Thursday, February 4, 2021

کھڑک سنگھ کا انصاف

کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔ آپ نے یہ مقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر اس کے پیچھے کی داستان کا پتہ نہیں ہوگا۔

کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔

ایک دن کھڑک سنگھ معمولات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتا تھا)

بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جا پہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا۔

وائسرائے: نام؟
کھڑک سنگھ

وائسرائے: تعلیم؟
کھڑک سنگھ: "تسی مینوں جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"

وائسرائے ہنستے ہوئے "سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟"

کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے "بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ، میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں، ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔"

وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کر دیے اور  کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔

اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا۔

کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون تھی۔

جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے۔

ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا "مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے۔ اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی: "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصے سے دیکھا اور پوچھا "کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا؟"

دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا "نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی۔ دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی۔ ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھانا تھا۔"

کھڑک سنگھ نے غصے سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مر گیا نا؟ پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ رکیے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟"

جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟

"جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے" پولیس والے نے جواب دیا۔

تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کر رہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے۔

فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)

پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔

🔘 اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری ہو اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہوجاۓ گی۔

 آگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔ شکریہ

چــــــــــــــور

استاد صاحب بیوی کے ساتھ بھتیجے کی شادی کی تقریب میں پہنچے تو بارات سے زیادہ استاد صاحب کا استقبال کیا گیا اور کرتے بھی کیوں نہ دُلہا  استاد صاحب کا بھتیجا ہونے کے ساتھ ساتھ طالبعلم بھی تھا۔
سب ہی کہتے تھے کہ خُدا نے آپ کی شخصیت میں عجیب کشش رکھی ہے جو بھی طالبعلم آپ سے پڑھ لیتا ہے وہ ہمیشہ آپ جیسا بننے کی خواہش کرتا ہے اور یہ سچ بھی تھا۔
استاد صاحب شہر کی بڑی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
استاد صاحب کے طالبعلموں نے اپنی ترقی اور تربیت سے ہمیشہ اُن کا نام روشن کیا تھا۔
استاد صاحب کو بھی بہت ناز تھا کہ قیامت والے دِن جب اعمال کی پوچھ گُچھ ہوگی تو میں کہہ دوں گا کہ میرے اعمالِ صالح میرے طالبعلم ہیں، جِن کی میں نے تربیت کی اور معاشرے میں بھلائی پھیلانے کا سبب بنا۔
شادی کی تقریب ،  رات کو تقریباً بارہ بجے ختم ہوئی استاد صاحب بیوی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہونے لگے ابھی اگلی ہی سڑک پر پُہنچے تھے کہ چھ موٹر سائیکل سواروں نے استاد صاحب کی کار کو گھیرے میں لے لیا۔
چار سوار موٹر سائیکلوں سے اُتر کر کار کے سامنے آگئے اور دو موٹر سائیکل پر ہی بیٹھے رہے۔
ایک نے استاد صاحب کی کنپٹی پر پستول رکھی اور بولا "ابے او ،  گاڑی سے باہر آ جاؤ اور آنٹی کو باہر آنے کو بول۔ جلدی کر اور اگر کچھ گڑ بڑ کی تو بھیجے میں ساری گولیاں اُتار دوں گا۔" 
استاد صاحب نے بیوی کو اشارہ کیا تو وہ بھی کار سے باہر آگئی۔
ایک چور نے استاد صاحب کی تلاشی لی جو کچھ اُن کے مطلب کا تھا لے لیا اور ایک چور نے اُن کی بیوی کے سارے زیور زبردستی اُتروا لیے۔
ایک موٹرسائیکل سوار پیچھے سے بولا یار گاڑی بھی اچھی ہے آج بڑا ہاتھ مارتے ہیں چلو گاڑی بھی لے اُڑتے ہیں کوئی ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔
  دوسرا چور بولا ٹھیک ہے پھر اِن دونوں کو مار دیتے ہیں ورنہ پھنس جائیں گے۔ 
ایک اور بولا نہیں یار اِن  کو باندھ کر سڑک کی دوسری جانب پھینک دو صُبح کوئی کھول دے گا کیوں بے گناہوں کو مارنا ہے۔
استاد صاحب بولے بیٹا جو کچھ چاہیے لے لو لیکن ہمیں کچھ نہ کرنا میرے گھر میں چھوٹے بچے  ہیں اور  ہمارے سِوا اُن کا کوئی نہیں ہے خُدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
ایک موٹر سائیکل سوار موٹر سائیکل سے اُترا اور بولا تُم لوگ سامان سمیٹو میں اِن کو باندھتا ہوں جیسے ہی وہ استاد صاحب کے سامنے پہنچا تو بولا اوہ یار یہ تو میرے استاد  ہیں ،  چھوڑ دو اِن کو سب کچھ پھینک دو چلو یہاں سے بھاگو۔
جونہی سب نے اپنی ساتھی کی بات سُنی اُنہوں نے سب کچھ وہاں پھینکا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
استاد صاحب کی بیوی بولی شُکر ہے آپ کی وجہ سے بچ گئے ورنہ آج بہت نقصان ہوجاتا۔
استاد صاحب وہیں زمین پر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے اُن کی بیوی بولی کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
استاد صاحب بولے میری تو زندگی بھر کی کمائی لُٹ گئی مُجھے شرم آتی ہے اپنے آپ پر کہ میں نے معاشرے میں چور پیدا کیے ہیں ۔
استاد صاحب بولے میں اپنے طالبعلموں کی تربیت نہیں کرسکا مجھے تو ناز تھا کہ قیامت والے دِن یہ لوگ میری بخشش کا سبب بنیں گے لیکن اب مُجھے ڈر لگ رہا ہے کہ قیامت والے دِن فرشتے مُجھے گھسیٹ کر جہنم میں لیجائیں گے کہ میں اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب بولے چور وہ نہیں چور تو اُن کا اُستاد نِکلا جو اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب کہتے وہ میرے دل سکون لے گئے،  وہ مجھ سے میرا مان لے گئے کہ میرے طالبعلم غلط کام نہیں کر سکتے۔
استاد صاحب بے بسی سے کار کے ساتھ بیٹھے بار بار بول رہے تھے چور وہ نہیں چور تو میں ہوں , چور وہ نہیں چور تو میں ہوں.
کیا آپ بھی استاد ہیں؟ 
کیا آپ نے اپنا فرض پورا کیا؟

Wednesday, February 3, 2021

الفاظ بولتے ہیں

ایک پینٹر کو ایک کشتی پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ 
کام کے دوران اُسے کشتی میں ایک سوراخ نظر آیا اور اُس نے اِس سوراخ کو بھی مرمت کر دیا۔ 
پینٹنگ مکمل کر کے شام کو اس نے کشتی کے مالک سے اپنی اُجرت لی اور گھر چلا گیا۔

دو دن بعد کشتی والے نے اُسے پھر بلایا اور ایک خطیر رقم کا چیک دیا۔ پینٹر کے استفسار پر اُس نے بتایا کہ اگلے دن اس کے بچّےبغیر اُس کے علم میں لائے کشتی لے کر سمندر کی طرف نکل گئے۔ اور پھر جب اُسے خیال آیا کہ کشتی میں تو ایک سُوراخ بھی تھا تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ 

لیکن شام بچّوں کوہنستے مسکراتے آتے دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ھو گیا۔ اُس نے پینٹر سے کہا کہ یہ رقم تمہارے احسان کا بدل تو نہیں مگر میری جانب سے تمہارے لیئے محبت کا ایک ادنیٰ اظھار ہے۔۔۔۔

آپ کی زندگی میں بھی بہت سےایسے چھوٹے چھوٹے کام آئیں گے جو آپ کے کام نہیں ۔۔۔۔ 
مگر وہ کام بھی کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔
نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
کسی نہ کسی کی زندگی بچاتی ہے 
کسی نہ کسی کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔
مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے .

الفاظ بولتے ہیں.

پینڈو لڑکا

مما  وہ پینڈو سا ہے میں اس سے شادی نہیں  کرنی 
افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی 
ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے 
افشاں نے کہا مما  وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہنے کی تمیز نہ اسے بات کرنے کی تمیز ہے 
میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی 
ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نا ہو 
افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی کہا صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی 
تم شادی سے انکار کر دو 
صارم نے کہا میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی  جا سکتا 
افشاں نے کہا میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی 
صارم نے کہا تم خود انکار کر دو 
میں تو کچھ نہ کہنے والا 
افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے کر رہے 
افشاں نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری ٹیبلٹ کھا لی 
ہسپتال کے گئے 
ڈاکٹرز نے معدہ  واش کیا جان  بچ گئی 
افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما  مجھ پہ رحم کرو 
میں اس جاہل انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی 
وہ بھی گاوں میں 
ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں وہ صارم بہت اچھا لڑکا ہے کیا ہوا وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے 
وہ گاوں میں رہتا ہے تو 

لیکن وہ لڑکا اچھا ہے 
افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی 
افشاں کی شادی صارم سے کروا دی 
افشاں نے بس سمجھ لیا زندگی برباد ہو گئی 
سارے خواب ختم ہو گئے 
سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں 
سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا 
پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے شادی ہو گئی لیکن مجھ سے دور رہو 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے افشاں آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں 
افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی صارم 
صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی 
صارم نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی 
اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ  آپ کے لیئے افشاں نے انگھوٹی 
اٹھا کر سائڈ پہ رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئ رونے لگی 
صارم نوافل ادا کرنے لگا 
پھر افشاں کے پاس لیٹ گیا 
یوں زندگی کا سفر شروع ہوا افشاں کا دم گھٹنے لگا صارم کے ساتھ 
صارم دیکھنے میں خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ڈیسینٹ سا بھی نہیں  تھا 
افشاں ماڈرن سی لڑکی تھی صارم صبح اٹھتے ہی افشاں کا ماتھا چومتا 
پھر خود ناشتہ بناتا افشاں کو غصہ آتا یہ بندہ مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے 
افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا 
صارم رات کو تھکا ہارا آتا افشاں بس خاموش سی اپنی دنیا میں گم سی رہتی اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی 
صارم کی 
صارم بھی افشاں کو کچھ نہ کہتا تھا 
گھر آ کر کھانا بناتا افشاں کو کھانا دیتا 
افشاں پتھر دل تھی شاید  
نہ گھر کی صفائی کرتی نہ وہ کبھی صارم کے کپڑے صفائی کرتی 
صارم اپنے کام خود کرتا سال گزر گیا 
صارم افشاں کی ہر بے رخی چوم کر برداشت کرتا 
افشاں کو یوں لگتا تھا ایک بدو سا انسان پلے پڑ گیا ہے 
صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا 
پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا جو ہمسفر ہو 
صارم نے ایک دن کہا افشاں تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی 
پاگل 
دیکھو رنگ کتنا دھیما  پڑ گیا تمہارا 
تمہارے بال دیکھو کتنے روکھے سے ہو گئے 
صارم افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں خو چھوا تھا 
افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا 
افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے صارم 
صارم نے کہا نہیں چھوڑوں  گا افشاں نے دھکا دیا 
آئل صارم کے اوپر گر گیا 
افشاں  جانے لگی اٹھ کر 
صارم نے بازو پکڑا پاس بیٹھا لیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا افشاں میں یوں ایسے آپ کو نہیں دیکھ سکتا 
افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے 
صارم نے پاس بٹھایا آئل لگانا شروع کیا افشاں کے سر میں 
افشاں کے سر میں آئل لگایا پھر چہرے پہ سکرب  کرنے لگا 
افشاں خاموش بیٹھی 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہا چڑیل جاو اب شاور لے کر او اور پنک  ڈریس پہنو  
میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں

افشاں حیران تھی اتنی بے رخی پہ بھی اتنا پیار کرتا ہے صارم 
افشاں شاور لے کر آئی آج چہرے پہ عجیب سی چمک تھی 
افشاں نے اپنی دوست کو کال کی یار صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ 
اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے اس کی قدر کرو 
افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے 
اس کئ دوست نے کہا افشاں قمست والوں کو ایسے مرد ایسے ہمسفر والے ملتے ہیں 
اتنے میں صارم نے آواز لگائی جاں پناہ کھانا تیار ہے آ جاو 
افشاں مسکرانے لگی 
آج بریانی سے مزے کی خوشبو آ رہی تھی 
افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا تعریف کرے صارم کی لیکن 
خاموش رہی کھانا کھایا کمرے میں سونے چلی گئی 
صارم نے برتن اٹھائے واش  کرنے لگا 
برتن واش کیئے سارا دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ پڑا سو گیا 
صبح اٹھا  افشاں کو اٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ تیار کر دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ  لے کر آوں  گا 
رات کو صارم گھر آیا 
ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی گارڈن میں 
ہلکی سی ہوا چل رہی تھی شام کا وقت تھا ہلکی دی روشنی تھی 
صارم گھٹنے کے بل بیٹھ گیا گلاب کا پھول افشاں کو دیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں 
افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد میرا آج برتھ ڈے ہے 
صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا افشاں 
پیپرز نکالے ایک لفافے سے کہا افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا افشاں جانتی ہو یہ پیپرز کا چیز کے ہیں 
افشاں کا دل دھڑکنے لگا کیا ہے یہ صارم 
صارم نے کہا یہ ہم دونوں کی خوشی ہے افشاں 
افشاں نے کہا بتاو صارم یہ کیا ہے 
صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں میں نے کیا گھر لیا ہے اور تمہارے نام کیا ہے 
افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا 
افشاں نے دیکھا نیا گھر وہ بھی میرے نام 
افشاں کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے 
صارم اتنی محبت 
صارم کی آنکھ سے پہلی بار آنسو چھلکا تھا 
صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا 
افشاں ایک چیز مانگوں 
افشاں نے ہاں میں سر ہلا دیا 
افشاں ہمیشہ خوش رہنا 
جانتی ہو تم پری سی ہو معصوم سی 
بہت پیاری ہو تم میں بہت خوش نصیب ہوں تم جیسی ہمسفر ملی مجھے 
افشاں ہماری شادی کو دو سال گزر گئے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سینے سے نہیں لگایا 
مجھے آج سینے سے لگا لو نا 
افشاں نہ چاہتے ہوئے آج صارم کو سینے سے لگا لیا 
صارم زور سے سینے سے لگا روتے ہوئے کہنے لگا 
یہ بانہیں کیا پتا پھر نصیب ہوں نہ ہوں 
اتنا کہہ کر صارم کمرے میں چلا گیا 
افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے صارم کو کیا سمجھتی صارم کتنا اچھا انسان ہے کتنا برا سلوک کیا میں صارم کے ساتھ 
افشاں کا دل چاہ رہا تھا صارم کی بانہوں میں سما جاوں 
صارم کی بے بے پناہ محبت 
دو سال میں صارم کو اگنور کرتی رہی صارم پھر بھی مجھے چاہتا رہا 
رات بھر افشاں خواب دیکھتی رہی کل صارم کے لیئے ناشتہ خود بناوں گی 
صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی 
صارم کو اب کبھی اداس نہ ہونے دوں گی 
رات بیت گئی افشاں اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا 
صارم کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی 
کافی ٹائم گزر گیا صارم نہ اٹھا افشاں کمرے میں گئی محبت سے آواز دینے لگی صارم اٹھ جائیں میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے 
صارم کروٹ کیئے سویا تھا 
افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا دیکھا صارم کا جسم ٹھنڈا پر چکا ہے 
افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا 
صارم کے بستر پہ خون پڑا تھا منہ پہ خون لگا ہوا تھا 
افشاں چیخنے  لگی 
زور زور کر آوازیں دینے لگی صارم اٹھ جاو یہ کیا ہوا آپ کو 
صارم اٹھو نا 
محلے والے اکھٹے ہو گئے ہسپتال لے گئے 
ڈاکٹر نے چیک کیا دیکھا صارم 
ڈاکٹر نے کہا میں نے کہا تھا اسے اپنا خیال رکھو اپنا علاج کرواو 
کسی کو ساتھ لیکر آو لیک  شاید یہ جینا نہیں چاہتا تھا 
افشاں نے روتے ہوئے کہا کیا تھا صارم کو 
ڈاکٹر نے ایک آہ بھری اور کہنے لگا صارم کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بلڈ کینسر تھا 
شاید اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا 
مجھے اکثر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے جیوں  
کوئی ہے ہی نہیں جو مجھے اپنا کہہ سکے 
میرے گھر میرا انتظار  کرنے والا کوئی نہیں ہے 
کوئی نہیں ہے جو مجھے محبت سے پوچھے دن کیسا گزرا 
کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں 
رات کو کمرےمیں اکیلا  درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے 
افشاں زمیں پہ گر گئی صارم یہ کیا کر دیا تم نے 
صارم مجھے معاف کر دو صارم 
میں پاگل ہو گئی تھی 
صارم نہ جاو مجھے چھوڑ کر 
صارم میں مر جاوں گی صارم تمہارے بنا 
صارم کی لاش سامنے پڑی تھی جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کو ترستا رہا 
افشاں صارم کے چہرے کو ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کے اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا 
صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو 
تبسم تو بس اتنا کہتا ہے کسی کے جذبات سے مت کھیلو 
کسی کو اتنا نہ ستاو کے وہ مر جائے 
اپنے ہمسفر کو سینے سے لگا ایک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے ایک دوسرے کو چوم لو
انا میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا 
چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں جب موت آ گھیرے 
محبت بانٹتے رہو 
کسی کے مرنے کے بعد پچھتاوے سے اچھا ہے کسی کو زندگی میں ہی سینے سے لگا لو.

سلطان محمود غزنوی اور محبتِ رسولﷺ


سلطان محمود غزنوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اياز پر بڑے مهربان تھے اور اس سے محبت كرتے تھے ، اسي طرح  اياز كے بيٹے سے بھي محبت كرتے تھے اور چونكه اس كا نام محمد تھا لہٰذا اس كے ساتھ عزت سے پيش آتے ۔ 

نامحرم کی محبت

نامحرم کی محبت کی مثال ایک نشے کے انجیکشن جیسی ہے۔۔۔

جس کے نشے میں ہمیں سب رنگین نظر آتا ھے ۔۔

لیکن جیسے ھمارا نشہ اترتا ہے
 تو ہم اپنی دنیا برباد کر چکے ہوتے ہیں۔۔۔

Tuesday, January 26, 2021

فرمانبرداری والی روزی


گھی والی چوری بندہ طوطے کو بھی ڈالتا ھے اور چوھے کو بھی۔۔ طوطے کو خوش ھو کر ڈالتا ھے اور چوہے کو پھنسانے کیلے اور بطور سزا کے ۔۔۔۔۔ چوہا بڑا خوش ھو رھا ھوتا ھے کہ اتنی اچھی روزی کا خزانہ مل گیا ھے لیکن اس وقت حقیقت سامنے اتی ھے جب لوھے کی تار گردن کا شکنجا بن جاتی ھے جس کو وہ روزی سمجھ رھا تھا وہہ مصیبتوں کا پہاڑ بن جاتی۔۔۔۔ ایسے ہی اللہ تعالی کچھ لوگوں کو روزی خوش ھو کر دیتا ھے اور کچھ لوگوں کو ناراض ھو کر بطور سزا کہ ۔۔۔ 
اب کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ روزی خوش ھو کر دے رھا ھے یا ناراض ھوکر  دے راھا ھے۔۔۔۔ اگر روزی بڑھتی جاے اور ساتھ اللہ کی فرمابرداری بھی بڑھتی جاے اور انسان  جھکتا جاے اپنے اللہ کے سامنے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ خوش ھو کر روزی دے رھا ھے ۔۔۔۔اور اگر روزی بھی بڑھتی جا  رھی ھے اور ساتھ اللہ کی نافرمانی بھی بڑھتی جارھی ھے اور انسان اللہ سے دور ھوتا جا رھا ھے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ ناراض ھوکر روزی دے رھا ھے  ۔۔۔۔روزی حا صل کر لینا کوی کمال کی بات نہیں وہ تو جانور بھی حاصل کر لیتے ہیں اور غیر مسلم ہم سے بھی بہتر حاصل کر لتے ہیں مسلمان ہمیشہ اللہ کی رضا والی روزی حاصل کرتا ھے اور اللہ کی ناراضگی والی روزی سے پناہ مانگتا ھے ۔۔۔۔اچھا جب ایک چوھا پھنستا ھے تو باقی چوھے دیکھ رھے ھوتے ہیں تو پھر کیوں باقی چوہے  پھنس جاتے ہیں وہ اس لیے کہ جب لوھے کی تار چوھے کی گردن پر پڑتی ھے تو چوھے کا منہ  کھل جاتا ھے جو چوری سے بھرا ھوتا ھے اور  تار اتنی باریک ھوتی ھے کہ وہ نظر نہیں اتی چوری سے بھرا منہ نظر ا راھا ھوتا ھے  وہ کہتے یہ نکلے تو ہم بھی یہ چوری کھایں ۔۔۔۔ایسے ہی نافرمان بندے کے اوپر  جو مصیبتوں پریشانیوں اور بیماریوں  کی تار ھوتی ھے وہ دوسرے بندوں کو نظر نہیں ا رھی ھوتی  سامنے چوری سے بھرا منہ نظر ا رھا ھوتا ھے بندے کہتے ہیں اس کا سر نکلے تو ہم پھنسایں اس وقت پتہ چلتا ھے  جب نافرمانی کی وجہ سے روزی کی شکل میں مصیبتیں پریشانیاں اور ذلتیں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

Monday, January 25, 2021

پر عزم انسان

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں 
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا.

قوتِ برداشت

لوہار کی بند دکان میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا...
یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری سے ٹکرا کر بہت معمولی سا زخمی ہو گیا، گھبراہٹ میں سانپ  نے پلٹ کر آری  پر پوری قوت سے ڈنگ مارا، سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا...
اگلی بار سانپ  نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپٹ کر، اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی، دوسرے دن جب دکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا...

بعض اوقات غصے میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا زیادہ نقصان کیا ہے...
اچھی زندگی کیلئے بعض اوقات ہمیں
کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ حادثات کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
 نظر انداز کرنا چاہیئے...
اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیے، ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک رد عمل دکھائیں. ہمارے کچھ رد عمل ہمیں محض نقصان ہی نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری جان بهی لے لیں...

سب سے بڑی قوت۔۔۔ قوتِ برداشت ہے ...

اپنوں سے غداری کا انجام

سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاٶں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے: 

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"...