Thursday, October 29, 2020

دنیا مکافات عمل ہے

کبھی اپنے خوبصورت اور جوان جسم کو دیکھا ہے۔۔؟
کبھی اپنے جوان جسم کا موازنہ کسی بوڑھے اور جھریوں والے جسم سے کیا ہے؟اور یہ سوچا ہے کہ یہ بوڑھا جسم بھی کبھی جوان تھا۔!!خوبصورت تھا۔؟زندگی سے بھرپور تھا۔آپ کے جسم سے زیادہ طاقتور تھا!!۔اس نے بھی زندگی کی خوبصورت بہاریں دیکھی اور جئیں ہوں گی۔یہ بوڑھا جسم کبھی جوان بھی رہا ہو گا۔؟
اور یہ بھی خیال کرنا کہ ایک دن یہ آپ کا خوبصورت اور جوان جسم بھی بوڑھا ہو جائے گا۔؟جوانی کی رعنائیاں ختم ہو جائیں گی۔زندگی رینگنے لگی گی اور آپ قابل رحم ہو جائیں گے۔۔اس وقت آپ کو سہارے کی ضرورت ہو گی۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ کی زندگی بوڑھی اور جسم جھریوں والا ہو  اور اس وقت آپ کا کوئی سہارا بنے ؟
تو بوڑھے جسموں کی عزت کریں ،قدر کریں اور ان کی خدمت کریں۔
بوڑھے لوگوں کی خدمت ،بڑھاپے میں ضرور کام آئے گی۔!
دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔آج جو کرو گے کل کو اس کی جزا یا سزا ضرور ملے گی۔۔
سوچیے گا۔

اللّٰہ اور بندے کا تعلق

اللہ اور بندے کا ساتھ دائمی ہے بےشک باقی سہارے وقتی ہیں تلخ سچائ جیسے دنیا میں آیا تنہا تو اسے جانا بھی اکیلے ہی ہے 
زندگی اکیلے گزاری نہی جا سکتی کسی نہ کسی کا ساتھ ضروری ہے 
ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر درپیش ہو تو بھی انسان رفاقت کا متمنی ہوتا ہے آخر کتنی دیر خود فراموشی میں گزارا جا سکتا ہے کتنی دیر باہر کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کتاب پڑھتے پڑھتے بھی کسی انسان کو پڑھنے کی طلب ہو تی ہے کچھ کھاتے پیتے بھی کسی دوسرے وجود کی تلاش رہتی ہے 
انسان معاشرتی حیوان ہے اسے اپنے جیسے چاہیئں جن کے ساتھ وہ زندگی کا لمبا سفر گزار سکے کسی برے وقت میں دل جوئ پا سکے اپنے دکھ درد بیان کر سکے 
جو کہتے ہیں انہیں کسی کی کوی ضرورت نہی وہ تنہا خوش ہیں اصل میں وہ خود کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں بس وہ کچھ لوگوں کے رویوں سے اکتا کے ایسا کہ رہے ہوتے ہیں بہت سی تلخیوں کا زائقہ چکھ کے بول رہے ہوتے ہیں 
لیکن جیسے ہی ان کا درد محسوس کیا جاتا ہے ان کا دکھ سنا جاتا ہے تو وہ ایسے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے من پسند کھلونا مل گیا ہو اور اسے اپنی خوشی چھپائ نہ جا رہی ہو 
بعض اوقات یہ تعلق درد بانٹنے کے بجاے درد دے بھی جاتے ہیں جو انسیت اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے وہ ایک دم بیگانگی میں تبدیل ہونے لگتی ہے 
جو آغازمیں پرجوش انداز ہوتا ہے وہ سردمہری میں بدلنے لگتا ہے لاپرواہی اور نظر اندازی سہنا پڑتی ہے جو توجہ حاصل ہوتی ہے وہ کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں آپ کو سوچنا ہے یہ ساتھ دائمی نہی تھا اس سفر میں اپ کا اور اس کا ساتھ اتنا ہی تھا بجاے رونے دھونے اور قسمت کو کوسنے کے آپ اسے مثبت انداز میں سوچیں 
جتنا وقت آپ نے ایک دوسرے کو دیا اپنا دکھ درد بانٹا خوشیاں غم شئیر کیے وہی انمول لمحے تھے اب اس سے زیادہ آپ کو نہی مل سکتا اس لیے ماتم روک دیں ہر وقت روتی شکل اور بیزاری بنا کے موت کا خیال نہ سوچیں
اللہ اور بندے کا جو تعلق ہے اسے سوچیں اسے مظبوط کریں جو ملا وہ ایک سنگ میل تھا منزل تو آگے ہے ویہاں تک جانے تک جو راستہ طے ہونا کوی نہ کوی دوسرا ہمسفر مل جانا حرف آخر کوی بھی نہی کم از کم اس دنیا میں۔

اللّٰہ ہی رازق ہے....

بہلول دانا ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے ۔ ایک مرتبہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے پوچھا :
بہلول ! یہاں کیا کر رہے ہو ؟
کہنے لگے : ایسے لوگوں کے پاس ہوں کہ ان کی صحبت مجھے تکلیف نہیں دیتی اور اگر ان سے دور رہوں تو یہ میری غیبت نہیں کرتے ۔
پوچھنے والے نے دوبارہ کہا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے ، اس میں کمی کی دعا کریں ۔
کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! مجھے تو کوئی پرواہ نہیں ، چاہے گندم کے ایک دانے کی قیمت ایک دینار ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اسلئے کہ اللہ پاک کا ہم پر حق ہے کہ ہم اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت کریں اور اللہ پر ہمارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں رزق دے ، جب رزق کی ذمہ داری اللہ پاک نے لی ہے تو مجھے فکر کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ۔ 

انسانیت کی معراج کا سفر

‏ایک بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کِیا "ہے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ؟"
شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا، درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو ‏اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا
ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں

بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ہوا ‏تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اُس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے

شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ہے
بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک کام جو
آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا ‏کیسے کر گیا ؟

بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟

اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے: 
"میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہو گئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے"

‏بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا
اندھے کی رخصتی کے ساتھ ہی میرا غصہ میری انا اور میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہو گئی
 
مجھے سمجھ آ گئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت اور محبت ہی انسایت کی معراج ہے جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا ‏جو نہ سہہ سکا وہ کانچ
بانو قدسیہ آپا ناول "راجہ گدھ" میں لکھتی ہیں کہ "جو دباؤ سہہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ"

مجھے اندھے بابا نے بہت بڑی بات سمجھائی میں جان گیا تھا کہ
اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے
میں نے سوچا انسان آخر کب تک برداشت کرے؟

‏کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟
کب تک اپنے غصے کو پئے؟
آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے
اندر سے آواز آئی
اُس وقت تک سہنا ہے جب تک ہیرا نہ بن جاؤ

ہیرا بننے کے بعد ہیرے پر کوئی دباؤ کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرتی یہاں سے پھر انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔❤

ابھی ریورس گیئر ممکن ہے

بیٹیاں چھوٹی اور بڑی نہیں ہوا کرتیں !! وہ تو بس بیٹیاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"" یار ڈن ہل امپورٹڈ دے آج ! لوکل اہویں ہی ہوتا ہے بس ! ""
رات کسی پہر آنکھ کھلنے پر مجھے دوبارہ فوراً نیند نہیں آتی تو جامع مسجد حنفیہ کے سامنے معین بھائی کے پان سگریٹ کے کیبن کے پہلو میں بچھے اللہ مالک ہوٹل کے پھٹے پر جا کر اکیلا بیٹھ جاتا ہوں ۔ 
شاہراہِ فیصل پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھنا اور چوبیس گھنٹے آباد ہوٹلوں کی اس پٹی پر ہوٹلوں پر خوش گپیاں کرتے لوگوں کو ایک آدھ گھنٹہ دیکھنا میرا معمول کا مشغلہ ہے ۔
آج بھی شب دو بجے آنکھ کھلی تو اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا ۔
امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ مانگنے والا یہ نوجوان کوئی برگر بچہ نہیں تھا ۔
یہ چھبیس ستائیس سالہ ایک پوڈری / ہیرونچی تھا ۔
خواہ مخواہ کسی پر تبصرہ بازی یا جملے کسنا میری کبھی بھی عادت نہیں رہا لیکن اس جملے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنی حسِ ظرافت کا مظاہرہ کروں ۔
یہ پوڈری مڈل کیریئر ٹائپ پوڈری تھا مطلب ابھی ہیروئن اُسے سو فیصد نہیں نچوڑ پائی تھی ۔ ابھی اُس کے چہرے پر کچھ رس اور رونق باقی تھی ۔
کپڑے بھی زیادہ گندے نہیں تھے ۔ ہاتھ عام پوڈریوں کی طرح جگہ جگہ سے جلے ہوئے تھے ۔ پاؤں میلے کچیلے اور سوجھے ہوئے تھے ۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ پاکستانی ڈن ہل میں وٹامن کم ہوتے ہیں جو امپورٹڈ مانگ رہے ہو ۔
وہ دلفریب انداز میں مسکرایا ۔
بس اُس کی مسکراہٹ گھائل کر گئی ۔
کہنے لگا پاکستانی ڈن ہل میں گھاس بھری ہوتی ہے ، امپورٹڈ میں تمباکو ہوتا ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کیا اب بھی تمباکو تمھیں کوئی لطف دیتا ہے ؟
وہی مسکراہٹ کہ یار تمباکو کیا لطف دے گا بس ماں باپ نے اتنے لاڈوں سے پالا تھا کہ توفیق ملتی ہے تو اچھی چیز کو ہی ہاتھ لگاتا ہوں ۔
اُس کی حجامت تازہ تازہ بنی ہوئی تھی ۔ سر پر موجود گھنے سیاہ بالوں میں اکا دکا سفید بال ہی نظر آ رہے تھے ۔
میں نے اپنے پہلو میں پھٹے کو تھپتھپایا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگانے لگا ۔
ہزارے وال ہو ؟ 
نہیں پنجابی ہوں ، بہاولپور سے ہوں ۔
کب سے شغل میلہ کر رہے ہو ؟ میں نے پوچھا
دس سال ہو گئے ہیں ۔
وہ ذرہ برابر جھوٹ یا تکلف سے کام نہیں لے رہا تھا ۔
کیا ریٹ چل رہا ہے آج کل ؟
پانچ سو روپے گرام ہے ۔
شادی شدہ ہو ؟
ہاں پانچ بچے ہیں ۔
ماشاءاللہ کتنی عمر ہے تمھاری ؟
اٹھائیس سال کا ہوں ۔
کیسے شروع کیا یہ سب ؟
رنگ روغن کا کاریگر اور ٹھیکیدار تھا ۔
شادی کے بعد ایک دن گھر میں بیگم کے ساتھ جھڑپ ہوئی تو غصے کی حالت میں ہی کام پر چلا گیا ۔
میرے کاریگروں میں دو تین ہیرونچی بھی تھے ۔ ہیرونچی کام دل لگا کے کرتے ہیں اس لیے کوئی کام مانگنے آتا تھا تو دے دیتا تھا ۔
اُس دن جب میں کام پر پہنچا تو وہ دوا دارو لینے کی تیاری کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ ، ادھر لاؤ ، دیکھوں تو کیا جادو ہے اس میں ۔
بس پھر ایک آدھ مہینے میں ہماری پوری ٹولی ہی مست و مست ہو گئی ۔
کچھ سال اچھی غذا اور کام دھندے کی وجہ سے نظام چلتا رہا پھر دھیرے دھیرے چیزیں ہاتھوں سے سلپ ہوتی چلی گئیں ۔
لیکن تمھارے چہرے پر ابھی کافی رونق باقی ہے ، ماشاءاللہ ،
دس سال بہت ہوتے ہیں ، اس کا کیا راز ہے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا
اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
سب سے بڑا راز سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ چار پانچ سال کی ہے ۔
وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا
ہم سب بھائی اکھٹے رہتے ہیں ۔
مجھے باپ بھائی سب ہی ذلیل کرتے ہیں لیکن بیٹی میرے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں سوتی ۔
ابھی اس وقت بھی وہ گھر میں بستر بدل رہی ہو گی ۔
کبھی اماں کے ساتھ ، کبھی دادی اور کبھی دادا کے ساتھ سونے کی کوشش کر رہی ہو گی ۔ جب تک میں گھر نہیں جاوں گا اُسے نیند نہیں آئے گی ۔
اُسی کی وجہ سے نہا دھو بھی لیتا ہوں اور کٹنگ بھی کروا لیتا ہوں لیکن کبھی کبھار گندا مندا بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے ہی لپٹ کر پرسکون نیند سوتی ہے ۔
گھر کا نظام کیسے چل رہا ہے ؟ 
اچھے وقتوں میں گھر اپنا لے لیا تھا ۔ اُسی میں ابا نے میرے بیٹے کو دوکان کھول کر دے دی ہے ۔ گیارہ سال کا ہے ۔ اور بھائی بھی کام کرتے ہیں ۔ گھر والوں کو کوئی خاص ٹینشن نہیں ۔
بیٹی کی محبت کا خوب جواب دے رہے ہو ؟ میں نے پہلا وار کیا
اُس کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں ۔
وہ بیٹی نہیں بھائی جان ، اب تو جیسے وہ میری ماں ہے ۔
کبھی گھر والوں سے پیسے مانگوں تو جھڑکیاں سننے کو ملتی ہیں ۔
ںیٹی جب دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا تو بیس تیس روپے کے سکے ادھر ادھر دیکھ کر چوری سے میری جیب میں ڈال دیتی ہے کہ " بابا آپ کی سگریٹ کے لیے اکھٹے کیے تھے "
اب تو اُس کی آنکھوں سے باقاعدہ موتیوں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں ۔
یار تیری جان ابھی پوری نہیں جلی ۔ ابھی رہورس گیئر ممکن ہے ۔ سانگھڑ کیوں نہیں جاتے , میں نے دو بندے بھیجے تھے دونوں ٹھیک ہو کر آ گئے تھے ، سُنا ہے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے اُسے دانہ ڈالا
سانگھڑ والے دوا نہیں دیتے بالکل بھی ، میرے دو دوست گئے تھے ، دونوں کی لاشیں واپس آئی ہیں ، بہت سختی کرتے ہیں وہاں ، دوا بالکل نہیں دیتے ، بس اچانک سب کچھ بند کر دیتے ہیں  ۔
پھر کوئی اور جگہ ہے کیا ؟ میں نے پوچھا
ماڈل کالونی میں دارالنجات والے ٹھیک ہیں لیکن مہنگے ہیں بہت ، ہمارے پاس اتنے اکھٹے پیسے نہیں ہیں ۔
کتنے مہنگے ہیں ؟ میں نے پوچھا
پندرہ سو دو ہزار روزانہ کا خرچ ہے ۔ بیس پچیس دن تو لگتے ہیں ۔
میں نے اپنے توشہ خانے میں موجود نوٹوں کو چشم تصور سے دیکھا تو مطلوبہ رقم سے کچھ زائد ہی موجود تھی ، الحمدللہ
معین والے سے پین اور کاغذ لو ۔
وہ پین اور کاغذ لے آیا ۔
اپنا نام اور نمبر لکھ کر دیا کہ کل دارالنجات پہنچ کر فون کر دینا مجھے ، میرے گھر سے پانچ دس منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
لیکن یار ایک مسئلہ اور بھی ہے ۔ لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد وہی حال ہوتا ہے ۔ میں نے یقین دہانی طلب کی ۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہو ، یہ سامنے مسجد ہے اس کے سامنے وعدہ کر رہا ہوں بس ایک بار ہوش میں لے آؤ  مجھے !!!
میں نے اپنی گڑیا کو سیر کرانے سی ویو لے کر جانا ہے ۔ اُس کے سارے سکے میں نے اُسے واپس کرنے ہیں ۔
میں بہت سنگ دل ہوں لیکن اس پوڈری کے آخری ڈائیلاگ نے میری ڈھیٹ  آنکھوں کو بھی نم کر دیا ۔
اچھا اچھا زیادہ ڈائیلاگ نہیں مار کل ملتے ہیں ان شاءاللہ ۔
ابھی فوراً گھر جاؤ ، گڑیا جاگ رہی ہو گی۔

Tuesday, October 27, 2020

ڈپریشن


یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے، میں ایک درمیانے سائز کی کمپنی چلا رہا تھا۔ ہم لوگ امریکی کمپنیوں کو آئی ٹی سلوشن دیتے تھے۔ ہمارے سلوشن دس پندرہ ڈالر مالیت کے ہوتے تھے لیکن ہمارے گاہکوں کی تعداد زیادہ تھی۔ چنانچہ دس پندرہ ڈالر ایک دوسرے کے ساتھ ضرب کھا کر بڑی رقم بن جاتے تھے۔ ہمارے کام کے ساتھ تین ساڑھے تین سو لوگ وابستہ تھے۔

یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ ہم ان کا کام پول کرتے تھے اور اس کی نوک پلک سنوار کر اسے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق بنا کر کمپنیوں کو بھجوا دیتے تھے۔ ہماری زندگی ہموار اور رواں چل رہی تھی مگر پھر اچانک صدر اوبامہ نے پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کر دیں۔ یورپ اور امریکا میں پاکستان کا امیج بھی مزید خراب ہوگیا۔ لہٰذا کمپنیوں کو جوں ہی پتا چلتا تھا کہ ہم پاکستانی کمپنی ہیں وہ ہم سے رابطہ منقطع کر دیتی تھیں۔

یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچ گیا جہاں ہمارا بزنس تیزی سے نیچے آنے لگا ہمارے بینک اکاؤنٹ خالی ہوگئے، لوگ فارغ بیٹھ گئے اور ہم پریشانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ میرا صرف ایک سورس آف انکم رہ گیا اور وہ تھا صحافت۔ میں ان دنوں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا۔

میں ڈپریشن میں ہمیشہ عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیتا ہوں، میں پیدل چل پڑتا ہوں اور چلتے چلتے بعض اوقات کسی اجنبی گاؤں یا دوسرے شہر پہنچ جاتا ہوں یا میں ائیرپورٹ جاتا ہوں اور مجھے جہاں کی فلائیٹ مل جائے میں اس میں چڑھ جاتا ہوں یا میں ٹرین میں سوار ہو جاتا ہوں یا کسی لوکل بس میں داخل ہو کر سارا دن اس میں گزار دیتا ہوں یا پھر انتہائی پرانی تھکڑ ٹیکسی میں گھس جاتا ہوں اور اسے کہتا ہوں تم بس چلتے رہو اور جہاں دل چاہتا ہے اتر کر چل پڑتا ہوں۔ ڈپریشن دور کرنے کا یہ طریقہ میں نے خود ایجاد کیا اور یہ کم از کم میرے سلسلے میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے، میں نے اس دن بھی یہی کیا۔ میں گھر سے نکلا، چوک میں گیا اور انتہائی تھکڑ ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔

یہ 1987ء کی ایف ایکس گاڑی تھی اس کا کوئی پرزہ ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا۔ گاڑی آگے چلنے کے ساتھ ساتھ پھڑک کر دائیں بائیں بھی چل پڑتی تھی۔ ڈرائیور گاڑی سے بھی زیادہ بیمار اور بوڑھا تھا۔ میں نے اس ٹیکسی میں بمشکل ہزار میٹر سفر کیا اور میرا ڈپریشن خوف میں تبدیل ہوگیا۔ میں ڈر گیا اور میں ڈرائیور سے ٹیکسی روکنے کے لیے منتیں کرنے لگا۔ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے بریک لگائی۔ میں نیچے اترا، جیب میں ہاتھ ڈالا، پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر ڈرائیور کو دیا اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے لگا۔

میں نے تھوڑی دیر بعد محسوس کیا کوئی میرے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ میں نے خوف زدہ ہو کر مڑ کر دیکھا، ٹیکسی کا ڈرائیور میرے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ میں رک گیا۔ وہ بیمار اور بوڑھا تھا، وہ بڑی مشکل سے میرے قریب پہنچا، لمبے لمبے سانس لینے لگا اور جب سانس بحال ہوگیا تو اس نے گلوگیر آواز میں کہا، سر میں آپ کے ہاتھ چومنا چاہتا ہوں۔ مجھے میری نام نہاد کامیابی نے اس لیول تک پہنچا دیا ہے جہاں میرے جیسے چھوٹے لوگ خود کو مقدس سمجھنے لگتے ہیں اور ہر شخص سے توقع کرتے ہیں یہ بھی میرا فین ہوگا۔

میں نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو بھی اپنا فین سمجھا اور متکبر لہجے میں کہا، نہیں نہیں، بابا جی کوئی بات نہیں، میں بھی آپ جیسا انسان ہوں۔ڈرائیور نے میری بات پر توجہ دیے بغیر کہا، سر! مجھے چار دن سے کوئی سواری نہیں ملی تھی، میرے گھر میں دو دن سے فاقہ چل رہا تھا، صاحب! آپ فرشتہ بن کر آئے اور مجھے پانچ سو روپے دے دیے، میں اب آٹا اور دال لے کر سیدھا گھر جاؤں گا اور اپنی بیوہ بیٹی اور نواسے نواسوں کو کھانا کھلاؤں گا لیکن میں گھر جانے سے پہلے اپنے محسن کے ہاتھ ضرور چوموں گا۔ وہ یہ کہہ کر میرے ہاتھ کی طرف لپکا اور میرا ہاتھ اپنے گندے اور کھردرے ہاتھوں میں لے لیا اور میں سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔

مجھے اس وقت محسوس ہوا، میرا تازہ تازہ بزنس فلاپ ہوا ہے، میں کریش کر رہا ہوں لیکن میں اس کے باوجود اس شخص کی نظروں میں دنیا کا امیر ترین شخص ہوں، میں اس شخص کی نظروں میں صرف پانچ سو روپے کی وجہ سے ان داتا ہوں، فٹ پاتھ پر اس وقت دو لوگ کھڑے تھے میں اور وہ ڈرائیور۔ میں خود کو ناکام، ڈاؤن اور لوزر سمجھ رہا تھا جب کہ میں ڈرائیور کی نظروں میں دنیا کا امیر اور سخی ترین شخص تھا۔ میں نے فوراً ڈرائیور کا ہاتھ پکڑا اور اس کا رخ موڑا، اسے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود اس کی جگہ کھڑا ہوگیا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس نے مجھے دنیا کی چوتھی سچائی سمجھا دی اور وہ چوتھی سچائی تھی ہم ناکام ہونے، بدحال ہونے اور کریش ہونے کے بعد بھی جہاں پہنچ جاتے ہیں وہ جگہ لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے۔

لوگ نسلوں کی محنت کے بعد بھی اس جگہ تک نہیں پہنچ پاتے جہاں ہم اونچائی سے گرنے کے بعد ناکام ہونے کے بعد ٹک جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت بھی کروڑوں لوگ صرف پانچ سو روپے کے لیے سارا دن فٹ پاتھ پر گزار دیتے ہیں۔ ہمیں جس دن پانی کی بوتل نہیں ملتی اور ہم نلکے کا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، نلکے کا وہ پانی کروڑوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے۔ ہم آدھا برگر اپنی پلیٹ میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں، لاکھوں لوگ برگر کے اس ٹکڑے کے لیے پوری زندگی آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم ریستوران میں ٹرائی کرنے کے لیے چار ڈشیں منگوا لیتے ہیں، پسند نہیں آتیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت بھی ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو ایسے کھانوں کی صرف خوشبو سونگھنے کے لیے کچرا گھروں کا کچرا ادھیڑتے رہتے ہیں۔ ہم چائے کی جگہ کافی پیتے ہیں لیکن ہمارے دائیں بائیں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جن کی نظر میں چائے دنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔ ہم رات سوتے وقت گندے مندے کپڑے پہنتے ہیں، ہمارے چار چار سال پرانے سلیپر ہماری ٹوٹی ہوئی پلیٹس، ہماری پھٹی ہوئی کتابیں، خراب کاپیاں اور ہمارے بچوں کے ناکارہ کھلونے، یہ بھی اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتے ہیں۔ لوگ آٹے کے ایک تھیلے، گھی کے ایک ڈبے اور سر کے ایک دوپٹے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کی دہلیزوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کپڑے خود خرید سکیں، یہ جیب سے پیسے نکالیں اور دکان سے جو چاہیں خرید لیں، یہ مسرت ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے، یہ اس سطح تک پہنچنے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

ہم میٹرک پاس ہیں، ہم بی اے میں تیسرے درجے میں پاس ہوئے اور ہم نے چار سال میں گھسٹ گھسٹ کر ایم اے کر لیا، ہمیں منتوں اور دعاؤں کے بعد کلرک کی نوکری ملی، ہمارے پاس صرف اسکوٹر یا صرف ٹوٹا ہوا سائیکل ہے، ہم ایف ایکس گاڑی چلا رہے ہیں اور ہم دو مرلے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو تین تین نسلوں سے دو مرلے کے اس گھر کو ترس رہے ہیں۔ ممبئی اور کولکتہ میں آج بھی لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں اور پوری زندگی ان فٹ پاتھوں پر گزار کر انھی فٹ پاتھوں پر مر جاتے ہیں اور میونسپلٹی کے سویپر ان کی لاشیں کچرا گاڑیوں میں لاد کر لے جاتے ہیں۔

آپ اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل خیرات کرنے کا اعلان کر دیں آپ کے گھر کے سامنے دنگا ہو جائے گا، لوگ ٹوٹی سائیکل کے لیے ایک دوسرے کا سر کھول دیں گے، یہ ٹوٹی ہوئی سائیکل ان لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا خواب ہے۔ آپ میٹرک کے بعد دائیں بائیں دیکھیں، آپ کو کروڑوں لوگ میٹرک کی سند سے محروم ملیں گے، یہ لوگ نسلوں سے ہائی اسکولوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ اسکول کی دہلیز کے اندر داخل نہیں ہو پا رہے۔ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ کلرک کی نوکری کے لیے اپنے جیسے لوگوں کے تلوے تک چاٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور آپ کو کروڑوں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو آپ کی پالتو بلی اور جرمن کتے کی خوراک کو حسرت سے دیکھیں گے۔

یہ نسلوں کے سفر کے باوجود اس خوراک تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ ہمارے ملک میں آج بھی ننانوے فیصد لوگ ہوائی سفر نہیں کرسکے، یہ ائیر پورٹ کے لاؤنج میں داخل نہیں ہوئے۔ ساٹھ فیصد لوگ پوری زندگی کموڈ پر نہیں بیٹھے اور کافی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، ملک کے 80 فیصد لوگ یہ بھی نہیں جانتے۔ لاکھوں لوگ پینا ڈول کی گولی، شوگر کی ٹیبلٹ اور بلڈ پریشر کی دوا کو ترستے ترستے مر جاتے ہیں۔ لوگ قصابوں کی دکانوں سے چھیچھڑے اکٹھے کر کے پکاتے ہیں، اوجھڑیاں ابال کر کھاتے ہیں، لوگوں کے اترے کپڑے پہنتے ہیں، پانچ پانچ سال لوگوں کے پرانے سلیپر گھسیٹتے ہیں اور حلوے، کیک اور رس ملائی کے ذائقے کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

میں پانچ سال پہلے کاغذ کی ایک سائیڈ پر لکھا کرتا تھا۔ مجھ سے ایک دن میرے ایک ملازم نے کہا، آپ مجھے یہ کاغذ دے دیا کریں۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ وہ بولا، سر! میں اپنی بیٹی کو دے دیا کروں گا، وہ کاغذ کی صاف سائیڈ پر ہوم ورک کر لیا کرے گی۔ میں نے اس کی بیٹی کی کاپیوں اور کتابوں کا خرچ اٹھا لیا اور کاغذ کی دو سائیڈوں پر لکھنا شروع کر دیا اور میں ریستوران میں پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا۔ پیک کراتا ہوں، چوکوں میں کھڑے بچوں کو دیتا ہوں۔ ہم نے کبھی سوچا، ہم زندگی میں جس ناکامی جس محرومی اور جس زوال کو زوال سمجھتے ہیں وہ زوال وہ محرومی اور وہ ناکامی کتنے لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے، لوگ نسلیں خرچ کر کے بھی اس کھجور تک نہیں پہنچ پاتے جس میں ہم آسمان سے گر کر اٹک جاتے ہیں اور باقی زندگی شکوؤں میں گزار دیتے ہیں۔

وہ بوڑھا ڈرائیور میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے کھردرے ہاتھ پکڑ رکھے تھے اورزار و قطار رو رہا تھا اور وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا، وہ حیران تھا میری جیب میں جب پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ ہیں تو پھر میں کیوں رو رہا ہوں، میں کیسے دکھی ہوسکتا ہوں؟ میں اسے کیسے بتاتا، میں ناشکری کے مرض میں مبتلا ہوں اور ناشکری ایک ایسا کینسر ہے جس کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس بھی موجود نہیں۔


*🇵🇰💦📚شعور پاکستان📚💦🇵🇰*
https://chat.whatsapp.com/Lpy9zxt9hwgIRAKzab8DBR

اللّٰہ کی راہ میں صدقہ کرنا

*میرا عزم باشعور پاکستان*


ستاربھائی۔ ۔ ۔ وہ چیونٹیاں مارنے والا پاؤڈر ہے؟ انہوں نے آتے ہی دکاندار سے سوال کیا تھا، جو اسوقت ہمارے لئے کالی مرچ تول رہا تھا۔ 
جی باجی۔ ۔ ۔ ابھی لایا۔ وہ ہماری کالی مرچوں کو چھوڑ کر اندرونی حصے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد کوپیکس پاؤڈر کے گول ڈبے کو جھاڑتا ہوا لے آیا۔ 
یہ کیا ہے ؟ ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔ 
ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔ یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، چیونٹیوں کو مارنے کے لئے۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ انسانی صحت کے لئے مضر بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اپنی پوری دکان میں یہی استعمال کرتا ہوں۔ 
ابّا کے استفسار پر ستار بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔ 
ہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
تو کیا کروں انکل؟ میں تو پریشان ہو گئی ہوں ان چیونٹیوں سے۔ ۔ ۔ بچوں والا گھر ہے میرا۔ ۔ ۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی۔ ۔ ۔ کہنے لگے، ''امی کی زندگی میں تو کبھی ہمیں چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ گھر کو بالکل صاف رکھا کرتی تھیں'' ۔ ۔ ۔  اب آپ ہی بتائیں۔ ۔ ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا میں گھر کی صفائی نہیں کرتی ہونگی؟ کیا میں آپ کو ایسی پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟ 
خاتون نے نہ صرف اپنا دکھڑا رونا شروع کردیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنا شروع کردئے۔
 اور ابّا جو ان سوالات کے لئے بالکل تیار نہ تھے، ایکدم پریشان ہو گئے۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے نجات کے لئے تم ایک مٹھی آٹا ڈال دیا کرو۔ ۔ ۔ یہ بیچاری ننھی مخلوق تو صرف رزق کے لئے باہر آتی ہے۔ ۔ ۔ اور بس۔ ۔ ۔!
ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر،  خاتون نے غیر محسوس انداذ میں دوپٹہ سر پر لے لیا۔ 
جی جی انکل۔ ۔ ۔ مگر کیا اس سے چیونٹیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا؟ وہ اب بھی غیر یقینی انداذ میں ابّا سے پوچھ رہی تھیں۔
کیوں نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اور اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے بھی نجات۔ ۔ ۔ اور صدقے کی نیکی مفت میں۔ 
ابّا ہنسنے لگے تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
چلیں میں بھی پھر۔ ۔ ۔ آٹا۔ ۔ ۔ ہی ٹرائے کرتی ہوں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کوپیکس پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئیں۔
 اور ستاربھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کالی مرچوں کو تولنا شروع کردیا۔ 
ابّا۔ ۔ ۔ تم نے ستار بھائی کی دکانداری خراب کردی ۔  
واپسی پر میں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ یہ بات نہیں۔ ۔ ۔  ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لئے اٹھ گئی ہیں ۔ ۔ ۔  لوگ اللّہ کی مخلوق کا خیال رکھنا بھول چکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتا بھی آکر بیٹھ جاتا تھا، تو گھر کی خواتین اسکے سامنے بھی کچھ نہ کچھ بچا کھچا سالن روٹی رکھ دیا کرتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اب ۔ ۔ ۔ روٹیاں بھی گن کر پکائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ برکتیں کہاں سے آئیں گی پھر؟ ۔ ۔ ۔ اس قوم پر بومب نہ گریں۔ ۔ ۔ زلزلے نہ آئیں۔ ۔ ۔ سیلاب نہ آئیں۔ ۔ ۔  تو اور کیا ہو؟
ابّا تاسف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مجھے آسان زندگی کے گُر سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ 
عرصہ گذر گیا۔ ۔ ۔ 
میں بھی اس واقعے کو بھول گیا۔
پھر ایک دن بڑے بھائی جان کے ہاں جانا ہوا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی لگا تھا کہ، چڑیوں کے جُھنڈ کے اڑنے کی زوردار آواز کانوں میں پڑی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ مین گیٹ کے دونوں جانب مٹی کے کُونڈے رکھے تھے، اور ان کُونڈوں سے چند لمحے قبل یقیناً وہ چڑیاں دانہ چگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور اب میری آمد سے ڈر کر اانہوں نے اڑان بھری تھی۔ مگر ابھی بھی۔ ۔ ۔ وہ اڑ کر دور نہیں گئیں تھیں۔ ۔ ۔ بلکہ اوپری مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ 
بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔ 
یہ کیا ؟۔ ۔ ۔ اتنی ساری چڑیاں۔ ۔ ۔؟ میں نے سلام کے بعد خوشگوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا۔ جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ 
تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں یہ کُونڈے لا کر۔ ۔ ۔ چڑیوں کے دانے کے لئے۔ 
وہ معنی خیز انداز میں بڑی بھتیجی کو دیکھ کر مسکرائیں تو مجھے اچنبھا سا محسوس ہوا۔ 
شام کو بھائی جان آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔
بھائی جان۔ ۔ ۔ یہ چڑیوں کے لئے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے کیا؟ 
نہیں بس ۔ ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔صدقہ دیتے رہنا چاہئے۔ 
بھائی جان نے آہستہ سے سمجھایا۔ ۔ ۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خصوصًا جس گھر میں بیٹیاں ہوں۔ ۔ ۔ پھر بتانے لگے کہ
 کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور پریشان ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح کر پائے گا، کیونکہ غربت کی وجہ سے کوئی اسکی بیٹیوں سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔ 
بزرگ نے مشورہ دیا کہ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ۔ ۔ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ 
غریب آدمی مارے احترام کے بزرگ کو تو کچھ نہ بول پایا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔ 
پاس سے گذرتے کسی دانا نے پوچھا روتے کیوں ہو؟
غریب نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ غربت نے پہلے ہی مار مار کر ادھ موا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اور سرکار نے فرمایا ہے کہ ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ۔ ۔ ۔ تب بیٹیوں کی شادی ممکن ہوگی۔ 
دانا آدمی مسکرا کر بولا
بھلے آدمی۔ ۔ ۔ بھوکا کیا صرف انسان ہوتا ہے؟ اللّہ کی مخلوق ۔ ۔ ۔ چھوٹی ہو یا بڑی ۔ ۔ ۔ بھوک تو سب کو ستاتی ہے۔ ۔ ۔ اگر تم ایک مٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے تو سمجھو تمہارا صدقہ ہوگیا۔ 
دانا آدمی تو یہ کہہ کر اپنی راہ چل دیا۔ ۔ ۔ اور غریب اپنی ناقص عقل پر ہنستے ہوئے اپنے گھر کو چلا۔ کچھ عرصے بعد ہی صدقے کی برکات سے نہ صرف وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوا بلکہ گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔ 
بھائی جان جس وقت یہ واقعہ ہم کو سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے ابا کی ''مٹھی بھر آٹے'' والی بات یاد آرہی تھی۔ 
میں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ان کی صحیح عمر میں ۔ ۔ ۔ بالکل درست موقعے پر کر دیں۔ 
شاید اسی لئے۔ ۔ ۔ جب میں نے اپنا گھر لیا تو سب سے پہلے اپنے دروازے کے پاس چڑیوں کے لئے دانہ رکھ دیا۔ 
کئی بار گھر بدلا۔ ۔ ۔ ہر بار یہ چڑیاں، کبوتر اور کوّے میرے رزق کی آسانیوں کا سبب بنتے رہے۔
 بیماریاں بھی آئیں۔ ۔ ۔ 
پریشانیوں نے بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ مگر ہمیشہ یہ پرندے مجھے آسرا دیتے رہے۔ ۔ ۔
 اِنّا مَعَ العُسرِ یُّسرًا ۔ ۔ ۔ کے معنی سمجھاتے رہے۔ ۔ ۔ اللّہ رب العزت کی بڑائی کا یقین دلاتے رہے۔ 
الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
ثُمَّ الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
میں نے آج تک اپنے بچوں کا بہتا خون نہیں دیکھا۔ ۔ ۔ انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔ 
ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ ہماری مرغی کُڑک ہوجانے کے باوجود انڈوں پر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ وہ دور تھا۔ ۔ ۔ جب میرا گھر ''کبوتروں والا گھر'' کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔ 
یقین مانئیے۔ ۔ ۔ کہ یہ تمام باتیں اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ نعوذ بااللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی نیکیوں کا پرچار کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ میں اس راز کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں جو سوال کی صورت میں مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔  آخر کیسے گذا را کر لیتے ہو؟۔ ۔ ۔ ہم سے تو نہیں ہوتا۔ 
میں نے اپنی زندگی کو اسی ننھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنایا ہے۔ 
تمام بڑائیاں اس رب کے لئے جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں یہ کر سکوں۔
اللّہ ہم سب کو صدقات کی توفیق دے ۔ آمین

مائیں اتنی معصوم کیوں ہوتی ہیں؟


موبائل فون میں ایک مقبول عام ایپ ہے''ٹاکنگ ٹام''۔ آپ جانتے ہوں گے کہ اِس ٹام کے سامنے جو کچھ بولا جاتا ہے یہ اُسے مضحکہ خیز آواز کے ساتھ دُہرا دیتا ہے۔ یہ آپ ہی کی آواز ہوتی ہے جو پچ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ آپ کو سنائی دیتی ہے۔ شہزاد صغیر میرا دیرینہ دوست ہے۔ اُس کی والدہ حیات تھیں تو ایک پرانے اینڈرائڈ موبائل پر بطور خاص ٹاکنگ ٹام سے گھنٹوں باتیں کیا کرتی تھیں۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ ٹاکنگ ٹام سے باتیں کرتیں تو پہلے وضو کرتیں، پھر سر پر چادر اوڑھ کر نہایت انہماک سے گھر کے کسی پرسکون کونے میں بیٹھ کر ٹاکنگ ٹام ایپ کھول کر گفتگو کرنے لگتیں۔ گھر والوں نے پوچھا کہ ماں جی یہ آپ کیا باتیں کرتی ہیں؟ جواب ملا 'میں اسے قرآن پڑھا رہی ہوں'۔ شہزاد صغیر کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ بڑی خوش تھیں کہ ٹاکنگ ٹام نامی یہ بچہ بڑی محنت اور محبت سے قرآن کی آیات سیکھ رہا ہے اور جیسا میں سکھاتی ہوں ویسا ہی آگے سے پڑھتاہے…!!!

کئی برس پہلے میں لاہور کے ایک ٹی وی چینل سے بطور اسکرپٹ ایڈیٹر وابستہ تھا ۔ملتان سے ماں جی بے تابی سے پوچھا کرتی تھیں کہ کب آئو گے؟ میری مصروفیات کچھ ایسی تھیں کہ ایک سال سے پہلے چکر لگانا مشکل ہوتا تھا لہٰذا میں رمضان کے آخری دنوں میں ہرحال میں ملتان پہنچ جایا کرتا تھا تاکہ عید والدین کے ساتھ کرسکوں۔ ایک دفعہ چینل کی تنخواہ کچھ لیٹ ہوگئی۔ پچیسواں روزہ تھا۔ ماں جی کے فون پر فون آرہے تھے کہ تم آکیوں نہیں رہے۔ پہلے تو میں بہانے بناتا رہا لیکن جب اٹھائیسواں روزہ آگیا اور تنخواہ نہ ملی تو مجبوراً مجھے بتانا پڑا کہ ابھی مجھے پیسے نہیں ملے۔ ماں جی کی آواز میں پریشانی امڈ آئی۔فوراً بولیں''میں تمہارے ابو کو لاہور بھیجتی ہوں تاکہ وہ تمہاری ''فیکٹری '' والوں سے جاکر پوچھیں کہ آخر بچے کے پیسے کیوں نہیں دے رہے…''

بیس سال پہلے مجھے ایک اخباری فیچر کی تیاری کے سلسلے میں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔فیچر کا موضوع تھا کہ سزائے موت کے قیدی کیا محسوس کرتے ہیں؟ جیل میں میری ملاقات ایک ایسے قیدی سے ہوئی جسے فخر تھا کہ اُس نے اپنے دو دشمنوں کو سوتے میں موت کے گھاٹ اتاردیا۔ یہ قیدی ایک پچیس سال کا نوجوان لڑکا تھا جسے سزائے موت سنائی جاچکی تھی اور سپریم کورٹ سے بھی اُس کی اپیل رد ہوگئی تھی۔میں نے جیل انتظامیہ سے اُس کے گھر کا ایڈریس لیا اور اُس کی ماں سے ملا۔ جب اسے پتا چلا کہ میں صحافی ہوں اور اُس کے بیٹے سے مل کر آرہا ہوں تو ایک دم رونے لگی اور ہاتھ جوڑ کر بولی''میرے بچے کو چھوٹی سی غلطی کی اتنی بڑی سزا نہیں ملنی چاہیے''۔ میں نے بے بسی سے کہا کہ ماں جی آپ کے بیٹے نے دو قتل کیے ہیں اور اعتراف بھی کرچکا ہے۔ ماں بھرائی ہوئی آواز میں بولی''پُتروہ تو ناسمجھ ہے، جب میں کہہ رہی ہوں کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر یہ لوگ اُسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے…اُنہیں کہو اگر میری بات کا یقین نہیں تو میرا تین مرلے کا سارا مکان گارنٹی کے طور پر رکھ لیں۔''

میرے ایک دوست ریحان علی کے والد فوت ہوئے تو جائیداد کا بٹوارہ ہوگیا۔ والد صاحب کا آبائی گھر بک گیا تو ریحان نے اپنے حصے کے پیسے بھی والدہ کو تھما دیے۔ والدہ نے زندگی میں کبھی دو ہزار سے زائد کی رقم نہیں دیکھی تھی سو پریشان ہوگئیں اور پوچھا کہ یہ کتنے پیسے ہیں؟ ریحان نے بتایا کہ امی دس لاکھ ہیں۔ والدہ مزید پریشان ہوگئیں ۔ ان کی بلا جانے کہ دس لاکھ کیا ہوتے ہیں، نہایت رازدارانہ انداز میں بولیں''پیسے بہت زیادہ لگتے ہیں کہیں گھر میں ڈاکا ہی نہ پڑ جائے ایسا کرو پانچ ہزار بینک میں رکھوا دو ، باقی بے شک یہیں پڑے رہنے دو۔''

پاکستان کے صف اول کے ایک مقبول اداکار بتانے لگے کہ ایک دفعہ انہوں نے ایک ڈرامے میں ایک سنگدل شوہر کا کردار ادا کیا جو اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلیتاہے اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ڈرامے کی بیس اقساط آن ایئر جاچکی تھیں۔اسی دوران اُنہیں اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ جونہی دوست کی والدہ نے اداکار کو دیکھا اُسے نہایت پیار سے ہاتھ پکڑ کر تخت پوش پر بٹھایا اور سمجھانے لگیں کہ بیٹا تمہاری بیوی بہت مشکل میں ہے، نہ اس کے پاس کوئی گھر ہے نہ کوئی ٹھکانا۔ بچے بھی رُل گئے ہیں۔ خدا کے لیے جائو اور اُسے واپس لے آئو ، مجھے پتا ہے وہ اس وقت کہاں ہے۔''

کچھ عرصہ پہلے ایدھی ہوم میں ایک 75 سالہ ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ بہت خوش نظر آئیں۔ حیرت سے پوچھا کہ آپ کی اولاد آپ کویہاں چھوڑ گئی ہے اور آپ اتنی خوش ہیں؟ چہک کر بولیں''وے کملیا! میرے بچوں نے تو مجھ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے''۔ تفصیل پوچھی تو بڑے فخر سے بتانے لگیں کہ ''میرے دو بیٹے ہیں، دونوں شادی شدہ ہیں لیکن میری بہوئیں اچھی نہیں۔مجھے کھانا بھی نہیں دیتی تھیں اور بغیر پنکھے والے کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ اصل میں وہ ہر وقت میرے مکان پر قبضے کے خواب دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر میرے بیٹوں نے مجھے کہا کہ ماں جی یہ چھوٹا سا گھر ہے اسے بیچ دیتے ہیں اور ہم اپنے پیسے بھی ملا کر آپ کے لیے ایک بہت بڑاسا گھر لے لیتے ہیں جہاں ہماری بیویوں کو آنے کی اجازت ہی نہیں ہوگی۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔میں نے گھر اُن کے نام کردیا۔ گھر بک گیا لیکن میرے بچوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور یہ دیکھو مجھے اتنا بڑا گھر لے کر دیا ہے جہاں اتنے سارے پنکھے بھی لگے ہوئے ہیں، کھانا بھی وقت پر ملتا ہے اور میری کوئی بہو یہاں قدم بھی نہیں رکھتی۔اللہ میاں میرے بچوں کو دنیا جہان کی خوشیاں دے۔

عشق اور گناہوں سے توبہ

نوجوانوں کیلئے سبق آموز واقعہ
عشق ۔ ۔!!
بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر عاشق ہوگیا۔ اتفاق سے ایک دن کنیز کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں کسی کام سے بھیجا۔ قصاب کو موقع مل گیا اور وہ بھی اس کنیز کے پیچھے ہولیا۔ جب وہ جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آ کر اسے پکڑ لیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا۔
جب اس کنیز نے دیکھا کہ اس قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا:
''اے نوجوان تُو اس گناہ میں نہ پڑ !حقیقت یہ ہے کہ جتنا تُو مجھ سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالک حقیقی عز و جل کا خوف اس گناہ کے اِرتکاب سے روک رہا ہے!''
اس نیک سیرت اور خوفِ خدا عز و جل رکھنے والی کنیز کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاثیر کا تیر بن کر اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا:
'' جب تُو اللہ عز و جل سے اِس قدر ڈر رہی ہے تو مَیں اپنے پاک پرور دگار عزوجل سے کیوں نہ ڈروں- مَیں بھی تو اسی مالک عزوجل کا بندہ ہوں ، جا....تو بے خوف ہو کر چلی جا۔''
اتنا کہنے کے بعد اس قصاب نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی اور واپس پلٹ گیا ۔
راستے میں اسے شدید پیاس محسوس ہوئی لیکن اس ویران جنگل میں کہیں پانی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ قریب تھا کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے اس کا دم نکل جائے۔ اتنے میں اسے اس زمانے کے نبی کا ایک قاصد ملا۔ جب اس نے قصاب کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا:
''تجھے کیا پریشانی ہے؟''
قصاب نے کہا:'' مجھے سخت پیاس لگی ہے!''
یہ سن کر قاصدنے کہا: ''آؤ! ہم دونوں مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہم پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے اور ہمیں سیراب کرے یہاں تک کہ ہم اپنی بستی میں داخل ہوجائیں۔
''قصاب نے جب یہ سنا تو کہنے لگا:
''میرے پاس تو کوئی ایسا نیک عمل نہیں جس کا وسیلہ دے کر دعا کروں، آپ نیک شخص ہیں آپ ہی دعا فرمائیں ۔''
اس قاصد نے کہا:
''ٹھیک ھے مَیں دعا کرتا ہوں، تم آمین کہنا!''
پھر قاصد نے دعا کرنا شروع کی اور وہ قصاب آمین کہتا رہا،تھوڑی ہی دیر میں بادل کے ایک ٹکڑے نے ان دونوں کو ڈھانپ لیا اور وہ بادل کا ٹکڑا ان پر سایہ فگن ہوکر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا!
جب وہ دونوں بستی میں پہنچے تو قصاب اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا اور وہ قاصد اپنی منزل کی طرف جانے لگا۔
بادل بھی قصاب کے ساتھ ساتھ رہا جب اس قاصد نے یہ ماجرا دیکھا توقصاب کو بلایا اور کہنے لگا:
'' تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نیکی نہیں ، اور تم نے دعا کرنے سے اِنکار کردیا تھا۔ پھر میں نے دعا کی اورتم آمین کہتے رہے ،لیکن اب حال یہ ہے کہ بادل تمہارے ساتھ ہو لیا ہے اور تمہارے سر پر سایہ فگن ہے، سچ سچ بتاؤ! تم نے ایسی کون سی عظیم نیکی کی ہے جس کی وجہ سے تم پر یہ خاص کرم ہوا؟''
یہ سن کر قصاب نے اپنا سارا واقعہ سنایا۔اس پر اس قاصد نے کہا:
'' اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ دوسرے لوگوں کا نہیں ۔''
بے شک گناہ سرزد ہونا انسان ہونے کی دلیل ہے مگر ان پر توبہ کر لینا مومن ہونے کی نشانی ہے-
ع(حکایتِ سعدی)

نصوح کون تھا



دلچسپ تحریر
نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر
 (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو
سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس 
چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،
لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا 
نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،
قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔

آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ 
وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔
بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، 
بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔

جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔

چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔

ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ 
ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے 

نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔

وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا:
اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے  
یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے
یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو،
وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیشیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔ (اخذ مولانا جلال الدین رومی)

سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام اللہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی۔ 
اللہ تعالیہم سب کو توبہ کرنے، اور تا دم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین۔

معاشی حالات

مولانا نے نمازِ جمعہ کا سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک نمازی نے بلند آواز سے مولانا صاحب سے گزارش کی کہ مہربانی فرما کر پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کیلئے بھی دعا فرما دیں..
‏مولانا صاحب نے نظر بھر کر نمازیوں کی طرف دیکھا اور کہا اس سے پہلے ایک ضروری اعلان ہے، مولانا صاحب نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے کہ کسی کے تین‏ ہزار روپے گرے ہیں جس کے ہوں وہ نشانی بتا کر لے سکتا ہے اس کے بعد دعا ہوگی اسکے ساتھ فوراً ہی 5 نمازی کھڑے ہوگئے۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ یہ پیسے مجھے میری بیوی نے دیئے ہیں سودا سلف لانے کے لئے آپ سب تشریف رکھیں اور دوسروں کو ٹوپیاں پہنانے سے باز آ جائیں.. پاکستان کے معاشی حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

Sunday, October 25, 2020

اپنی انفرادیت

اپنے آپ کو اٹھائیے

گرنے کے بعد لوگ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ خود کو جھاڑتے کیوں نہیں؟ پچھلے بیس سالوں میں اس ایک سوال نے مجھے جستجو اور تحقیق کی نئی دنیاؤں سے ملوایا ہے۔ 

لیڈرشپ کوچ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ بغیر لگی لپٹی کے اپنا پورا سچ آپ کو بتا دیتے ہیں۔

میری طرح آپ نے اپنے آس پاس ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے جو درجنوں پنچ کھا کے، گرکے، بار بار اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں زندگی نے ایک آدھ پنچ مارا اور آج کئی سال بعد بھی وہ وہیں مُنہ کے بل گرے پڑے ہیں۔ 

میری بیس سالہ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ لوگ گرنے کے بعد بہت ساری خود ساختہ دلیلیں دے کے خود کو  قائل کر لیتے ہیں کہ پھر سے اُٹھ کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ایک بار گرنے کو حتمی ہار سمجھ لیتے ہیں۔ 

بہت سے لوگ گرنے کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔ 

ہم میں سے کچھ لوگ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم تو گرے ہی نہیں ہیں۔ 

کئی میرے جیسے سمجھتے ہیں کہ اُنہیں جان بوجھ کے گرایا گیا ہے لہذا وہ احتجاجاً وہیں پڑے رہتے ہیں۔ 

کچھ لوگ پڑے پڑے کسی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جو ہاتھ تھام کے اُنہیں اُٹھائے گا۔ 

بعض لوگ اس معجزے کا انتظار کرتے ہیں کہ ابھی کوئی آ کے اُنہیں اس ڈراؤنے خواب سے جگائے گا یہ کہہ کر کہ یہ تو "ٹرائی بال" تھی۔ ابھی تو میچ شروع ہی نہیں ہوا۔ 

کئی ایسے بھی ہیں جو  مزید مُکے پڑنے سے بچنے کے لئے وہیں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

کچھ لوگ اُٹھنے کی سکت رکھتے ہوتے ہیں لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا پنچ اتنا موثر نہیں ہوگا۔ ایک اور پنچ کھا کے دوبارہ یہیں واپس آنے سے بہتر ہے کہ اُٹھاہی نہ جائے۔ 

آپ کا جو بھی بہانہ ہے۔ آپ نے جو بھی بتا کے خود کو پڑے رہنے کے لئے قائل کیا ہے۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں۔ میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے۔

اپنی طرف ہاتھ بڑھائیے۔ خود کو اُٹھائیے۔ اپنے دل و دماغ سے اس عارضی شکست کی گرد کو جھاڑ دیجئے۔ اور نئے ولولے کے ساتھ، نئی لگن کے ساتھ، نئی اُمید کے ساتھ محمد علی کی طرح اگلے راؤنڈ کی تیاری میں لگ جائیے۔

قیصر عباس 
مصنف:  کامیابی مبارک

انسان اور اللّٰہ سے بندگی

سوال: انسان رب تعالی کے ساتھ بندگی کیسے قائم کر سکتا ہے ؟
سرفراز شاہ صاحب 
انسان لالچ ، ڈر یا پھر محبت کی وجوہات کی بنا پر حکم کی تعمیل کرتا ہے ۔وہ لوگ جو نوکر پیشہ ہیں وہ اس بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ فرض کریں جون کے مہینے میں آپ کا باس آفس ٹائمنگ ختم ہو نے سے ایک گھنٹہ پہلے ایسا کام دے دے جو کہ چار پانچ گھنٹوں میں ختم ہو گا تو آپ بہانے بنائیں گے کہ اس فائل سے متعلقہ فائل تو جس کے پاس تھی وہ تو جا چکا ہے یا اس طرح کوئی اور بہانہ ،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ میری ترقی باس کی سفارش پر ہو گی ۔آپ کے دِل میں اگر چہ یہ لالچ ہوگی لیکن آپ یہ کام اگلے دن پر ڈال دیں گے ۔اس کے بعد جب آپ گرمی سے نڈھال گھر پہنچیں گے تو چھوٹا بچہ ٹانگوں سے لپٹ کر کہے گا کہ اسے قریبی دوکان سے ٹافیاں لے دو۔تو میں گرمی کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے آپ اس کے ساتھ دوکان پر جاکر ٹافیاں لے دیں گے اور اس کی خوشی دیکھ کر آپ بھی خوش ہوجائیں گے۔
بچے کی فرمائش پوری کرنے میں بڑا کردار اس محبت کا ہے جو آپ کا ا س کے ساتھ ہے۔
میری گزارش ہے کہ رب تعالی کے ساتھ تعلق ڈر ،خوف یا لا لچ کا بنانے کی بجائے محبت اور عشق کا بنائیں ۔اس سے ہم اللہ کے احکام سے روگردانی نہیں کر پائیں گے ۔جب رب تعالی سے رشتہ جڑ جاتا ہے توا س کی تعمیل ہو تی چلی جاتی ہے ۔بندگی یہ نہیں کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں بلکہ اس کا چھوٹا سا چھوٹا حکم بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہو اور اس کی تعمیل ہو تی رہی یہ بندگی ہے ۔

مقبولیت اور شہرت کا کیڑا

مقبولیت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
شہرت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
آپ ہر دل عزیز ہیں، یہ کیڑا ذہن سے نکال دیں
آپ اہم ہیں۔۔۔ یہ کیڑا بھی ذہن سے نکال دیں
ناموری اور سماجی مقام و مرتبہ کے کیڑے چن چن کر ذہن سے نکال دیں۔

آپ جتنے بھی مشہور و مقبول، اہم یا ہردلعزیز ہیں، ۔۔۔۔۔۔ چند مہینے یا چند سال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو کر دیکھ لیجئے۔۔۔۔۔ آپ کے چودہ طبق ضرور روشن ہو جائیں گے۔ زمانے کا کارواں، رواں دواں ہے اور وہ آپ کے بغیر بھی رواں دواں رہے گا۔

آپ اہم نہیں، آپ کا کام اہم ہے۔ 

اہمیت اس علم کی ہے جو آپ نے دنیا کو دیا۔ 
اہمیت اس نقطہ نظر اور رائے کی ہے جس کے مثبت اثرات زمانے پر ثبت ہوئے۔ 
اہمیت اس رہنمائی کی ہے جو آپ نے کسی کو منزل تک پہنچانے میں کی۔ 
اہمیت اس کوشش کی ہے جو آپ نے عصرِ رواں کی تابناکی بڑھانے میں کی۔ 
اہمیت اس دِیئے کی ہے جو آپ نے جہالت کی تاریک راہوں میں روشن کیا۔ 
اہمیت ان الفاظ کی ہے جو آپ کے قلم سے نکل کر کسی کی زندگی کو جگمگا گئے۔

سو، جانے دیجئے اس بات کو کہ زمانہ آپ کو یاد رکھتا ہے یا نہیں۔ آپ کو سراہتا ہے یا نہیں۔ 

صرف اس عہد کو یاد رکھئے جو آپ نے اپنے قلم سے کِیا ہے کہ یہ اٹھے گا تو صرف سچائی کے لئے۔۔۔۔۔ یہ چلے گا تو اس لئے کہ زمانے کی اقدار کو بلند تر کرے اور نسلِ نو کے دلوں میں علم سے محبت کی شمع روشن کرے۔
ڈاکٹر یونس خان

اصل زندگی


دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف *"کرسڈا روڈریگز"* نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے جسمیں اس نے اصل زندگی اور موت کی حقیقت واضح کی ہے
1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔
2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔
3. بینک میں کافی رقم ہے۔ لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
 4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔
5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جا سکتی ہوں ۔ لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔
6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹو گراف دیے ۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹو گراف ہے۔
 7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔
8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
9. اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔
    یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔
    بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے اور موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

اہل اللّٰہ کی مجالس


جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.

ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو اسے وہ سامان
جو گٹھڑیوں میں بندھا پڑا تھا نظر آگیا . وہ ایک ہاتھ ہونے کے باعث ان کو اٹھا کر لے جانے سے قاصر تھا اور ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کسی کو اس سامان کو اٹھا لے جانے کیلئے مدد کیلئے لایا جائے کہ اسی اثنا میں حضرت جنید بغدادی ؒ نماز تہجد کیلئے نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائے.ڈاکو کی نظر آپ پر پڑی اور اس نے سمجھا کہ شاید یہ اس گھر کا کوئی نوکر ہے جو مالکوں کے بیدار ہونے سے قبل گھر کے کام کیلئے بیدار ہوا ہے.اس نے حضرت جنید بغدادیؒ کو نہایت سخت آواز میں اپنے پاس بلایا''ادھر آئو! اور یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے سر پر رکھو''حضرت جنید بغدادیؒ اس کی جانب بڑھے اور گٹھڑی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی. اس نے جب دیکھا کہ گھر کا ایک نوکر اس کے رعب میں آچکا ہے اور اس کے احکامات کی جوں کے توں تعمیل کر رہا ہے تو اس نے بجائے اپنے سر پر گٹھڑیاٹھوانے کے حضرت جنید بغدادیؒ کے سر پر گٹھڑی اٹھوانے کا ارادہ کیا اور انہیں اسی سخت لہجے میں حکم دیا کہ ''میرے سر پر یہ گٹھڑی نہ رکھو بلکہ اپنے سر پررکھو''. حضرت جنید بغدادیؒ آمادہ ہو گئے ، اس نے اپنے ایک ہاتھ سے گٹھڑی آپؒ کے سر پر رکھنے میں مدد کی ، جب آپؒ نے گٹھڑی سر پر اٹھا لی تو اس نے حکم دیا کہ'' جلدی کرو اور میرے ساتھ چلو ،فجر ہونیوالی ہےاور سورج کی روشنی ہو جائے گی اس سے پہلے پہلے تم نے یہ گٹھڑی میری مطلوبہ جگہ تک چھوڑ کر آنی ہے اور اگر تم نے دیر کی تو میں ڈنڈے سے تمہاری مرمت کروں گا''.
حضرت جنید بغدادیؒ اپنا مال اپنے سر پر رکھ کر اس کے گھر کی جانب چل پڑے.حضرت جنید بغدادیؒ راستے میں تھک گئے ، وزن زیادہ ہونے کے باعث آپ کا سانس بھی پھول چکا تھا،آپ کی رفتار آہستہ ہو جاتی جس پر وہ بدنام زمانہ ڈاکو آپ کو ڈنڈے سے مارنے لگ جاتا یہاں تک حضرت جنید بغدادیؒ وہ گٹھڑی سر پر اٹھائے اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں اور گھر واپس آجاتے ہیں.بدنام زمانہ ڈاکو نے ایک دن گزارا، وہ رات کو نہایت اطمینان سے سویا اور اگلی صبح اٹھا . اسے خیال آیا کہ جس گھر میں میں نے گزشتہ روز چوری کی واردات کی ہےاور سامان سرکا اسی گھر کے نوکر کے ذریعے یہاں تک لایا ہوں کہیں وہ میرا راز فاش نہ کردے، مجھے اس سے متعلق خبر رکھنی چاہئے اور چل کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہاں لوگ جمع ہیں یا نہیں اگر تو جمع ہوئے تو یقیناََ اس نوکر نے میرا راز فاش کر دیا ہو گا اور وہ تفتیش کر رہے ہونگے اور اگر وہاں خاموشی ہوئی تو یقیناََ نوکر نے میرے متعلق کسی کو ڈر کے مارے نہیں بتایا ہو گاچنانچہ وہ آپؒ کے گھر کی جانب چل پڑا . وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ لوگ آرہے ہیں اور گھر میں قطار در قطار داخل ہو رہے ہیں.گھر میں داخل ہونے والے افراد حلئے سے نہایت پرہیز گار اور متقی لگ رہے تھے. وہ بڑا حیران ہوا اس نے کسی سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں.اسے بتایا گیا کہ کیا جانتے نہیں کہ یہ گھر ایک بہت بڑے شیخ ، پیر کامل کا ہے.
اس نے استفسار کیا کہ کیا میں ان کو دیکھ سکتا ہے. بتایا گیا کہ ہاں دیکھ سکتے ہو، معلومات دینے والے نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گھر میں داخل ہو گیا. اس دوران ڈاکو نے اپنا کٹا ہواہاتھ چھپا لیا کہ کہیں گھر کا نوکر اسے پہچان نہ لے. گھر میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ وہی نوکر جس سے اس نے گٹھڑی اٹھوائی اور گھر تک مارتا ہوا لے گیا تھا وہ مسندِ ارشاد پر تشریف فرما ہے.معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ حضرت جنید بغدادیؒ ہیں جو ولی کامل ہیں . اس کے دل کی دنیا بدل گئی، آپ کی مجلس میں گناہوں سے توبہ کی اور آپ سے بیعت ہوا. 
روایات میں آتا ہے کہ 
بغداد کا یہ بدنام زمانہ ڈاکو پھر ایسا ہوا کہ حضرت جنید بـغدادیؒ نے اسے اپنی خلافت عطا فرمائی. 

اللہ والوں کی مجلس کا اپنا ہی اثر ہے. کہاں بغداد کا مشہور چور اور ڈاکو اور کہاں جنید بغدادیؒ کا خلیفہ. 
یہ اللہ والوں کی محفل کا اثر تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی اور راہ راست اختیار کی۔"

*_(بحوالہ تذکرہ اولیاء)_*

Saturday, October 24, 2020

سخاوت کی بہترین مثال

بھائی صاحب! مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں..... مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔*
*انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔*
*غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔*
*یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔*
*وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔*
*اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔*
*غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
*اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
*جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے. رضی الله تعالیٰ عنہ

مال ودولت کی حقیقت

"مال ودولت کی حقیقت" اور تعلق مع القرآن۔۔۔

1۔ لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔ اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا، قبر بنوائی، اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گیا ، لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا لیکن لاش نہیں ملی تاکہ اسے اس قبر میں دفن کیا جائے، جو اس نے خود بنائی تھی۔

2۔ برطانیہ کا ایک بہت بڑا مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر" تھا۔ وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی۔ اس نے اپنے عظیم الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم وزر سے بھرا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہوا۔ دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔اس نے زور زور سے چیخ وپکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔ اس کی عادت یہ تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب رہتا تھا۔ جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔
وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی، اس نے اپنی انگلی کو زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا  "دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"
اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔

*یہ پیغام ہے، ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ* مال و دولت ہی ہر مشکل کاحل ہے اور دنیا کی ہرضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔

*دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب؟ ، کیسے؟ اور کہاں جانا ہے؟*
*انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے، گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر  لوٹتا ہے لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹنا نہیں  ہے۔*

*مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں، نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ سب کو جانا ہے۔*

*ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآنِ مجید سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا کوئی آدمی مرا ہے؟ اس نے کہا، ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔*

*قیدی اس لئے قرآنِ مجید مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔

* مریض ہسپتال میں اس لئے قرآنِ کریم مانگتا ہے تاکہ الله تعالیٰ اس کے مرض کو دور کرے۔

*  اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا ، کاش میں قرآنِ مجید پڑھتا تو آج میرا غمخوار ہوتا۔

اور آج نہ ہم قیدی ہیں، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تمنا کرے، بلکہ قرآنِ مجید آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، آنکھوں کے سامنے ہے، تو کیا ہم اس بات کا انتظار کریں کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآنِ مجید کو طلب کریں؟

اے الله قرآنِ مجید کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش، نفوس کا مددگار، قبر کا ساتھی اور روز محشر میں سفارشی بنا دیں۔ آمین۔ 🤲🏻

"قرآنِ مجید کی قدر کیجئے"

چار علم

حاتم_طائی_نے_کہا_تھا، "
میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چٹکارا پالیا…!!" کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں_ _ ؟ حاتم_طائی نے جواب دیا_ _ _ !! _
 پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھاہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے، نہ کم_ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا _ 
دوسرا یہ کہ اللہ کا دیا ہوا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر  سکتا _ اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا_ _ 
تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈونڈھ رہی ہے میری موت_ میں اس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا_ _ 
چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باحبر رہتا ہے_ چنانچه میں نے اس سے شرم رکھی اور برے  کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ 
یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشغل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنالیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اور مطمئن ہو جائیگی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔

بیگ کی تلاشی

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھا کہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔

ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔

کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔کیا بات ہے؟" مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔۔

کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔

ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔۔ نہیں مس میں چور نہیں ہوں

"چور۔۔۔نہیں ہو تو پھر بیگ کی تلاشی لینے دو" "نہیں" ۔۔

کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا "نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی" ۔۔۔

ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی ۔

ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ۔۔۔

رک جاو ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔

انہوں نے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔۔۔

پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔

انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا "تم نے پیسے چرائے؟۔""نہیں" اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔ 

کوثر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے "بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔"

پرنسپل متانت سے بولیں "جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟" 

کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔

ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔

اس میں کیا راز ہے ؟ وہ سوچنے لگی۔۔

اور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔۔۔

پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر استفسار کیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔۔۔

مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ 

طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ کوثر کی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر، سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔

سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ۔۔ 

وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔۔۔۔

کوثر نے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔۔۔

دیگر 3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والد صاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔

میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔

پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔
جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں.

خدارا اپنے اردگرد ایسے سفید پوش لوگوں کا خیال رکھا کریں..... یہ اپنی عزت کو غربت پر ترجیح دیتے ہیں ایسے لوگوں کی عزت کا خیال رکھیں اللہ آپکی عزت کا خیال رکھے گا۔۔۔

گناہ سے توبہ

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے،  اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ 
بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھی۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو، دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔ 
تو بادشاہ نے  فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟ 
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اس گناہ کو بار بار کرتے ہیں

زکوٰۃ

ھم "تربوز" خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟..
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت  تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکے یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے "زکوۃ" فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک.. اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ

Friday, October 23, 2020

جو چاہئے سو مانگیے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،
وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی، وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے، مسافر سمجھ کر خدمت کی، بادشاہ بہت خوش ہوا، جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہو کہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا،
 کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ، تو وہ دیہاتی بڑے میاں محل کے دروازے پر پہنچے، کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی، کہنے لگا نہیں مل سکتے، مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہو اُسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے، چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا، اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے، پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے تھوڑی دورچلاگیا،
 جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراً لے کر آو وہ ہمارا محسن ہے، واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ، تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔*
*یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہو یا چھوٹی ٬اس کا سوال صرف اللہ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔

مہمانداری اور ظرف

عرب کے لوگ قافلوں اور مسافروں کو لوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے اور راہ گزرتے لوگوں کو لوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ...

انہی وقتوں کی بات ہے ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُنکی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل یہ قافلہ اُن کے قریب پہنچا، اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا اور تمام سامان لوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے ...

غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی ...

میرے پیارو! اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا انتظام کرنے لگیں اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا، اِس لیے آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی، 
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گُھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسے قسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گُھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا ...

یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ :
" ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی ...؟ "

قافلہ سالار نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ :
" جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں ... "

جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے ہوئے ایک ڈاکو قافلہ سالار سے بولا :
" یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں ...؟ "

قافلہ سالار نے مسکراتے ہوئے کہا :
" برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا ... "

قافلہ سالار کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے :
#تو_پھر_سب_کچھ_جاننے_کے_بعد_بھی_آپ_نے_ہمارے_ساتھ_اتنا_اچھا_سلوک_کیوں_کیا ...؟ "

قافلہ سالار بولا :
" یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپ کے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، اللہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا ... "

عیب اور انکار

#لڑکی_دیکھنے_کے_بعد_ریجیکٹ_نہ_کیجئے

میں ڈاکٹر فاطمہ ہوں کل میں ڈیوٹی پر معمور تھی کہ ایک خودکشی کا ایمر جنسی کیس آ گیا خود کشی کرنے والی لڑکی کا نام منتہیٰ تھا اور میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور گزری زندگی میں پہلی بار اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی ۔۔۔۔
مریضہ حالت بیہوشی میں تھی اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے اسکے والدین تھے والدین بھی ماشاءاللہ بہترین پرسنیلٹی کے مالک تھے مگر اس وقت بیٹی کے عمل نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا رکھا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی پر پیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بے انتہا کا ترس آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لایا گیا آپریٹ کے بعد اس کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور والدین کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے لڑکی کی خیریت کا پتہ چلتے لڑکی کا والد غرباء میں کچھ تقسیم کرنے کے لئیے نکل گیا تو لڑکی کی ماں کو میں نے اپنے آفس میں بلوا لیا ۔۔۔۔۔ 
مختصراً لڑکی کی ماں نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی 

لڑکی کا نام منتہیٰ ہے اور منتہیٰ نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کر رکھی ہے پڑھائی کے بعد تمام والدین کی طرح منتہیٰ کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے اس لئیے انہوں نے منتہیٰ سے اس کی پسند کے متعلق پوچھا تو منتہیٰ نے مشرقی لڑکیوں کی طرح فیصلے کا اختیار ماں باپ کو دے دیا والدین نے منتہیٰ کو کے رشتے کی بات چلائی تو منتہیٰ کو دیکھنے ایک فیملی آئی لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں منتہیٰ کے کمرے میں آئیں کسی نے منتہیٰ سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی کسی نے بولنے اور کسی نے منتہیٰ کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد اجازت لے کر چلے گئیے اور چند دن بعد بنا کوئی بات بتائے رشتے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کے لئیے پہلی بار تھی جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے منتہیٰ کو حوصلہ دیا اور ایک بار پھر منتہیٰ کو دیکھنے کے لئیے فیملی آئی ۔۔۔۔ 
انہوں نے بھی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد منتہیٰ کے ہاتھ سے۔ چائے پینے کی فرمائش کی اور چائے کے بعد اجازت چاہی تین دن انتظار میں رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔ 

اس انکار پر منتہیٰ کے ساتھ ساتھ اس مے والدین بھی اندر ٹوٹ پھوٹ گئیے مگر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر رہے پھر ایک نئی فیملی آئی ۔۔۔ 
اس فیملی کی خواتین کے بیٹھتے ہی منتہیٰ نے ان کے جوتے تک اپنے ہاتھوں سے اتارے وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلوائے  اور پھر چائے پیش کی ۔۔۔۔ 

اس فیملی نے ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ہے ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آئے مہمان کی اتنی خدمت کہاں کرتا ہے 

پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد لوگ رشتے دیکھنے آئے مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر چلے گئے  کل ایک فیملی آئی انہوں نے لڑکی کو باقی ہر لحاظ سے ٹھیک قرار دیا مگر یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ منتہیٰ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک اڑتالیس سالہ بیٹا جس کی اپنی دوکان ہے اس کے لئیے منتہیٰ قبول کر لیتے ہیں  ۔۔۔۔۔ 

اتنا کہتے ہوئے منتہیٰ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی اور کہا آپ بھی تو ماں ہیں سوچیں ماں جتنی بھی مجبور ہو غیروں کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہے ؟

اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی رہی ہے کہتی رہی ہے ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ماں اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ وہ کہتی تھی میرا منحوس سایا میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا  ۔۔۔۔۔ 

میں (ڈاکٹر)  نے منتہیٰ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے میں اس کا والد اور پیچھے وارڈ بوائے داخل ہوا آ کر بتایا کہ منتہیٰ ہوش میں آ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کی ماں بجلی کی تیزی سے وارڈ میں پہنچی منتہیٰ کا سر اٹھا کر سینے لگا کر میں(ڈاکٹر) اور اور منتہیٰ کا والد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے منتہیٰ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگی اور سسکتے ہوئے کہا پاپا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں پاپا آپ نے کیوں بچایا مجھے ؟
مجھے مرنے دیتے میرا منحوس سایا اس گھر سے نکلے گا تو گڑیا کی شادی ہو گی نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑھی پڑھی بوڑھی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ 

منتہیٰ کا باپ چپ چاپ آنسو بہا رہا تھا جب میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو منتہیٰ کو سکون اور انجیکشن دے دیا اور منتہیٰ کے والدین کو لے کر آفس  میں آگئی میں نے منتہیٰ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لئیے مانگ لیا اور منتہیٰ کے والدین کی آنکھیں اچانک برسنے لگیں مگر اس بار آنسو خوشی کے تھے ۔۔۔۔ ۔

میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ قبول کر چکے ہیں ۔۔۔۔

آخر میں آپ لوگوں سے التجا کرتی ہوں آپ شادی عورت سے کر رہے ہوتے ہیں حور سے نہیں خدارا کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی رکھ کر سوچیں میں ڈاکٹر ہونے کی حثیت سے کہتی ہوں اگر عیب کی بنا ریجیکٹ کرنا ہو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہوں مجھ سے دنیا کے کسی بھی فورم پر کوئی بھی بندہ بحث کر لے میں ثابت کر دوں گی مرد میں عیب عورت سے زیادہ ہیں میں ہاتھ جوڑ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر التجا کرتی کسی کو بلا وجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ اللہ کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالیں اللہ آپ کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا  ۔۔۔۔ 
آپ کے نکالے عیب اور انکار لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں 

ٹرینڈ آف سٹیٹس

گریجوایشن کے بعد یو دوران تعلیم ایک اور مسلہ جو خاص طور پر خواتین کو پیش آتا ہے وہ "سٹیٹس" کا۔ہماری بہت ساری طالبات دوران تعلیم ہی "ٹرینڈ آف سٹیٹس" کی دوڑ میں سینکڑوں پریشانیاں مول لےلیتی ہیں اور گریجوایشن کے فوری بعد ہی دھڑام سے گرتی ہیں۔آج کی تحریر میں میرا مرکزی نقطہ طالبات یا گریجوایشن کے بعد"گرلز" کی طرف ہے۔تاہم اس میں لڑکوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
ٹرینڈ آف سٹیٹس کا مطلب ہے وہ ظاہر کرنا یا بتانا جو آپ حقیقت میں نہیں ہوتے یونیورسٹی میں یہ سب چلتا ہے اور بہت سارے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں مثلاً یونیورسٹی میں ہماری ایک دوست تھیں جو ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایسا پیش کرتی تھیں کہ
 "شی بیلانگز ٹو اے ہائ پروفائل فیملی"
پوری ڈگری میں بجائے لیکچر تیار کرنے کے اس کو یہی فکر ہوتی تھی تو کہ آج کون سی ڈریسنگ کرکے اپنی ساتھی فیلوز کو جلانا ہے مگر جیسے ہی ڈگری مکمل ہوئ تو ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ سٹیٹس کی جس دوڑ کا وہ یونیورسٹی میں شکار ہوئ اب وہ اس کے گلے پڑ گیا ہے اور اسے عادت سی ہوگئ ہے چونکہ دوران سٹڈی تو خرچہ گھر سے آتا ہے تو فکر نہیں ہوتی 5 یا دس ہزار اوپر نیچے کرکے کام چلایا جاسکتا ہے مگر ڈگری کے بعد پیسے بند ہوجاتے ہیں اور جاب بھی نہیں ہوتی اس بنا پر اب وہ ہماری دوست مینٹل ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے اور مجھے یہ کہانی سن کر رحم اور افسوس دونوں ہوئے۔
ہمارے نوجوان بھی تقریباً سارے تو نہیں تاہم ایسے ہی بہت سارے ہیں جو اسی کشمکش کا شکار ہوکر کئ پریشانیاں مول لے لیتے ہیں۔
ایک سے ایک بڑھ کے ایک پریشانی جب آپ کو محض 24 سال کی عمر میں لگے گی تو اگلے 20 سال جو مستقبل کی پلاننگز کے ہیں اس میں تو ہمارا زہن باکل ماوف ہوچکا ہوگا وہ سال جس میں آپ نے جاب ڈھونڈنی ہے پھر گھر بسانے کے لیے پلاننگز کرنی ہیں شادی کرنی ہے تو یہ سب چل نہیں سکتا جب کچی عمر میں ہی دوران تعلیم جہاں اتنی پریشانیاں ہوں وہاں فضول پریشانیاں پالنے کی بجائے تھوڑے کو حاصل کرکے شکر ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
بدقسمتی یہ ہے دوران لیکچر بھی ہم ایسی نصیحتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں اور باہر کنٹین پر جب نوجوان یا لڑکیاں مل کر بیٹھی ہوں تو وہاں بھی ایسی باتوں کا کلچر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ تحریر محض تحریر نہیں بلکہ چند الفاظ میں شئیر کردہ وہ تجربات اور آنکھوں دیکھے حال ہیں۔
جھوٹ موٹ کا سٹیٹس درد سر بنتا ہے۔دوران تعلیم جب یونیورسٹی میں ہوں تو وہاں اگر سیکھنے کو بڑھایا جائے چاہے وہ خود اعتمادی ہو، گرومنگ ہو،  مستقبل کی پلاننگز ہو مگر یہاں میں گریڈز کی بات نہیں کروں گا کیونکہ گریڈز کا ٹرینڈ بھی سب سے خطرناک ٹرینڈ ہے۔
شکر اور صبر وہ سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی گرنے نہیں دیتی جس کے دیر پا اثرات ہوتے ہیں ٹرینڈ آف سٹیٹس میں زہنی سکون نہیں کیونکہ ہر اگلے دن اس ٹرینڈ کو جاری رکھنے کے لیے رات کو منصوبہ بندی کرکے سونا پڑتا ہے۔
آپ جینز میں ہوں یا سادہ شلوار قمیض میں کبھی مایوس مت ہوں اور سفر کو خوبصورتی سے جاری رکھیں سادگی وہ گُر ہے جس کو کوئ گرہن نہیں ہاں جب اللہ توفیق دے اور آپ بہترین جگہ پر پہنچ جائیں ضرورت کے مطابق خوب سے خوب پہنیے، زیب تن کیجیے کیونکہ وہ آپ کا حق ہے آپ کی پروفیشنل زندگی ہے
جو ملتا ہے اس کو خوشی سے قبول کیجیے جتنی خوشی محسوس کریں گے اتنے ہی اندر سے پرسکون ہونگے جتنے اندر سے پرسکون ہونگے اتنا ہی تیزی سے سیکھیں گے اور بہت جلدی منزل تک پہنچیں گے ان شاءاللہ

رشتے جب بار بار تکلیف دیں

سوال:  دل سے بندھے رشتے جب بار بار تکلیف دیں تو ان کو ہر بار کیسے معاف کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
فرض کریں کہ آپ کا گھر دو کمروں کا ہے جہاں پر آپ کے ساس سسر نے بھی رہنا ہے ،آپ دونوں میاں بیوی اور بچوں نے بھی رہنا ہے۔آپ تنگی سے زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی سب سے پہلی کوشش ہو گی کہ بڑا گھر لے لیا جائے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب ہمارے دل چھوٹاہو نے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو دل کو بڑا کر لیں ،یہ بڑا سادہ سا جواب ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے امام اعظم حضرت محمد وﷺنے کبھی کسی کی زیادتی یا ظلم کا بدلہ نہیں لیا توہمیں بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے ۔تقلید کا مطلب ہے کہ ایک انسان گیلی زمین پر پاؤں رکھتے ہو ئے خشک قطعہ پر پہنچ جائے تو گیلی زمین پر اس کے قدموں کے نشان پر اپنا پاوں رکھتے ہو ئے آپ بھی وہاں پہنچ جائیں گی ۔اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی زرعی زمین سے بہت اچھی فصل لینا چاہتے ہیں تو زمین پر بہت گہرا ہل چلاتے ہیں ،اس کے بعد بیج ڈالتے ہیں ۔زمین کو گہرائی سے پھاڑتے ہیں بہ ا لفاظ دیگر زمین کو زخمی کرتے ہیں ۔یہ بات سمجھ لیں کہ دِل جب خلق خدا کی باتوں سے زخمی ہو تا ہے تووہاں گھاؤ لگتے ہیں۔رب کے قریب وہی آدمی ہوتا ہے جس کے دل میں گھاؤ زیادہ لگے ہو تے ہیں ۔جتنے بھی ولی اللہ گزرے ہیں کیوں کہ ان کی بیویاں بہت تند خو اور سخت مزاج تھیں تو ان کے دل پر گھاؤ لگتے رہے ،وہ صبر کرتے رہے تو اللہ پاک نے انہیں انعام دیااور اسی لیے وہ اللہ کے قریب ہو گئے۔جب بھی کو ئی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو بس مسکرائیے۔آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ کچھ عرصے میں آپ کے مرید ہو جا ئیں گے ۔

معاشرے میں بہتری کیسے

مچھلی پانی میں پیدا ہوتی ہے اسے کیا معلوم کہ یوں پانی میں رہنا ڈوب کر مرنے کا باعث ہے،
جنات آگ کے بنے ہیں انھیں کیا معلوم کہ آگ جسم کو جلا دیتی ہے،
کیڑے مکوڑے زیر زمین رہتے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں کہ زیر زمین مردے دفن کئے جاتے ہیں،
اسی طرح جب ہم برائی کے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں
تو ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اچھائی کی سفارشات کیا ہیں،
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب ٹی وی پہ کسی اشتہار میں کسی جراثیم کش صابن پر بھروسے کی بات کی جاتی تھی
تو مجھے بڑا عجیب لگتا تھا کہ بھروسا تو صرف اللہ پر ہوتا ہے کسی صابن پر کیونکر بے فکر بھروسا ممکن ہے،
لیکن آج کیونکہ پرورش ہی ٹیلیویژن کے سامنے ہوئی ہے
تو ایسا کوئی بیان محض ایک فقرہ محسوس ہوتا ہے،
آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ جب ابتدا میں ہم نے ڈرامے دیکھنا شروع کئے تھے
تب ہمیں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈرامے کے کئی مراحل پر ناگواری محسوس ہوتی تھی...
لیکن آج کسی صابن کے اشتہار میں
جب ایک خاتون کو نہاتے ہوئے جسم پر صابن لگاتے دکھایا جاتا ہے تو جنبش بھی پیدا نہیں ہوتی
کیونکہ مچھلی کی طرح پانی میں رہ رہ کے ہم یہ بھول چکے ہیں
کہ یوں پانی میں رہنا ڈوبنے کا باعث ہے،
آج فلمی انداز کے نیم برہنہ لباس جب ہم اپنی معصوم بچیوں کو پہناتے ہیں تو درحقیقت ہم اس ناری ماحول کی طرف انھیں لے کے جا رہے ہوتے ہیں جو جسم کو جلا دیتا ہے،
یونیورسٹی میں کسی لڑکی کے ساتھ مل بیٹھنا اب والدین کو بھی برا نہیں لگتا
کیونکہ ہم مینڈک کی طرح گرم پانی میں خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں،
تہذیب جو کسی مذہب اور خطے کا لباس ہوتی ہے اسے ہم تاریخ کی کتابوں میں بند کرتے جا رہے ہیں
ٹیلیویژن کی سکرین سے لے شادی بیاہ اور منگنی کی تقاریب تک ہم ایک جس ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں
یہ ماحول کل تک ہمارے آباؤ اجداد کے سامنے حد درجہ قابل نفرت تھا،
میرے عزیز ہم وطنو، اپنے آپ کو دیکھو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچاو کہیں ہم اس آگ کے تو نہیں بنتے جا رہے جو کل تک ہمیں جلاتی رہی تھی؟
شرم و حیا جو مسلمان کے لیے کئی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے کہیں ہم یہ ڈھال پھینک تو نہیں رہے؟
کہیں ہم وہ بیج تو نہیں بو رہے جس کی جڑیں کل کو ہماری عمارت ہی اکھاڑ پھینکیں گی.... ؟؟؟؟؟
اک چھوٹی سی کوشش اپنی آنکھیں کھولنے کی۔