ایک بندے کا جنازہ دیکھا تو اتنی رش تھی کہ پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی میں نے کہا کوئی بڑے بندے کا ہوگا تو شامل ہوگیا پھر دوائی لینے آیا جنازہ گاہ کے قریب تو دوائی والے کو میں کہہ رہا تھا بہت زیادہ رش تھی کوئی بڑا بندا ہوگا ،
تو دوائی والا بولا نہیں جناب یہ آگے کہی پے چوکیدار تھا میں بڑا حیران ہوا کہ آج کل کے دور میں چوکیدار اور اتنی رش تو دوائی والا بولا جناب میں بھی حیران تھا آپ کی طرح لیکن جب پتہ لگا تو حیرت میں اضافہ ہوا کہ یہ چوکیدار 40 لوگوں کے گھر کا چولہا جلاتا تھا بس میرے پاس اب تک الفاظ نہیں ہیں کہ اسکی کیا تنخوا ہوگی اور کیسے پورا کرتا ہوگا یار 40 لوگ ؟
اسی طرح میں نے پاکستان کی ایک کمپنی کے ملازم کا واقعہ سنا اپنے کزن سے کہ کسی کمپنی میں ایک ملازم کام کرتا تھا تو حج کی قراندازی میں اسکا نام نکل آیا سننے میں آتا ہے کہ بد عمل تھا نماز وغیرہ نہیں پڑھتا تھا جب آذان ہوتی تھی تو غائب ہوجاتا تھا، ملازم نے پیسے لے لیے لیکن حج پر نہیں گیا دوبارہ جب کچھ عرصے بعد قراندازی ہوئی پھر اسی ملازم کا نام نکل آیا دوبارہ نہیں گیا اور پیسے وصول کرلیے تیسری بار کہتے ہیں پھر قراندازی ہوئی اسی ملازم کا نام نکل آیا اسکے باس وغیرہ حیران ہوگئے اور کہا یہ کیا وجہ ہے 3 بار اسی کا نام آرہا ہے،
میٹینگ کی اس ملازم سے گزارش کی کہ اللہ کی مانو اور چلے جاؤ تمہارا بلاوا ہے بہت منتیں کرنے کے بعد ملازم نے کہا مجھے میرے سال کی تنخوا دیدو میں چلا جاتا ہوں کہتے ہیں باس لوگ خوش ہوۓ کہ یہ وہاں جاۓ گا تو اوروں کا نصیب ہوگا کہتے ہیں وہ ملازم وہاں گیا اور مکہ میں نماز کے دوران سجدہ کرتے ہوۓ اللہ کو پیارا ہوگیا ،
جب خبر اسکے مالکان کو پہنچی وہ حیران ہوۓ کہ اتنی اعلی موت وہ بھی ایسے شخص کی جو عبادات دین سے بہت دور تھا اس کے مالکان اس کی بیوی کے پاس پہنچ گئے اور اس سے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ زندگی گزاری ہے لیکن اس میں کوئی نیک عمل ہمیں نظر نہیں آیا بتاؤ یہ کیا وجہ ہے کہ اتنی مبارک موت اسکو نصیب ہوئی کہتے ہیں بیوی چھپاتی رہی ،
لیکن بہت اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اور تو کسی عمل کا نہیں پتا لیکن ساتھ گلی میں ایک مکان ہے وہاں ایک بیوہ عورت رہتی ہے اس کے دو چھوٹے بچے ہیں اس عورت پر علاقے والوں کی نظریں ہیں اور میرے خاوند نے کہا یہ آج کے بعد میری بہن ہے اس کو کوئی بھی نہیں دیکھے گا اور اس کو جو تنخواہ ملتی ہے اس تنخواہ میں سے اس کی اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرتا تھا اور حج کے پیسوں سے ان کے قرضے ختم کرتا تھا رب تعالی نے اپنے پاس بلا کر موت دی یہ سنتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے ،
اور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ایک فرمان یاد آگیا کہ رب کو پانے کے لیے 50 کلومیٹر 100 کلومیٹر 500 کلو میٹر والے راستے بھی ہیں لیکن ایک راستہ زیرو کلومیٹر کا ہے اور وہ ہے
"اللہ کی مخلوق کو کھانا کھلانا "
No comments:
Post a Comment