Friday, October 9, 2020

فطرت یا ادب


ایک مشہور قصہ ہے کہ فارس میں ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بن گیا۔ اس نے آتے ہی باپ کی بنائی کابینہ میں ردوبدل کردیا۔ ایک سابق وزیر انتہائی ذہین و فطین اور تجربہ کار تھا، بادشاہ نے اس سے بھی وزارت چھین لی۔ کئی لوگوں نے اس وزیر کیلئے بادشاہ سے سفارش کی لیکن بادشاہ نہ مانا۔ اس کا کہنا تھا۔ ''اس شخص میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ میرے باپ نے اسے نہ جانے کیوں وزیر بنایا تھا۔'' اصرار مزید بڑھا تو بادشاہ نے ایک شرط رکھی کہ میں وزیر سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر اس نے صحیح جواب دے دیا تو میں اسے کابینہ میں لے لوں گا۔ سب لوگ مان گئے۔ سابق وزیر کو بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا۔ ''یہ بتائو فطرت غالب رہتی ہے یا ادب…؟'' وزیر نے جواب دیا۔ ''ادب ایک مصنوعی چیز ہے جبکہ فطرت اصل چیز ہے۔ یہ کسی بھی وقت ادب پر غالب آجاتی ہے۔'' بادشاہ کو جواب پسند نہ آیا۔ وہ اسے سب کے سامنے رسوا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے وزیر کو اگلے دن کھانے پر بلوایا۔ دوسرے دن جب دربار سج گیا، دسترخوان بچھ گیا تو بلیاں شمعیں اٹھاتی ہوئی آئیں اور دسترخواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ بادشاہ نے فخریہ انداز میں سابق وزیر سے پوچھا۔ ''یہ بتائو ،کیا ان بلیوں کے باپ شمع ساز تھے یا ان کی مائوں نے یہ کام کیا تھا؟'' سابق وزیر نے کہا۔ ''بادشاہ سلامت! آپ مجھے کل تک کی مہلت دے دیجئے، میں عملی جواب دوں گا۔'' بادشاہ نے کہا۔ ''ٹھیک ہے۔'' دوسرے دن ایک بار پھر دسترخوان بچھایا گیا، بلیاں شمعیں اٹھائے دستر خواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ سابق وزیر نے آستین کو جھٹکا تو اس میں سے ایک چوہا نکلا۔ بلیوں نے جیسے ہی چوہے کو دیکھا، سب اس کی طرف لپکیں۔ ادب آداب قصہ ماضی بن گئے، شمعیں دربار میں گر پڑیں، افراتفری مچ گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے سابق وزیر نے کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے دیکھا، فطرت کیسے غالب آگئی۔ جب بلیوں کو چوہا نظر آیا تو وہ ادب آداب بھول گئیں۔'' یہ سن کر بادشاہ نے ہار مان لی اور وزیر کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔

*بے شک فطرت غالب رہتی ہے، ادب آداب وقتی ہوتے ہیں ۔ جس طرح موقع ملتے ہی بلیوں نے ایک چوہے کو دیکھ کر اپنی اصلیت ظاہر کردی تھی۔ بزرگوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ اگر سنو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو یقین کرلینا مگر کسی کی فطرت بدل گئی ہے، اس کا یقین کبھی مت کرنا کہ عادات بدل سکتی ہیں، فطرت نہیں۔*

No comments:

Post a Comment