گرنے کے بعد لوگ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ خود کو جھاڑتے کیوں نہیں؟ پچھلے بیس سالوں میں اس ایک سوال نے مجھے جستجو اور تحقیق کی نئی دنیاؤں سے ملوایا ہے۔
لیڈرشپ کوچ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ بغیر لگی لپٹی کے اپنا پورا سچ آپ کو بتا دیتے ہیں۔
میری طرح آپ نے اپنے آس پاس ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے جو درجنوں پنچ کھا کے، گرکے، بار بار اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں زندگی نے ایک آدھ پنچ مارا اور آج کئی سال بعد بھی وہ وہیں مُنہ کے بل گرے پڑے ہیں۔
میری بیس سالہ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ لوگ گرنے کے بعد بہت ساری خود ساختہ دلیلیں دے کے خود کو قائل کر لیتے ہیں کہ پھر سے اُٹھ کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ایک بار گرنے کو حتمی ہار سمجھ لیتے ہیں۔
بہت سے لوگ گرنے کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔
ہم میں سے کچھ لوگ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم تو گرے ہی نہیں ہیں۔
کئی میرے جیسے سمجھتے ہیں کہ اُنہیں جان بوجھ کے گرایا گیا ہے لہذا وہ احتجاجاً وہیں پڑے رہتے ہیں۔
کچھ لوگ پڑے پڑے کسی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جو ہاتھ تھام کے اُنہیں اُٹھائے گا۔
بعض لوگ اس معجزے کا انتظار کرتے ہیں کہ ابھی کوئی آ کے اُنہیں اس ڈراؤنے خواب سے جگائے گا یہ کہہ کر کہ یہ تو "ٹرائی بال" تھی۔ ابھی تو میچ شروع ہی نہیں ہوا۔
کئی ایسے بھی ہیں جو مزید مُکے پڑنے سے بچنے کے لئے وہیں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کچھ لوگ اُٹھنے کی سکت رکھتے ہوتے ہیں لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا پنچ اتنا موثر نہیں ہوگا۔ ایک اور پنچ کھا کے دوبارہ یہیں واپس آنے سے بہتر ہے کہ اُٹھاہی نہ جائے۔
آپ کا جو بھی بہانہ ہے۔ آپ نے جو بھی بتا کے خود کو پڑے رہنے کے لئے قائل کیا ہے۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں۔ میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے۔
اپنی طرف ہاتھ بڑھائیے۔ خود کو اُٹھائیے۔ اپنے دل و دماغ سے اس عارضی شکست کی گرد کو جھاڑ دیجئے۔ اور نئے ولولے کے ساتھ، نئی لگن کے ساتھ، نئی اُمید کے ساتھ محمد علی کی طرح اگلے راؤنڈ کی تیاری میں لگ جائیے۔
قیصر عباس
مصنف: کامیابی مبارک
No comments:
Post a Comment