Sunday, August 30, 2020

ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﮦ

ﮬﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ۔۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﻭ ﻭﺣﺸﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ ﺷﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺗﺎﺗﺎﺭﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ​ ﺗﮭﯿﮟ، ﺟﻨﮑﻮ ﮐﻮ ﺁﺝ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﻮﻻ، ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮﺩﻭ !
ﺍﻭﺭ ﺟﻼﺩ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺌﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺌﯽ، ﺗﯿﺴﺮﮮ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﮐﯽ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮯﻗﺼﻮﺭ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻏﺮﯾﺐ ﻗﯿﺪﯼ ﺟﻮﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻔﯿﻞ، ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮈﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺻﻔﺎﯾﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ​ ﮔﺮﺯ ﻟﯿﮯ ﺍﭼﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﮟ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﺟﻼﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻭﺍﺭ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ ، ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ​ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ،
ﺟﻼﺩ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﭼﻼ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺭﮮ ﺍﭼﮭﻞ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮐﭧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺟﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﮭﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ؟ ﺍﺱ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺑﮉﮬﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﺗﮏ ﺑﭽﮯ ﮔﺎ ؟
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺟﻼﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮﮐﺮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ، ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮔﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﻼﺩ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﯽ ،
ﺭﮎ ﺟﺎﻭ ! ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ ،
ﺑﺎﺑﺎ ﺑﺘﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ،
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ،
ﺑﺎﺑﺎ ﺍﺏ ﺑﺘﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﻒ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ، ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﻮ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﻭ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻮﺕ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﭽﯽ، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ، ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﺅﮞ​ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﯿﺴﯽ ﺣﺎﻡ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﮩﮑﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺑﮭﻼ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺱ ﻭﺍﺣﺪ ﻻﺷﺮﯾﮏ ﺭﺏ ﭘﺮ ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﺎ، ﻭﮦ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺫﺍﺕ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ،
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮑﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﺯ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﭼﺎﺑﮏ ﺩﺳﺖ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺟﻨﮕﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻻﮎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮔﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮑﮍ ﻟﮯ، ﺍﺳﯽ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﻭﮞ ﺭﮐﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﭘﮍﺍ، ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ، ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﮐﯽ، ﻟﺸﮑﺮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﺳﺮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﭩﺦ ﭘﭩﺦ ﮐﺮ ﺍﺳﻘﺪﺭ ﻟﮩﻮﻟﮩﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﺗﮑﺒﺮ ﺑﮭﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﮩﻨﻢ ﺭﺳﯿﺪ ﮨﻮﮔﺌﯽ ،
ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﺮ ﺑﺮﮮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﻼ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﻮﻓﺰﺩﺍﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺑﺎ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﻭﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﻝ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ٬
ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ !
ﯾﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ۔
*_ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﺍﮐﺒﺮ _*
*_ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﻭﺑﺤﻤﺪﮦ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺍﻟﻌَﻈِﯿﻢ _*

Saturday, August 29, 2020

رشتے

دادا ابو ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ:
دین محمد کے بیٹے کی شادی تھی 
*لیکن دین محمد کا بڑا بھائی کسی بات پر کچھ عرصے سے خفا تھا.*
بیٹے کی شادی قریب آئی تو دین محمد نے اپنے بڑے بھائی کو منانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں.
کیسے ممکن تھا کہ دین محمد کے بیٹے کی شادی میں دین محمد کا بڑا بھائی اور دلہے کا تایا ہی موجود نہ ہو؟
کیونکہ پہلے اس بات کو بہت غلط سمجھا جاتا تھا کہ
جس سے اپنے سگے رشتے نہیں سنبھالے جاتے وہ آنے والے رشتے یا بننے والے رشتے کیا خاک سنبھالے گا؟
🧐
آج کل تو خیر ہم لوگ ماڈرن ہو چکے ہیں اب تو باپ کے بنا بیٹے کی اور ماں کے بنا بیٹی کی بھی شادی ہو جاتی ہے تو پھر باقی رشتے کس کھیت کی مولی ہیں؟
😈⛺😈
دین محمد اپنے بیٹے کو لے کر اپنے بڑے بھائی یعنی دلہا کے تایا کے گھر پہنچ گیا اور منانے کی ہر ممکن کوشش کی.
بڑے بھائی سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی اور پیر پکڑ کر ہر طرح کی منت سماجت بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا.
اگلے روز ہی بارات لے کر لڑکی والوں کی طرف جانا تھا.
جب بڑا بھائی جانے کیلئے تیار نہیں ہوا تو دین محمد نے اپنے بیٹے یعنی دلہے کو بڑے بھائی کے گھر کے باہر ایک دیوار کے ساتھ بٹھا دیا
 اور بڑے بھائی سے یہ کہتے ہوئے واپس پلٹ گیا کہ
"صبح نو بجے بارات کا وقت مقرر ہے اور آپ کے بنا بارات لے کر نہ میں جا سکتا ہوں اور نہ ہی آپ کا بھتیجا اپنے تایا کے بغیر بارات لے کر جانے پر رضا مند ہے.
فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے" .
دین محمد کے جانے کے بعد دلہے کا تایا بار بار گلی میں جھانک کر دیکھتا رہا کہ شاید بھتیجا چلا گیا ہو لیکن بھتیجا جوں کا توں وہاں موجود تھا.

رات کے تین بجے دلہے کے تایا نے اپنے کپڑے بدلے اور اپنا حقہ ہاتھ میں لے کر گلی میں پہنچا.
اپنے بھتیجے کا ہاتھ پکڑ کر کہا چل یار چلتے ہیں. 
*تیرا باپ تو ویسے بھی پاگل ہے.*
تایا اور بھتیجا شادی والے گھر پہنچے تو سب نے استقبال کیا اور دین محمد نے پوچھا کہ بھائی جان آ گئے آپ؟
جواب ملا کہ
کیسے نہ آتا؟
لڑکی والے کیا سوچتے کہ دلہے کا تایا بارات میں کیوں نہیں آیا اور ایسے خاندان کی بدنامی ہوتی اور اوپر سے تم دلہے کو گلی میں بٹھا کر چلے گئے تھے.
یوں ہنسی خوشی یہ شادی اپنے اختتام کو پہنچی.
رشتے اس طرح جوڑے جاتے ہیں.
یہ مقام ہوتا ہے رشتوں کا.
مگر خیر چھوڑیں ہم تو ماڈرن ہیں.
نئے زمانے کے لوگ ہیں.

Thursday, August 27, 2020

استاد استاد ہی ہوتا ہے

​​کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اسنے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دئیے لیکن ایک نہ سکھایا۔ ​شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ بڑ ماری کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فن پہلوانی اور شہ روزی میں نہیں۔ اگر بادشاہ چاہے تو میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​ بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔​ وقت مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا ، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​ استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو فیل کردیا۔ آخر کار وہی پوشیدہ داؤ آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے جا کر زمین پر پٹخ دیا۔ شاگرد چاروں شانے چت گرا۔ استاد سینہ پر آن بیٹھا۔ ​لوگوں نے واہ واہ کا شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی کہا۔ "او ناہجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ ؟ "​ شاگرد نے جواب دیا۔" استاد مجھ سے طاقت میں نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ بار کےکہنے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ "​استاد نے جواب دیا۔" یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقت دشمنی نقصان پہنچائے۔"​

*سبـــــــق:*
*ہر شخص اپنےمحسن کو زک پہنچانےکی کوشش کرتا ہے
اسلیے 
*اپنے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی گر سنبھال کر رکھنا لازمی ہے

Tuesday, August 25, 2020

مٹتا ہوا لاہور

لاہور جو ایک شہر تھا۔۔۔۔۔

لاہور 
ناشپاتیوں، سنگتروں، مٹھوں، آڑوؤں، اناروں اور امرودوںکے باغات میں گھرا ہوتا تھا۔ 

موتیے اور گلاب کے کھیت عام تھے۔ 

حتیٰ کہ سڑکوں کے اطراف بھی گلاب اُگے ہوتے، 
جنہیں لاہور کے گردا گرد چلنے والی نہر سیراب کرتی۔ 

گلاب کے پھول لاہور سے دہلی تک جاتے۔ 

صحت بخش کھیلوں اور سرگرمیوں کا رواج تھا۔ 

نوجوان رات دس گیارہ بجے تک گتکا سیکھتے۔ 

اسکولوں میں گتکے کا باقاعدہ ایک پیریڈ ہوتا۔ 

تب شیرانوالا کے حاجی کریم بخش لاہور کے مشہور گتکاباز تھے، 
اور گورنمنٹ کنٹریکٹر موچی دروازہ کے میاں فضل دین مشہور بٹیرباز۔ 

تقریبات کو روشن کرنے کے لیے حسّا گیساں والا بھی لاہور کی معروف شخصیت تھے۔ 

خوشی، غمی، جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات حسّا گیساں والے کے گیسوں سے جگمگ کرتیں۔ 

شادی کی رونق سات سات دن جاری رہتی۔ 

لاہور میں بناسپتی گھی رائج ہوا تو بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے، وہ بھی چھپ کر۔ 

کوئی شادی پر بناسپتی گھی استعمال کرتا تو برادری روٹھ جاتی۔ 

جب چائے کا عادی بنانے کے لیے لپٹن والوں نے لاہور میں گھر گھر پکی ہوئی چائے مفت بانٹنا شروع کی 
تو ساندہ کی عورتوں نے چائے بانٹنے والے سکھ انسپکٹر کی پٹائی کردی۔ 

تعلیم کی طرف رجحان کا یہ عالم تھا کہ ماسٹر گھر گھر جاکر منتیں کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرائو۔ 

صدی پون صدی قبل کے لاہور کا یہ ماحول 
تین بزرگ لاہوریوں 
موچی دروازہ کے حافظ معراج دین، 
شیرانوالا اور فاروق گنج کے مستری محمد شریف 
اور ساندہ کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک نے 
ماہنامہ آتش فشاں کے ایڈیٹر منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے ان انٹرویوز میں بیان کیا ہے 

جو کتاب ''مٹتا ہوا لاہور'' میں شائع ہوئے ہیں۔

 ایک سو سات برس قبل 
24 فروری1911ء کے روز 
سرآغاخاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے جلسۂ تقسیم انعامات کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو لاہوریے ایک پُرجوش اور پُرہجوم جلوس کی صورت میں انہیں ایمپریس روڈ پر نواب پیلس میں لائے۔ 

ان کی آمد سے پہلے ان پر برسانے کے لیے پھول اکٹھا کیے گئے 
تو لاہور کے کھیت ویران ہوگئے اور پھول دوسرے شہروں سے منگوانا پڑے۔ 

یہی صورت 21 مارچ 1940ء کو پیش آئی 
جب قائداعظمؒ لاہور سیشن میں شرکت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو دوسرے شہروں سے بھی پھول منگوائے گئے۔ 

تب لاہور اگرچہ سیاسی، سماجی اور روایتی جلسوں جلوسوں سے زبردست رونق دار تھا، 
پھر بھی اس کا سکون، خاموشی اور ٹھیرائو مثالی تھا۔

 ''مٹتا ہوا لاہور'' کے ان انٹرویوز کے مطابق شیر چڑیا گھر میں دھاڑتا 
تو اس کی گرج لاہور میں گونجتی۔ 

شہر اس قدر کھلا کھلا تھا 
کہ موچی دروازہ سے مزار داتا صاحبؒ اور مزار شاہ ابوالمعالی ؒ صاف نظر آتے 
اور لوگ موچی دروازہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی دعا مانگ لیا کرتے۔

 بعض جگہوں اور تقریبات کے ناموں میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔

 چڑیا گھر کو چڑی گھر کہتے تھے۔ 

کوٹ خواجہ سعید کا نام کوٹ خوجے سعید تھا۔ 

دسویں محرم یا یومِ عاشور کو گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

عید میلاد النبیؐ بارہ وفات کہلاتی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں کہ اس روز جلوس نکالنے کا فیصلہ 
میں نے، نعمت کدہ کے مہر بِسّا اور مولانا محمد بخش مسلم نے کیا تھا۔ 

پہلا جلوس 1933ء میں نکلا۔ 

اس سے پہلے لاہور کی مساجد میں چنوں پر ختم ہوتا۔ 

باہر بچے کھڑے ہوتے جو نمازیوں کے باہر آنے پر آوازیں لگاتے:''میاں جی چھولے، میاں جی چھولے''۔ 
وہ چنے ان میں بانٹ دیے جاتے۔ 

مستری محمد شریف کہتے ہیں کہ جلوسِ عید میلادالنبیؐ میں لوگ گڈوں پر ہوتے یا پیدل۔ 

پچاس ساٹھ نوجوان گھڑ سوار برجسیں اور سبز پگڑیاں پہنے آگے ہوتے۔ 

ان کے پیچھے گتکا کھیلنے والے۔ 

پھر نعت خواں۔ 

آخر میں بینڈ والے۔ 

مستری صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں مسلمانوں کے صرف تین مذہبی جلوس نکلتے تھے۔ 

عید میلادالنبیؐ، بڑی گیارہویں شریف اور دسویں محرم کے روز، 
جسے گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

اُس وقت کسی کو پتا نہیں تھا شیعہ سنی کا۔ 
خلقت امڈ کے آتی تھی۔ 

سنی گھوڑا تیار کرتے، سبیلیں لگاتے، کھانے پکاتے، روشنی کا انتظام کرتے، 

شیرانوالا اسکول کے ڈرل ماسٹر اور 
لاہور کی پہلی مگر خاموش فلم ''ڈاٹرز آف ٹوڈے'' 
عرف آج کی بیٹیاں کے ہیرو 
ماسٹر غلام قادر سنی تھے، 
لیکن گھوڑے کے جلوس کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان لے کے چلتے۔ 

تب لاہور میں بھائی چارہ اور محبت بھرے رویّے عام تھے۔ ا

یک کی بیٹی سب کی بیٹی، 
ایک کا داماد سارے محلے کا داماد۔ 
دکھ اور خوشیاں سانجھی۔ 

مستری شریف نے گلوگیر لہجے میں کہا: 
اب وہ وقت نہیں آئیں گے 
جب کالیے دے کھو پر 
سویرے سویرے وارثی دیوانہ گاتا
''میرے اللہ کریو کرم دا پھیرا'' 
تو لوگوں کے آنسو نکل آتے۔ 

اس کی آواز دور دور تک جاتی۔ 

لال آندھی چلتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ 

مستری صاحب لاہور میں نورجہاں جب وہ بے بی نورجہاں تھی، کے ذکر میں کہتے ہیں 
کہ وہ کالے کپڑے پہن کر 
نگار سنیما کے اسٹیج پر نعت گاتی 
تو فوٹوگرافر محمد بخش اس پر لال، نیلی، پیلی لائٹیں مارتا۔ 

محمد بخش کی شکل جارج پنجم پر تھی۔ 
جب جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اسکول کے ہر بچے کو دیسی گھی کے سواسواسیر لڈو دیے گئے۔

لاہور کی ثقافتی اور روایتی صورت اس قدر بدل چکی ہے 
کہ برانڈ رتھ روڈ کیلیاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ 

بہ قول محمد دین فوق '' یہ کیلے کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی۔ 

رات تو رات دن میں بھی کسی اکیلے دُکیلے آدمی کا یہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا''۔ 

شیخ عبدالشکور کہتے ہیں: 
''انارکلی بازار میں نیچے دکانیں تھیں، 
اوپر طوائفوں کے بالا خانے تھے۔ 
بعد میں وہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ 

شاہ محمد غوث کے سامنے جہاں اب وطن بلڈنگ ہے، 
وہاں عمدہ ناشپاتیوں کا باغ تھا''۔ 

اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں چندے کھولنے میں مشہور تھے۔ 
اخبار وطن میں 1902ء میں انہوں نے حجاز ریلوے کے لیے چندہ کھولا 
کہ لاہور سے مدینہ منورہ تک ٹرین چلائی جائے گی۔ 
ٹرین تو نہ چلی، وطن بلڈنگ بننا شروع ہوگئی۔ 

لاہوریے پوچھتے تو انہیں جواب ملتا: 
پہلے ریلوے اسٹیشن تو بن جائے، پھر ٹرین بھی چل جائے گی۔ 
جو آج تک نہیں چلی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں: ''جو دو روپے چندہ دیتا، رئیس سمجھا جاتا''۔

دہلی دروازے کے باہر 
ہر اتوار کو گھوڑوں اور گدھوں کی منڈی لگتی۔ 
نیلامی ہوتی۔ 
اندھا گدھا کم قیمت پر بکتا۔ 

یہیں لاہور کی ککے زئی برادری کے ایک بڑے خان بہادر ملک نذر محمد کا گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ 

خاں بہادر نذرمحمد انسانی حقوق کی معروف علَم بردار عاصمہ جہانگیر کے دادا تھے۔ 

وہ اپنے دور میں لاہور کی ایک خوشحال اور بڑی معزز و معتبر شخصیت تھے۔ 

انہیں انگریز نے منٹگمری (اب ساہی وال) میں گھوڑی پال مربعے دیے تھے۔ 

وصیت کے مطابق انہیں قبرستان شاہ محمد غوثؒ میں دفن کیا گیا۔ 

یہاں پنجاب کے سرسید ڈپٹی برکت علی، خواجہ عبدالعزیز ککڑو، ہندو بیرسٹر دیناتھ سمیت 
بڑی نامور شخصیات بھی دفن ہیں 

یہ تاریخی قبرستان دن دہاڑے اس طرح ختم کردیا گیا ہے 
کہ اس کے اوپر لینٹل ڈال کر مسجد وہاں تک پھیلا دی گئی ہے۔ 

قبرستان تک جانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا۔

 ان کئی جگہوں کا ذکر بھی ہے 
جو عدم توجہی سے برباد ہوگئیں یا ہورہی ہیں۔ 

مثلاً شادی لال بلڈنگ، 
برکت علی محمڈن ہال، 
لاہور کا پہلا سنیما پاکستان ٹاکیز، 
علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اورپاکستان کی نسبت سے صنوبر سنیما اور یونیورسٹی گرائونڈ وغیرہ وغیرہ۔ 

تاریخی یونیورسٹی گرائونڈ جہاں قائداعظمؒ نے لاہور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا، 
اسپورٹس کے حوالے سے بھی ایک یادگار جگہ ہے، 
جو اورنج لائن میٹرو پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 

اسی طرح موج دریا روڈ پر جہاں انکم ٹیکس ہائوس ہے 
وہاں مہاراجا کپورتھلہ کا پُرشکوہ محل تھا۔ 

30جنوری1884ء کو سرسید احمد خاںؒ لاہور آئے 
تو اسی مکان میں ٹھیرے۔ 

لاہوریوں کو ''زندہ دلانِ لاہور'' کا لازوال خطاب سرسیدؒ ہی نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران میں دیا تھا۔

1926ء میں علامہ اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے لیے کھڑے ہوئے 
تو لاہور ''پتلون پوش ولی کو ووٹ دو'' کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 

جیت کے بعد لاہوریوں نے علامہ کے اعزاز میں موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں جلسۂ عام کیا۔  

اگلی صف میں رستم زماں گاماں پہلوان کو بیٹھا دیکھ کر علامہ نے اسے بھی تقریر کی دعوت دے دی۔ 

موچی دروازے کی اجڑی اور مٹتی ہوئی اس جلسہ گاہ کے ذکر میں 
جنرل ایوب کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی امیدوار تھیں۔ 

موچی دروازے کی اسی جلسہ گاہ میں مادرملتؒ کے مقابلے میں اتنا بڑاجلسہ آج تک نہیں ہوا۔ 

جلسہ گاہ میں ان کی آمد پر لاہوریوں نے پُرزور اور پُرجوش آتش بازی بھی کی۔ 

کتاب کے مؤلف منیر احمد منیر نے موچی دروازے کے ایک ایسے جلسۂ عام کا بھی چشم دید احوال بیان کیاہے 
جس میں ایک بھی سامع نہ تھا۔

لاہور کے تاریخی دنگلوں، پہلوانوں، غنڈوں، سیاسی و سماجی تحریکوں اور ان کے نمایاں کرداروں کے علاوہ 
لاہور کی کئی قدیمی ہندو شخصیات کے ذکر میں 
بیلی رام تیل والا کی غنڈہ گردی 
اور ساہوکاربلاقی شاہ کی سودخوری کے واقعات بھی دیے گئے ہیں

کہ ممتاز دولتانہ کے والد احمد یار خاں دولتانہ اور مالیرکوٹلہ کے وزیراعظم نواب ذوالفقار علی خاں تک 
اس کے مقروض تھے۔

 اور اس ہندو سرمایہ دار لچھے شاہ کے اعلانِ پاکستان کے بعد 
دیے گئے اس چیلنج کی تفصیل بھی درج ہے 

کہ ''جو شاہ عالمی کو آگ لگائے گا میں اسے بیٹی کا ڈولا دوں گا''۔

 حافظ معراج دین کہتے ہیں:

مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے جواب میں موچی دروازے والوں نے شاہ عالمی جلادیا 
لیکن ہم نے اس کی بیٹیوں کی پوری حفاظت کی۔ 

مستری محمدشریف کہتے ہیں: 

ہندو عورتیں ساڑی پہنتی تھیں۔ مسلمان عورت کی شناخت برقع تھی۔ 

لاہور حیاداری سے اس قدر اٹااٹ تھا کہ رات تک نوجوان لڑکے لڑکیاں لاہور کے سرکلر گارڈن میں کھیلتے۔ 

کوئی لڑکا لڑکی کی طرف بری نظر سے نہ دیکھتا۔ 

پھل دار درختوں اور پھول دار پودوں سے بھرے ہوئے اس تاریخی باغ میں 
رات دس گیارہ بجے تک میں نوجوانوں کو گتکا سکھاتا۔ 

ہریالی اس قدر تھی کہ شیرانوالہ سے ہم داتا صاحبؒ حاضری کے لیے جاتے 
تو سڑک کو شیشم کے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا۔ ہم راستہ چھائوں ہی میں طے کرتے۔ 

اب وہ دور نہیں آئے گا۔ 
جب کھوٹ ملاوٹ کا کسی کو پتا ہی نہ تھا۔ جان و مال محفوظ تھی۔ 
زیورات سے لدی عورت کلکتے سے پشاور تک اکیلی جاتی، 
کوئی اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتا نہ تھا۔

"مٹتا ہوا لاہور" سے کچھ یادیں

سچا شریک حیات

ایک مرد و عورت کی شادی ہوئی اور انکی زندگی ماشاءاللہ خوشیوں سے بهری تهی.
شوہر ایک دن بیوی سے: تم نے آج نماز نہیں پڑھی۔۔؟؟
بیوی: میں تھک گئی تھی، اس لیے نہیں پڑهی، صبح پڑھ لوں گی۔۔
شوہر کو یہ بات بری لگی مگر اس نے بیوی سے کچھ نہ کہا. خود نماز پڑهی تلاوت کی اور سو گیا.

شوہر دوسرے دن بیوی کے اٹهنے سے پہلے ہی نماز پڑھ کر دفتر کیلئے نکل گیا۔۔
بیوی اٹهی۔ شوہر کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئی کہ اس سے پہلے ایسا کبهی نہیں ہوا۔ پریشانی ک عالم میں شوہر کو فون کیا لیکن کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ بار بار کال کی مگر جواب ندارد۔
بیوی کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تهی۔ کچھ گھنٹے بعد کال کی تو شوہر نے اٹینڈ کی۔
بیوی نے ایک سانس میں نہ جانے کتنے سوال کر دیے.
کہاں تھے آپ۔۔؟
 کتنی کالز کی میں نے جواب نہیں دے سکتے تهے۔ پتہ ہے یہ وقت مجھ پہ کیسے گزرا.۔۔ آپ کو ذرا خیال نہیں. کم سے کم بتا تو سکتے تهے.
 شوہر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی کہ تهکا ہوا تها اس لیے لیٹ گیا تو نیند آگئی۔۔
بیوی: دو منٹ کی کال کر کے بتا دیتے تو کتنی تهکاوٹ بڑھ جاتی۔ آپکو مجھ سے ذرا پیار نہیں.

شوہر نے تحمل سے جواب دیا: کل آپ نے بھی تو اس پاک ذات کی کال کو نظرانداز کیا..
کیا آپ نے حی علی الفلاح کی آوازسنی تهی۔۔؟؟ وہ خدا کی کال تهی جو آپ نے تهکاوٹ کی وجہ سے نہیں سنی۔ اس وقت بهی 5 منٹ کی بات تهی.نماز پڑھنے سے آپ کی تهکاوٹ کتنی بڑھ جاتی.؟؟
 کیا آپکو اپنے اس پروردگار سے اتنا پیار بهی نہیں جس نے آپکو سب کچھ دیا. کیا پروردگار کو یہ بات پسند آئی ہو گی.

بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور روتے ہوئے بولی:
 مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں سمجھ گئی ہوں۔ میں سچے دل سے استغفار کرتی ہوں۔ میرے پروردگار مجهے معاف فرما۔ 

سچا شریک حیات وہی ہے جو آپ کو دنیاوی تحفظ اور خوشیوں کے ساتھ کے آخرت میں  بهی سرخرو کروائے اور آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ کو بھٹکنے سے بچائے.
اللہ تعالی ہم سب کو نماز پڑهنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین یارب العالمین

*حقیقی نوٹ:*
اس پوسٹ نے میری زندگی بدل دی۔ میں ساری رات سوچتا رہا کہ میرے رب کو کتنا برا لگتا ہوگا کہ میرا تخلیق کیا گیا بندہ، میرے ہی بلاوے کو نظر انداز کر رہا ہے۔۔
اللّٰہ تعالیٰ میری غلطیوں کو معاف فرمائے۔۔ 

کمال کیا ہے....؟؟؟

👈 _ایک_فارســـــــی_حـــــــکایت_ 👉


ابوسعید ابوالخیر* سے کسی نے کہا؛ 
''کیا کمال کا انسان ھو گا وہ جو ھوا میں اُڑ سکے۔''

ابوسعید* نے جواب دیا؛ 
''یہ کونسی بڑی بات ھے، یہ کام تو مکّھی بھی کر سکتی ھے۔''

''اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے اُس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ھے؟

''یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ھے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ھے۔''

ؔؔ''تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ھے؟''

''میری نظر میں کمال یہ ھے کہ لوگوں کے درمیان رھو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔
جھوٹ کبھی نہ کہو، کسی کا تمسخر مت اُڑاؤ، کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ، یہ کمال ھیں۔

یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے، یہ کافی ھے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی رائے قائم نہ کریں۔

یہ لازم نہیں ھے کہ ھم ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کریں، یہ کافی ھے کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ ھم دوسروں کی اصلاح کریں، یہ کافی ھے کہ ھماری نگاہ اپنے عیوب پر ھو۔

حتّیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ھم ایک دوسرے سے محبّت کریں، اتنا کافی ھے کہ ایک دوسرے کے دشمن نہ ھوں۔

دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ھے۔''

Sunday, August 23, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔

Saturday, August 22, 2020

معرفتِ الہٰی

ایک صوفی منش ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے. تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔

تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی. گھگیاتے ہوئے بولا:

"جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔"

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے. اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔"

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
"تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!"

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے…..میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"..

کسی کا پردہ پاش نہ کریں

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے۔
" وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی۔"
" پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا "
یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔
" کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔"
کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس اسی پر اکتفا کرو۔
ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔
" اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے" ورنہ
جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں۔
جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ کریم رب ان پر پردے فرماتا ہے۔
" کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہو تو بھی بات نہ کریں " آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟

خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

Thursday, August 20, 2020

‎‎ﺍﺻﻞ .......... ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ

  ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻈﻔﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎﻧﺪﮬﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺆﺫﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻧﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺭﻭﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻣﺆﺫﻥ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ   ‎‎سپیشل لائک کیلئے یہاں کلک کریں‏  ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮱ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﺁﻣﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺗﻢ ﺑﮍﮮ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ، ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺯﻭﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺫﺭﺍ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺯﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ، ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﻭ، ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﺻﻞ ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ، ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺮﻡ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺑﻌﺾ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﻧﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻦ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮱ، ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺳﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﻧﺮﻡ ﺧﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻔﻊ ﺑﺨﺶ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮔﻮ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.....،

‏ﺍﯾﮏ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺁﻣﻮﺯ ﺗﺤﺮﯾﺮ‏‎

  ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺸﻤﻨﺪ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﭨﮩﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﯿﻮﻻ ﮐﺴﯽ ﺭﻗﺎﺹ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺎ- ﻭﮦ ﻣﺘﺠﺴﺲ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺭﻗﺺ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ- ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ- ﻭﮦ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮨﮯ- ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺭﻗﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ- ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺟﮭﮑﺘﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮯ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ" ،ﺻﺒﺢ ﺑﮧ ﺧﯿﺮ ﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ "؟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺗﻮﻗﻒ ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ "ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ" "ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺗﻢ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟" " ﺳﻮﺭﺝ ﭼﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮑﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔" "ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺳﺎﺣﻞ ﺗﻮ ﻣﯿﻠﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ " ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ، ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ "ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﻧﺎ " ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﮞﮑﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺗﻮ ﭘﮍﮮ‎

Tuesday, August 18, 2020

انسان اور اچھے انسان

جب آپ سے کوئی خطا ہو جائے تو سمجھئے کہ آپ انسان ہیں اور جب اس خطا پر آپ کو ندامت و شرمندگی ہو تو سمجھئے کہ آپ ایک اچھے انسان اور اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ ایسے میں اپنی خطاؤں پر توبہ کرنے میں جلدی کیجئے اور اللہ سے اپنی گناہوں اور خطاؤن پر معافی مانگئے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: *"تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں"*۔ (سنن ابن ماجه: 4251، سنن ترمذي: 2499)

انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خالق کی طرف سے مطلوبہ احکامات کو انجام دینے میں غفلت برتتا ہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں کثرت سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری، ہمارے والدین کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین

ان إلا نسان لفى خسر

السلام علیکم!

ہم نے کبھی غور نہیں کیا ہمارے ہر دن کا تیسرا حصہ ہماری غفلت کی نذر ہوتا ہے یعنی اوسطاً لوگ آٹھ گھنٹے  سوتے ہیں اور یہ چوبیس گھنٹے کا تیسرا حصہ بنتا ہے گویا  ایک برس میں چار ماہ کا عرصہ سوتے ہوئے گزرتا ہے اور دس برس میں تین سال اور تیس سال میں دس برس.  اس لیے جب قرآن مجید یہ کہتا ہے (ان إلا نسان لفى خسر)
کہ بے شک انسان خسارے میں ہے اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں (ان الانسان لفی خسر) بے شک انسان خسارے سے الگ ہو ہی نہیں سکتا  اور مزید آگے فرماتے ہیں کہ خسارہ تو اصل جمع پونجی (هو عمره) آدمی کی عمر ہوتی ہے  مگر ہم نے اس میں بہت کم غور کیا ہے اور قرآن مجید کی ایسی آیات ہمیں کس جانب توجہ دلاتی ہے علامہ ابن کثیر نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ ایک قول سورۃ العصر کے متعلق نقل کیا
کہ لوگ صرف اس سورہ میں غور کر لیں تو یہ انہیں کافی ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں نصاب زندگی دیا ہے  ارشاد باری تعالیٰ ہے ... قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے. ..
اور پھر خسارے سے پچنے کا نصاب عطا فرمایا کہ اگر خسارے سے پچنا چاہتے ہو تو 4 چیزوں کو لازم پکڑو. 
1.الاالدین امنوا. .....مگر وہ لوگ ایمان لائے. 
2.وعملوالصلحت. ....اور وہ لوگ جنہوں نے عمل صالح کیے. 
3.وتواصوابلحق. ...اور حق کی وصیت کی.
4.وتواصوابلصبر....اور صبر کی وصیت کی. 
ایمان عمل صالح  حق کی وصیت اور صبر کی وصیت ان کو عملی جامہ پہنانے سے آدمی خسارے سے بچ سکتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب آدمی اپنے باطن کو آباد کر لیتا ہے جب ذکر اللہ سے قلب کو پاک کر لیتا ہے 

اپنی حالت خود بدلیں

ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگے درخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے گراجہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑا ہوا۔
ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔۔

اگر آپ عقاب ہیں اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے ہیں تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نہ دیجیئے کیونکہ انہوں نے آپکو بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔
جب معاملات آگے نہ بڑھ رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
 جس کو خود   اپنی حالت بدلنے خیال نہ ہو

کامیابی کا راز

کوا وہ واحد پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اُڑان بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اُڑان اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ 

آج سے آپ ان لوگوں کی وجہ سے پریشان ہونا چھوڑ دیں جو آپ کی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ھیں۔ 
آپ کی پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ 
اپنی اُڑان کو اونچا کرتے جائیں تو بہت سی رکاوٹيں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ 
اپنی طاقت عقاب کی مانند مثبت کاموں میں صرف کريں۔
اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ 
یہی کامیابی کا راز ہے۔

Saturday, August 15, 2020

ہماری خامیاں ہی ہماری طاقت ہیں

کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔

ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔

گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔

مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔ لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اللـــــــہ کـــــــی رحـــمــــت بیٹیـــــــاں

لڑکیوں کے اسکول میں آنے والی نئی ٹیچر خوبصورت اور با اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ علمی طور پر بھی مضبوط تھی لیکن اُس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی.
سب لڑکیاں اس کے اردگرد جمع ہو گئیں اور مذاق کرنے لگیں کہ میڈم آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟
میڈم نے داستان کچھ یوں سنانا شروع کی
ایک دفعہ ایک خاتون کی پانچ بیٹیاں تھیں ، شوہر نے اس کو دھمکی دی کہ اگر اس دفعہ بھی بیٹی ہوئی تو اس بیٹی کو باہر کسی سڑک یا چوک پر پھینک آوں گا ، 
خدا کی حکمت خدا ہی جانے کہ چھٹی مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی اور مرد نے بیٹی کو اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں شہر کے مرکزی چوک پر رکھ آیا ماں پوری رات اس ننھی سی جان کیلئے دعا کرتی رہی اور بیٹی کو اللہ کے سپرد کر دیا ، دوسرے دن صبح باپ جب چوک سے گزارا تو دیکھا کہ کوئی بچی کو لے نھیں گیا بچی ساری رات ادھر ہی پڑی رہی باپ بیٹی کو واپس گھر لایا لیکن دوسری رات پھر بیٹی کو چوک پر رکھ آیا لیکن ماجرا اسی طرح تکرار ہوتا رہا یہاں تک کہ سات دن باپ باہر رکھ آتا اور جب کوئی لے نہ جاتا تو مجبوراً واپس اٹھا لاتا یہاں تک کہ باپ تھک گیا اور خدا کی رضا پر راضی ہو گیا۔
اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک سال بعد ماں پھر حاملہ ہو گئی اور اس دفعہ اللہ نے انکو بیٹا عطا فرما دیا لیکن کچھ ہی دن بعد بیٹیوں میں سے ایک فوت كر گئی
یہاں تک کہ پانچ بار حاملہ ہوئی اور اللہ نے پانچ بیٹے عطا فرمائے لیکن ہر دفعہ اسکی بیٹیوں میں سے ایک اس دنیا سے رخصت ہو جاتی.
فقط ایک ہی بیٹی زندہ بچی اور وہ وہی بیٹی تھی جس سے باپ جان چھڑانا چاہ رہا تھا ، ماں بھی اس دنیا سے چلی گئی اُدھر 5 بیٹے اور 1 بیٹی سب بڑے ہو گئے .
ٹیچر نے کہا پتہ ہے وہ بیٹی جو زندہ رہی کون ہے ؟
وہ میں ہوں.
اور میں نے ابھی تک شادی اس لیے نہیں کی کہ باپ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کھانا بھی نھیں کھا سکتا جبکہ کوئی دوسرا نہیں جو اسکی خدمت کرے بس میں ہی اسکی خدمت کیا کرتی ہوں
اور وہ 5 بیٹے کھبی کھبی آ کر باپ کی احوال پرسی کر جاتے ہیں جبکہ باپ ہمیشہ شرمندگی کے ساتھ رو رو کے مجھ سے کہا کرتا ہے میری پیاری بیٹی جو کچھ میں نے بچپن میں تیرے ساتھ کیا اس پر مجھے معاف کرنا.

Wednesday, August 12, 2020

ذہنی قوت خیال میں

ماہر نفسیات اور سائنس دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خیال ایک عظیم قوت ہے۔ خیال میں بے پناہ قوت اور طاقت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس بات کو عام آدمی کیلئے شاید سمجھنا یا اس کا ادراک کرنا اتنا آسان نہ ہو۔

خیال کی قوت سے مرادیہ ہے کہ جس خیال کو ہم بار بار دہراتے ہیں وہ خیال بالآخر ''وائٹل فورس'' بن جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کسی خیال کو مثبت یا منف وائٹل فورس بناتا ہے دونوں صورتوں میں خیال کی قوت اپنی جگہ برقرار ہے۔


فرض کیجئے آپ کے پاس لکڑی کا ایک تختہ ہے اس کی لمبائی پندرہ فٹ اور چوڑائی ایک فٹ ہے۔ آپ نے اس تختے کو زمین پر رکھ دیا ہے اور آپ اس کے اوپر بلا خطرچلے جارہے ہیں۔ کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ آپ بغیر کسی رکاوٹ کے لکڑی کے اس تختے پر چل سکتے ہیں اور آپ کے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر کاس تختے کو زمین سے دس پندرہ فٹ کی بلندی پر باندھ دیا جائے اور آپ کو اس پر چلنے کو کہا جائے تو کیا اب آپ کے لئے اس پر چلنا اتنا آسان ہوگا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ آپ نے سمجھ لیا ہے کہ ایسا کرنا آپ کے لئے آسان نہیں ۔ دونو ں صورتوں میں آپ کا خیال ہی آپ پر غالب ہے۔ لیکن شاید آپ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہو کہ کچھ لوگ اتنی بلندی پر بھی آسانی سے چل سکتے ہیں۔ خاص صور پر سر کس میں کام کرنے والے لوگوں کیلئے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔
اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں خود پر یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ نے کسی شخص کو موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ کیا آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ شاید نہیں۔ کیونکہ آپ نے ہلے ہی سے یہ سوچ رکھا ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر آپ سوچ لیں کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔اور اس کے لئے آپ ضروری تربیت بھی حاصل کر لیں تو آپ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی سوچ مثبت ہوگی تو آپ کا عمل بھی مثبت ہوجائے گا۔
فرض کیجئے ایک شخص نشہ کا عادی ہے کہ وہ یہ بری عادت نہیں چھوڑ سکتا۔ ایسا سوچنا ہی اس کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ لیکن یقین کیجئے دنیا میں کوئی عادت ایسی نہیں جسے چھوڑا نہ جاسکے۔ اور کوئی نئی عادت ایسی نہیں جسے اختیار نہ کیا جاسکے۔ایک شخص کہتا ہے ددمجھے رات بھر ننید نہیں آتی'' اگر وہ یہ جملہ بار بار دہراتا ہے تو یہ جملہ اس کیلئے وائٹل فورس بن جاتا ہے۔ اسکی مشکل میں اضافہ ہو جاتا ہے اس طرح کی مشکلات ہم پر باہر سے وارد نہیں ہوتیں بلکہ ان کا مرکز خود ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ ''ہاں''اور ''نہیں'' کی جنگ ہمارے اپنے اندر ہی جاری رہتی ہے۔ کامیابی اور ناکامی کی لہریں ہمارے اپنے اندر سے جنم لیتی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی وجہ ہماری سوچ (خیال) ہی ہوتی ہے۔ ایک ننھا سا خیال ننھی منی کو نیل کی طرح آپ کے ذہن کی شاخ پر پھوٹتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے آپ اس خیال و تقویت دے کر اسے عمل کا حصہ بناتے ہیں یا اسے مسترد کر دیتے ہیں آپ کی خود کلامی، خیال کی اس ٹمٹماتی لو کیلئے تیل کا کام دیتی ہیں۔ آپ جسے ارادہ کہتے ہیں وہ اسی خیال کو دہرانے کا نام ہے ۔ ''میں یہ کر سکتا ہوں''
''میں کل صبح وقت پر اٹھوں گا'' ۔ ''میں امتحان میں کامیاب ہو جائوں گا''،''میں ڈاکٹر بنوں گا'' یا ''میں سائنس دان بنوں گا'' ۔ ابتداء میں یہ سب ننھے منے خیال ہوتے ہیں۔ انہیں دہراتے رہنے سے ان میں قوت آتی ہے اور یہ ایک عزم اور یقین کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جب کوئی خیال یقین کی صورت اختیار کرل یتا ہے تو وہ وائٹل فورس بن جاتا ہے۔
یقین کامل ، ایسے غیر متزلزل یقین کو کہا جاتا ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ یعنی اپنی ذات پر پختہ یقین کرنا۔ کبھی کام کو کرنے سے قبل جب آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ آپ اس کام کو ضرور تکمیل تک پہنچا لیں گے تو اس میں ناکامی کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔ کسے یقین تھا کہ ہم بجلی کی صورت میں مصنوعی روشنی پیدا کرلیں گے کسے علم تھا کہ انسان کے ہوا میں اڑنے کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔ لیکن آخر یہ سب کچھ یقین اور محنت کی بدولت ہوگیا۔جب انسان کسی خیال کو عملی شکل دینے کا مصمم ارادہ کر لیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی مدد بھی انسان کے شامل حال ہوجاتی ہے۔بد قسمتی سے ہم جن لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔ انہیں کے خیالات کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ ہمیں قدم قدم پہ ایسے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ''تم یہ کام نہیں کر سکتے'' ۔ اور ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کی بات مان لیتے ہیں اور ارادہ ترک کر دیتے ہیں،ان لوگوں سے بچئے اور خیالات کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنایئے۔

نئی نسل اور کامیابی کا معیار

*اپنی نسلوں کو لعنت سکول سے بچاو*

یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔

 تھکن کے باوجود  کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا 

ہاں جی تم نے کیا بننا ہے
 
ہاں جی آپ کیا بنو گے 

ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے ۔ 

سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔

 ڈاکٹر 
       انجینیر
            پولیس 
                 فوجی
                    بزنس مین ۔

 لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔

لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔

 عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔

ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔ 

*بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا۔* 

میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔

پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔ ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔ 

بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔ 

سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔

 اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔

اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔ 

میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں ۔۔کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے۔

ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔
اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .

آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.

اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .

اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.

اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .

جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں .

 تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.

سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے.

 انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.

آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،

یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.

حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں.

 سلطان یہ سن کر رونے لگے ، 

*اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.*

سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ

💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞

اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے.سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.

💞
بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞

ختم نبوت ﷺ

السلام عليكم 
امید ہے آپ تمام احباب خیریت سے ہونگے ۔ ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول  کرانی تھی۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہر 2 ہفتوں بعد ختم نبوت ﷺ کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کبھی کیا سفارشات پیش کی جاتی ہیں تو کبھی کیا ۔ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے ، انسانی فطرت ہے کہ ہر دوسرے روز پیش آنے والا مسئلہ انسان کی سوچ کو اور اس کی زندگی کو اس طرز کا عادی بنا دیتا ہے۔ یہی طریقہ ختم نبوت ﷺ کے قانون کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی اس بے ادبی اور گستاخی کے عادی ہوجائیں روز روز احتجاج کر کر کے ان کی ہمت ٹوٹ جاۓ اور مسلمان اس مسئلہ اور عقیدہ پر بھی سمجھوتہ کر جاۓ ۔اور یہ کفار لوگ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں ۔
اپنے آپ کو روزمرہ کی بنیاد پر ہر روز حضور ﷺ کے عشق سے اپ ڈیٹ کیا کریں۔
اگر یہ کفار حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنا چاھتے ہیں تو ہم مسلمان اور بطور امت محمّدﷺ ہمیں بھی اپنی ڈیوٹی کرنی چاہیے،
ہم نے روزانہ کی بنیاد پر حضور اکرم ﷺ کا ذکر اور ان کا چرچہ اور بھی زیادہ کر دینا ہے ، اپنی اولادوں اور نئی نسلوں کو روزانہ رات سیرت النبی ﷺ کا کم از کم ایک پیج ضرور پڑھ کر سنائیں اپنے بچوں میں حضور ﷺ کے عشق کی شمع ضرور روشن کریں۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے آفس دکان گھر میں اپنے ملنے والوں کو ضرور حضور ﷺ کی کوئی بات ضرور شیئر کیا کریں ۔#وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ#
اس پیغام کو اپنے اپنے طور پر اپنے whatsapp گروپس, فیس بک اور ہر جگہ پر شیئر کریں ۔اللّه اور اس کے حبیب ﷺ کے سلسلے سے تعلق کی بنیاد پر ہم پر اوروں سے زیادہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ 
شکریہ ۔۔۔۔۔۔ اللّه ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو حضور ﷺ کی نسبت معرفت اور محبت سے مالا مال فرماۓ ۔۔۔۔ آمین

Tuesday, August 11, 2020

ہر حال میں خوش رہیں....

پریشان نہ ہوں ۔۔ 🙂
کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور 90 سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔
کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔
کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔
نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔
. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سى  ہمارے لیے جو فیصلہ ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔ 💗
💞ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں

Monday, August 10, 2020

شکر کا مقام

جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے گلہ کیا کہ میرے پاس جوتا نہیں ہے  - آگے جا کے دیکھا تو ایک آدمی کی ٹانگیں ہی نہیں  - اس آدمی نے فوری طور پر شکر ادا کیا  - کمال کی بات تو یہ ہے کہ جوتوں کا گلہ کرنے والا جوتے کے بغیر ہی شکر کر گیا  - یہ حسن_نظر ہے ! اسے پتہ چلا کہ جس بات کا مجھے گلہ تھا وہ بات تو شکر والی تھی_______
آپ بھی یاد رکھنا! زندگی میں جہاں جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے  - زندگی میں جہاں آپ کو رکاوٹیں ہیں وہی شکر کی انتہا تھی  - آپ جس مقام پر ناراض ہوں، وہ شکر کا مقام ہے  - اس لیے دنیادار کے لئے جہاں صبر کرنے کا حکم ہے تو وہاں اپنے بندوں کو شکر کرنے کا حکم ہے  - جب دنیا دار کے ساتھ حادثہ ہو جائے ہم کہتے ہیں صبر کرو، صبر کرو، غم کے دن کٹ جائیں گے  - اور اگر اپنا بندہ ہو تو کہیں گے شکر کر کہ اللہ کے قریب ہونے کی چٹھی آ گئ ہے اور اس کے قریب ہونے کے زمانے آ گئے ہیں  - اس لیے فضل کا متلاشی بن جانا ہی فضل کی ابتدا ہے اور یہی اس کی انتہا ہے  - اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ مرتے دم تک اس کلمے سے رشتہ نہیں توڑیں گے تو کلمہ تجھے کب چھوڑے گا  - اب یہ آپ کو کیوں چھوڑے گا کیونکہ آپ نے نہیں چھوڑا تو یہ کیسے چھوڑے گا  - اگر آپ وفا کی ابتدا کریں تو ادھر سے وفا ہی وفا ہے  - آپ جب مان جائیں تو سمجھنا کہ آپ ادھر سے مانے گئے  - جب آپ اس طرف چل پڑے تو سمجھ لو کہ منزل نے اجازت دے دی  - اس سفر پر کوئی مسافر اس وقت تک نہیں جا سکتا جب تک منزل خود نہ پکارے اس لئے آپ لوگوں کو صداقت اور نیکی کا سفر کرنے کی جو خواہش ہے یہ سمجھو کہ اس طرف سے منظوری کا اعلان ہے  - جس کو منظور نہیں کیا جاتا اس کو یہ شوق ہی نہیں ملتا۔
حضرت واصف علی واصف رح
کتاب۔ گفتگو 4

Sunday, August 9, 2020

بدنظری سے بچنے کا طریقہ

ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے عرض کیا کہ حضور آپ کہتے ہیں کہ بدنظری سے پرہیز کرو لیکن میں کیا کروں جب بازار جاتا ہوں نظر اچانک اٹھ ہی جاتی ہے نوجوان ہو اور نظر نہ اٹھے یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔؟
بزرگ نےفرمایا
بیٹا میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دونگا پہلے میرا ایک کام کرو
یہ ایک پیالہ دودھ کا ہے اسے وہ جو سامنے روڈ کےاس طرف بزرگ بیٹھا ہےان کو دے آؤ
ہاں
یاد رہے بیٹا!
پیالے سے ایک قطرہ دودھ بھی نہ گرے اور میں آپ کے ساتھ ایک آدمی بھیجوں گا جو آپکو دوجوتے لگاۓ گا وہیں بازار میں اگر پیالے سے ایک قطرہ بھی گرا
نوجوان
باباجی آپ پیالہ دیں یہ کونسا مشکل کام ہے میں ابھی جاکر پہنچا آتا ہوں
آپ بس یہیں بیٹھنا میں یوں گیا یوں واپس آیا
نوجوان ہاتھ میں پیالہ لیے چل پڑا بڑے اطمنیــان کے ساتھ اور اپنا سارا فوکس اسی دودھ کے پیالے پر رکھا کہ کہیں ایک قطرہ گر نہ جاۓ
اور اوپر سے یہ آدمی ساتھ ہے بازار میں دو جوتے لگاۓ گا کتنی بدنامی ہوگی میری
باالآخر نوجوان چلتاچلتا اس بزرگ آدمی کے پاس پہنچ گیا اور ایک قطرہ دودھ بھی نہ گرا اور پیالہ اس بزرگ کو پیش کر دیا
نوجوان اب پر جوش انداز میں خوشی خوشی واپس آیا
فوراً بزرگ کے پاس حاضر ہوا
حضرت میں نے پیالہ پہنچا دیا ایک قطرہ بھی دودھ کا نھیں گرنے دیا اب آپ مجھے نظری سے بچنے کا طریقہ بتاۓ
بزرگ نےفرمایا بیٹـــا۔۔۔
نوجوان جی حضور
بزرگ :
 بیٹا۔۔۔۔ جاتے ہوۓ  کتنے چہرے دیکھے؟
نوجوان: حضور ایک بھی نھیں دیکھا
بزرگ: کیوں بیٹا۔۔۔؟
نوجوان: بابا جی میرا سارا دھیـــان پیالے کی طرف تھا کہ کہیں دودھ نہ گر جاۓ کیونکہ مجھے دو جوتے لگنے تھے اور بازار میں میری رسوائی ہو جاتی اسلیے میرا کسی کی طرف دھیــــان نھیں گیا۔
بزرگ: 
بیٹاجی! یہی اللہ والوں کا راز ہے کہ وہ بدنظری سے بچ جاتے ہیں انکا سارا دھیــان اپنے دل کے پیالے کی طرف ہوتا ہے وہ اسے چھلکنے نھیں دیتے کہ اگر چھلک گیا تو بروز قیـــامت سب کے سامنے ان کی رسوائی ہوگی۔۔۔

تربیت کے سات سال

تربیت کے 3 سات سال
(جہانزیب راضی)

یاد رکھنا! جب تک بچہ 7 سال کا نہیں ہو جاتا وہ چکنی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے خیالات سے لیکر اس کے رویے سب کے سب معاشرے اور گھر کی طرف سے وجود میں آتے ہیں، وہ صرف "طوطے" ہوتے ہیں جو آپ سے سنیں گے اور جو آپ کو کرتا دیکھیں گے ویسا ہی بولنا اور ویسے ہی کرنا شروع کر دیں گے۔ بچے کے یہ 7 سال ماں کے پاس امانت ہیں، یہ ماں کی گود، اس کی آغوش اور اس کی ممتا کی گرمی کے سال ہیں۔ ماں کو خصوصا اور گھر میں موجود باقی لوگوں کو عموما اپنے روز و شب، معاملات اور معمولات بہت دیکھ بھال کر گزارنے چاہییں۔ بہت سے ایسے سرسری اور معمولی واقعات جو شاید آپ کے نزدیک سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں بچے ان کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ 
ماں کی ایک ایک حرکت، باپ کی ہر ایک ادا، گھر میں موجود ہر فرد کا اس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ رویہ، ماں اور باپ کا آپس میں اور گھر میں موجود افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق یہ سب ایک بچہ اچھی طرح نہ صرف نوٹ کرتا ہے بلکہ من و عن اس پر عمل کرنا اپنا فرض بھی سمجھتا ہے۔آپ کبھی غور کر لیں۔ کسی بچے کو جھوٹ، غیبت اور نقل اتارنے کی تلقین نہیں کی جاتی ہے، کوئی کتاب لاکر نہیں دی جاتی، جھوٹ اور غیبت کے حق میں لیکچرز نہیں دیے جاتے، "ایکٹیویٹی بیسڈ" جھوٹ اور غیبت کی مشقیں نہیں کروائی جاتیں۔ مگر وہ یہ سب کتنے آرام سے سیکھ لیتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سچ اور برائی سے روکنے کی تلقین اور لیکچرز بھی ہوتے ہیں، مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں، کتابوں میں سے اچھے اچھے واقعات پڑھ کر بھی سنائے جاتے ہیں لیکن بچے پھر بھی جھوٹ اور برائی کی طرف رہی راغب ہوتے ہیں کیوں؟
ایک دفعہ ایک اسکول کی پرنسپل سے بچوں کے بات بے بات لڑنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ "سر! اسلامیات ہی کیا اب تو اردو اور انگریزی تک کی کتابوں میں ہم وہ اسباق پڑھا رہے ہیں جس میں سیرت سے صلح صفائی کے واقعات مذکور ہیں". ذرا بتائیے؛
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے؟
7 سال بچے کو پھول کی طرح رکھیں۔ آنکھوں سے لگا کر، سینے سے چمٹا کر اور اپنا بنا کر۔ اس عمر میں بچوں کو نصیحتیں نہیں کی جاتیں بلکہ نصیحتیں "دکھائی" جاتی ہیں۔ بول کر مت دکھائیے بلکہ کرکے بتائیے۔ بچے کے کسی بھی غلط عمل اور حرکت پر اسے آپ صحیح کرکے دکھائیے، بچہ اگر چھوٹی بہن یا بھائی کو مارتا ہے تو آپ اسے پیار کر لیجئے، یعنی چھوٹی بہن یا بھائی کو۔ بچہ کسی چیز کو کہیں ایسے ہی پھینکتا ہے تو آپ اس سے کچھ بھی بولے بغیر اسے جگہ پر رکھ دیجیے، بچہ پانی کے قریب نہیں جانا چاہتا اور ڈرتا ہے تو بس آپ پانی میں جائیے، پانی سے کھیلئیے، کھانا نہیں کھاتا تو اسے دسترخوان پر بٹھا کر آپ خود کھانا کھائیے۔ بچے کی یہ عمر آپ کے خاموش رہنے کی عمر ہے۔ بس غور سے دیکھیں کہ بچہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟ آپ کو نبی صلی اللہ وسلم کی سیرت سے بھی 7 سال تک کسی بھی قسم کی کوئی نصیحت اپنے نواسے نواسیوں کو نہیں ملے گی۔ بس کندھے پر اٹھا کر بازار میں نکل جانا، خود اپنی پیٹھ پر بٹھا کر زمین پر چلنا اور صرف پیار کرنا، حتی کہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں بھی ان کے کھیل کو محبت اور پیار سے قبول کرنا، اپنی زبان کے بجائے محض عمل سے کرکے دکھانا، یہاں تک کے 7 سال سے پہلے فرض نماز کی بھی ترغیب سرے سے دین میں شامل نہیں ہے۔
اگلے سات سال یعنی 7 سے 14 یہ باپ کے پاس بچے کے امانت ہیں۔ ان سات سالوں میں بچے کو غلام کی طرح رکھئیے۔ بچے کی آدھی شخصیت اور لگ بھگ پچاس فیصد عادات اسی عمر میں کسی حد تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ جب بچہ 7 سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دو، نماز کی نصیحت کرو، جب 9 سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کر دو، 10 سال کا ہوجائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو، جب 12 سال کا ہوجائے تو اس کی نگرانی شروع کردو اور یہ نگرانی "چوکیدار اور ایجنسیوں" والی نہ ہو بلکہ اپنے پاس بچے کی پوری معلومات رکھیں۔ بچے کے شوق، اس کی دلچسپیاں، اس کے دوست، اس کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں اور اس کی کتابوں میں بننے والی "تصویریں"۔ یہ سب کے سب آپ کے علم میں ہونا چاہیے اس عمر میں نصیحت شروع کی جائے گی لیکن محبت، ہمدردی اور تڑپ کے ساتھ، نہ کہ غصہ اور نفرت کے ساتھ۔ ذہن میں رہے کہ بچے کو ہاتھ لگانا، مارنا، بدتمیزی و بداخلاقی کرنا، بچے کو برا بھلا کہنا اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنانا بہرحال اس عمر میں بھی جائز نہیں ہے۔
بچے کی عمر کا تیسرا حصہ 14 سال سے 21 سال تک کا ہوتا ہے۔ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہوتا ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ اس عمر میں بچے کو دوست کی طرح رکھو۔ نادان ہیں وہ والدین اور اساتذہ جو نویں اور دسویں کے بچے بچیوں کو مارتے یا ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں نہ صرف ان کا جسم مضبوط ہونا شروع ہوجاتا ہے بلکہ نفس کے ساتھ بھی کشمکش شروع ہوچکی ہوتی ہے، جبکہ والدین 35 اور 40 کی عمر سے آگے نکل کر اپنے زوال کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ 7 سے 14 سال والی عمر میں اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتے تو پھر اس کے بعد باپوں کی زندگی تنہائی میں گزرتی ہے۔
عام طور پر بڑھاپے میں بچے ماں کا سہارا اور باپ کی کمزوری بن جاتے ہیں، کیونکہ باپ نے اپنی ساری زندگی "بچوں کے لئے" جو کھپادی ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ "اگر اپنے بچے کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو آدھا اور دئیے جانے والے وقت کو دگنا کر دو". 14 سال کی عمر کے بعد بچوں سے "یارانہ" لگا لیں۔ ان کو اپنا دوست بنائیں۔ ان کے دوستوں سے دوستی اور سہیلیوں کو بیٹی بنالیں، ان کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط کریں کہ وہ اپنی غلط بات بھی بتانے کے لئے آپ ہی کے پاس آئیں اور آپ ایک اچھے دوست کی طرح اس کو ہمدردی کے ساتھ نصیحت کر سکیں۔ اگر وہ کسی غلط کام میں ملوث ہو گیا یا ہو گئی ہے اور اسے کوئی لڑکا یا لڑکی پسند بھی آگئی ہے تو بھی پورے حوصلے اور تحمل کے ساتھ اس کو سنیں، اس کے خیرخواہ بنیں اور آپ کے اوپر اولاد کا آخری حق بھی یہی ہے کہ اس کے بگڑنے سے پہلے اس کے لئے حلال رشتے کو آسان بنا دیں۔ اسی لیے کہا گیا گیا کہ جب بچہ 17 سال کا ہوجائے تو اس کی شادی کی فکر کرو۔
 21 سال کے بعد تو بچے بچیوں کی ویسے بھی اپنی ہی زندگی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے معاشرے میں ایک اچھا اور کارآمد فرد بنا کر بھیجا ہے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ کے لیے صدقہء جاریہ اور سرمایہء افتخار ہے ورنہ دوسری صورت میں آپ کی ہی اولاد آپ کے لئے اللہ نہ کرے ذلت ورسوائی کا ذریعہ بن جائے گی۔

سب سے بڑی قربانی

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.


اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔ 

قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔ 

قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔ 

دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔ 

کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔ 

اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔ 

قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟ 

اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟

آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔ 

یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔ 

*(-کامیابی مبارک,*
 *~قیصر_عباس)*

والدین کی دعا کا اثر

اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جائیں اور قدرت الٰہیہ کا تماشا دیکھیں۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے گئے؛مگر انھیں کوئی ایسی شے نظر نہیں آئی۔

 آپ نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی خبر لاؤ۔ عفریت نے غوطہ لگایا مگر کچھ نہ پایا، اور واپس آکر عرض کیا:
 اے اللہ کےنبی!
میں نے غوطہ لگایا مگر سمندر کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، اور نہ کوئی شے دیکھی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے قوی جن کو غوطہ خوری کا حکم فرمایا۔ مگر وہ بھی نامراد واپس آیا، اگرچہ یہ اس سے دوگنی مسافت تک اندر گیا تھا۔

 اب آپ نے اپنے وزیر *آصف بن برخیا* کو سمندر میں اُترنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر میں ایک سفید کافوری قبہ لاکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کیا، جس میں چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا، تیسرا ہیرے کا اور چوتھا زمرد کا۔ چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود اندر سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں داخل ہوا تھا حالانکہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کے اندر *ایک خوبصورت نوجوان* صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے۔

 آپ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اس سے سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اس سمندر کی تہہ میں تم کیسے پہنچ گئے؟

 اس نے جواب دیا:

اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ معذور تھے اور میری ماں نابینا تھی، میں نے ان دونوں کی ستر سال تک خدمت کی۔ میری ماں کا جب انتقال ہونے لگا تو اس نے دعا کی: خداوندا! اپنی طاعت میں میرے فرزند کو عمر دراز عطا فرما۔
اسیطرح جب میرے باپ کا وصال ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی: پروردگار میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت میں لگا جہاں شیطان کا دخل نہ ہو سکے۔ میں اپنے والد کو دفن کرکے جب اس ساحل پر آیا تو مجھے یہ قبہ نظر آیا۔ اس کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں اس کے اندر چلا گیا۔ اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا اور اس نے قبہ کو سمندر کی تہہ میں اُتار دیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس سے دریافت کیا: تم کس زمانے میں یہاں آئے؟

نوجوان نے جواب دیا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں مگر وہ اب تک بالکل جوان ہے اور اس کا بال بھی سفید نہیں ہوا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تم وہاں کھاتے کیاہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی!ایک سبز پرندہ روزانہ اپنی چونچ میں سر برابر کی ایک زرد چیز لے کر آتا ہے میں اسے کھا لیتا ہوں اور اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کا لطف ہوتا ہےـ اس سے میری بھوک بھی مٹ جاتی ہے اور پیاس بھی رفع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی، سردی، نیند، سستی، غنودگی اور نامانوسی و وحشت یہ تمام چیزیں مجھ سے دور رہتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اب تم ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہو یا تمہیں تمہاری جگہ پہنچا دیاجائے؟

نوجوان: حضور! مجھے میری ہی جگہ بھجوا دیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت آصف بن برخیاؓ کو حکم فرمایا تو انھوں نے قبہ اٹھا کر پھر سمندر کی تہہ میں پہنچادیا۔

اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے دیکھو والدین کی دعا کتنی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن کی نافرمانی سے بچو۔

📗 _نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ215/214۔_

جہیز لعنت ہے

کل ایک لڑکی کا میسج آیا کہ کوئی اچھی سی جاب بتا سکتے ہیں ؟؟ جب میں نے وجہ پوچھی تو حیران کے ساتھ خاموش سا ہوگیا۔۔۔ 
ہوا یوں کچھ دن پہلے اک فیملی لڑکی کو دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی ماشااللہ پیاری ہے اور ماسٹر کیا ہوا ہے۔۔چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی گئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا آگیا ۔ لڑکے کی ماں نے کہا کے ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر ہوتا اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں لڑکی کی بات اور ہنسی مزاق ہو رہا تھا اب وہاں سناٹا تھا۔۔۔ 
آخر کار جواب نا ہو گیا۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نا نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا بےروزگار )بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیتے۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا کہ اتنا باپ نے پڑھایا ہے کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش تھا اور ماں آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
میں اکثر جو لکھتا ہوں کہانی نہیں حقیقت لکھتا ہوں۔۔ 
باقی اگر جہیز کی پوسٹ کردو تو ہر مرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کہنے لگتا ہے اور حقیقت میں خاموش بیٹھے چائے پیتے ہیں۔۔

اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر

آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے

فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں

صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے

یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا

 یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے

دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا

اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
      اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے

اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے

عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں

قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں، 
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور 
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں

آخرت کو بہت یاد کریں

فرائض کو ترجیح دیں

اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین

مرد ذات.....



کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟ 
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟ 
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،، 
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔

مثبت اور منفی لوگ

میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی

یسے تھے ہمارے امام

امام ابوحنیفہ کے کپڑے کی دکان تھی ۔ آپ مدرسے کے بعد وہاں تجارت کرتے تھے ۔امت محمدی کو اگر تجارت کسی نے سکھائی ہے وہ یا تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق تھے یا پھر امام ابو حنیفہ ۔ایک دن ظہر کی نماز کے بعد اپنی دکان بند کردی اور جانے لگےتو ساتھی دکاندار نے کہا " ابو حنیفہ آج تو جلدی نکل لیے کہاں جارہے ہیں آپ آج اتنی جلدی "امام ابو حنیفہ نے فرمایا " آپ دیکھ نہیں رہے کہ آسمان پہ کالے بادل آچکے ہیں "اس شخص نے کہا " یا نعمان آسمان کے بادلوں کا دکان سے کیا لینا دینا"امام ابو حنیفہ نے فرمایا " جب بادل گہرے ہوجاتے ہیں تو چراغ کی روشنی اندھیرا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گاہک کو کپڑے کی ورائیٹی کا پتہ نہیں چلتا اسکو کوالٹی کی پہچان نہیں ہوتی ۔ میں نے اس وجہ سے دکان جلدی بند کردی کہ میرے پاس آیا ہوا گاہک کم قیمت کپڑے کو قیمتی سمجھ کر زیادہ پیسے نہ دے ۔"آج کے دکانداروں کے پاس جاکر پتہ چلتا ہے کہ جب انکے پاس کوئی معصوم گاہک آجاے تو وہ انکو ایسی قینچی سے زبح کرلیتے ھے کہ دو نمبری کپڑا بھی ایک نمبر کی قیمت پہ فروخت کرلیتے ھے۔ بلکہ آجکل تو باقاعدہ سے گاہک کو لوٹنے کے عجیب وغریب طریقے آرہے ھے۔

اپنی اہمیت

‏کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ چاہت دوسرے کے لیے گھٹن بن جاتی ہے کسی کو خود سے بڑھ کر چاہنے، ہر وقت اس کو سوچتے رہتے ہیں ہر وقت میسر رہتے ہیں تو ہم اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اس لیے کسی کو اتنی اہمیت بھی نہ دیں کہ اپنی کوئی اہمیت ہی نہ رہے ہر وقت لوگوں کو میسر ہونا خاص سے عام کر دیتا ہے.

Saturday, August 8, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔

اگر وقت ملے تو سوچئے گا

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟
عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض*خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔
اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔* *ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔
نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔
یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔
نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔
آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔
اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی*مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔