Thursday, October 23, 2014

Law of Opportunity Cost

اکنامکس کا ایک قانون ہے جو
"Law of Opportunity Cost" 
کہلاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو کام نہیں کیئے جاسکتے
جیسے کوئی طالب علم صبح اٹھے تو اس کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں 1) نیند 2) سکول یا کالج
اب یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک کیا چیز قیمتی ہے؟
وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔
جس کو اختیار کرتا ہے وہ چیز "اوپرچونٹی" کہلاتی ہے۔
جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ "کوسٹ" کہلاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ایک آپشن پبلک ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے دوسرا رکشہ کا ہوتا ہے یا ٹیکسی وغیرہ۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو کیا اختیار کرنا ہے؟ بس یا رکشہ، ٹیکسی؟
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آُپ ایک ہی وقت میں دونوں میں سفر کرلیں!!!
چلیں ایک اور مثال لیں۔
میٹرک کے بعد آپ کے پاس دو چوائس ہیں
میڈیکل یا انجینرنگ
دونوں میں سے ایک چیز لینی ہوگی
ایسا نہیں کہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی بن جائیں اور انجینئر بھی
بالکل سیدھی سی بات ہے۔
اب میں آگے چلتا ہوں۔
دین اسلام کی واجبی معلومات حدیث کے مطابق ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
لیکن اگر اسلام کو گہرائی کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے تو اس کیلیئے ایک عمر بھی ناکافی ہے۔
جو لوگ اسلام کو گہرائی سے پڑھتے ہیں وہ اسی
"Law of Opportunity Cost"
کی وجہ سے سائنس یا ٹیکنالوجی میں گہرائی کے ساتھ غوطہ خوری نہیں کرپاتے۔
(واضح ہو کہ مسلمان سائنس دانوں کی بڑی دھوم رہی ہے لیکن علمی حلقوں میں ان سائنس دانوں کے فتاویٰ جات وغیرہ موجود نہیں ہیں۔)
اسی طرح جو سائنسی ماہرین ہیں وہ اسلامی معلومات کا احاطہ اتنا نہیں کرسکتے جتنا ایک معتبر مفتی کرتا ہے۔
ہمارے لوگ مولوی کو سائنس دان بنانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں
لیکن سائنس دان کو مولوی بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟
ارے بھائی فرق کو سمجھو!
مولوی کا کام ہے قران و سنت میں غور وخوض، لوگوں کو جدید مسائل کا شرعی حل بتانا وغیرہ، اس کو اپنا کام کرنے دو۔
اور جو مسلمان اسلام کی فرض معلومات حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی کامیابی وترقی کیلیئے سائنس ہر کام کرہے ہیں انہیں بھی کام کرنے دیا جائے۔
اگرچہ امور کے لحاظ سے لوگوں کی انکی صلاحتوں اور مصروفیتوں کی حساب سے تقسیم ہوگی
جو کہ فطری بات ہے
لیکن یہ لوگ آپس میں انٹر کنیکٹڈ ہونگے۔
سائنس دان ، مولوی کے ساتھ، مولوی ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
جیسی تقسیم کار کی طرف سورہ مزمل کی آخری آیت میں بھی اشارہ ہے

شوہر کی غیرت

وه مکمل پردے کے عالم میں قاضی کے سامنے کهڑی تهی. اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر رکها تها. مقدمے کی نوعیت بڑی عجیب تهی کہ میرے شوہر کے ذمہ مہر کی 500 دینار رقم واجب الاداء ہے وه ادا نہیں کر رہا.لہذا مجهے مہر کی رقم دلائی جائے
.. قاضی نے خاوند سے پوچها تو اس نے انکار کر دیا. عدالت نے عورت سے گواه طلب کیے.. عورت نے چند گواه عدالت میں پیش کر دیے...
گواہوں نے کہا:" ہم اس عورت کا چہره دیکه کر ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعی وه عورت ہے جس کی گواہی دینے ہم آئے ہیں. لہذا عورت کو حکم دیا جائے کہ وه اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے۔"
عدالت نے حکم دیا کہ عورت اپنے چہرے سے نقاب اتارے تاکہ گواه شناخت کر سکیں.ادهر عورت تذبذب کا شکار تهی کہ وه نقاب اتارے یا نہیں....گواه اپنے موقف پر مصر تهے...
اچانک اس کے شوہر نے غیرت میں آکر کہا" مجهے قطعا یہ برداشت نہیں کہ کوئی غیر محرم میری بیوی کا چہره دیکهے... لہذا گواہوں کو چہره دیکهنے کی ضرورت نہیں .. واقعی اس کے مہر کی رقم میرے ذمہ واجب الاداء ہے...
عدالت ابهی فیصلہ دینے والی ہی تهی کہ وه عورت بول اٹهی..!!
"اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہره دکهلانا برداشت نہیں کرتا تو میں بهی اسکی توہین برداشت نہیں کر سکتی. میں اپنا مہر معاف کرتی ہوں. میں غلطی پر تهی جو ایسے شخص پر کے خلاف مقدمہ دائر کیا.."
______________________________________________
[یہ واقعہ ابن جوزی کی کتاب "المنتظم فی تاریخ الامم والملوک" 403/12 میں دیکها جا سکتا ہے... ماخوذ از سنہری کرنیں]