حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی
زیارت صحابہ کرام رضوان اللّٰه عنہُم کے لیے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی
کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی
چہرۂ اقدس کے دِیدار کے بعد قلب و نظر میں اُترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک دِن رحمتِ عالم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ
آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا
دراصل ہُوا یوں تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا
اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟
اس وفا شعار پیکرِ عجز و نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کِیا
یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! صرف آپ کی ملاقات،چہرۂ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں
تھوڑی دیر بعد ہی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّٰه عنہُ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو گئے
نبئ رحمت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا
اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟
شمعِ رسالت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی پٹی کے بغیر عرض کی
یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! بھوک کی وجہ سے حاضر ہُوا ہوں
( ترمذی،الجامع الصحیح،کتاب الزھد،باب فی معیشة أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم، ٥۸۳:٤،رقم:۲۳٦۹ )
شمائل ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث ( مفہوم ) کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہُ اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مِِٹانا چاہتے تھے،
جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السّلام کے حُسن سے اپنی بھوک کو مِٹا لیا کرتے تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا
مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کِیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر نُورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چُکا تھا
کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ پر نُورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چُکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا
( شمائل الترمذی:۲۷،حاشیه:۳ )
چنانچہ ایسا ہی ہُوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جان نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی
( کتاب التوحید،جِلد ۲،صفحہ ٥٦٦ تا ٥٦۸ )
ایمان بخیر یارم🍁