکر نہیں ہے میں کیا کرو گئ تم بن .
میں بھی محبت کرتا ہوں تم سے پر ؟
پر کیا پر ؟
پر ہر محبت کرنے والے کی قسمت میں مل جانا ہی تو نہیں ہوتا میں نے بہت کوشش کی پر گھر والے نہیں مانے اب تم ہی بتاؤ میں کیا کرو ؟
اب یہ بھی میں ہی بتاؤ کے تم کو کیا کرنا ہے. 
چلو ٹھیک ہے میں نے سوچ لیا ہے مجھے کیا کرنا ہے. 
مطلب ؟
مطلب یہ کے چلو سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ چلو ہم دونوں سب سے دور اپنی نیی زندگی بنا لے ہم گھر سے باگ کر شادی کر لیتے ہیں، آفرین تم میرے ساتھ چلو گئ نا ؟
یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم ذولید میں ایسا کچھ نہیں کرو گئ!  
میری محبت پاک ہے تمہارے لئے پر اس کا مطلب یہ نہیں کے میں میرے گھر والوں کی اذیت خراب کر دو میں ایسا کچھ نہیں کرو گئ سمجھے تم. 
ہاں! تمہارے گھر والوں کی اذیت اذیت اور میرے گھر والے ان کا کیا آفرین ؟ جس طرح تم اپنے گھر والوں کو دکھ نہیں دے سکتی میں بھی نہیں دے سکتا. 
مجھے یہی کہنا تھا اب میں چلتا ہوں. 
اور وہ جانے کے لئے مڑ گیا. 
آفرین نے پیچھے سے اس کو آوازہ دی اور اس سے پوچھا 
کیا یہی تھی میرے لئے تمہاری محبت ؟
ذولید! نے جواب دیا ہا یہی ہے میری محبت جتنی پاک تم مجھ سے محبت کرتی ہوں اتنی ہی پاک محبت. 
آفرین! اچھا تو کیا ہے تمہارے لئے پاک محبت کا مطلب ذولید؟
ذولید!  اس نے کچھ نہیں کہا اور چلا گیا. 
بہت وقت گزرتا گیا ذولید نے شادی کر لی آفرین اپنی زندگی میں مصروف رہنے لگی وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا مگر آج بھی آفرین کو اس بات کا دکھ تھا کے ذولید نے اس کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا کیا یہی تھی اس کی محبت؟ کیا اس نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی ؟ کیا وہ میرے ساتھ وقت گزر رہا تھا ؟
کیا میں اس کا ٹیم پاس تھی ؟
مگر اس کے خود کے پاس بھی اپنے کسی سوال کا جواب نہیں تھا. 
دو سال گزر گئے آفرین کچھ لکھ رہی تھی کے اچانک اس کو فون کی گھٹی سنوئی دی اس نے فون لیا اور دوسری طرف سے جو آوازہ آئی تو وہ خاموش ہو گئ. 
آفرین میں.... میں ذولید! 
تم..... تم نے کیوں فون کیا ؟
تمہارے سوال کا جواب دینے کے لئے!  تم نے پوچھا تھا نا کے کتنی پاک محبت ہے مجھے تم سے اس کا جواب دینے کے لئے. 
اتنے وقت بعد یاد آیا جواب تم کو ذولید. 
ہا!  میری بیٹی ہوئی ہے آج اور آج ہی مجھے اس سوال کا جواب مل گیا آفرین! 
اچھا تو کیا ہے جواب اس سوال کا ؟
میری محبت تم سے اتنی پاک ہے آفرین، کہ میں نے تمہارے نام سے میری بیٹی کا نام رکھ لیا. 
وہ چپ بس سن رہی تھی آج بس ذولید بول رہا تھا. 
میں کبھی تمہارے ساتھ وقت نہیں گزر رہا تھا نا ہی ٹیم پاس کر رہا تھا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں آفرین کل بھی کرتا تھا آج بھی کرتا ہوں اور ہمیشہ کرو گا پتا ہے آفرین میں ہمیشہ اللہ پاک سے دعا کرتا تھا! کہ اے اللہ میں آفرین سے بہت محبت کرتا ہوں ہمیشہ اس کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں
اللہ اگر میں اس کے حق میں بہتر نہیں ہوں تو مجھے اس سے دور کر دے! 
اور جس دن میری شادی کہی اور ہو گئ اس دن مجھے پتا چل گیا کے میں تمہارے حق میں بہتر نہیں تھا پر میری محبت تمہارے لئے پاک تھی بہت پاک اتنی پاک کے میں نے تمہارے نام سے میری بیٹی کا نام رکھ لیا !
اگر میں تمہارے ساتھ وقت گزر رہا ہوتا ٹیم پاس کر رہا ہوتا تو کبھی بھی  اپنی بیٹی کا نام تمہارے نام سے نہیں رکھتا 
کیوں کے کوئی بھی مرد کبھی اس عورت کے نام سے اپنی بیٹی کا نام نہیں رکھتا جس کو وہ صرف ضرورت سمجھ کر استعمال کرے! 
تم میری زندگی ہو آفرین اب تمہارا نام لینے کے لئے مجھے کسی کی آجازت کی ضرورت نہیں اب میں دن میں ہزا بار تم کو پکارتا ہوں اتنی پاک محبت کرتا ہوں میں تم سے 
مجھے بس یہی کہنا ہے آفرین آج کے بعد کبھی کال نہیں کرو گیا کبھی بات نہیں ہو گئ ہماری پر میں ہمیشہ تم سے محبت کرو گیا ہمیشہ! 
کچھ پل کے لئے دونوں طرف خاموشی تھی وہ جاتا تھا کے آفرین رو رہی ہے اور کہی نا کہی اس کی آنکھوں میں بھی آنسوں تھے پر اس نے فون بند کر دیا. 
آفرین بہت دیر تک خاموش وہی کھڑی رہی اور یہ سوچ رہی تھی! کیا سچ میں اس کو مجھ سے اتنی محبت تھی؟
اور میں کبھی سمجھ نہیں سکی. 

محبت کا مطلب مل جانا ہی نہیں ہوتا! اپنی محبت کی خوشی کے لئے اس سے دور چلے جانا بھی محبت ہی ہوتا ہے. 

آج تک کسی نے ایسے بلایا ہی نہیں آقاﷺ

ایک بوڑھی عورت اپنے بہرے گھونگے بچے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پاس آئی۔ اور آ کر کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کیا آپ اس کو ایسا نہیں بنا سکتے کہ یہ سنے بھی اور بولے بھی۔ میں اب بہت بوڑھی ہو گئی ہوں آپ اس کو اس قابل بنا دیں کہ یہ میرے بڑھاپے کا سہارا بن جاے۔ سرکار نے اس بوڑھی عورت کی طرف دیکھا ۔ اور اس بوڑھی عورت کی آنکھوں  میں نمی دیکھی آواز میں بے محتاجی نظر آئی۔ آواز میں درد محسوس کیا۔ سرکار ﷺ نے اس لڑکے کی طرف دیکھا اور اس کو آواز دی۔ یاولد(اے بیٹے) یا ولد۔ وہ بے دھڑک ہو کر بولا لبیک یا رسول ﷲ ﷺ۔ تمہاری ماں کہتی ہے کہ نہ تم بولتے نہ تم سنتے ہو۔ لڑکے نے جواب دیا۔ سرکار ﷺ آج تک آپ کی طرح کسی نے بلایا  ہی نہیں ۔۔
 _درس مسناوی۔۔ مولانا روم_

Thursday, October 29, 2020

دنیا مکافات عمل ہے

کبھی اپنے خوبصورت اور جوان جسم کو دیکھا ہے۔۔؟
کبھی اپنے جوان جسم کا موازنہ کسی بوڑھے اور جھریوں والے جسم سے کیا ہے؟اور یہ سوچا ہے کہ یہ بوڑھا جسم بھی کبھی جوان تھا۔!!خوبصورت تھا۔؟زندگی سے بھرپور تھا۔آپ کے جسم سے زیادہ طاقتور تھا!!۔اس نے بھی زندگی کی خوبصورت بہاریں دیکھی اور جئیں ہوں گی۔یہ بوڑھا جسم کبھی جوان بھی رہا ہو گا۔؟
اور یہ بھی خیال کرنا کہ ایک دن یہ آپ کا خوبصورت اور جوان جسم بھی بوڑھا ہو جائے گا۔؟جوانی کی رعنائیاں ختم ہو جائیں گی۔زندگی رینگنے لگی گی اور آپ قابل رحم ہو جائیں گے۔۔اس وقت آپ کو سہارے کی ضرورت ہو گی۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ کی زندگی بوڑھی اور جسم جھریوں والا ہو  اور اس وقت آپ کا کوئی سہارا بنے ؟
تو بوڑھے جسموں کی عزت کریں ،قدر کریں اور ان کی خدمت کریں۔
بوڑھے لوگوں کی خدمت ،بڑھاپے میں ضرور کام آئے گی۔!
دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔آج جو کرو گے کل کو اس کی جزا یا سزا ضرور ملے گی۔۔
سوچیے گا۔

اللّٰہ اور بندے کا تعلق

اللہ اور بندے کا ساتھ دائمی ہے بےشک باقی سہارے وقتی ہیں تلخ سچائ جیسے دنیا میں آیا تنہا تو اسے جانا بھی اکیلے ہی ہے 
زندگی اکیلے گزاری نہی جا سکتی کسی نہ کسی کا ساتھ ضروری ہے 
ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر درپیش ہو تو بھی انسان رفاقت کا متمنی ہوتا ہے آخر کتنی دیر خود فراموشی میں گزارا جا سکتا ہے کتنی دیر باہر کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کتاب پڑھتے پڑھتے بھی کسی انسان کو پڑھنے کی طلب ہو تی ہے کچھ کھاتے پیتے بھی کسی دوسرے وجود کی تلاش رہتی ہے 
انسان معاشرتی حیوان ہے اسے اپنے جیسے چاہیئں جن کے ساتھ وہ زندگی کا لمبا سفر گزار سکے کسی برے وقت میں دل جوئ پا سکے اپنے دکھ درد بیان کر سکے 
جو کہتے ہیں انہیں کسی کی کوی ضرورت نہی وہ تنہا خوش ہیں اصل میں وہ خود کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں بس وہ کچھ لوگوں کے رویوں سے اکتا کے ایسا کہ رہے ہوتے ہیں بہت سی تلخیوں کا زائقہ چکھ کے بول رہے ہوتے ہیں 
لیکن جیسے ہی ان کا درد محسوس کیا جاتا ہے ان کا دکھ سنا جاتا ہے تو وہ ایسے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے من پسند کھلونا مل گیا ہو اور اسے اپنی خوشی چھپائ نہ جا رہی ہو 
بعض اوقات یہ تعلق درد بانٹنے کے بجاے درد دے بھی جاتے ہیں جو انسیت اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے وہ ایک دم بیگانگی میں تبدیل ہونے لگتی ہے 
جو آغازمیں پرجوش انداز ہوتا ہے وہ سردمہری میں بدلنے لگتا ہے لاپرواہی اور نظر اندازی سہنا پڑتی ہے جو توجہ حاصل ہوتی ہے وہ کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں آپ کو سوچنا ہے یہ ساتھ دائمی نہی تھا اس سفر میں اپ کا اور اس کا ساتھ اتنا ہی تھا بجاے رونے دھونے اور قسمت کو کوسنے کے آپ اسے مثبت انداز میں سوچیں 
جتنا وقت آپ نے ایک دوسرے کو دیا اپنا دکھ درد بانٹا خوشیاں غم شئیر کیے وہی انمول لمحے تھے اب اس سے زیادہ آپ کو نہی مل سکتا اس لیے ماتم روک دیں ہر وقت روتی شکل اور بیزاری بنا کے موت کا خیال نہ سوچیں
اللہ اور بندے کا جو تعلق ہے اسے سوچیں اسے مظبوط کریں جو ملا وہ ایک سنگ میل تھا منزل تو آگے ہے ویہاں تک جانے تک جو راستہ طے ہونا کوی نہ کوی دوسرا ہمسفر مل جانا حرف آخر کوی بھی نہی کم از کم اس دنیا میں۔

اللّٰہ ہی رازق ہے....

بہلول دانا ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے ۔ ایک مرتبہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے پوچھا :
بہلول ! یہاں کیا کر رہے ہو ؟
کہنے لگے : ایسے لوگوں کے پاس ہوں کہ ان کی صحبت مجھے تکلیف نہیں دیتی اور اگر ان سے دور رہوں تو یہ میری غیبت نہیں کرتے ۔
پوچھنے والے نے دوبارہ کہا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے ، اس میں کمی کی دعا کریں ۔
کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! مجھے تو کوئی پرواہ نہیں ، چاہے گندم کے ایک دانے کی قیمت ایک دینار ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اسلئے کہ اللہ پاک کا ہم پر حق ہے کہ ہم اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت کریں اور اللہ پر ہمارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں رزق دے ، جب رزق کی ذمہ داری اللہ پاک نے لی ہے تو مجھے فکر کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ۔ 

انسانیت کی معراج کا سفر

‏ایک بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کِیا "ہے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ؟"
شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا، درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو ‏اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا
ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں

بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ہوا ‏تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اُس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے

شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ہے
بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک کام جو
آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا ‏کیسے کر گیا ؟

بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟

اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے: 
"میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہو گئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے"

‏بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا
اندھے کی رخصتی کے ساتھ ہی میرا غصہ میری انا اور میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہو گئی
 
مجھے سمجھ آ گئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت اور محبت ہی انسایت کی معراج ہے جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا ‏جو نہ سہہ سکا وہ کانچ
بانو قدسیہ آپا ناول "راجہ گدھ" میں لکھتی ہیں کہ "جو دباؤ سہہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ"

مجھے اندھے بابا نے بہت بڑی بات سمجھائی میں جان گیا تھا کہ
اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے
میں نے سوچا انسان آخر کب تک برداشت کرے؟

‏کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟
کب تک اپنے غصے کو پئے؟
آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے
اندر سے آواز آئی
اُس وقت تک سہنا ہے جب تک ہیرا نہ بن جاؤ

ہیرا بننے کے بعد ہیرے پر کوئی دباؤ کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرتی یہاں سے پھر انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔❤

ابھی ریورس گیئر ممکن ہے

بیٹیاں چھوٹی اور بڑی نہیں ہوا کرتیں !! وہ تو بس بیٹیاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"" یار ڈن ہل امپورٹڈ دے آج ! لوکل اہویں ہی ہوتا ہے بس ! ""
رات کسی پہر آنکھ کھلنے پر مجھے دوبارہ فوراً نیند نہیں آتی تو جامع مسجد حنفیہ کے سامنے معین بھائی کے پان سگریٹ کے کیبن کے پہلو میں بچھے اللہ مالک ہوٹل کے پھٹے پر جا کر اکیلا بیٹھ جاتا ہوں ۔ 
شاہراہِ فیصل پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھنا اور چوبیس گھنٹے آباد ہوٹلوں کی اس پٹی پر ہوٹلوں پر خوش گپیاں کرتے لوگوں کو ایک آدھ گھنٹہ دیکھنا میرا معمول کا مشغلہ ہے ۔
آج بھی شب دو بجے آنکھ کھلی تو اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا ۔
امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ مانگنے والا یہ نوجوان کوئی برگر بچہ نہیں تھا ۔
یہ چھبیس ستائیس سالہ ایک پوڈری / ہیرونچی تھا ۔
خواہ مخواہ کسی پر تبصرہ بازی یا جملے کسنا میری کبھی بھی عادت نہیں رہا لیکن اس جملے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنی حسِ ظرافت کا مظاہرہ کروں ۔
یہ پوڈری مڈل کیریئر ٹائپ پوڈری تھا مطلب ابھی ہیروئن اُسے سو فیصد نہیں نچوڑ پائی تھی ۔ ابھی اُس کے چہرے پر کچھ رس اور رونق باقی تھی ۔
کپڑے بھی زیادہ گندے نہیں تھے ۔ ہاتھ عام پوڈریوں کی طرح جگہ جگہ سے جلے ہوئے تھے ۔ پاؤں میلے کچیلے اور سوجھے ہوئے تھے ۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ پاکستانی ڈن ہل میں وٹامن کم ہوتے ہیں جو امپورٹڈ مانگ رہے ہو ۔
وہ دلفریب انداز میں مسکرایا ۔
بس اُس کی مسکراہٹ گھائل کر گئی ۔
کہنے لگا پاکستانی ڈن ہل میں گھاس بھری ہوتی ہے ، امپورٹڈ میں تمباکو ہوتا ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کیا اب بھی تمباکو تمھیں کوئی لطف دیتا ہے ؟
وہی مسکراہٹ کہ یار تمباکو کیا لطف دے گا بس ماں باپ نے اتنے لاڈوں سے پالا تھا کہ توفیق ملتی ہے تو اچھی چیز کو ہی ہاتھ لگاتا ہوں ۔
اُس کی حجامت تازہ تازہ بنی ہوئی تھی ۔ سر پر موجود گھنے سیاہ بالوں میں اکا دکا سفید بال ہی نظر آ رہے تھے ۔
میں نے اپنے پہلو میں پھٹے کو تھپتھپایا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگانے لگا ۔
ہزارے وال ہو ؟ 
نہیں پنجابی ہوں ، بہاولپور سے ہوں ۔
کب سے شغل میلہ کر رہے ہو ؟ میں نے پوچھا
دس سال ہو گئے ہیں ۔
وہ ذرہ برابر جھوٹ یا تکلف سے کام نہیں لے رہا تھا ۔
کیا ریٹ چل رہا ہے آج کل ؟
پانچ سو روپے گرام ہے ۔
شادی شدہ ہو ؟
ہاں پانچ بچے ہیں ۔
ماشاءاللہ کتنی عمر ہے تمھاری ؟
اٹھائیس سال کا ہوں ۔
کیسے شروع کیا یہ سب ؟
رنگ روغن کا کاریگر اور ٹھیکیدار تھا ۔
شادی کے بعد ایک دن گھر میں بیگم کے ساتھ جھڑپ ہوئی تو غصے کی حالت میں ہی کام پر چلا گیا ۔
میرے کاریگروں میں دو تین ہیرونچی بھی تھے ۔ ہیرونچی کام دل لگا کے کرتے ہیں اس لیے کوئی کام مانگنے آتا تھا تو دے دیتا تھا ۔
اُس دن جب میں کام پر پہنچا تو وہ دوا دارو لینے کی تیاری کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ ، ادھر لاؤ ، دیکھوں تو کیا جادو ہے اس میں ۔
بس پھر ایک آدھ مہینے میں ہماری پوری ٹولی ہی مست و مست ہو گئی ۔
کچھ سال اچھی غذا اور کام دھندے کی وجہ سے نظام چلتا رہا پھر دھیرے دھیرے چیزیں ہاتھوں سے سلپ ہوتی چلی گئیں ۔
لیکن تمھارے چہرے پر ابھی کافی رونق باقی ہے ، ماشاءاللہ ،
دس سال بہت ہوتے ہیں ، اس کا کیا راز ہے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا
اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
سب سے بڑا راز سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ چار پانچ سال کی ہے ۔
وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا
ہم سب بھائی اکھٹے رہتے ہیں ۔
مجھے باپ بھائی سب ہی ذلیل کرتے ہیں لیکن بیٹی میرے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں سوتی ۔
ابھی اس وقت بھی وہ گھر میں بستر بدل رہی ہو گی ۔
کبھی اماں کے ساتھ ، کبھی دادی اور کبھی دادا کے ساتھ سونے کی کوشش کر رہی ہو گی ۔ جب تک میں گھر نہیں جاوں گا اُسے نیند نہیں آئے گی ۔
اُسی کی وجہ سے نہا دھو بھی لیتا ہوں اور کٹنگ بھی کروا لیتا ہوں لیکن کبھی کبھار گندا مندا بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے ہی لپٹ کر پرسکون نیند سوتی ہے ۔
گھر کا نظام کیسے چل رہا ہے ؟ 
اچھے وقتوں میں گھر اپنا لے لیا تھا ۔ اُسی میں ابا نے میرے بیٹے کو دوکان کھول کر دے دی ہے ۔ گیارہ سال کا ہے ۔ اور بھائی بھی کام کرتے ہیں ۔ گھر والوں کو کوئی خاص ٹینشن نہیں ۔
بیٹی کی محبت کا خوب جواب دے رہے ہو ؟ میں نے پہلا وار کیا
اُس کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں ۔
وہ بیٹی نہیں بھائی جان ، اب تو جیسے وہ میری ماں ہے ۔
کبھی گھر والوں سے پیسے مانگوں تو جھڑکیاں سننے کو ملتی ہیں ۔
ںیٹی جب دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا تو بیس تیس روپے کے سکے ادھر ادھر دیکھ کر چوری سے میری جیب میں ڈال دیتی ہے کہ " بابا آپ کی سگریٹ کے لیے اکھٹے کیے تھے "
اب تو اُس کی آنکھوں سے باقاعدہ موتیوں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں ۔
یار تیری جان ابھی پوری نہیں جلی ۔ ابھی رہورس گیئر ممکن ہے ۔ سانگھڑ کیوں نہیں جاتے , میں نے دو بندے بھیجے تھے دونوں ٹھیک ہو کر آ گئے تھے ، سُنا ہے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے اُسے دانہ ڈالا
سانگھڑ والے دوا نہیں دیتے بالکل بھی ، میرے دو دوست گئے تھے ، دونوں کی لاشیں واپس آئی ہیں ، بہت سختی کرتے ہیں وہاں ، دوا بالکل نہیں دیتے ، بس اچانک سب کچھ بند کر دیتے ہیں  ۔
پھر کوئی اور جگہ ہے کیا ؟ میں نے پوچھا
ماڈل کالونی میں دارالنجات والے ٹھیک ہیں لیکن مہنگے ہیں بہت ، ہمارے پاس اتنے اکھٹے پیسے نہیں ہیں ۔
کتنے مہنگے ہیں ؟ میں نے پوچھا
پندرہ سو دو ہزار روزانہ کا خرچ ہے ۔ بیس پچیس دن تو لگتے ہیں ۔
میں نے اپنے توشہ خانے میں موجود نوٹوں کو چشم تصور سے دیکھا تو مطلوبہ رقم سے کچھ زائد ہی موجود تھی ، الحمدللہ
معین والے سے پین اور کاغذ لو ۔
وہ پین اور کاغذ لے آیا ۔
اپنا نام اور نمبر لکھ کر دیا کہ کل دارالنجات پہنچ کر فون کر دینا مجھے ، میرے گھر سے پانچ دس منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
لیکن یار ایک مسئلہ اور بھی ہے ۔ لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد وہی حال ہوتا ہے ۔ میں نے یقین دہانی طلب کی ۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہو ، یہ سامنے مسجد ہے اس کے سامنے وعدہ کر رہا ہوں بس ایک بار ہوش میں لے آؤ  مجھے !!!
میں نے اپنی گڑیا کو سیر کرانے سی ویو لے کر جانا ہے ۔ اُس کے سارے سکے میں نے اُسے واپس کرنے ہیں ۔
میں بہت سنگ دل ہوں لیکن اس پوڈری کے آخری ڈائیلاگ نے میری ڈھیٹ  آنکھوں کو بھی نم کر دیا ۔
اچھا اچھا زیادہ ڈائیلاگ نہیں مار کل ملتے ہیں ان شاءاللہ ۔
ابھی فوراً گھر جاؤ ، گڑیا جاگ رہی ہو گی۔