بیٹیاں چھوٹی اور بڑی نہیں ہوا کرتیں !! وہ تو بس بیٹیاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"" یار ڈن ہل امپورٹڈ دے آج ! لوکل اہویں ہی ہوتا ہے بس ! ""
رات کسی پہر آنکھ کھلنے پر مجھے دوبارہ فوراً نیند نہیں آتی تو جامع مسجد حنفیہ کے سامنے معین بھائی کے پان سگریٹ کے کیبن کے پہلو میں بچھے اللہ مالک ہوٹل کے پھٹے پر جا کر اکیلا بیٹھ جاتا ہوں ۔
شاہراہِ فیصل پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھنا اور چوبیس گھنٹے آباد ہوٹلوں کی اس پٹی پر ہوٹلوں پر خوش گپیاں کرتے لوگوں کو ایک آدھ گھنٹہ دیکھنا میرا معمول کا مشغلہ ہے ۔
آج بھی شب دو بجے آنکھ کھلی تو اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا ۔
امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ مانگنے والا یہ نوجوان کوئی برگر بچہ نہیں تھا ۔
یہ چھبیس ستائیس سالہ ایک پوڈری / ہیرونچی تھا ۔
خواہ مخواہ کسی پر تبصرہ بازی یا جملے کسنا میری کبھی بھی عادت نہیں رہا لیکن اس جملے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنی حسِ ظرافت کا مظاہرہ کروں ۔
یہ پوڈری مڈل کیریئر ٹائپ پوڈری تھا مطلب ابھی ہیروئن اُسے سو فیصد نہیں نچوڑ پائی تھی ۔ ابھی اُس کے چہرے پر کچھ رس اور رونق باقی تھی ۔
کپڑے بھی زیادہ گندے نہیں تھے ۔ ہاتھ عام پوڈریوں کی طرح جگہ جگہ سے جلے ہوئے تھے ۔ پاؤں میلے کچیلے اور سوجھے ہوئے تھے ۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ پاکستانی ڈن ہل میں وٹامن کم ہوتے ہیں جو امپورٹڈ مانگ رہے ہو ۔
وہ دلفریب انداز میں مسکرایا ۔
بس اُس کی مسکراہٹ گھائل کر گئی ۔
کہنے لگا پاکستانی ڈن ہل میں گھاس بھری ہوتی ہے ، امپورٹڈ میں تمباکو ہوتا ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کیا اب بھی تمباکو تمھیں کوئی لطف دیتا ہے ؟
وہی مسکراہٹ کہ یار تمباکو کیا لطف دے گا بس ماں باپ نے اتنے لاڈوں سے پالا تھا کہ توفیق ملتی ہے تو اچھی چیز کو ہی ہاتھ لگاتا ہوں ۔
اُس کی حجامت تازہ تازہ بنی ہوئی تھی ۔ سر پر موجود گھنے سیاہ بالوں میں اکا دکا سفید بال ہی نظر آ رہے تھے ۔
میں نے اپنے پہلو میں پھٹے کو تھپتھپایا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگانے لگا ۔
ہزارے وال ہو ؟
نہیں پنجابی ہوں ، بہاولپور سے ہوں ۔
کب سے شغل میلہ کر رہے ہو ؟ میں نے پوچھا
دس سال ہو گئے ہیں ۔
وہ ذرہ برابر جھوٹ یا تکلف سے کام نہیں لے رہا تھا ۔
کیا ریٹ چل رہا ہے آج کل ؟
پانچ سو روپے گرام ہے ۔
شادی شدہ ہو ؟
ہاں پانچ بچے ہیں ۔
ماشاءاللہ کتنی عمر ہے تمھاری ؟
اٹھائیس سال کا ہوں ۔
کیسے شروع کیا یہ سب ؟
رنگ روغن کا کاریگر اور ٹھیکیدار تھا ۔
شادی کے بعد ایک دن گھر میں بیگم کے ساتھ جھڑپ ہوئی تو غصے کی حالت میں ہی کام پر چلا گیا ۔
میرے کاریگروں میں دو تین ہیرونچی بھی تھے ۔ ہیرونچی کام دل لگا کے کرتے ہیں اس لیے کوئی کام مانگنے آتا تھا تو دے دیتا تھا ۔
اُس دن جب میں کام پر پہنچا تو وہ دوا دارو لینے کی تیاری کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ ، ادھر لاؤ ، دیکھوں تو کیا جادو ہے اس میں ۔
بس پھر ایک آدھ مہینے میں ہماری پوری ٹولی ہی مست و مست ہو گئی ۔
کچھ سال اچھی غذا اور کام دھندے کی وجہ سے نظام چلتا رہا پھر دھیرے دھیرے چیزیں ہاتھوں سے سلپ ہوتی چلی گئیں ۔
لیکن تمھارے چہرے پر ابھی کافی رونق باقی ہے ، ماشاءاللہ ،
دس سال بہت ہوتے ہیں ، اس کا کیا راز ہے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا
اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
سب سے بڑا راز سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ چار پانچ سال کی ہے ۔
وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا
ہم سب بھائی اکھٹے رہتے ہیں ۔
مجھے باپ بھائی سب ہی ذلیل کرتے ہیں لیکن بیٹی میرے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں سوتی ۔
ابھی اس وقت بھی وہ گھر میں بستر بدل رہی ہو گی ۔
کبھی اماں کے ساتھ ، کبھی دادی اور کبھی دادا کے ساتھ سونے کی کوشش کر رہی ہو گی ۔ جب تک میں گھر نہیں جاوں گا اُسے نیند نہیں آئے گی ۔
اُسی کی وجہ سے نہا دھو بھی لیتا ہوں اور کٹنگ بھی کروا لیتا ہوں لیکن کبھی کبھار گندا مندا بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے ہی لپٹ کر پرسکون نیند سوتی ہے ۔
گھر کا نظام کیسے چل رہا ہے ؟
اچھے وقتوں میں گھر اپنا لے لیا تھا ۔ اُسی میں ابا نے میرے بیٹے کو دوکان کھول کر دے دی ہے ۔ گیارہ سال کا ہے ۔ اور بھائی بھی کام کرتے ہیں ۔ گھر والوں کو کوئی خاص ٹینشن نہیں ۔
بیٹی کی محبت کا خوب جواب دے رہے ہو ؟ میں نے پہلا وار کیا
اُس کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں ۔
وہ بیٹی نہیں بھائی جان ، اب تو جیسے وہ میری ماں ہے ۔
کبھی گھر والوں سے پیسے مانگوں تو جھڑکیاں سننے کو ملتی ہیں ۔
ںیٹی جب دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا تو بیس تیس روپے کے سکے ادھر ادھر دیکھ کر چوری سے میری جیب میں ڈال دیتی ہے کہ " بابا آپ کی سگریٹ کے لیے اکھٹے کیے تھے "
اب تو اُس کی آنکھوں سے باقاعدہ موتیوں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں ۔
یار تیری جان ابھی پوری نہیں جلی ۔ ابھی رہورس گیئر ممکن ہے ۔ سانگھڑ کیوں نہیں جاتے , میں نے دو بندے بھیجے تھے دونوں ٹھیک ہو کر آ گئے تھے ، سُنا ہے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے اُسے دانہ ڈالا
سانگھڑ والے دوا نہیں دیتے بالکل بھی ، میرے دو دوست گئے تھے ، دونوں کی لاشیں واپس آئی ہیں ، بہت سختی کرتے ہیں وہاں ، دوا بالکل نہیں دیتے ، بس اچانک سب کچھ بند کر دیتے ہیں ۔
پھر کوئی اور جگہ ہے کیا ؟ میں نے پوچھا
ماڈل کالونی میں دارالنجات والے ٹھیک ہیں لیکن مہنگے ہیں بہت ، ہمارے پاس اتنے اکھٹے پیسے نہیں ہیں ۔
کتنے مہنگے ہیں ؟ میں نے پوچھا
پندرہ سو دو ہزار روزانہ کا خرچ ہے ۔ بیس پچیس دن تو لگتے ہیں ۔
میں نے اپنے توشہ خانے میں موجود نوٹوں کو چشم تصور سے دیکھا تو مطلوبہ رقم سے کچھ زائد ہی موجود تھی ، الحمدللہ
معین والے سے پین اور کاغذ لو ۔
وہ پین اور کاغذ لے آیا ۔
اپنا نام اور نمبر لکھ کر دیا کہ کل دارالنجات پہنچ کر فون کر دینا مجھے ، میرے گھر سے پانچ دس منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
لیکن یار ایک مسئلہ اور بھی ہے ۔ لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد وہی حال ہوتا ہے ۔ میں نے یقین دہانی طلب کی ۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہو ، یہ سامنے مسجد ہے اس کے سامنے وعدہ کر رہا ہوں بس ایک بار ہوش میں لے آؤ مجھے !!!
میں نے اپنی گڑیا کو سیر کرانے سی ویو لے کر جانا ہے ۔ اُس کے سارے سکے میں نے اُسے واپس کرنے ہیں ۔
میں بہت سنگ دل ہوں لیکن اس پوڈری کے آخری ڈائیلاگ نے میری ڈھیٹ آنکھوں کو بھی نم کر دیا ۔
اچھا اچھا زیادہ ڈائیلاگ نہیں مار کل ملتے ہیں ان شاءاللہ ۔
ابھی فوراً گھر جاؤ ، گڑیا جاگ رہی ہو گی۔
No comments:
Post a Comment